یادوں کے چراغ تعارف و تبصرہ
مفتی محمد ثناءالہدیٰ قاسمی کے یادوں کے چراغ تعارف و تبصرہ
شکیل رشید
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ بہار ، خوب لکھتے ہیں ، اور اچھا لکھتے ہیں ۔ کچھ پہلے جب مولانا کی دو کتابیں ’ یادوں کے چراغ ‘ جِلد اوّل و جِلد دوم مجھے ملیں تو ان سے اپنی ایک ملاقات یاد آگئی ۔
پہلی اور اب تک کی آخری ملاقات ، لیکن ہمیشہ کے لیے یاد رہ جانے والی ملاقات ۔ میں کسی تقریب میں شرکت کے لیے ململ گیا تھا ، وہاں سے پٹنہ دوپہر کے وقت واپسی ہوئی تو یہ الجھن سامنے تھی کہ ممبئی کے لیے رات کا سفر ہے ، وقت کہاں گذارا جائے ۔
امارت شرعیہ پھلواری شریف کا صرف نام سنا تھا ، کبھی جانا نہیں ہوا تھا ، ایک بس پکڑ کر وہاں پہنچا ، عادل فریدی سے ملاقات ہوئی ، اس کے بعد مولانا ملے اور انہوں نے ’ میزبانی ‘ کے سارے فرائض اپنے ذمہ لے لیے ، اور سفر میرے لیے آسان بنا دیا ۔
آج اتنے دنوں بعد شکریہ کا موقعہ ملا ہے ، بہت بہت شکریہ مولانا محمد ثناء الہدیٰ قاسمی صاحب ! مولانا محترم کے مضامین دینی ، اخلاقی اور معاشرتی ، ادبی و سیاسی غرضیکہ ہر موضوع پر ملک بھر کے اخبارات میں شائع ہوتے رہتے ہیں ، اور پڑھے جاتے ہیں ۔ ان مضامین کی ایک بڑی خوبی ان کا اسلوب اور لفظوں کا انتخاب ہے ۔ اسلوب رواں ہے ، زبان سلیس لیکن عمومی نہیں ، اور موضوع بھلے بار بار کا آزمایا ہوا ہو ، لیکن لکھنے کے انداز میں نیا پن ۔ مولانا کی ایک خوبی یہ ہے کہ وہ اردو زبان و ادب کی تمام اصناف پر لکھنے کی صلاحیت رکھتے ہیں ، مثال کے طور پر زیر تعارف و تبصرہ کتاب ’ یادوں کے چراغ ‘ ہی کو لے لیں ، اس کے مضامین اردو ادب کی ایک اہم صنف ’ خاکہ ‘ کے تحت آتے ہیں ۔
خاکہ یعنی کسی کی حیات و خدمات کو یوں لوگوں کے سامنے پیش کرنا کہ انہیں وہ شخصیت ، جس کی حیات و خدمات پیش کی جا رہی ہیں ، اپنی آنکھوں کے سامنے چلتی پھرتی ہوئی نظر آئے ۔
اس کتاب میں مولانا محترم نے ، دو جِلدوں میں ۱۱۱ شخصیات کے خاکے پیش کیے ہیں ۔ خاکوں کو ، دونوں ہی جِلدوں میں ، چار ابواب میں تقسیم کیا گیا ہے ۔ پہلی جِلد میں ابواب کی تقسیم اِن عنوانات کے تحت ہے ’ علماء و مشائخ ‘ ، ’ سیاسی ، سماجی و ادبی شخصیات ‘ ، ’ بھولے بِسرے لوگ ‘ اور ’ رشتہ دار ‘۔ دوسری جِلد میں ابواب کے عنوانات میں تھوڑا سا فرق ہے ، پہلا باب تو وہی ہے ’ علما و مشائخ ‘ لیکن دوسرے باب کا تبدیل شدہ عنوان ہے ’ شعراء ، ادباء ، سیاست داں اور صحافی حضرات ‘ ، تیسرے باب کا عنوان ہے ’ بھولے بِسرے لوگ ‘ اور چوتھا باب ہے ’ تم سلامت رہو ہزار برس ‘۔ دونوں ہی جِلدوں میں جن علماء و مشائخ کے خاکے ہیں اُن کی تعداد ۶۳ ہے ، ان میں مولانا ابوالمحاسن محمد سجّاد ؒ ، مولانا منت اللہ رحمانی ، قاضی مجاہد الاسلام قاسمی ؒ ، مولانا ابرارالحق ہردوئی ، مولانا فضیل احمد قاسمی ، مولانا سیّد عبداللہ حسنی ندوی ؒ اور مولانا سیّدنظام الدین ؒ اور دیگر اکابر علماء و مشائخ کے نام شامل ہیں ۔
ان اکابر علما پر لکھتے ہوئے مولانا محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نے کہیں بھی اپنے قلم کو بہکنے نہیں دیا ہے ، نہ ہی کسی کی تعریف حد سے بڑھ کر کی ہے ، اور نہ ہی کسی کے احترام کو ہاتھ سے جانے دیا ہے ۔ ایک مثال مولانا ابرار الحق ہردوئی ؒ کی ملاحظہ کریں : ’’ حضرت مولانا فطر تا نفاست پسند تھے ، یہ نفاست ، لباس ، وضع قطع ، چال ڈھال ہی میں نہیں مسجد ومدرسہ کی تعمیرات تک میں نظر آتی ہے ، وہ شعائر اسلام کو خوب صورت دیکھنا پسند کرتے تھے ، علماء کی قدردانی ان کی فطرت تھی ، ظاہری وضع قطع پر بھی خاصہ دھیان دیتے تھے ، اصول کی شدت کے ساتھ پابندی حضرت تھانوی ؒکے یہاں سے ورثہ میں ملی تھی ، پوری زندگی اسے برتتے رہے ، اصول کی پابندی میں جو سہولت ہوتی ہے ، اسے وہی لوگ سمجھ سکتے ہیں ، جنہوں نے اس کا مزہ چکھا ہے ، کچھ لوگ اس شدت پسندی پر لیت ولعل کیا کرتے ہیں ، لیکن جس نے اس کا مزہ ہی نہ چکھا ہو اس کی تعریف کیا ، تنقید کیا ؟‘‘اکابر کے اِن خاکوں میں ، ہندوستان کے ہر اس دور کی ، جس دور کے یہ اکابر تھے ، تاریخ بھی آ گئی ہےاور خراب حالات میں بزرگوں کا عمل بھی سامنے آ گیا ہے ۔ قاضی مجاہد الاسلام قاسمی ؒ کے خاکہ کی ایک مثال دیکھیں : ’’ ابھی ہم لوگ بہار پہنچ کر دَم بھی نہیں لینے پائے تھے کہ بابری مسجد کے انہدام کا وہ المناک واقعہ پیش آیا ، جس نے یہاں کے سیکولر دستور ، آئین کی بالا دستی ، اور جمہوریت پر سوالیہ نشان لگا دیا ، قاضی صاحب نے دہلی میں کیمپ کر لیا اور مسلمانوں کو صبر و ضبط ، نظم و استقامت اور جوش کے بجائے ہوش کا ایسا درس دیا جو پورے ملک میں محسوس کیا گیا ، ایک منفرد اور اچھوتی آواز ، اس موقع سے انھوں نے صبر پر استقامت کے لیے روزہ کی تجویز رکھی ، جس پر بڑی تعداد میں مسلمانوں نے عمل کیا ۔‘‘ مولانا منت اللہ رحمانیؒ کے خاکے میں مسلم پرسنل لا کی حفاظت کی تحریک کا ذکر کرتے ہوئے مولانا مرحوم کے یہ تاریخی جملے ، مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نے تحریر کر دیے ہیں ، شاید اب پھر اِن جملوں کو دوہرانے کا وقت قریب آ رہا ہے ، ملاحظہ کریں : ’’ میں اس کے لیے تیار ہوں کہ ہماری گردنیں اڑا دی جائیں ، ہمارے سینے چاک کر دیے جائیں ۔ مگر ہمیں یہ برداشت نہیں کہ ’ مسلم پرسنل لا ‘ کو بدل کر ایک ’ غیر اسلامی لا ‘ ہم پر لاد دی جائے ، ہم اس ملک میں باعزت قوم اور مسلم قوم کی حیثیت سے زندہ رہنا چاہتے ہیں ۔‘‘سیاسی شخصیات میں ابراہیم سلیمان سیٹھ ، کرنل محبوب احمد ، ایم شمیم جرنلسٹ ، اور اے پی
جے عبدالکلام جیسی شخصیات شامل ہیں مفتی صاحب نے صرف ایک جملے میں سلیمان سیٹھ کی شخصیت اور ملّت و قوم کے لیے ان کے جذبے کو نظروں کے سامنے لا دیا ہے ، وہ لکھتے ہیں ، ’’ ٹیپو کے مزار پر جب دعا کے لیے ہاتھ اٹھے تو ہم سب کی آنکھیں نم تھیں ، لیکن سیٹھ صاحب بلک بلک کر رو رہے تھے
۔ ‘‘ ڈاکٹر عبدالکلام کے بارے میں لکھتے ہیں ،’’ جب وہ خانقاہ رحمانی مونگیر پہنچے تو انہوں نے سورہ فاتحہ کی تلاوت فرمائی اور کہا کہ میری تعلیم بھی مدرسہ میں ہوئی ہے ، سائنس میں نے قرآن سے سیکھا ہے اور اس کتاب ِ مقدس نے میری زندگی پر گہرا اثر ڈالا ہے
۔ ‘‘ جِلد دوم کے باب چہارم میں ایک خاکہ مولانا سیّد ولی رحمانیؒ پر ہے ، یہ اس وقت لکھا گیا تھا جب مولانا حیات تھے ۔ لکھتے ہیں ’’ وہ ایک تحریکی مزاج آدمی ہیں اور جس کام کا بیڑہ اٹھا لیتے ہیں اسے پایۂ تکمیل تک پہنچاکر دَم لیتے ہیں ، استقلال ، استقامت ، عزم بالجزم اور ملّت کے مسائل کے لیے شب و روز متفکّر و سرگرداں رہنا حضرت مولانا کی خاص صفت ہے ، وہ ایک اصول پسند انسان ہیں اور دوسروں کو بھی اصول پسند ؛ بلکہ اصولوں پر عامل دیکھنا پسند کرتے ہیں ، مزاج میں سنجیدگی ہے ، لیکن موقع بموقع اپنی ظرافت سے مجلس کو زعفران زار بھی بنانا انہیں خوب آتا ہے
۔‘‘ ایک خاکہ مفتی صاحب نے اپنی والدہ پر لکھا ہے ’ ماں کے قدموں تلے ‘ یہ ایک شاندار بلکہ یادگار خاکہ ہے ، چند سطریں ملاحظہ کریں ، ’’ والدہ کبھی بھی کسی کو گھر سے باسی منھ بغیر ناشتہ کے نہیں جانے دیتی تھیں چاہے اسے رات کے تین بجے ہی کیوں نہ نکلنا ہو ، ۱۷، جون ۲۰۰۸ء کو قطر جانے سے قبل میں ان سے ملنے گیا تھا ، صبح کو اہلیہ میرا کپڑا صاف کرنے میں مشغول تھیں ۔ دفتر کے لیے نکلنے کا وقت ہو رہا تھا ، انہیں لگا کہ یہ بغیر ناشتہ کیے چلا جائے گا ، خود اٹھ کر انہوں نے آٹا گوندھا ، روٹی سبزی پکائی اور مجھے کھلا کر گھر سے نکلنے دیا ، یہ آخری کھانا تھا جو میں ان کے ہاتھ کا بنا ہوا کھا کر گھر سے نکلا تھا ۔ مجھے کیا پتہ تھا کہ اب میں ان کی صورت نہیں دیکھ سکوں گا۔‘‘پہلی جِلد کا ’ مقدمہ ‘ ’ ملّی اتحاد ‘ کے معاون مدیر صفی اختر نے تحریر کیا ہے ، وہ لکھتے ہیں ، ’’ ’ یادوں کے چراغ ‘ مجموعہ ٔ مضامین کا ایک ایسا گلدستہ ہے جس کی خوشبو سے دلوں میں تازگی اور دماغ میں فرحت انبساط کی تیز لہر دوڑتی ہے اوران خطوط پر اپنی زندگی سنوارنے کا جذبہ پیدا ہوتا ہے ، گہرائی سے مطالعہ کریں تو صاحب کتاب کی اپنی زندگی کا پَرتو بھی اس میں نظر آئے گا
۔‘‘ اس جِلد کے پیش لفظ میں مفتی صاحب نے ، اُن سے ، جن کے خاکے لکھے ہیں ، اپنی محبت کا اظہار اِن لفظوں میں کیا ہے
، ’’ یادوں کے اس چراغ کو جلانے کے لیے مجھے اپنا خونِ جگر جلانا پڑا ہے ۔ محبت کرنے والی اِن شخصیتوں کی یادوں نے مجھے بار بار رلایا ہے ۔ قلم اٹھایا اور رکھا ہے ۔ کئی کئی دن ہمّت جٹانے میں لگے ہیں تب یہ سطور لکھے جا سکے ہیں ۔‘‘ یہ جِلد ’ رحمانیہ ٹرسٹ اینڈ ویلفیئر ٹرسٹ ، گیاری ، دربھنگہ ‘ سے شائع ہوئی ہے ، اس کے صفحات دو سو ہیں اور قیمت ایک سو روپیہ ہے ۔دوسری جِلد میں مولانا محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نے ’ ابتدائیہ ‘ میں بہت صحیح لکھا ہے کہ ’’ خاکے چاہے زندوں کے ہوں یا مُردوں کے ، احوال و آثار جس کے بھی ذکر کیے جائیں ، اس کا مقصد محض ان کے احوال و کوائف کا جاننا نہیں ہوتا ؛ بلکہ یک گونہ ان کے حالات پڑھ کر اپنی زندگی کو صحیح رخ اور صالح سمت میں ڈالنا ہوتا ہے ۔‘‘ یہ خاکے ہم سب کی ، اپنی زندگیوں کو صحیح رخ پر ڈالنے میں ، رہنمائی کرتے ہیں ۔
مفتی صاحب کی نثر کے بارے میں کتاب کے سرورق کے فلیپ پر معروف فکشن نگار شفیع مشہدی نے اپنے خیالات کا اظہار اِن لفظوں میں کیا ہے ، ’’ تحریر میں شگفتگی کے ساتھ ساتھ اخلاص کی خوشبو بھی موجود ہے اور پڑھتے ہوئے ایسا لگتا ہے کہ وہ شخصیت آپ کے سامنے ہے ، یہ اعلیٰ نثر نگاری کا معجزہ ہے ۔‘‘ دوسری جِلد ’ ارم پبلشنگ ہاؤس ، دریا پور پٹنہ ‘ سے شائع ہوئی ہے ،اس کے صفحات ۲۸۸ ہیں اور قیمت چار سو روپیہ ہے ۔
یہ دونوں کتابیں مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی سے رابطہ کرکے منگوائی جا سکتی ہیں ۔ رابطے کا نمبر کسی کتاب میں نہیں دیا گیا ہے ۔