حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کا یوم شہادت
محرم کی پہلی تاریخ : حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کا یوم شہادت
ملفوظات: استاد محترم ماہر علوم حدیث مفتی حسان عطاری مدنی صاحب زیدہ مجدہ
از: معصوم رضا مدنی
تخصص فی الحدیث (سال دوم ہند)
مرکزی جامعۃ المدینہ (ناگ پور)
حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کا یوم شہادت یکم محرم الحرام ہے۔ تاریخ میں اختلافات بکثرت ملتے ہیں اور بہت سارے مقامات پر ملتے ہیں، بالخصوص جو تاریخ ولادت اور تاریخ وفات ہوتی ہے۔
اہل علم پر مخفی نہیں ہے کہ اس میں کئی اقوال علماء کے ہوتے ہیں لیکن اصل اعتبار ایک تو جمہور کے قول کا ہوتا ہے
دوسرا مشہور قول کا ہوتا ہے، اور تیسرا یہ دیکھا جاتا ہے کہ مسلمانوں کا عمل کس پر ہے۔یہ وہ چیزیں ہیں جن کا اعتبار کرتے ہوئے دن منایا جاتا ہے، ان کے لیے خاص ایصال ثواب کیا جاتا ہے، اور اس دن کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ سیدنا عمر رضی اللہ تعالی عنہ کا یوم شہادت یکم محرم الحرام کو ہے۔
تاریخ کے اختلافات کو اگر ہم دیکھنے کے لیے جائیں تو خود نبی پاک صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم کی ولادت کے حوالے سے علما نے آٹھ اقوال لکھے ہیں، لیکن جو مشہور قول ہے، جس پر جمہور ہیں اور جس پر عمل ہے وہ بارہ ربیع الاول ہے۔
امام اہل سنت رحمۃ اللہ تعالی عنہ نے تفصیل سے بیان کیا ہے کہ اہل ایمان کا عمل بھی اسی پر ہے اور جمہور کا قول بھی یہی ہے۔ باقی دیگر اقوال وہ اقوال کی حیثیت رکھتے ہیں، لیکن معمول جو ہے، جس پر عمل کیا جا رہا ہے وہ 12 تاریخ ہے۔
امامِ اہل سنت رحمۃ اللہ علیہ کی عبارت ملاحظہ فرمائیں ، آپ تحریر فرماتے ہیں :” شرع مطہر میں مشہور بین الجمہور(جمہورکےنزدیک کسی امر کےمشہور ) ہونے کے لیے وقعتِ عظیم( انتہائی اہمیت) ہے اور مشہور عند الجمہور ہی 12 ربیع الاوّل ہے ۔ ” (فتاویٰ رضویہ، ج 26 ، ص 427 ، طبع :رضا اکیڈمی ممبئی)
اسی بات پر ایک اور نظیر ملاحظہ فرمائیں کہ جب تاریخ میں اختلاف ہو تو کیا کیا جائے ۔علامہ زرقانی نے “شرح المواهب اللدنية” معراج کے بیان میں صاحب “المواهب” کے اس قول (وقیل: کان لیلة السابع والعشرین من رجب) پر لکھا ہے:”اور اس پر لوگوں کا عمل ہے
بعض نے کہا: یہی زیادہ قوی ہے؛ کیوں کہ اگر کسی مسئلے میں سلف کے درمیان اختلاف ہو اور ترجیح کے لیے کوئی دلیل موجود نہ ہو، اور کسی ایک قول پر عمل ہو جائے یا قبولیت حاصل ہو جائے، تو غالب ہے کہ یہی راجح ہے؛ اسی لیے امام حافظ عبد الغنی بن عبد الواحد بن علی بن سرور مقدسی حنبلی، جو حدیث اور حفظ کے امام اور یکتائے زمانہ اور زاہد عابد تھے آپ نے بھی اسی قول کو اختیار کیا۔”(شرح المواهب اللدنية ، ج 2، ص 71، طبع : دار الكتب العلمية)
حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ یا حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ یا دیگر مقدس ہستیوں کی تاریخ وفات میں اختلاف ہوتا رہتا ہے، لیکن دیکھنا یہ ہے کہ مسلمانوں کے درمیان معروف کون سی تاریخ ہے۔
حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کی معروف تاریخ یکم محرم الحرام ہے، اور اسی پر اہل ایمان کا معمول ہے کہ وہ حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کا دن مناتے ہیں۔اس پر بہت سارے حوالے موجود ہیں
اس کو بھی پڑھیں : تاریخ کے حسین اوراق میں عدالت فاروقی کے سنہرے نقوش
چند ایک حوالے آپ کے سامنے پیش کرتا ہوں۔
مشہور و معروف محدث امام ابوالقاسم عبدالرحمن بن محمد ابن مندہ الاصبہانی رحمۃ اللہ تعالی علیہ (متوفی : 470 ھ) امام عمر بن علی الفلاس رحمۃ اللہ تعالی علیہ کے حوالے سے لکھتے ہیں :
وطُعِنَ للَيَالٍ بَقِينَ مِنْ ذِي الحِجَّةِ، فَمَكَثَ ثَلَاثَ لَيَالٍ، ثُمَّ ماتَ يومَ السَّبْتِ لِغرَّةِ المُحَرَّمِ سنةَ أَرْبَعٍ وعِشْرِينَ.کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کو ذی الحجہ کی جب چند راتیں باقی تھیں، یعنی تین راتیں باقی تھیں، تو آپ کو زخمی کیا گیا، پھر آپ تین راتیں باحیات رہے، اس کے بعد آپ محرم الحرام کی پہلی تاریخ کو ہفتے کے دن سن 24 ہجری میں وفات پا گئے۔ آپ شہید ہوگئے۔(المستَخرجُ من كُتب النَّاس للتَّذكرة والمستطرف من أحوال الرِّجال للمعرفة، ج ٢، ص ٤٨٨، طبع: وزارة العدل والشئون الإسلامية البحرين، إدارة الشئون الدينية)
مزید امام عبدالرحمن ابن مندہ رحمۃ اللہ تعالی علیہ اپنی اسی کتاب میں ارشاد فرماتے ہیں:وقالَ الوَاقِديُّ: في ثَلَاثِ لَيَالٍ بَقِينَ مِنْ ذِي الحِجَّةِ، وتُوفيِّ لِهَلَالِ المُحَرَّمِ سنةَ أَرْبَعٍ وعِشرِينَ.کہ واقدی کہتے ہیں کہ ذی الحجہ کی ابھی تین راتیں باقی تھیں کہ اس میں آپ کو زخمی کیا گیا اور محرم کا جب چاند نظر آیا سن 24 ہجری کو آپ کا وصال ہوا، یعنی محرم کی پہلی تاریخ کو آپ کا وصال ہوا۔(ایضاً)
امام ابن مندہ رحمۃ اللہ تعالی علیہ نے امام عمر بن علی الفلاس رحمۃ اللہ تعالی علیہ ( متوفی : 249 ھ) اور واقدی کے حوالے سے ذکر کیا، جو امام بخاری کے استاد ہیں۔ امام واقدی بالخصوص سیر و مغازی میں ثقہ، امام ہیں۔ امام بخاری رحمۃ اللہ تعالی علیہ کی کتاب پر جو کام ہوئے، ان میں سے ایک کام بخاری شریف کے رجال پر ہوا ہے۔
صحابہ اور دیگر راویوں کے حالات پر بہت ساری کتابیں لکھی گئی ہیں۔ ان میں ایک معروف نام امام احمد بن محمد بن الحسین ابو نصر الكلاباذي (متوفی 398 ہجری) ہے۔
یہ خلیفہ بن خیاط کے حوالے سے، جو امام بخاری کے اساتذہ میں سے ہیں، اور واقدی کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کو زخمی کیا گیا جب ابھی ذی الحجہ کی تین راتیں باقی تھیں۔
اور عمر بن علی الفلاس کے حوالے سے لکھتے ہیں :
مَاتَ يَوْم السبت غرَّة الْمحرم سنة أَربع وَعشْرين.کہ ان کا وصال ہفتے کے دن محرم کی پہلی تاریخ کو سن 24 ہجری میں ہوا۔(الهداية والإرشاد في معرفة أهل الثقة والسداد، ج ٢، ص ٥٠٧، طبع: دار المعرفة – بيروت)
اسی طرح بخاری شریف پر ایک اور شاندار کام کرنے والے حافظ مغرب اور درجہ مجتہد تک پہنچنے والے امام أبو الوليد سليمان بن خلف الباجي الأندلسي (متوفی : 474 ھ) اپنی کتاب التعدیل و التجریح میں ارشاد فرماتے ہیں کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کو زخمی اس وقت کیا گیا جب کہ ذی الحجہ کی ابھی تین راتیں باقی تھیں،وَمَات بعد ذَلِك بِثَلَاث يَوْم السبت غرَّة الْمحرم سنة أَربع وَعشْرين.اور تین دن کے بعد آپ کا وصال ہوا۔
اور اس وقت جو دن تھا، وہ محرم کی پہلی تاریخ تھی اور ہفتے کا دن تھا اور سن 24 ہجری میں آپ کا وصال ہوا۔(التعديل والتجريح، لمن خرج له البخاري في الجامع الصحيح، ج ٣، ص ٩٣٥، طبع: دار اللواء للنشر والتوزيع – الرياض)
بہت ساری کتابوں میں ائمہ نے اس قول کو ذکر کر کے برقرار رکھا ہے اور اقوال بھی ذکر کیے، لیکن ساتھ میں یہ قول بھی ذکر کیا ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ ائمہ نے اس قول کا ذکر نہ کیا ہو، بلکہ بعض علما نے ذکر کیا ہے کہ آپ کو ہفتے کے دن ہی دفن کیا گیا۔ ہفتے کے دن آپ کی تدفین ہوئی اور یہ سنت میں سے ہے کہ تدفین جلدی کی جائے، فوراً کی جائے، بلا ضرورت شرعی اس میں تاخیر نہ کی جائے۔
اس کا واضح مطلب ہے کہ آپ کا وصال بھی یکم محرم ہی کو ہوا تھا۔ اسی لیے آپ کو محرم کی پہلی تاریخ کو ہی دفنایا گیا تاکہ جلد سے جلد تدفین ہو سکے اور سنت پر عمل ہو سکے۔