علماے کرام سے ایک مؤثر گفتگو
خلاصہ خطاب :- خالد ایوب مصباحی شیرانی چیرمین: تحریک علمائے ہند، جے پور علماے کرام سے ایک مؤثر گفتگو
علماے کرام سے ایک مؤثر گفتگو
۔ 13-14 نومبر 2021 پرتاپ گڑھ، یوپی کے مشہور قصبہ مدینۃ الاولیا مانک پور شریف میں واقع جامعہ حنفیہ رضویہ میں دو روزہ فکری سیمینار بنام حنفی سیمینار منعقد ہوا
جس میں ملک کے طول و عرض سے کوئی ستر کے آس پاس ازاہرہ اور دیگر علماے کرام نے شرکت کی۔جامعہ حنفیہ رضویہ کے بانی حضرت مولانا شاہ نواز ازہری مصباحی جواں سال اور حوصلہ مند عالم دین ہیں۔
جنہوں نے اپنے والد محترم جناب حاجی شبیر صاحب کی ذاتی دولت سے سن 2015 میں ادارے کے لیے زمین خرید کر بنیاد کھی اور تب سے اب تک تین منزلہ جامعہ حنفیہ رضویہ کی تعمیرات کے علاوہ ادارے کے مستقبل کے عزائم کی تکمیل کے لیے گرد و نواح کی کئی بیگھہ خطہ اراضی کی خرید مکمل کی جا چکی ہے۔
جس پر ایک مسافر خانہ، ایک فیملی کوارٹر، انگلش میڈیم اسکول زیر تعمیر ہیں جب کہ ادارے کے ماتحت بینگلور میں ایک انگلش میڈیم اسکول اور ایک کالج چل رہا ہے، بنگال کے مالدہ اور بہار میں بھی دو ادارے چل رہے ہیں۔
مولانا موصوف کی پرانی خواہش تھی کہ ازاہرہ ہند کی ایک عمومی نشست منعقد ہو جس میں سب سر جوڑ کر بیٹھیں اور دوستانہ ماحول میں ہندی ماحولیات کو ملحوظ رکھتے ہوئے دعوت و تبلیغ کی راہوں کے متعلق کیا کچھ بہتر کر سکتے ہیں؟۔
غور و فکر کریں اور کوئی مضبوط لائحہ عمل مرتب کریں، یہ سمینار در اصل اسی دیرینہ خواہش کی تکمیل تھی۔
سیمینار میں درج ذیل 7 موضوعات زیر بحث رہے، جن پر تشریف لائے علماے کرام نے تحریری اور تقریری انداز میں اپنی آرا پیش کیں:۔
۔(1) مدرسوں میں منہج تعلیم کا انحطاط: اسباب و حل
۔(2) فتنہ ارتداد کا سد باب کیوں کر ممکن ہے؟
۔(3) جدید و قدیم تصوف کے ما بین ہم آہنگی
۔(4) تحفظ ناموس رسالت بابت ہماری ذمہ داریاں
۔(5) اسلامیان ہند پر بڑھتے مظالم کا مسئلہ
۔(6) مسلم آبادی کے تناسب سے حصہ داری کے امکانات
۔(7) جامعہ ازہر کی علمی و ادبی خدمات سمینار میں فقیر خالد ایوب مصباحی کا موضوع فتنہ ارتداد پر گفتگو تھا لیکن خلاف روایت حضرت مولانا شاہ نواز صاحب کے حکم پر اپنے ناقص دعوتی و فکری تجربات اور ہندی ماحولیات کے تناظر میں درج ذیل تجزیاتی گفتگو کی، جسے تمام مندوبین نے بے پناہ سراہا اور بہتوں نے اس کی ریکارڈنگ کا مطالبہ بھی کیا جو اتفاق سے ندارد رہی، امید ہے، اہل نظر کے لیے یہ نکات مفید ہوں گے:۔
۔(الف) عربک اسپیکنگ سینٹر:- ملک کے طول و عرض میں انگلش اسپیکنگ سینٹر بہت وافر مقدار میں ملتے ہیں لیکن عربک اسپیکنگ سینٹر یا تو ملتے نہیں یا پھر حیدرآباد جیسی جگہوں پر ملتے ہیں تو ان کی فیس اتنی زیادہ ہوتی ہے کہ عام مذہبی طبقہ اس کا متحمل نہیں ہو پاتا، کیا ہمارے ازاہرہ اجتماعی یا انفرادی سطح پر بطور خدمت یا برائے ملازمت یہ کار خیر نہیں کر سکتے؟۔
۔(ب) ازہر میں داخلے سے پہلے کاؤنسلنگ:- الحمد للہ اب ہمارے یہاں ازہر سے تعلیم حاصل کرنے والے علما کی خاصی تعداد ہو چکی ہے لیکن اسلامیات کے بہت سے شعبہ جات کے بیچ عام طور پر ازاہرہ کا تخصص حدیث، تفسیر، لغۃ عربیۃ، کلیۃ الشریعۃ اور کچھ حد تک کلیۃ الدعوۃ میں نظر آتا ہے
جب کہ دیگر اسلامی میدانوں کی بھی اتنی ہی اہمیت ہے، جتنی ان میدانوں کی اور عقل مندی بھی یہی ہے کہ ملت اسلامیہ کو الگ الگ میدانوں کے ماہرین ملیں۔
چوں کہ ازہر شریف کا ذہن بنانے والا طالب علم روانگی سے پہلے کسی نہ کسی ازہری سے ضرور رائے لیتا ہے، اس لیے ایسا کیا جا سکتا ہے کہ اسے ضرورت اور اجتماعی طور پر پہلے سے طے شدہ پلان کے مطابق ان میدانوں کی رائے دی جائے جن میں ہنوز اختصاص نہیں ہوا یا جو بھلے کسی ناحیہ سے سہی، ملت کی ضرورت ہوں۔
۔(ج) کلیۃ الدعوۃ کی تعلیمات کو عملی شکل دیں:-بھارت ایک کثیر المذاھب ملک ہے جو ہمیشہ داعیان دین کا منتظر رہا ہے اور نفرتوں کے موجودہ ماحول میں یہ انتظار بھی اتنا ہی شدید ہو چکا ہے، جتنی نفرتوں میں تیزی آئی ہے
اس لیے بہت ضروری ہو چکا ہے کہ کلیۃ الدعوۃ سے تخصص کرنے والے علماے کرام بھلے کسی ادارے میں بحیثیت مدرس نہ پڑھائیں لیکن جیسے ملت کے ذمہ داران ان کے اخراجات کے کفیل ہوں
ویسے ہی وہ اپنے تخصص کی روشنی میں دعوتی میدان میں ایک مخلص داعی کا عملی اور قانونی کردار ادا کریں اور اس میدان کے نئے افراد بھی تیار کریں تاکہ اس فراموش کردہ سبق کی یاد تازہ ہو اور ملت کے سر سے ایک بڑے قرض کی ادائیگی بھی۔کیوں کہ عام عقلوں کی یہاں تک رسائی ہو، نہ ہو، ایمان کی یہ ہے کہ موجودہ حالات کی نزاکتیں در اصل دعوت دین کے ترک کا خمیازہ ہیں
۔(د) ازہری بھی رسمی مقرر؟:-کئی بار ایسے حادثات پیش آ جاتے ہیں کہ ہم ازہری ٹائٹل دیکھ کر کسی عالم دین کا خوب صورت اور با وزن تعارف کروا دیتے ہیں لیکن جب وہ تقریر کرتے ہیں تو محض رسمی تقریر ہوتی ہے۔
اس وقت بڑی دل شکنی ہوتی ہے اور امیدوں پر پانی پھر جاتا ہے۔ کیا ہمیں ہم سے وابستہ کی گئی امیدوں پر پورا نہیں اترنا چاہیے؟ اور کیا اسی معیار پر قائم رہتے ہوئے پرانی روشوں کی بت شکنی ممکن ہے؟۔
۔(ھ) تقریری احتیاطیں:-ملک کے موجودہ حالات کے تناظر میں تمام علما کے لیے یہ ضروری ہو چکا ہے کہ تحریروں کی طرح ہی اپنی تقریروں میں بھی بھرپور احتیاطیں برتیں کیوں کہ جیسے تحریر کا حرف حرف محفوظ ہوتا اور دلیل بن سکتا ہے ویسے ہی اب کے دور میں تقریباً تقریریں بھی محفوظ ہوئی جاتی ہیں اور کچھ بعید نہیں کہ اپنوں اور اپنائیت کی غلط فہمی میں کی گئی خاص گفتگو کب ریکارڈ ہو کر عام ہو جائے۔
علاوہ ازیں اغیار کی اسلام دشمنی نے جو بیداری پیدا کی ہے اس کے نتیجے میں لفظ “کافر” کو گالی سمجھا جاتا ہے۔ جنت و جہنم اور حور و غلماں کا تذکرہ بہت احتیاط اور شعور کے ساتھ ہونا چاہیے۔ اسلامی سزاؤں اور وعیدوں کا ذکر سنبھل کر ہونا چاہیے۔
دوران گفتگو مخاطب طبقے کی نفسیات کو لمحہ بھر ملحوظ نہ رکھنا ان کے ارتداد و الحاد کا موجب بن سکتا ہے۔ حدیث عرینہ جیسی جو آیات و احادیث عوام/ ماڈرن طبقے کے لیے باعث تشویش لگیں، یا تو ان کا ذکر نہ کریں یا پھر معقول لہجے میں مکمل تشفی بھی کریں تاکہ خدا نخواستہ کوئی جاہل غلط نتیجے تک نہ پہنچنے پائے
۔(و) صرف مفتی کیوں:- یہ ایک دل چسپ بات ہے کہ ازہر سے حدیث، دعوت اور تفسیر میں بھی تخصص کر کے آنے والے تقریباً تمام ازاہرہ یہاں صرف مفتی ہی کہلاتے ہیں، ایسا کیوں؟۔
۔ ہم مانتے ہیں کہ بھارت میں عمومی طور پر مفتی کے ٹائٹل کو ہی بڑا سمجھا جاتا ہے لیکن یہ ہماری اپنی ذمہ داری بنتی ہے کہ جو مدرسے والے بطور مدرس ہمارا انتخاب کریں، ہم ان سے انتخاب کے ساتھ ہی یہ معاہدہ بھی کریں کہ وہ ہمارے میدان سے متعلق شعبے میں ہی ہمارا انتخاب کریں
یا اگر پہلے سے ان کے ہاں وہ شعبہ نہ ہو تو اب اس نئے شعبے کا آغاز کریں تاکہ نہ ہمیں اپنے تخصص اور ضمیر سے سمجھوتہ کرنا پڑے اور قوم بھی ایک نئے میدان سے محروم نہ رہے
۔(ز) پر تکلف انگلش/ اردو:- زبان و بیان کے سلسلے میں بھارت کے معروف اور بزرگ عالم ربانی استاذ گرامی علامہ محمد احمد مصباحی دام ظلہ بہت محتاط واقع ہوئے ہیں۔
املا کی معمولی چوک بھی برداشت نہیں فرماتے اور الحمد للہ خود کوثر و تسنیم سے دھلی ہوئی زبان استعمال فرماتے ہیں۔ در اصل یہی اصول ہم سب کو بھی اپنانا چاہیے۔ ہم نے ابھی اور ازیں قبل بھی عام طور پر ازاہرہ کی گفتگو میں یہ نوٹ کیا ہے کہ وہ اردو کے بیچ بغاوت کے لیے ثورہ اور ہال کے لیے قاعۃ جیسے الفاظ بکثرت استعمال کرتے ہیں۔
اسی طرح اب یہ عام چلن ہو گیا ہے کہ اردو کے بیچ پر تکلف انگریزی الفاظ لے آنا گویا بہتر سمجھا جاتا ہے جبکہ لسانی نقطہ نظر سے یہ عیب ہے۔ موبائل اور فون جیسے وہ الفاظ جن کا اردو میں کوئی متبادل نہیں یا متبادل تو ہے
لیکن بجائے خود وہ غیر مانوس یا پر تکلف ہے، ان کی جگہ کسی بھی زبان کا مستعمل اور مانوس لفظ استعمال کیا جا سکتا ہے اور یہی توسع اردو کی خوب صورتی ہے لیکن اس توسع کے ساتھ جیسے تکلف ہوگا، اسلوب غیر فصیح مانا جائے گا
۔(ح) لٹریچر کو نئے پلیٹ فارمز دیں:- ایک زمانہ تھا جب کتابیں لکھنا، پھر چھاپنا اور پھر ان کی ترسیل یا فروخت کے کام مشکل ہوا کرتے تھے لیکن آج ڈیجیٹل پلیٹ فارمز نے ان مشکل کاموں کو نہ صرف یہ کہ بہت آسان کر دیا ہے بلکہ اچھے روزگار میں بھی بدل دیا ہے۔
کنڈل معروف تجارتی سائٹ امیزن کا ڈیجیٹل کتابی پلیٹ فارم ہے جو کتابوں کی تزئین، فروخت اور تشہیر وغیرہ کے تمام کام خود انجام دیتا ہے اور مصنف کو طے شدہ کمیشن کے بعد معقول معاوضہ بھی دیتا ہے۔ کچھ ماہ قبل میں نے دیکھا کہ اس پلیٹ فارم پر اسلامی کتابوں کے خانے میں بڑی تعداد میں وہ کتابیں ہیں جو طارق فتح جیسے اسلام دشمنوں نے لکھی ہیں۔
گویا علما کے اپڈیٹ نہ ہونے کی وجہ سے نہ صرف یہ کہ دین کا وہ کام نہیں ہو پا رہا ہے جو ہونا چاہیے بلکہ وہ ایک بڑے روزگار سے بھی محروم ہو رہے ہیں اور اسلام کے مطالعے کا شوق رکھنے والوں تک وہ اسلامی لٹریچر بھی نہیں پہنچا پا رہے ہیں، جو پہنچانا چاہیے۔
ہمیں چاہیے کہ ایسے پلیٹ فارمز کا بھرپور استعمال کریں اور ان کے مطابق لٹریچر تیار کرکے دنیا کو بہم پہنچائیں تاکہ دعوت و تبلیغ کا کام اس انداز سے آگے بڑھے، جس انداز سے بڑھنا چاہیے
۔(ط) انداز تحریر بدلیں:- لکھنے والوں کے لیے عصر حاضر میں اس بات کا بھی خیال ضرور ی ہے کہ وہ اب ایک حد تک انداز تحریر بدلیں مثلأ طول طویل تمہیدیں، لمبی چوڑی تقریظیں، بہت زیادہ تاثرات، گنجلک جملے، جدید املا کی رعایت نہ کرنا، جملوں کو ادھورا چھوڑ دینا، مترادفات کی کثرت اور چھوٹے مضمون کی تطویل جیسے عناصر بھلے تحریر کی ضخامت بڑھا دیتے ہوں لیکن مقصدیت اس ناحیے سے فوت ہو جاتی ہے کہ ایسی تحریریں قارئین کی میز پر جگہ نہیں حاصل کر پاتیں
۔(ی) ٹویٹر پر آئیں:- حساس اور متحرک علما کے لیے ضروری ہے کہ وہ عصر جدید میں بڑے لیول تک اپنی باتیں پہنچانے، اپنا واجبی حق حاصل کرنے اور اپنے حقوق کی لڑائی لڑنے یا اپنا کوئی احتجاج درج کروانے کے لیے ٹویٹر کا استعمال کریں۔
ٹویٹر محض ایک سوشل سائٹ یا تضیع اوقات کا ذریعہ نہیں بلکہ دراصل ایک مشن کی چیز ہے جو اپنی مثال آپ ہے۔ الحمد للہ روشن مستقبل ٹیم کی معرفت پہلے کے مقابل اب علما کی خاصی تعداد یہاں موجود ہے اور بہت اچھے نتائج برآمد ہورہے ہیں
۔(ک) پہلے ٹریننگ، پھر کام:- بارہا ہماری تنظیمیں فیل ہو جاتی ہیں اور ہمارے ادارے ناکام ہوجاتے ہیں کیوں کہ ہم آرگنائزیشنل سائنس اور مینجمنٹ کے اصولوں کے مطابق کام نہیں کر پاتے، اس لیے جو بھی شخص تنظیمی یا ادارتی کام کرتا ہو یا کرنا چاہتا ہو
اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ کام کا آغاز کرنے سے پہلے اس کام سے متعلق تمام لازمی امور کی ٹریننگ حاصل کرلے تاکہ ناکامی کے چانسیز کم سے کم ہوں اور کام یابی کی امیدیں بڑھ جائیں
۔(ل) پی ڈی کلاسیز:- کئی بار بڑی باوزن شخصیات معمولی غلطیوں کی وجہ سے دھڑام ہو جاتی ہیں۔ بارہا وہ غلطیاں گردن زدنی بھی نہیں ہوتیں لیکن بہرحال وقار مجروح کرنے کے لیے کافی ہوتی ہیں۔
اس کے لیے ضروری ہے کہ ہم پرسنلٹی ڈیولپمنٹ کلاسیز جوائن کر کے اپنی شخصیت کو جتنا بہتر اور برتر بنا سکتے ہوں، بنانے میں ہرگز کوتاہی سے کام نہ لیں کیوں کہ عزت سے بڑی کوئی چیز نہیں ہوتی اور یہ کلاسیز اس کے لیے ایک اہم زینے کی حیثیت رکھتی ہیں
۔(م) اقلیتوں سے ربط:- علما قائد ہوتے ہیں اور بحیثیت قائد ان کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے ملک کے سیاسی پیچ و خم کو ٹھیک سے سمجھتے ہوں۔ ہمارے عہد کی عمومی سیاست بلا تفریق ریاست اس بات کی متقاضی ہے کہ ملک کی تمام اقلیتوں سے ہمارے رابطے غایت درجہ مضبوط ہوں تاکہ جیسے مظلوم طبقات کو ہماری پشت پناہی سے قوت ملے، ویسے ہی ان کی کثرت تعداد سے ہماری قلت کو حوصلہ ملے
۔(ن) سیاسی قوت بڑھائیں:- ہمارے عہد میں یہ بھی ناگزیر ہو چکا ہے کہ جمہوریت کی مسموم ہواؤں کے بیچ ہم اپنی سیاسی طاقت کو جتنا مضبوط بنا سکتے ہوں، بنائیں کیوں کہ جمہوریت میں عام طور پر اور ہمارے ملک کی موجودہ نفرت انگیز فضاؤں کے بیج خاص طور پر ایک مضبوط سیاسی قوت کے بنا باوقار زندگی گزار پانا ممکن نہیں۔
ان مضامین کو بھی پڑھیں
تحریر میں حوالہ چاہیے تو تقریر میں کیوں نہیں
ہندوستان کی آزادی اور علامہ فضل حق خیر آبادی
مذہبی مخلوط کلچر غیرت دین کا غارت گر
قمر غنی عثمانی کی گرفتاری اور تری پورہ میں کھلے عام بھگوا دہشت گردی
عورتوں کی تعلیم اور روشن کے خیالوں کے الزامات
سیاسی پارٹیاں یا مسلمان کون ہیں محسن
قمر غنی عثمانی کی گرفتاری اور تری پورہ میں کھلے عام بھگوا دہشت گردی
اتحاد کی بات کرتے ہو مسلک کیا ہے
نفرتی کون اویسی یا سیکولر لیڈر
افغانستان سے لوگ کیوں بھاگ رہے ہیں
مہنگی ہوتی دٓاوا ئیاںلوٹ کھسوٹ میں مصروف کمپنیاں اور ڈاکٹرز
۔ 1979 سے 2021 تک کی آسام کے مختصر روداد
کسان بل واپس ہوسکتا ہے تو سی اے اے اور این آر سی بل کیوں نہیں
ہوائی جہاز ٹکٹ آن لائن بک کرتے ہوے کیسے بچت کریں
Pingback: سفر نامہ زیارت حرمین شریفین ⋆ مفتی خالد ایوب مصباحی
Pingback: الجامعتہ القادریہ ریچھا کا دورہ ⋆
Pingback: سفرِ دہلی اور تاریخی عمارات کا مشاہدہ ⋆ فرحان بارہ بنکوی