یوم اساتذہ پر چند باتیں
یوم اساتذہ پر چند باتیں
خلیل فیضانی
اپنے استاذ کا ادب اخلاص سے بھرپور ہونا چاہیے ۔بوقت حاضری دست بستہ ہوجانے اور دست بوسی کی رسم ادا کرلینے کرلینے کومیں ایک رسم کے سوا کچھ نہیں سمجھتا ۔
اصل ادب غیبت وحضوری کی قیودات سے ماورا ہوتا ہے ۔
بہترین ادب وہ ہے جس میں آپ کے جذبات اپنے اساتذہ تیئں نہایت مخلصانہ اور عقیدمندانہ ہو اور دل بھی اس کی موافقت کرے۔
اپنے اساتذہ کرام سے وارفتگی کی حد تک عقیدت ہونی چاہیے ۔اور جو اس مقام تک جاکر عقیدت کے رنگ دکھاتے ہیں سوز وگداز کی لازوال سعادتیں بھی انھیں کے مقدر کا حصہ بنتی ہیں ۔
آج کے دور انحطاط کا دکھ یہ بھی ہے کہ طلبہ جب تک مدرسے کی حدود اربعہ میں محصور رہتے ہیں تب تک اپنے اساتذہ تیئں ایک حد تک ان کے جذبات ٹھیک ہی رہتے ہیں
مگر بعد فراغت ان کی عقیدتوں کی مینابازاری سکڑ کر واجبی سی رہ جاتی ہے اور تعلقات کی بنیاد میں جابجا دراڑیں در آتی ہیں۔الا ماشاء اللہ ۔
سعادت مند شاگرد بعد فراغت بھی اپنے اساتذہ کے راہ کی غبار بن کررہتے ہیں اور مبداء فیض کی بارگاہ میں تضرع اوردرد دل کے ساتھ ہمیشہ ان کے لیے دعاگو رہتے ہیں ۔تحدیث نعمت کے طور پر لکھ رہا ہوں کہ بفضلہ تعالی راقم الحروف کا یہ پچھلے کئی سالوں سے یہ معمول رہا ہے کہ ہر نماز کے بعد بطور خاص اپنے اساتذہ کرام کے لیے ضرور دعا کرتا ہوں۔
ہر شاگرد اپنی دعاؤں میں اپنے اساتذہ کرام کو ضرور یاد رکھیں ۔
رب کریم کی بارگاہ میں قلبی اعمال کی نہایت زیادہ وقعت و اہمیت ہے۔اس کی بارگاہ میں بندے کا اخلاص دیکھا جاتا ہے،جس کے اندر اخلاص کی دولت جس قدر ہوگی اس کے اعمال بھی اسی قدرمقبول بارگاہ ہوں گے۔
“استاذ کا ادب” اس موضوع پر یہ جملہ بیت الغزل کی حیثیت رکھتا ہے کہ “استاذ روحانی باپ ہوتا ہے”سو اس معنی کر اس کے مراتب کا پاس اپنے حقیقی اور جسمانی باپ سے بھی زیادہ ہونا چاہیے ۔
مگر اس روحانی باپ کے ساتھ ہمارے عملی اور قلبی مراسم کس نوعیت کے ہیں اس کا تجزیہ کرنے سے بھی ہمیں اغماض نہیں برتنا چاہیے۔
تو آج کے اس مبارک دن”یوم اساتذہ”میں اپنا تجزیہ کریں اور اس چیز کا محاسبہ بطور خاص کریں کہ اپنے اساتذہ تیئں میرے دل کے جذبات کیا ہیں اور کیا ہونے چاہیے ؟
ان کے ساتھ میرے تعلقات کی نوعیت کس طرح کی ہے ؟
کیا ان کے ساتھ میرے روحانی تعلقات استوار ہیں یا یوں ہی رسمی سے مراسم ہیں ؟۔