بے جا ظلم سہنے والے بھی ظالم ہوتے ہیں
از قلم : سیف علی شاہ عدم بہرائچی بے جا ظلم سہنے والے بھی ظالم ہوتے ہیں !
بے جا ظلم سہنے والے بھی ظالم ہوتے ہیں
دنیا کی تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ جب بھی کسی برائی نے اپنا سر تکبرانہ انداز سے بلند کرنے کی سازش رچی ہے تو اس کا خاتمہ بہت دردناک رہا ہے
جب نمرود نے خود کو خدا کہا اور لوگوں کو اس بات کا یقین دلانا چاہا کہ بے شک میں ہی تمھارا خدا ہوں،میں جسے چاہوں زندگی دوں اور جسے چاہوں موت کی کھائی میں جھونک دوں تو اللہ کے نبی حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اسے اس کاعکس دکھایا اور اللہ رب العزت نے اسے مچھر جیسے ذلیل جانور کے عذاب سے موت کی نیند سلایا اور ساری دنیا کو اس بات کا احساس دلایا کہ رب صرف اللہ رب العزت ہے نہ کہ کوئی انسان۔
آج دنیاوی ماحول کچھ اس طرح سے گرم کر دیا گیا ہےکہ لوگ صرف اور صرف مسلمانوں کو ٹارگٹ کر رہے ہیں
مخالفین اسلام اسے مٹانے کے لیے اپنی ایٹی چوٹی کا زور لگا رہے ہیں ، یہ ایک الگ بات ہے انہیں اس بات کا علم نہیں ہے کہ یہ بات صرف اور صرف نا ممکن ہے کیونکہ آج سے پہلے بھی اسلام کو ختم کرنے اور اسے دنیا سے مٹانے والے آۓ مگر وہ خود ہی ہلاک ہو گیے۔
مگر افسوس کہ مخالفین اسلام نے تاریخ پڑھنا چھوڑ دیا ہے۔
آج ہم ملک ہندوستان کے شہری ہیں جس ملک کو دنیا کا سب سے بڑا جمہوری ملک سمجھا جاتا ہے، وہ ملک جہاں کے آئین نے سارے مذہبوں کو ایک مانا ہے، سارے لوگوں کو ایک سمان زندگی گزارنے کا حق دیا ہے،مگر آج کا ہندوستان بدل رہا ہے،لوگ مذہب کے آڑ میں فسادات کو فروغ دے رہے ہیں
بھارت میں میں تقریبا بیس کروڑ مسلمان ہندوتوا کی بڑھتی تحریک سے خود کو انتہائی غیر محفوظ تصور کر رہے ہیں کیونکہ مسلمان یہ ہرگز نہیں چاہتا کہ کوئی بھی اس کے اوپر بنا کسی جرم کے سزا کو معین کرے جیسا کہ فی الحال کے موجودہ ہندوستان کی حالت نظر آرہی ہے آج بڑھتی ہوئی بے انصافی اور ظلم و ستم،بنا کسی جرم کے سزائے موت غیرہ و غیرہ
اس بات کی طرف اشارہ کر رہی ہیں کہ جمہوریت بہت ہی زیادہ خطرے میں ہے۔ ایک شعر عرض ہے۔
بے قصوروں کو سزائے موت ہوتی ہے یہاں باقصوروں کے لیے اہل سزا ہے ہی نہیں آج ملک کے بیشتر جگہوں پر فرقہ وارانہ تشدد زور و شور سے عروج پر ہے، اقلیتی برادری کے لوگوں کو تکلیف دی جارہی ہے،آپ کو معلوم ہونا چاہیے کہ ہندوستان میں مسلمانوں کے خلاف تشدد کی کئی واردتیں 1947سے پیش آتی رہی ہیں
یہ ہجومی تشدد اور فرقہ وارانہ فسادات کی شکل میں وقتًا فوقتًا رو نما ہوئے ہیں، کہیں تبریز خان کو نشانہ بنایا گیا ہے تو کہیں حافظ جنید کو،ان واقعات میں اگر چہ مسلمانوں کی جانوں اور املاک کو کافی نقصان پہنچایا گیا ہے، تاہم ان کے ساتھ ساتھ کئی واقعات میں غیر مسلم اصحاب، بالخصوص ہندو اصحاب بھی تشدد کا نشانہ بنے ہیں اور ان کی جانوں اور مالوں کو بھی نقصان پہنچا ہے۔
1950 سے ہونے والے ہندو مسلم فسادات یا تشدد کے کم از کم 6,933 واقعات ہو چکے ہیں، جن میں کم از کم 10,000 افراد اپنی جان گنوا چکے ہیں۔تو کیا ان کی جان کی کوئی قیمت نہیں ہے؟
کیا ان کی زندگیوں کو حیوان کی زندگی سے بھی گئ گزری سمجھا جارہا ہے؟
کیا انسان اور حیوان کے درمیان تمیز باقی نہیں ہے؟
آج ہندوستان میں کیا چل رہا ہے؟اگر آپ ایک جاگرت ہندوستانی ہیں تو آپ بنا کسی سوچ کے فوری طورپر جواب دینگے کہ “ہندوستانی میں جمہوریت کی پامالی چل رہی ہے، لوگوں کو مذہب کے نام پر لڑایا جارہاہے،مسجد اور مندر کے نام پر سیاست چمکائی جا رہی ہے، علمی اور عملی کوئی بھی ترقی نہیں ہو رہی ہے،لڑکیوں کی پڑھائی کے نعرے تو لگاۓ جاتے ہیں
لیکن لڑکیاں محفوظ نہیں ہیں،بھگوا رنگت کو کھلی چھوٹ دی جارہی ہے، فسادات کے بازار گرم کئے جا رہے ہیں غریبوں اور لاچاروں کے گھروں کو توڑا جا رہا ہے لوگوں کو ان کے لباس سے انصاف دیا جا رہا ہے
لوگوں کو کھلے عام دھمکی دی جا رہی ہے کہ وہ جے شری رام کا نعرہ لگائیں اور نعرہ نہ لگانے پر انہیں مار مار کر موت کے گھاٹ اتار دیا جا رہا ہے ہے لوگوں کے مذہبی حقوق کی پامالی کی جارہی ہے لوگوں کو مذہبی رسومات سے روکا جا رہا ہے پانچ وقتہ اذان پر روک لگانے کی کوشش کی جا رہی ہے،مسجدوں پر بھگوا جھنڈا لہرانے کی سازش رچی جارہی ہے
لوگوں کو ان کے مذہب کے نام پر اکسایا جا رہا ہے،لوگوں کے دلوں سے بھائی چارہ جیسی عظیم سوچ کو ختم کرنے کی مکمل تیاری کی جا رہی ہے اور انہیں اس بات کا احساس دلایا جارہا ہے کہ تمہیں دوسروں کےمذہب سے خطرہ ہے ان سے دوری بنائے رکھو یہ بہت خطرناک لوگ ہیں ان کا کوئی بھروسا نہیں کہ کب تمہاری جان لے لیں
لوگوں کے دماغ میں اس بات کو بٹھایا جا رہا ہے کہ فلاں مذہب کے لوگوں میں انسانیت نہیں ہے بلکہ حیوانیت ہے خحالانکہ یہ تمام چیزیں حقیقت سے پرے ہیں اور ان کا سچائی کے ساتھ کوئی لینا دینا نہیں ہے
“ریاست کرناٹک کےشہر اڈپی سے اٹھنے والا حجاب تنازع ساری دنیا کے مسلمانوں کو پریشان کرکے رکھ دیا ان تمام اسلامی ماں بہنوں کو پڑھائی کرنے سے روکا گیا جو حجاب پہن کر اسکول میں داخل ہونے کی کوشش کرتی تھی
حالاں کہ حجاب کا کسی مذہب سے خاص کرنا ایک الگ بات ہے اور عجیب چیز ہے کیوں کہ عورت ایک عزت ہے اور عزت کو حجاب کے اندر ہونا کافی بہتر سمجھا جاتا ہے جس طرح کوئی بھی عزت دار عورت اپنا چہرہ کسی بھی دوسرے مرد کو نہیں دکھانا چاہتی ہے وغیرہ وغیرہ
مگر افسوس ہے ان تمام لوگوں پر جنہوں نے حجاب کو اسلام سے جوڑ کر اور خاص کر کے اس پر پابندی عائد کرنے کی کوشش کی اور انسانیت کو شرم سار کیا
مساجد سے لاؤڈ اسپیکر ہٹانے کی کوشش کی گئی گائے کے نام پر انسانوں کو قتل کیا گیا یا لو جہاد کے نام پر پر محبت کوبد نام کیا گیا اذان کی مخالفت میں جی سری کے نعرے بلند کئے گئے مدرسوں کو دہشت گردی کا ممبر بتایا گیا ل، ٧مسلم خواتین کے ساتھ آن لائن فاحشانہ تذلیل کرنے کی حرکت کی گئی
اور بھی بہت سے ایسے واقعات پیش آۓ جنہوں نے ہندوستانی مسلمانوں کو بہت گہری ٹھیس پہنچی ہےسوچنے کی بات تو یہ ہے کہ مسلمان آج بھی خاموش ہیں نہ جانے کیوں مگر خاموش ہیں۔
دوستوں ایک شعر ملاحظہ فرمائیں۔
نہ گھبراؤ مسلمانوں خدا کی شان باقی ہے
ابھی اسلام زندہ ہے ابھی قران باقی ہے
یہ کافرکیا سمجھتے ہیں جو اپنے دل میں ہنستے ہیں
ابھی تو کربلا کا آخری میدان باقی ہے
مسلمانوں کو ایک بات سمجھ لینی چاہیے کہ صبر کرنااللہ والوں کی خصلت ہے مگر ظلم کو بے جا برداشت کرنے والا بھی ظالم ہی مانا جاتا ہے
اس لیے مسلمانوں کو چاہیے کہ اپنے علاقے میں بیداری کے پروگرام منعقد کریں اور سب کو اس بات کا احساس دلائیں کہ اب اسلام کی حفاظت کا ذمہ ہمارے سروں پر ہے اور ہمیں اسلام کے لیے اگر اپنی جان بھی لگانی پڑے تو ہم لگا دیں گے ان شاءاللہ ہمیں ظالم کے ظلم کا جواب دینا ہے اسلام پر کیچڑ اچھالنے والوں کی خبر لینا، کیوں کہ ظلم کا جواب دینا بہت ضروری ہے اگر ہم ظلم کو یوں ہی سہتے رہیں گے تو ہمارا نام بھی ظالم کے مددگاروں میں لکھ دیا جائے گا۔
سیف علی شاہ عدم بہرائچی
ملاپورم کیرالا
9004757175