آخر سماج اتنا بے حس کیوں ہے
آخر سماج اتنا بے حس کیوں ہے ؟؟؟
ہر زمانے میں خواتین، مخالف گروہ کا سافٹ ٹارگٹ رہی ہیں۔یہی سبب ہے کہ خواتین کی حفاظت و سلامتی پر ہمیشہ قبائل و اقوام نے خاص توجہ دی ہے۔بہن پر کسی کی بری نظر ہو تو ایک بھائی کی رگ حمیت پھڑک جاتی ہے۔بیٹی پر کوئی نظر ہوس گڑاۓ تو باپ کی عزت نفس ابال کھانے لگتی ہے۔
یہی خواتین اگر اپنے قبیلے و مذہب کے خطوط لانگھ کر غیر مذہب میں معاشقہ لڑائیں تو غیرت مند گھرانے کے لیے ڈوب مرنے کی نوبت آ جاتی ہے۔ سماج کی غیرت پر مٹی پڑ جاتی ہے۔
اب ہمیں یہ چیک کرنا ہے کہ ہمارے اندر کی غیرت و حمیت میں گراوٹ کیوں آئی؟سر عام اپنی آبرو نیلام کرنے والی گمراہ خواتین قوم کے لیے درد سر کیوں نہیں ہیں؟بنات حوا کے قدم بہکنے،من پھسلنے، پھر ہوٹلوں کے بستر تک پہنچنے کے شرمناک اسباب کیا ہیں؟
ابھی ابھی (۱۱؍ بجے شب) ایک نکاح پڑھا کر لوٹا ہوں۔اہک بے میل نکاح۔مجبوری میں رچا گیا ایک کس مپرسی کا نکاح۔سماج کی ماری ایک مفلس لڑکی کا نکاح۔جہیز کی نحوست سے کراہتی ایک بے سہارا بیٹی کا نکاح۔جی ہاں ایک ایسا نکاح کہ ایک لڑکی عنفوان شباب کے رنگین خوابوں کو بے بسی کے پیروں تلے روند کر ناچاہتے ہوئے بھی ایک ادھیڑ عمر کو اپنا شریک سفر بنانے پر مجبور ہے۔
یہ درد نامہ لکھتے ہوۓ افسانہ جیسا لگتا ہے مگر حقیقت ہے۔اپنی بیٹی کو فلک سے چاند تارے اتار کر دینے کی صلاحیت رکھنے والے پیغمبر نے غریب امت کا خیال کر کے ایسا کچھ نہیں دیا۔مگر اس امت کا حال یہ ہے ہر بیٹے کا باپ جہیز لینے کو اپنا دھرم سدھ ادھیکار سمجھ بیٹھا ہے۔اسے حاصل کرنے کے لیے وہ کسی بھی حد تک گر سکتا ہے۔
آۓ دن ارتداد کی خبریں دیکھ سن کر دل ایسے ہی اداس رہنے لگا ہے۔واللہ میں ایسے واقعات سے کافی پریشان ہو جاتا ہوں۔ملت کی غربت زدہ بیٹیوں کا درد میرے سینے میں فزوں ہوتا جا رہا ہے۔ ہندو لونڈوں کے پریم جال کی شکار بن کر ارتداد کی بھینٹ چڑھتی بنات حوا کی روداد کے لہو زار صفحے کھلتے جا رہے ہیں۔بے چینی بڑھتی جا رہی ہے۔کبھی لگتا ہے کہ ہماری اپنی کوئی ہنود کے نرغے میں پھنس جاۓ تو وہ درد کیسے سہ پائیں گے۔اللہ خیر فرمائے۔
اگہی، کرب، وفا، صبر ، تمنا ، احساس
میرے ہی سینے میں اترے ہیں یہ خنجر سارے
کیا اس میں ملت کی بیٹیاں ہی تنہا گنہگار ہیں یا صرف بھگوا لونڈوں کا ہی سارا کھیل ہے؟ نہیں نہیں۔اصل ذمے دار تو ہم ہیں ہمارا سماج ہے۔ہمارا یہ بے رحم سماج جسے اپنے جہیز کی ہوس پوری کرنے کی کھلی آزادی ہے۔وقت پر دائرۂ دین میں رہ کر غریب کی بیٹی کے ہاتھ پیلے ہو جائیں، سماج کے با اثر طبقے نے اسے ناممکن بنا دیا ہے۔ ابھی جو نکاح پڑھا کر لوٹا، لڑکی کی عمر ۲۲ سال ہے۔اور قبول صورت پڑھی لکھی بھی۔نکاح نامے پر اس کے دستخط سے ہی لگا کہ لڑکی خواندہ ہے۔لڑکے کی عمر ۴۵ پلس ہے۔اور ان پڑھ بھی۔
بات یہیں پر ختم نہیں ہوئی ستم کہیے کہ اس لمبے عرصے میں اس غریب لڑکی کو صرف اس لیے بہار میں کوئی لڑکا نہیں ملا کہ وہ ایک یتیم بچی ہے جہیز دینے کی حیثیت نہیں۔دلہا گجرات کے سومناتھ ضلع کا رہنے والا ہے۔بہار و گجرات کے درمیان کی زمینی دوری ایک لڑکی کے لیے کم ڈراونا نہیں ۔
لڑکا اتنا ہکلاتا ہے کہ ٹھیک سے کلمہ تک پڑھ نہیں پایا۔اور بدھو بھی۔ایک تیز طرار لڑکی کے لیے شوہر کی عمر رسیدی اور ہکلانے کو اگر ہلکا جان بھی لیا جاۓ تب بھی شوہر کا بدھو و بوکا ہونا بڑا سنگین مسئلہ ہے۔
ہمارا سماج جو خود کو سنی جنتی مسلمان سمجھ کر خدا کی جنت کا تنہا حقدار سمجھتا ہے اس کا اخلاقی و دینی گراوٹ کس پائدان پر ہے کہ ایک غریب لڑکی کے ارمانوں کا خون ہوتا ہے مگر اسے ذرا بھی فرق نہیں پڑتا۔
آپ کو شاید حیرت نہ ہو مگر یہ بات بڑے گہرے جائزے کے بعد کہنے کا مجاز ہوں کہ ملت کی بیٹیوں کا رجحان غیر مسلم لونڈوں کی طرف جانے میں سماج کا جہیز پرستانہ رویہ بھی اہم ذمے دار ہے۔میں اپنی آٹھ سالا زندگی کالج، یونیورسٹی میں گزار آیا ہوں۔میں نے قریب سے مسلم خواتین کے ہندو لونڈوں سنگ love affairs کو دیکھا ہے۔اور آج تو پلاننگ کے ساتھ یہ سب چل رہا ہے۔
میرے اپنے مطالعے و مشاہدے کی سروے رپورٹ کے مطابق اسکول، کالج، یونیورسٹی، کوچنگ و ٹیوشن کے نام پر گھر سے نکلنے والی ہر پانچ میں سے تین لڑکی بھگوا لونڈوں کے love trap کی شکار ہیں۔پچھلے دو سالوں میں اپنے آس پاس ہی اتنے واقعات و اسکینڈلس رو نما ہوۓ جن کا میں خود گواہ ہوں کہ اگر بیان کر دیئے جائیں تو فیس بک کی وال مثل زقوم بدبو دار ہو جاۓ۔
غالبا ۱۵ روز قبل ضلع مدھوبنی میں(گاؤں کا نام دانستہ ترک کر رہا ہوں) ایک شادی کی محفل میں خطاب کرنے جانا ہوا۔دعوت دینے والا شخص ذرا باشعور تھا۔میرے پہنچتے ہی کہا مفتی صاحب! ہمارے محلے سے پچھلے پانچ مہینے کے اندر چار لڑکی ہندو لڑکوں کے ساتھ بھاگ گئ یا پھیرے لے چکی ہیں اس لیے آج آپ کا خطاب اسی موضوع پر ہو۔(میں نے کھل کر ڈیڑھ گھنٹے خطاب کیا) سوچیے یہ وہ گھٹنائیں ہیں جو نہ میڈیا میں آتی ہیں نہ سماجی سطح پر ڈسکس کی جاتی ہیں۔نہ سرکاری رکارڈ
میں آتی ہیں۔بس سوچیے کہ اس وسیع و عریض ملک میں روز کتنے کیس ہوتے ہوں گے۔ میں سوچتا ہوں کہ آخر ہماری بہن بیٹیاں اتنی بے حیا کیسے ہو گئیں؟
اتنا کچھ ہونے کے بعد بھی ہمارے سماج سیوک مون ہیں۔فلاح و صلاح ملت کے نام پر بنے اتنے بورڈز کہیں رو پوش ہو چکے ہیں۔قائدین جلسوں کے نام پر بھیڑ اکٹھا کر کے فکر و تدبیر سے دور محض جذباتیت کا بھانگ پلانے نکلے ہیں۔شیخان حرم و پیران مغاں حلقۂ مریدان میں تعویذ گنڈوں کی ٹوکری لے کر ہر بلا ہر مصیبت سے نجات، ہر مرض سے شفا تقسیم کرنے میں مصروف ہیں۔طرفداران مسلک صرف مسلکی راگ چھیڑنے میں ہی اپنی جنت تلاش بیٹھے ہیں۔
مشربی طبقے نے اپنے وہن و بزدلی کو حکمت و مصلحت نام کی چادر میں لپیٹ کر خود کو چنگ و رباب، ساز و بربط کے نام وقف کر دیا ہے۔مفتیان بے توفیق محض نزاعی مسائل پر بحث و قلم رانی کو ہی اپنا نصب العین بنا لیے ہیں۔مولویان بے شعور غیر ضروری مسائل میں الجھنا، پھر سامنے والے کی عزت اتارنا ہی اپنا پرائم ٹارگٹ مان کر جی رہے ہیں۔
سیاسی کارکنوں و کارندوں کو اس مسئلہ سے کچھ زیادہ فرق نہیں پڑتا۔نوجوانان ملت سوشل میڈیا سے فراغت کے بعد PUBG کھیل کر اپنی تھکاوٹ دور کر کے لمبی تان کر سو جاتے ہیں۔حیرت انگیز بات ہے کہ آج تک قومی یا صوبائی سطح پر تو کجا، ضلعی پیمانے پر بھی ایک بھی ایسا پروگرام نہیں ہوا جس میں بیٹیوں کی حفاظت اور ارتداد پر اتفاق راے سے منشور تیار کیا گیا ہو۔جلسے تو کوئنٹل کے حساب سے روز ہو رہے ہیں
مگر سب بے سمت بے نتیجہ۔آخر سماج اس سیریس میٹر میں سنجیدہ کیوں نہیں ہے؟ایسے میں حالات کی سنگینی صرف محسوس کیجئے اور سب کچھ خدا بھروسے چھوڑ کر اگلی لڑکی کے ارتداد کی خبر سننے کے لیے اپنے منحوس کان کھلے رکھئے بس۔اگر احساس کی صلاحیت بھی مصلوب ہو چکی ہے تو سمجھ لیں آپ مر چکے ہیں بس جنازہ باقی ہے۔آخر سماج اتنا بے حس کیوں ہے؟
ایک دو زخم نہیں جسم ہے سارا چھلنی
درد بے چارہ پریشاں ہے کہاں سے اٹھے
ازقلم :مشتاق نوری
- کثرت مدارس مفید یا مضر
- نفرت کا بلڈوزر
- ہمارے لیے آئیڈیل کون ہے ؟۔
- گیان واپی مسجد اور کاشی وشوناتھ مندر تاریخی حقائق ، تنازعہ اور سیاسی اثرات
- مسجدوں کو مندر بنانے کی مہم
- اورنگزیب عالمگیرہندوکش مندرشکن نہیں انصاف کا علم بردارعظیم حکمراں
- سنیما کے بہانے تاریخ گری کی ناپاک مہم
- مسلم نوجوانوں پر نصیحتوں کا پہاڑ