رام نومی کا جلوس اور مظلوم مسلمان

Spread the love

از قلم : غلام مصطفےٰ نعیمی ۔ روشن مستقبل دہلی رام نومی کا جلوس اور مظلوم مسلمان

رام نومی کا جلوس اور مظلوم مسلمان

ہندو میتھالوجی کے مطابق ہندوؤں کے بھگوان وِشنو نے راجہ دشرتھ اور رانی کوشلیا کے گھر میں رام کے روپ میں ساتویں اوتار کے طور پر جنم لیا۔ اسی یادگار کے طور پر ہندو کیلنڈر کے پہلے ماہ چیت اور نوراتری کے آخری دن رام نومی منائی جاتی ہے۔

اس دن ہندو گھرانوں میں صاف صفائی کا خصوصی اہتمام ہوتا ہے، کسی ایک جگہ رام کی مورتی یا تصویر نصب کی جاتی ہے۔رام کے ساتھ ان کے والدین، ہنومان اور چھوٹے بھائیوں کی مورتیاں بھی رکھی جاتی ہیں اور پھر اجتماعی طور پر ان کی پوجا ہوتی ہے۔مورتیوں پر گنگا جل اور چاول بھی چڑھاتے ہیں۔اس موقع پر گھر کی نوعمر لڑکیاں سبھی گھر والوں کے ماتھے پر ٹیکے لگاتی ہیں۔

اس موقع پر بعض لوگ کہیں آدھے دن تو کہیں پورے دن کا بِرَت(ہندوانی روزہ) بھی رکھتے ہیں۔ان کے بِرَت میں صرف اناج کھانے کا پرہیز ہوتا ہے باقی سبھی چیزیں کھانے کی عام اجازت ہوتی ہے۔

پچھلے کچھ وقت سے رام نومی کے موقع پر جلوس کی شکل میں شوبھا یاترا کا چلن بھی عام ہوا ہے۔

جس میں رام کی قد آدم مورتی کے ساتھ ہندو سماج کے لوگ مختلف علاقوں میں گھومتے ہیں اور اپنے بھگوان کی عزت وعظمت کے ترانے گاتے ہیں۔جو بہرحال ان کی آستھا اور ان کی عقیدت ہے جس سے کسی بھی مذہب یا انسان کو پریشانی ہے نہ کسی طرح کا اعتراض کہ یہ ان کا مذہبی حق ہے

لیکن پچھلے کچھ وقت سے شدت پسندوں نے ان جلوسوں کو مسلمانوں کو ہراساں کرنے اور مسلم آبادیوں میں فساد کرنے کا ذریعہ بنا لیا ہے جو نہ صرف مسلمانوں پر ظلم ہے بلکہ وطن عزیز کی سالمیت کو بھی نقصان پہنچانا ہے۔

رام نومی اور فساد

اس بار رام نومی رمضان کی آٹھ اور اپریل کی دس تاریخ کو پڑی۔ملکی حالات کے پیش نظر ڈر تھا کہیں رام نومی کی آڑ میں کوئی فساد نہ ہوجائے۔خدشہ اس لیے تھا کہ چند ہفتے پہلے ہی “دی کشمیر فائلز” جیسی پروپیگنڈہ فلم کے ذریعے ہندوؤں کے جذبات برانگیختہ کیے جاچکے تھے۔

فلم نے مسلم دشمنی کے جذبات کو اچھا کھاد پانی فراہم کیا۔وزیر اعظم خود اس فلم کی پذیرائی اور دیکھنے کی پر زور اپیل کر چکے تھے اس لیے بی جے پی کا ہر چھوٹا بڑا لیڈر اس فلم کو دکھا کر “ہندو ہمدرد” دکھنے کے لیے بے چین تھا۔

اس جذبے کی تسکین کے لیے جابجا پورے پورے سنیما ہال بک کیے گیے اور اپنے خرچے پر ہندوؤں کو یہ فلم دکھائی گئی۔فلم کی تھیم مسلم دشمنی پر مبنی تھی اس لیے فلم دیکھتے ہی ہندو جذبات ابال کھا جاتے اور سنیما ہال ہی میں مسلم مخالف نعرے بازیاں شروع ہوجاتیں۔ایسے کشیدہ ماحول میں نوراتری/رام نومی کا تہوار آگیا، وہ بھی رمضان میں۔خیر رام نومی کی تاریخ آئی اور خدشات کے عین مطابق ایک ہی دن میں ملک کے مختلف حصوں میں فساد پھوٹ پڑے۔

سب سے پہلے راجستھان کے کرولی شہر میں فساد ہوا، جہاں دو اپریل کو ہندو لڑکوں نے بائک ریلی نکالی۔

تقریباً چار سو افراد پر مشتمل یہ ریلی ڈی جے بجاتی ہوئی نکلی۔مسلم محلوں میں پہنچتے ہی بھڑکاؤ نعرے بازی شروع ہوگئی جس کے نتیجے میں ٹکراؤ کی صورت حال بن گئی، پتھراؤ ہوا، اور دیکھتے ہی دیکھتے مکانوں اور دکانوں کو آگ لگا دی گئی۔

امیدوں کے عین مطابق سب سے زیادہ نقصان مسلمانوں ہی کا ہوا، چُن چُن کر مسلم دکانیں جلائی گئیں، بعض ہندو افراد کی دکانیں بھی زد میں آئیں لیکن بڑا نقصان مسلمانوں ہی کو اٹھانا پڑا۔

یہ بھی یاد رہے کہ اس ریلی کو اجازت صرف اسی شرط کے ساتھ ملی تھی کہ مائک اور ڈی جے کا استعمال بالکل نہیں ہوگا اس کے باوجود ڈی جے کا استعمال کیا گیا لیکن پولیس نے پابندی کے باوجود ڈی جے بجانے اور بھڑکاؤ نعرے بازی روکنے کی کوئی کوشش نہیں کی۔

ابھی راجستھان کے انگارے سرد بھی نہ پڑے تھے کہ عین رام نومی کے دن گجرات کے کھمبات، ہمت نگر اور آنند شہر سے فساد کی خبریں آئی، تو ایم پی کے کھرگون، کرناٹک کے گل برگہ، اور گوا سے بھی فساد کی خبریں موصول ہوئیں۔

بدتمیزیاں تو بہار اور مہاراشٹر میں بھی ہوئیں مگر یہاں مسلمانوں کے ضبط وتحمل کی وجہ سے شرپسندوں کو کوئی موقع نہ مل سکا

لیکن گجرات اور ایم پی میں شدت پسندوں نے خوب تانڈو مچایا۔میڈیا نے ہمیشہ کی طرح مسلمانوں ہی کو فسادات کے لیے قصوروار ٹھہرایا۔یہ الگ بات ہے کہ ہر جگہ کے فساد میں سب سے زیادہ نقصان مسلمانوں کو اٹھانا پڑا اور گرفتاریاں بھی انہیں کی ہورہی ہیں۔

سب سے زیادہ وحشت ناک خبر تو ایم پی کے کھرگون سے آئی جہاں مسلمانوں پر پتھربازی کا الزام لگا کر تقریباً 90 سے زائد مسلمانوں کی گرفتاری ہوئی اور چالیس سے زائد مکانوں/دکانوں کو بلڈوزر چلا کر مسمار کردیا گیا۔

مردوں کے ساتھ ساتھ ضعیف العمر خواتین اور بچوں کو بھی پولیسیا تشدد کا شکار ہونا پڑا۔

حکومت اور انتظامیہ نے نہایت ڈھٹائی کے ساتھ آئین وقانون کی دھجیاں اڑاتے ہوئے مسلمانوں کے گھروں پر بلڈوزر چلا کر زمیں دوز کردیا اور اب نہایت بے شرمی کے ساتھ اپنے غیر قانونی اقدام کا جواز پیش کیا جارہا ہے۔

 

فساد کی وجوہات

ہندو مسلم فساد کی تاریخ تقریباً دو صدی پرانی ہے۔انگریزی راج سے ہندو مسلم فساد شروع ہوئے اور آج تک یہ فسادات بھارت کے ماتھے پر بدنما داغ بنے ہوئے ہیں۔تب سے لیکر آج تک فسادات کے لیے لگ بھگ ایک جیسے طریقے استعمال ہوتے آرہے ہیں، جن کی تفصیل اس طرح ہے:

🔹اللہ ورسول کی شان میں گستاخانہ نعرے لگانا

🔸مساجد کے سامنے بدتمیزی کرنا

🔹مساجد کے میناروں پر بھگوا جھنڈے لگانا

🔸نمازیوں کے ساتھ گالی گلوچ کرنا

🔹تلواریں لہرا کر ڈرانے/دھمکانے کی کوشش کرنا

🔸مسلم خواتین کے ساتھ چھیڑ خانی کرنا

گذشتہ ایک صدی سے تقریباً انہیں بدتمیزیوں کا سہارا لیا جاتا رہا ہے۔مسلمان خاموش رہ کر ان بدتمیزیوں کو برداشت کرلیں تو فساد کا خطرہ ٹل جاتا ہے لیکن جہاں کسی مسلمان کو غیرت آئی یا انہوں نے ان بدتمیزیوں کی مخالفت کی بس فساد شروع۔

اس موقع پر پولیس خاموش حامی کا رول ادا کرتی ہے جیسے ہی معاملہ تناتنی کا ہوتا بس پولیس مسلمانوں کے خلاف مورچہ سنبھال لیتی ہے۔پولیس کے مورچہ سنبھالتے ہی دنگائیوں کو بھرپور موقع ملتا ہے اور دیکھتے ہی دیکھتے مسلمانوں کے مکان/دکان نذر آتش کر دئے جاتے ہیں

اگر اس آپا دھاپی میں غلطی سے کوئی پولیس والا زخمی ہوجائے تو بس یہ طے ہوجاتا ہے کہ اب مسلمانوں کے ساتھ کوئی رحم نہیں کھانا ہے، بھلے ہی وہ پولیس والا ہندو دنگائیوں کے ہاتھوں زخمی ہوا ہو۔ فساد بھڑکاؤ گانے

یوں تو فساد بھڑکانے میں بنیادی رول اس دماغ کا ہے جو مسلم دشمنی سے پوری طرح بھرا ہوا ہے۔

اوپر شدت پسند تنظیمیں، میڈیا اور فلم انڈسٹری اس چنگاری کو لگاتار ہوا دینے پر آمادہ ہیں، رہی سہی کسر دو ٹکے کے یوٹیوبر سنگر پوری کر رہے ہیں جو لگاتار بھڑکیلے گانے تیار کرکے ہندو ذہنوں کو مسلم دشمن بنا رہے ہیں۔اس بار بھی جن علاقوں میں فساد ہوا اس کی بنیادی وجہ توہین آمیز نعرے اور انتہائی بے ہودہ اور اکسانے والے گانے ہی تھے۔

ان گانوں کو سن کر بھلا کس غیرت مند کو غصہ نہ آئے، ذرا ان گانوں کے بول دیکھیے :

🔸جس دن جاگ اٹھا ہندو تو یہ انجام بولے گا ٹوپی والا بھی سر جھکا کے جے شری رام بولے گا

🔹جس دن کھولا خون میرا دکھلا دیں گے اوقات تیری پھر تو ہم نہیں بولیں گے، بس بولے گی تلوار میری ہر ہر مہادیو سے پورا ہندوستان ڈولے گا ٹوپی والا…..

🔸رامائن کہتی ہے رام جی ہیں کوشلیا کے لَلّا بیٹا عبدُل ذرا بتاؤ کہاں پہ جنمے ہیں اللہ

🔹اللہ اللہ بولتے ہو، اللہ کیا بلا ہے اتنا بتا دو، کہاں رہتا خدا ہے جس کو مدینہ کہتے ہو وہ تو شنکر جی کا ہے محلہ

🔸ہر ایک بات کا حساب کریں گے اب تو رادھے رادھے تُو کیا تیرے باپ کریں گے

کوئی سنجیدہ ہندو بتائے کہ مسلم آبادیوں میں، مسجدوں کے سامنے اس طرح کے توہین آمیز اور اکسانے والے گانے بجانا، ننگی تلواریں لہرانا، بہو بیٹیوں کو گندے اشارے کرنا کہاں کی شرافت اور کن سا دھرم ہے؟

اگر مسلمان ذلت کا گھونٹ پی کر برداشت کرلیں تو ٹھیک لیکن ذرا کسی نے روکا ٹوکا تو رام بھکتوں کی ٹولی فوراً ہی مار کاٹ پر اتر آتی ہے۔

سب سے زیادہ افسوس کی بات یہ ہے کہ ساری بدتمیزیاں پولیس کے سامنے ہوتی ہیں مگر اس وقت پولیس والے بھی ان دنگائیوں کے خاموش پرستار بنے ہوتے ہیں، لیکن جیسے ہی مسلمان مزاحمت کرتے ہیں بس پولیس کی گولی اور لاٹھی حرکت میں آجاتی ہے اور اس کا نشانہ دنگائی نہیں صرف مسلمان بنتے ہیں۔

بچاؤ کی تدابیر

موجودہ حالات میں جس طرح حکومت و انتظامیہ خود مسلم منافرت کو بڑھاوا دینے میں لگے ہیں، ایسے میں فسادات سے بچاؤ کے امکانات بہت معدوم ہوجاتے ہیں لیکن پھر بھی اپنی جانب سے کچھ ممکنہ تدابیر پیش کی جاتی ہیں شاید ان سے بچاؤ کی کوئی راہ نکل سکے۔

🔹ہر شہر/گاؤں میں ایسے سنجیدہ، صاحب مطالعہ اور آداب گفتگو پر مہارت رکھنے والے علما اور دانش وران کی ایک ٹیم تیار کی جائے جو ہندو تہواروں کے موقع پر ہندو سماج کے بااثر لوگوں سے ملاقات کرے، ان کی سیاسی/سماجی/تاجرانہ خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے امن وامان برقرار رکھنے میں تعاون کی اپیل کرے، اور ایسے مواقع پر ان سے حاضر رہنے کی اپیل کرے۔ 🔸اپنی گلیوں خصوصاً چوراہوں اور مسجدوں کے دروازوں پر سی سی ٹی وی کیمرے ضرور لگوائیں، جن علاقوں میں مالی حالت کمزور ہو امرا وہاں کی ذمہ داری اٹھائیں۔ 🔹ہر مسجد میں مقامی زبانوں ہندی/انگلش/کنڑ/مراٹھی/گجراتی وغیرہ میں کچھ بینر تیار کرائیں جن میں بڑے بڑے حرفوں میں یہ لکھا ہو آپ ابھی یوٹیوب/فیس بک/ٹویٹر پر لائیو ہیں اس پر یوٹیوب/فیس بک/ٹویٹر کے آئی کن لگائیں اور جن علاقوں سے جلوس/ریلی نکلتے ہوں وہاں نمایاں جگہوں پر یہ بینر چسپاں کردیں۔

🔸جلوس/ریلی سے پہلے پانچ سات ایسے افراد کا انتخاب کریں جن کے پاس اچھے موبائل/کیمرے ہوں، انہیں خاص اور اہم جگہ پر تعینات کردیں تاکہ وہ ہر اینگل سے لائیو ویڈیو گرافی کرتے رہیں۔آج کل ہر گاؤں بستی میں یوٹیوبر موجود ہیں اس لیے یہ انتظام کچھ خاص مشکل نہیں ہے۔

🔹ویڈیو گرافی کے لنک مختلف سوشل میڈیا گروپوں میں ڈال دیں ساتھ ہی علاقے کے ایس پی/ڈی ایم اور مقامی تھانے وغیرہ کو بھی فیس بک/ٹویٹر پر ٹیگ کردیں تاکہ وہ بھی شرپسندوں پر نظر رکھ سکیں۔

🔸شدت پسند جتنی چاہیں بدتمیزی کریں آپ ہرگز آپا نہ کھوئیں بلکہ ضبط وتحمل کے ساتھ ان کی حرکات وسکنات ریکارڈ کریں تاکہ ان کا اصلی چہرہ دنیا کے سامنے آسکے۔

🔹 ان ویڈیو کو محفوظ رکھیں کہ یہی ویڈیو ثبوت آئندہ ایسے جلوس کی پرمیشن رد کرانے یا ان کا روٹ ڈائی ورٹ کرانے میں مددگار ثابت ہوں گے

اس کے علاوہ مقامی حالات کے مطابق جو بھی ممکنہ تدابیر بن پڑیں انہیں اختیار کیا جائے تاکہ مسلمانوں کے جان ومال کی حفاظت کی جاسکے۔اللہ تعالیٰ سے لو لگائیں، سچے مسلمان بنیں، اپنے کردار وعمل سے اغیار پر اثر ڈالیں، اللہ تعالیٰ ایمان والوں کو ضائع نہیں فرمائے گا۔

از قلم : غلام مصطفےٰ نعیمی

روشن مستقبل دہل

17 thoughts on “رام نومی کا جلوس اور مظلوم مسلمان

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *