خطۂ روہیل کھنڈ کی ممتاز وروحانی شخصیت حضرت سیدنا فیض بخش شاہ
خطئہ روہیل کھنڈکی ممتاز وروحانی شخصیت حضرت سیدنا فیض بخش شاہ درگاہی محبوب الٰہی
مکرمی!
اللہ رب العزت اپنے مقرب ومحبوب بندے اولیاے کاملین کا ذکرفرماتے ہوئے اپنی مقدس کتاب قرآن عظیم میں ارشاد فرماتا ہے’’بے شک وہ( لوگ)جنہوں نے کہا کہ ہمارا رب اللہ ہے پھر اس پر قائم رہے ،ان پر فرشتے اتر تے ہیں ،کہ نہ ڈرواور نہ غم کرو اورخوش رہو اس جنت پر جس کا تمہیں وعدہ دیا جاتا ہے‘‘(قرآن)۔
اللہ رب العزت نے اپنے بندوں کی ہدایت و رہ نمائی کے لیے انبیاے کرام ومرسلین عظام کو جلوہ گر فرمایا اور سب نے اپنے اپنے دور میں اللہ کے بندوں کی ہدایت ورہ نمائی کا فریضہ بخوبی انجام دیا ۔ہمارے آخری بنی حضور صلی اللہ علیہ وسلم پر نبوت کا سلسلہ ختم ہوگیا۔
اب قیامت تک کوئی نبی نہیں آسکتا ۔اس ہدایت ورہبری کے سلسلے کو جاری رکھنے کے لیے اولیاے کرام بھیجے گئے تاکہ قیامت تک یہ سلسلہ ان کے ذریعہ جاری رہے۔
اللہ کے وہ خاص بندے جو اس کی ذات وصفات کی معرفت رکھتے ہیں اور اپنے رب کی عبادت وریاضت میں لگے رہتے ہیں ان کو اللہ رب العزت اپنا قرب خاص عطا فرماتا ہے ان ہی نیک بندں کو اولیاے کاملین کہتے ہیں
ان خوش نصیب بندوں کو نہ کسی قسم کا خوف ہوتا اور نہ غم ان مقبولان بارگاہ سے عجیب وغریب کرامتیں ظاہر ہوتی ہیں اور یہ کرامتیں درحقیقت انبیاے کرام کے معجزات کی جھلک ہوا کرتی ہیں۔یہ اولیاء کاملین اللہ کے محبوب بندے و مقربان بارگاہ ہوا کرتے ہیں اللہ تعالیٰ کو ذرہ برابر یہ گوارہ نہیں کہ کوئی ان کی شان میں گستاخی کرے۔
ان اولیاے صالحین کی تعریف و شان کوبیان کرتے ہوئے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جو میرے کسی ولی سے دشمنی رکھے تو اس کے ساتھ میرا اعلان جنگ ہے
اور بندہ جن چیزوں کے ذریعہ میرا قرب حاصل کرتا ہے ان میں سے سب سے زیادہ محبوب چیز وہ ہے کہ جو میں نے اس پر لازم کی ہے اور میرا بندہ فرائض و واجبات کے علاوہ بھی نوافل کی کثرت سے میرا قرب حاصل کرتا رہتا ہے یہاں تک کہ وہ میرا محبوب بندہ بن جاتا ہے اور جب میں اس سے محبت کرتا ہوں تو اس کے کان ہوجاتا ہوں جن کے ذریعہ وہ سنتا ہے (یعنی اللہ کا ولی اللہ کے حکم کے خلاف نہیں سنتا ہے) اور میں اس کی آنکھ ہو جاتا ہوں کہ جس سے وہ دیکھتا ہے(اللہ کا ولی وہی دیکھتا ہے جو اس کا رب چاہتا ہے) اور میں اس کے ہاتھ ہو جاتا ہوں جن کے ذریعہ وہ پکڑتا ہے (اللہ کے ولی کے ہاتھ ظلم وگناہ میں مبتلا نہیں ہوتے)اور میں اس کے قدم ہوجاتا ہوں جن کے ذریعہ وہ چلتا ہے(اللہ کے ولی کے قدم برائی کی طرف نہیں اٹھتے)اور اگر وہ مجھ سے کسی چیز کے بارے میں سوال کرتا ہے تو میں اسے ضرور عطا کرتا ہوں اور اگر وہ مجھ سے پناہ طلب کرتا ہے تومیں اسے پناہ بھی عطا فرماتا ہوں۔( صحیح بخاری)۔
حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جب میرا بندہ ایک بالشت میری طرف کو بڑھتا ہے تو میں ایک ہاتھ اس کی طرف کو بڑھتا ہوں،اگر وہ ایک ہاتھ میری طرف کو بڑھتا ہے تو میں دو ہاتھ اس کی طرف کو بڑھتا ہوں،اور جب وہ دو ہاتھ میری طرف بڑھتا ہے تو میں تیزی سے اس کی طرف بڑھتا ہوں۔(مسلم شریف)۔
اولیاے کرام کے مقام کو ظاہر کرتے ہوئے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب اللہ اپنے کسی بندے سے محبت کرتا ہے تو جبریل علیہ السلام کو بلاتا ہے اور ان سے فرماتا ہے کہ میں فلاں (بندے)سے محبت کرتا ہوں تم بھی اس سے محبت کرو،حضور نے فرمایا جبریل بھی اس سے محبت کرنے لگتے ہیں۔
پھرجبریل علیہ السلام آسمان پر ندا کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ فلاں(بندے)سے محبت فرماتا ہے پس تم بھی اس سے محبت کروپھر آسمان والے بھی اس سے محبت کرتے ہیں،پھر اس بندے کی (محبت و مقبولیت) زمین پر رہنے والوں کے دلوں میں ڈال دی جاتی ہے۔اور جب اللہ تعالیٰ کسی بندے کو (اس کی نافرمانی کی وجہ سے) ناپسند فرماتا ہے تو جبریل کو بلاکر فرماتا ہے میں فلاں شخص کو ناپسند کرتا ہوں تم بھی اسے ناپسند کروپھر جبریل علیہ السلام بھی اسے پسند نہیں کرتے ہیں
پھر وہ آسمان والوں میں ندا کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ فلاں بندے کو پسند نہیں فرماتا ہے تم بھی اسے پسند نہیں کروپھر وہ بھی ا سے پسند نہیں کرتے ہیں،پھر اس بندے کیلئے زمین والوں کے درمیان بھی نفرت رکھ دی جاتی ہے۔(مسلم شریف)۔
الغرض اللہ رب العزت کے دربار عالی میں پہنچنے کے دو طریقے ہیں ایک’’جذب‘‘ اور دوسرے’’سلوک‘‘۔جذب اس حالت کو کہتے ہیں کہ جس میں اللہ تعالیٰ اپنے خاص فضل وکرم سے بہت ہی جلد بغیر عبادت و ریاضت اور مجاہدے کے اپنے بندے کو اپنی طرف کھینچ لیتا ہے۔
ایسی ہستی کومجذوب،محبوب،مخلَص،مُراد کہتے ہیں۔جذب کی حالت میں ہوش وہواس باقی نہیں رہتے اور آدمی پر ایسی کیفیت و حال طاری ہوجاتا ہے کہ وہ دیکھنے میں دیوانہ معلوم ہوتا ہے جبکہ ایسا نہیں ہوتا۔اس جذب کی حالت میں مجذوب شریعت مطہرہ کا بھی مکلف نہیں رہتاکیونکہ شریعت کا مکلف ہونے کے لیے ہوش وحواس کی ضرورت ہونی چاہئے۔اس حال والے فقیر،صوفی،درویش کو ’’مجذوب‘‘ کہتے ہیں۔
دوسرے طریقہ سلوک میں انسان کو آہستہ آہستہ ترقی وعروج اور بلند مقام حاصل ہوتا ہے۔ایسے بندے کو مخلِص،عاشق،اور مُرید کہتے ہیں۔یہ بندہ اپنے ہوش و حواس میں رہتا ہے اور شریعت کا بھی مکلف ہوتا ہے۔ایسے فقیر،درویش،صوفی کو ’’سالک ‘‘ کہتے ہیں ۔ کچھ بندے اللہ کے ایسے ہوتے ہیں کہ ان پر اس کی خاص عنایات ہوتی ہیں اور ان کو جذب و سلوک دونوں منزلوں سے گزارتا ہے۔
اگر مرشد معظم شیخ کامل کی دربار الٰہی میں اعلیٰ درجہ کی رسائی ہے تو ایسا شیخ کامل اپنے مرید کی جذ ب کے ذریعہ بہت جلد دربار الٰہی تک رسائی کرادیتا ہے،اور یہ دربار الٰہی تک رسائی جذبی کہلاتی ہے۔خدا رسیدہ ہونے کے بعد مرشد کامل جذبی کیفیت سے نکال کر اسے میدان سلوک کی طرف لگا دیتا ہے۔ میدان سلوک میں سالک آہستہ آہستہ اعلیٰ منازل طے کرتا رہتا ہے۔
اس مرتبہ ومقام والے صوفی کی اہمیت ومقام کا ذکر کرتے ہوئے خالق کائنات اپنی کتاب عظیم قرآن کریم میں ارشاد فرماتا ہے۔اللہ یجتبی الیہ من یشاء ویہد ی الیہ من ینیب’’اللہ چن لیتا ہے اپنی بارگاہ کے لیے جس کو چاہتا ہے اور ہدایت دیتا ہے اپنی بار گاہ کی اُس کو جو جھکتاہے‘‘۔
حضرت امام ربانی مجدد الف ثانی رحمتہ اللہ علیہ نے اپنے مکاتیب میں تحریر فرمایا کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سرور کونین حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے جب بیعت کرتے تو نگاہ مصطفی سے آنے واحد میں خدا رسیدہ ہوجایا کرتے تھے اور یہ خدا رسیدگی ان کی جذبی ہوتی تھی پھرحضور صلی اللہ علیہ وسلم ان کو میدان سلوک کی راہیں طے کرانے کیلئے عبادات،ریاضات اور مجاہدات کراتے تھے اور ان اعمال کی تلقین بھی فرمایا کرتے تھے اور حضرات صحابہ جذب و سلوک کا پیکر ہوجاتے تھے۔(از۔۔فیوضات وزیریہ)۔
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا نمونہ گزری ہے ایک ہستی گرامی خطہ روہیل کھنڈ کے سردار ہم شبیہ غوث اعظم حضرت سیدناومولانا فیض بخش عالمیاں شاہ درگاہی محبوب الٰہیؒ جو جذب اور سلوک دونوں کا مکمل پیکر تھے آپ کے جذب کا یہ حال تھا کہ ہروقت وحدت الٰہی کا جام پیئے ہو ئے اس دنیائے فانی سے لا تعلق رہتے تھے اگر عبادت الٰہی کا وقت آتا تو سلوک کی طرف آجاتے اور اپنے رب کی عبادت کے بعد پھر حالت جذ ب میں داخل ہوجاتے۔
آپ کا اسم مبارک فیض بخش شاہ درگاہی محبوب الٰہی ہے قطب زماں اور غوث الوریٰ آپ کے القاب ہیں۔آپ کی پیدائش لاہور (پاکستان )دریائے چناب کے کنارے ایک قصبہ جو بہلول پور کے نام سے مشہور ہےاس قصبہ میں ایک خدا رسیدہ بزرگ رہا کرتے تھے جن کااسم گرامی میاں لال شاہ رحمتہ اللہ علیہ تھا ان کے یہاں 1160ھ میں ہوئی۔
آپ کے آباٶ اجداد میں ساتویں پشت تک ہر ایک خدا رسیدہ گزر ے تھے۔اور آپ کے والد محترم بھی صاحب کشف وکرامات ہونے کی وجہ سے بہلول پور کے علاوہ دوسرے اضلاع میں بھی بہت مشہورتھےاس لیے آپ بھی مادر زاد ولی پیدا ہوئے۔اور آپ کے آباٶ اجداد کا تعلق حضرت علی رضی اللہ عنہ کے صاحبزادے محمدبن حنفیہ رضی اللہ عنہ کی اولاد سے تھا۔
اس لیے آپ ’’علوی ‘‘کہلاتے ہیں ۔حضرت سیدنا شاہ درگاہی محبوب الٰہیؒ بچپن سے ہی لوگوں سے زیادہ ملاقاتیں کرنا اور ان کے پاس زیادہ اٹھنے بیٹھنے کو پسند نہیں فرماتے تھے کیوں کہ آپ بچپن سے ہی جذبہ عشق خداوندی سے سرشار تھے۔اور آپ کو مقام محبوبیت اللہ نے بچپن میں ہی عطا فرمادیا تھا۔اور آپ کے والد محترم بھی آپ سے بچپن سے ہی بہت زیادہ پیار ومحبت اور شفقت فرمایا کرتے تھے۔
آپ کے والد محترم کبھی عبادت وریاضت کی غرض سے جنگل کی طرف نکل جاتے اورتنہائی میں اپنے رب کو یاد کرتے اورجنگل سے واپسی میں کبھی کچھ لکڑیاں جمع کرکے لاتے اور ان کو فروخت کرکے گزارہ کیا کرتے تھے۔ایک روز جب آپ کے والد محترم جنگل سے لکڑیاں لا رہے تھے تو ایک سکھ نے آپ کے والد محترم کو شہید (قتل) کردیا اور آپ کے سر سے والد محترم کا سایہ اٹھ گیا توآپ اپنے پیدائشی قصبہ کو چھوڑ کرلاہور کے اطراف میں ایک قصبہ بٹالہ ہے اس میں قیام پذیر ہوئے ۔
اور وہاں ایک بزرگ سیدصاحب رہا کرتے تھے وہ آپ کی پرورش فرمانے لگے،اور ان بزرگ نے اپنی بیٹی کے ساتھ آپ کا نکاح کرنا چاہا لیکن آپ نے اس نکاح کو قبول نہیں کیا۔اسی دوران پنجاب میں مرہٹوں کا ایک لشکر رہا کرتا تھا وہ لشکر پنجاب سے صوبہ کٹھیرکی طرف آنے لگا آپ کو بھی سیرو تفریح کا شوق تھا آپ بھی اس لشکر میں شامل ہوگئے۔
آپ فرماتے ہیں کہ اس لشکر میں ایک انسان بہت نیک تھا اس نے مجھے تنہا پاکر اپنی سواری پر سوار کر لیا اور وہ مجھ سے ایک باپ کی طرح شفقت سے پیش آیا،جب آپ دریائے گنگاکے پاس پہنچے تو آپ کو یہاں مقام بلہت نامی جگہ بہت پسند آئی،اور آپ نے یہیں اپنا قیام کر لیا۔آپ فرماتے ہیں کہ وہ نیک انسان بھی صاحب کرامات بزرگ تھے جب انہوں نے آپ(حضرت شاہ درگاہی محبوب الٰہی) کو جذبہ عشق الٰہی سے پُر دیکھا تو وہ آپ کی خدمت میں مشغول ہوگئے۔
آپ فرماتے ہیں کہ پھر میں سلسلہ مداریہ کے ایک بزرگ کے ساتھ رہنے لگااور وہ مداری بزرگ بھی عارف با اللہ تھے ان کی صحبت سے بہت سے روحانی فائدے حاصل ہوئے۔اسی مقام پر ایک سید صاحب کی شاگردی اختیار کرکے ان سے قرآن عظیم کی مکمل تعلیم حاصل کی۔لیکن آپ کسی ایسی ہستی گرامی کی تلاش میں رہتے تھے کہ جس کی صحبت بابرکت اور بیعت سے آپ کو قلبی سکون واطمنان حاصل ہو جائے ۔
حالاں کہ آپ کسی سے بیعت ہونے سے پہلے بھی معرفت الٰہی میں مستغرق رہتے اور ساتھ ہی انوار وتجلیات الٰہی سے بھی برابرمستفیض ہوتے رہتے تھے۔مگر آپ کو قلبی سکون اور سلوک کی اعلیٰ منازل طے کرنے کیلئے ایک شیخ کامل کی ضرورت تھی اللہ نے آپ کی یہ دعا قبول کی اور خوبی قسمت سے حضرت سیدنا سلطان الاولیا حافظ شاہ جمال اللہ صاحب مشیت الٰہی سے سیروتفریح و شکار کی غرض سے آپ کے رہائشی مقام کی طرف تشریف لے گئے اور حضرت حافظ صاحبؒ نے حضرت شاہ بدرالدین کے مزار مبارک پر قیام فرمایا۔
حضرت شاہ درگاہی صاحب فرماتے ہیں کہ میں اور میرے ساتھ ایک فقیر (درویش)دونوں حضرت حافظ صاحبؒ کی خدمت میں بیعت ہونے کے لیے حاضر ہوئے،حضرت شاہ درگاہی صاحبؒ فرماتے ہیں کہ سب سے پہلے میں بیعت ہونے کے لیے آپ کے قریب ہوااور جیسے ہی میری نظر آپ کے پُرنورچہرے پر پڑی ایک دم دل سے آواز نکلی کہ اےفیض بخش! جس ولی کامل اور شیخ معظم کی تجھے تلاش تھی تیرے رب نے تجھے وہ ہستی گرامی عطا فرمادی۔
حضرت شاہ درگاہی صاحب فرماتے ہیں کہ جب حضرت حاٖفظ صاحب میری دستگیری فرمانے اورقلبی سکون و سلوک کی اعلیٰ منازل طے کرانے کیلئے میرے دل کی طرف متوجہ ہوئے توپہلی توجہ کا میرے اُپرکوئی اثر نہیں ہوا،پھر آپ نے دوسری توجہ میرے اُپر ڈالتے وقت اپنا چہرئہ مبارک جو عین جمال اللہ تھامیرے دل کے قریب لاکر ایک ایسا زور دار نعرہ بلند کیا کہ میں ہوش سے بیہوش ہوگیا۔
جب میں ہوش میں آیا اورمیں نے اپنے مقام کی طرف روانا ہونا چاہا تومجھے کچھ خبر نہ تھی کیونکہ میں جذ بی حالت میں پہنچ چکا تھا بس مجھے اتنی خبر تھی کہ شیخ معظم قطب الاقطاب حضرت حافظ صاحب کی زبان مبارک سے میرے بلند مقام ومرتبہ کے لیے یہ جملہ نکلا کہ’’ اے فقیر !تجھے بہت اونچی پرواز نصیب ہوگی‘‘یعنی شیخ معظم کی مراد یہ تھی کہ تم ہمیشہ جذب کی حالت میں رہو گے۔
چناں چہ پندرہ سال میں نے اسی حالت میں گزار دٸے اور میں اپنے اعمال و افعال سے بے خبر رہا، مگر اتنی خبر مجھے ضرور رہی کہ اگر میرے جسم کا ایک بال بھی ٹیڑھا ہوجاتاتو تحت الثریٰ سے عرش معلیٰ تک سب خم ہوجاتے۔
اورآپ اسی حالت میں جنگل کی طرف نکل جاتے اور کبھی ایسا بھی دیکھا گیا کہ آپ اس جذبی حالت میں اپنے پیٹ کی آنتیں نکالتے اور ان کو پانی سے صاف کرتے اور پھر انکو اپنی جگہ پہنچا دیتے۔اور کبھی یہ بھی دیکھا گیا کہ اگر آپ کی جذ بی حالت میں سامنے کوئی پیڑ آتا تو آپ اس کے اپر سے پرواز کر جاتے۔ مگر شاہ درگاہی صاحبؒ فرماتے ہیں کہ اس جذبی حالت میں بھی مجھ پر اللہ کا یہ خاص فضل وکرم رہا کہ فرض نمازوں میں سے کبھی کوئی نماز قضا نہیں ہوئی،جب کسی نماز کا وقت ہوتا توغیب سے میرے کان میں آواز آتی کہ نماز کا وقت ہوگیا اور میں ہوش میں آتا اورجماعت کے ساتھ نماز ادا کرتا اور نماز کے بعد فوراً پھر میں حالت جذ ب میں چلا جاتا یہاں تک کہ کبھی کوئی نماز میری قضا نہیں ہوئی میں ہر نماز باجماعت ادا کرتاتھا۔
اور آپ فرماتے ہیں کہ یہ جو مقام اللہ نے مجھے عطافرمایا شاید ہی اس مقام تک کوئی پہنچا ہو۔اس منزل سے گزرنے کیلئے میرے اُپراللہ کی فتح ونصرت سے میرے شیخ کامل وشیخ معظم کی مجھ پر خاص نظر کرم رہی۔اور اس واقعہ کی تفصیل اس طرح بھی سنی گئی کہ جن لوگوں نے حضرت کی جذ ب کی حالت کو دیکھا تھایعنی جب حضرت کو اٹھارہ سال جذ ب کی حالت میں گزر گئے اسی وادئی مقدس (بلہت) میں کھانے پینے اور سونے سے حضرت کا کوئی واسطہ نہ رہا
انسانوں سے آپ دور رہناپسندکرتے ،آپ کی غذا درخت کے پتے بن گئے اور آپ سخت بیہوشی کی حالت میں رہنے لگے اتفاقاًقطب ارشاد میرا محی الدین حضرت حاٖفظ شاہ جمال اللہ صاحبؒ کا آپ کی طرف سیروشکار کی غرض سے گزر ہوا اور حضرت حافظ صاحب نے قواعد خاں نامی نیک انسان کے پاس قیام فرمایا ۔
قواعد خاں کا شتربان (اونٹ ہانکنے والا) جنگل میں لکڑیاں لانے کیلئے جاتاتو جناب افضل المجاذیب(حضرت شاہ درگاہی صاحب) کوبیہوش و بیتاب دیکھ کراس کو آپ کی حالت پر بہت رحم آتا اورخالق کائنات کی وحدت کا جام پئے ہو ئے اس ولئی کامل کے نزدیک نہیں جاتا اس لیے کہ حضرت کی حالت کو دیکھ کر اس پر دہشت غالب آگئی تھی
بہر حال اسی طرح کچھ عرصہ گزرا تو وہ سمجھ گیا کہ یہ ضرور کوئی ایسا فقیر(درویش )ہے کہ جس کی مثال ملنا مشکل ہے اور حضرت کی عقیدت ومحبت نے اس کے دل میں جگہ بنالی اسی طرح جب وہ حضرت کے قریب آتا جاتا رہا تو اس کے دل میں حضرت کی محبت پہلے سے اور زیادہ مضبوط ہوگئی یہاں تک کہ وہ اس کوشش میں رہنے لگا کہ کسی بھی طرح اس کی رسائی حضرت محبوب الٰہی تک ہوجائے اور اس کو خدمت کرنے کا حضرت کی شرف بھی حاصل ہوجائے ۔
چناں چہ جب اس شتربان کو حضرت کے شیخ کامل قطب زماں حضرت حافظ صاحب کے آنے کی خبر ملی تو حضرت کی خدمت میں حاضر ہوا اور اس قطب مجاذیب کی حقیقت(شاہ درگاہی صابؒ) کی بیخودی وبیخوابی اور کیفیت مضطری و بیتابی اس طرح بیان کی کہ سب سن نے والے مضطرب و بے قرار ہوگئے آپ کی حالت کو سن نے والے اس گروہ حق شناس میں سے بعض افرادنے حضرت حافظ صاحب سے عرض کی کہ اس بادیہ پیمائے فناو بقاء پر ایسی نگاہ کرم فرمائیں کہ جذب سے ہوش کی حالت نصیب ہوساتھ ہی سلوک غالب اور ہوش کا غلبہ ہو۔
چناں چہ حضرت حافظ صاحبؒ نے لوگوں کی اس التجاء کو قبول فرمایا اور ایک روایت یہ بھی ملتی ہے کہ ایک دن حضرت حافظ صاحب سیر وشکار کی غرض سے اس وادی کی طرف تشریف لے گئے اور موسیٰ صفت (حضرت شاہ درگاہی صاحب)نظر کے سامنے آگئے اور جیسے ہی حضرت کی نگاہ کرم فیض بخش شاہ درگاہی صاحب پر پڑی توحضرت جذ ب کی بیہوشی سے ہوش کی طرف آنے لگے اور وہ سار بان (اونٹ ہانکنے والا)اپنی مراد کو پہنچ گیااور جب رات کا وقت ہوتا تو وہ خورشید لامکاں (حضرت شاہ درگاہی صاحب جن کے مقاکو کوئی پہچان نہ سکا)سار بان کے مکان کی طرف روانہ ہوتے اور اس کے یہاں رات گزار کر صبح کو خورشید تاباں (چمکتے ہوئے سورج کی طرح )اسی وادی قدس میں پہنچ جاتے اور نفس کشی و ریاضت میں مشغول ہوجاتے
پیڑ کے پتوں کو مَل کر اپنی خوراک بناتے ایک عرصہ دراز تک یہی ہوتا رہااوراسی کے ساتھ دن بدن حضرت کا جذب بھی کم ہوتا رہا تو لوگوں نے بھی آپ کے قریب آنا شروع کر دیا ۔اس کے بعد آپ صحراء(جنگل)سے نکل کر آبادی میں لوگوں کے درمیان جلوہ افراوز ہوتے اور خلق خدا آپ سے مستفیض ہوتی،مگراس درمیان آپ کی نظراگرکسی حسین ومہوش پر پڑتی تو اس پر بھی کیفیت طاری ہوجاتی اور اس کے متعلقین یہ سمجھتے کہ یہ کوئی جادوئی اثر ہے اور حضرت کے متعلق غلط گمان (جادوگری کا)قائم کرتے اور حضرت اُسی صحراء (جنگل )کی طرف جو ماوا وملجا تھا بحکم الٰہی ففرواالی اللہ متوجہ ہوجاتے ۔ مگرجب اللہ رب العزت کا یہ محبوب ولی کامل جآء الحق وزھق الباطل کامصداق بن کرسامنے آتا تو اہل تکذیب اپنی غلط گمانیوں (بہتان جادو گری)سے تائب ہوکرالقی السحرۃ ساجد ین کا مصداق ہو کر آپ کے غلاموں میں شامل ہوجاتے
اسی طرح ہزار ہا اللہ کے بندوں کو آپ کی ذات بابرکت سے ذات مصطفٰی تک رسائی نصیب ہوئی اور وہ بھی اپنے وقت کے کامل بنے۔اس کے بعد آپ سب سے پہلے جو مقام ککرالہ اسی صحراء کے قریب ہے اس میں تشریف لائے، اور اسی کے قریب ایک جگہ راج گڑھ کے نام سے مشہور ہے اس میں ایک ہندو جوگی رہا کرتا تھااور یہ سخت سردی کے موسم میں ٹھنڈے پانی کی لہروں پر رات گزار تا تھا،اور گرمی کے موسم میں آگ کے شعلوں کے درمیان بیٹھ کر وقت گزار تا تھا
اس احتساب نفس کی وجہ سے اس کی عمر تین سوسال کی ہوچکی تھی اور وہ ہمیشہ آبادی سے دور تنہائی میں رہ کر زندگی بسر کرتا تھا۔ایک روز قطب دوراں ولایت کے آفتاب وماہتاب ملت اسلامیہ کے غم خوارحضرت فیض بخش عالمیاں شاہ درگاہی محبوب الٰہیؒ اپنی عادت کے مطابق جنگل کی طرف تشریف لے جا رہے تھے اور اس جوگی کی جھونپڑی کی طرف سے حضرت محبوب الٰہی کا گزر ہوا تو دیکھا کہ اس کے چیلے اس کے پاس جمع ہیں اور ہندو رواج کے مطابق بھجن گایا جا رہا تھا یہ سارا حال دیکھ کر وحدانیت کے سمندر میں غوطے لگا رہے حضرت محبوب الٰہی کی ذات بابرکت ایک دم وحدانیت کے جوش میں آگئی اور آپ کی جذب و استغراق کی کیفیت ختم ہوگئی،جوگی کی آگ روشن تھی شدید گرمی کا موسم تھا اللہ کے اس ولی کامل نے آگ میں اپنا سر مبارک رکھ دیا اور جوگی نمرود کی طرح دہکائی ہوئی آگ کو دیکھ رہا تھا جیسے ہی حضرت نے اپنا سرمبارک آگ میں رکھا آگ گل گلزار بن گئی خورشید تاباں و خلیل یزداں محبوب الٰہی کی اس کرامت کو دیکھ کر جوگی حیران وششدر رہ گیا اور آپ کے ذریعہ رشدوہدایت کی طلب کرنے لگا۔
بہر حال حضرت محبوب الٰہی نے اس کو اپنے دست مبارک پر مشرف باسلام ہونے کی توفیق بخشی اور وہ جوگی بھی اپنے وقت کا ولی کامل بنا۔
اس واقعہ کے بعد حضرت قصبہ آنولہ تشریف لے گئے اور وہاں قوم افغان میں شامل ہوکرخطہ روہیل کھنڈ کے شہر مصطفی آباد (رامپور) کو اپنے اسرار خفی وانوار جلی کا دائمی مرکز بنایااور یہاں تک کہ اپنا قالب عنصری و جسم ظاہری بھی اسی خاک پاک کو عطا فرمایا یہی وجہ ہے کہ جب سے حضرت محبوب الٰہی نے اس سرزمین رام پور کو اپنا دائمی مسکن بنایا ہے
جب سے یہاں دین متین کی چاروں طرف فراوانی ہے اور نہ جانے کتنے فتنے وفسادات سے یہ شہر آج بھی الحمد للہ محفوظ ہے اور محبوب الٰہی کے اس شہر کا ہر انسان پر سکون زندگی گزار رہا ہے اور اللہ اپنے اس ولی کامل کے صدقہ و طفیل اپنی بے شمار رحمتیں وبرکتیں اس شہر رامپور پر برسارہا ہے اللہ رب العزت اپنی عنایات کا یہ سلسلہ تاقیامت جاری رکھے۔(آمین)
مجاہد انقلاب حضرت مفتی عنایت احمد کاکوروی علیہ الرحمہ
معزز علماے اہل سنت سے مودبانہ گزارش
مجاہد آزادی علامہ فضل حق خیر آبادی
جنگ آزادی 1857ء کا روشن باب : قائد انقلاب علامہ فضل حق خیرآبادی
جنگ آزادی میں علماے کرام کی سرگرمیاں
جنگ آزادی میں مسلمانوں کی حصہ داری
اللہ نے آپ کو بہت سے فضائل بھی عطا فرمائے تھے ۔
پہلی فضیلت آپ کی یہ ہے کہ آپ کبھی بھی خود سے کشف وکرامت کا اظہار نہیں فرماتے تھے باوجود قدرت ہونے کے ہاں اگر کوئی آپ کا امتحان لیتا تو پھر آپ کرامت ظاہر فرمادیاکرتے تھے۔اسی طرح کبھی کسی کو خود سے بیعت نہیں کرتے جب تک کہ طالب بیعت خود سے اظہار نہ کر دیتا بیعت ہونے کا
چناں چہ آپ کے خادم یقین شاہ کا بیان ہے کہ ایک مرتبہ دوشخص آپ کی خدمت میں بیعت ہونے کے لیے حاضر ہوئے ان میں سے ایک یئومنون بالغیب کا نمونہ بن کر آیاتھا آپ نے اس کو فوراً بیعت فرمالیا،اور دوسرا شخص ابو جہل کی سی نیت لے کر حاضر ہوا تھا کہ آپ نے اگرکسی کرامت کو ظاہر فرمایا تو میں آپ سے بیعت ہو جاٶنگا ورنہ نہیں،اس نے آپ سے عرض کی کہ اس وقت آم کا موسم نہیں ہے آپ مجھے بے موسم دو یاتین آم عنایت فرمادیں میں آپ کے سلسلہ میں داخل ہوجائوں گا۔ یہ الفاظ سن کر آپ پر ایک دم جلالی کیفیت طاری ہوگئی
اور فوراً حضرت شاہ درگاہی صاحب نے اپنے خادم خاص یقین شاہ کوآواز دی کہ یقین شاہ!آج ایک شخص بے موسم آم کے پانچ دانے لے کر آیا تھاہمارے بستر کے نیچے رکھے ہوئے ہیں وہ لاکر اس بے یقین اور صفت ابو جہل لئے ہوئے شخص کو دے دو یہ ہماری زیارت اور ہم سے بیعت ہونے کے لیے نہیں بلکہ ہمارا امتحان لینے کے لیے آیا ہے اور اس کو فوراً ہماری محفل سے باہر کردویقین شاہ کہتے ہیں کہ آپ کے اس فرمان سے میرے تعجب کی کوئی حد نہ رہی اور میں سوچتا رہا کہ نہ آم کا موسم ہے اور نہ آم کا لانے والا ہے کوئی، اور اس شخص کو آم دے دئے گئے حضرت کی اس کرامت کودیکھ کر اس نے حضرت سے بہت معافی طلب کی لیکن حضرت نے اس کو بیعت نہیں فرمایا۔
دوسری خوبی:
اللہ نے آپ کو یہ عطا فرمائی تھی کہ آپ بہت زیادہ رحم ونرم دل تھے آپ انسانوں و جانوروں کے ساتھ بہت شفت سے پیش آتے گویا آپ مجسمہ رحمت تھے اگر آپ سفر کرتے اور راستے میں کوئی قصاب کسی جانور کو ذبح کرتا ہوا دکھائی دیتا تو آپ سے اس جانور کی تکلیف نہیں دیکھی جاتی تھی آپ قصاب سے اس جانور کو فوراً خرید کر آزاد کردیتے تھے۔اسی طرح ایک واقعہ میاں حبیب شاہ آپ کے اخلاق کے بارے میں ایک شخص سے نقل کرتے ہیں کہ وہ اور ان کی اہلیہ دونوں حضرت سے بیعت تھے اتفاق سے ان کی اہلیہ کو فالج ہوگیا اور جسم میں سوائے سانس کے قوت حرکت باقی نہ رہی اور اسی حالت میں ایک سال گزر گیا کہیں سے کوئی آرام نہیں ہوا
تو اس فالج زدہ عورت نے اپنے شوہر سے کہا کہ ہم حضرت شاہ درگاہی صاحبؒ کے مرید ہیں ان کو اپنے گھر مہمان بن کر آنے کی دعوت دوحضرت نے اس دعوت کو قبول کیا اور ان کے گھر تشریف لے گئے۔اس عورت نے اپنی فریاد آپ کے سامنے پیش کرتے ہوئے عرض کی کہ حضور آپ سے بیعت ہونے کا مقصد عذاب کے دور ہونے کی غرض ہے
لیکن یہ آپ کی فالج زدہ مریدہ دنیاو عقبیٰ کے درمیان عذاب میں گرفتار ہے اس لیے آپ سے میری عرض ہے کہ آپ دودعاٶں میں سے میرے لئے ایک دعا ضرور فرمادیں،یاتو میری روح میرے جسم سے پرواز کر جائے تاکہ میں دوسروں کی محتاجی سے آزاد ہوجاٶں یا پھر یہ دعا فرمادیں کہ میرے جسم میں پھر وہی طاقت واپس آجائے کہ جس طرح میں اس مرض سے پہلے تھی،حضرت نے اس مفلوجہ کی فریاد سن کر ازروئے رحم اس عورت کے شوہر کو حکم دیا کہ آپ ہمارے اسم اعظم کو پڑھ ان کے اُپر دم کیوں نہیں کردیتے تاکہ ’’یحی ویمیت‘‘(اللہ رب العزت)ہمارے اسم اعظم کی برکت سے اس کے حال پر اپنا رحم وکرم فرمائے اور اس کے بے جان ہاتھ پیروں کوچلنے پھرنے اوراس کے بے جان جسم کوحرکت کرنے کی طاقت عطا فرمادے۔
اس مرید معتقد نے آپ کا یہ فرمان سن کر آپ کااسم مبارک جوعین اسم اعظم تھا اور ہے کو اس مفلوجہ پر دم کرنا شروع کردیااس عمل کے تھوڑی ہی دیر بعد حضرت اس مفلوجہ کے گھر سے رخصت ہونے کیلئے اٹھے تووہ مفلوجہ عورت کہ جس کے ہاتھ پیروں نے کام کرنا چھوڑ دیا دیا تھاوہی عورت بغیر کسی کی مدد کے آپ کو رخصت کرنے کے لیے کھڑی ہوگئی اور دروازے تک آپ کو رخصت کرنے کے لیے آپ کے ساتھ آئی اور پہلے سے زیادہ تندرست ہوگئی،آج بھی اگر کسی مریض یا پریشان حال انسان کو آپکے اسم اعظم کا تعویذ دے دیا جاتا ہے یا اس پر دم کردیا جاتا ہے تو فوراً اللہ اس کو شفا عطا فرماتا ہے۔
تیسری خوبی:
اللہ نے آپ کو یہ عطا فرمائی تھی کہ اللہ نے آپ کو بہت زیادہ دوسروں کو نوازنے اور اپنی مخلوق کے حال پر بہت زیادہ کرم فرمانے والا بنایا تھااور آپ کے زمانے میں کوئی آپ کی نظیر نہیں تھااگر کوئی سائل ایک بار آکر اس دریائے عطا سے اپنے حصے کا لے جاتا پھر وہ اس روز دوبارہ یا اس سے زائد دس بار بھی آتا تو کسی مرتبہ بھی وہ محروم نہ جاتا بلکہ ہر بار سوا لیکر جاتا۔
چوتھی خوبی:
اللہ نے آپ کو یہ عطا فرمائی تھی کہ آپ عفو درگزر کا سراپا مجسمہ اور صبر وتحمل کا پیکر تھے اکثر خدام درگاہ سے نافرمانی یا کسی طرح کی گستاخی یا غلطی سرزد ہوجاتی بنا کسی تادیب کے آپ معاف فرمادیا کرتے تھے۔
پانچویں خوبی:
اللہ نے آپ کو یہ عطا فرمائی تھی کہ آپ کے مزاج میں غیرت درجہ اتم پائی جاتی تھی،گویا آپ کی ذات غیرت الٰہی کا پَرتَو نظر آتی اسی لئے آپ اپنے مریدین کو غائب وحاضر دونوں حالتوں میں کسی غیر کے حوالے نہیں کیا کرتے تھے۔اس کے متعلق یقین شاہ کا بیان ہے کہ جب حضرت شاہ در گاہی صاحب آخری مرتبہ ککرالہ سے رخصت ہوئے توآپ کو اللہ کی طرف سے ظاہر ہوگیا کہ اب دوبارہ اس مقام پر آپ کا آنا نہیں ہوگا اور یہاں کے لوگ مجھ سے ملاقات نہیں کر سکیں گے۔
آپ مصطفٰی آباد (رامپور)کی طرف سفر شروع کرتے وقت ککرالہ کی آبادی سے کچھ فاصلہ پر ویران جنگل میں تشریف لے گئے اور اس مقام وقصبہ کے ہر خاص و عام ،تمام مردو عورتوں،چھوٹے اور بڑوں سب کو اپنے پاس جمع ہونے کا حکم دیااور تاکید فرمائی کہ اگر کوئی خود سے آنے کی طاقت نہیں رکھتا ہوتو دوسرے کے سہارے یا اس کے کاندھے پر سوار ہو کرآ جائے،آپ کے اس حکم کی تکمیل کرتے ہوئے سب کے سب آپ کے پاس حاضر ہوگئے۔
اس مجمع میں سے حضرت شاہ درگاہی صاحب نے ہر چھوٹے سے چھوٹے بچہ کا ہاتھ اپنے دست مبارک میں لیا اور ان بچوں سے مخاطب ہو کر فرمایا کہ تم ہماری بیعت سے مشرف ہوگئے اور ان بچوں کے والدین کو نصیحت کہ جو کچھ ہم نے تم کو اورادو وضائف کی تلقین کی ہے جب یہ بچے ہوشیار ہوجائیں تو ان کو سب کچھ پڑھنا گنا سکھا دینا اور جس طرح میں اس وقت تمہارے پاس حاضر ہو ں میرے یہاں سے جانے کے بعد بھی مجھے اسی طرح اپنے پاس حاضر جاننا کسی اور کی طرف مائل نہ ہوجانا۔اور فرمایا کہ بچوں پر تمہاری تاثیر اب سے بھی زیادہ ہوگی کیونکہ اس وقت فقیر شمشیر در غلاف ہے ۔
اس کے بعد شمشیر برہنہ کی طرح صاف نظر آئے گا ۔اس کے بعد آپ نے مجمع سے مخاطب ہو کر دوسرا حکم صادر فرمایا کہ قیامت تک جو بچہ بھی آپ کے یہاں پیدا ہوگا ہم نے اس کا ہاتھ اپنے دست غیب میں لے لیا ساتھ ہی اس کو اپنی بیعت میں بھی قبول فرمالیا۔اور اگر وہ بچہ بڑا ہوکر دوبارہ بیعت کرنا چاہے ظاہری طور پر تو وہ ہماری بارگاہ کے خدام کی طرف رجوع کرے اور ان سے بیعت ظاہری کر لے آپ کے ان ارشادات کو سن کر سب کے سب مایوس ہو گئے کہ اس سے پہلے کبھی حضرت نے اس طرح کا کچھ ارشاد نہیں فرمایااور سب سمجھ گئے کہ اب حضرت کا اس دار فانی سے رخصت ہونے کا وقت قریب ہے۔
چھٹی خوبی:
اللہ نے آپ کو یہ عطا کی تھی کہ آپ اللہ کے بندوں سے محبت فرمانے میں اپنی نظیر نہیں رکھتے تھے چھوٹا، بڑا ،بزرگ جو بھی آپ کے سامنے آتا آپ اسے دیکھ کر خود اس پر فریفتہ ہوجاتے وہ جو بھی سوال کرتا اس کو فوراً عطا فرمادیتے چناں چہ ایک عورت جو بہت خوب صورت تھی
مگر اس کے ہاتھ پیر پیدائشی بیکار تھے گویا کہ وہ مادر زاد معذورہ تھی اس عورت سے اس کی قوم کا کوئی شخص نکاح نہیں کرتا تھاایک دن وہ حضرت کی بارگاہ میں حاضر ہوئی اور سارا حال حضرت کو سنا دیا
آپ نے ازراہ رحم اس کے اُپر نظر کرم فرمائی وہ ایک دم ایسی تندرست اور مکمل صحت مند ہوگئی کہ گویا اس سے پہلے اس کوکو ئی مرض ہی نہیں تھااور اس قدر تیز رفتار چلنے لگی کہ اگر اس کے متعارفین میں سے کسی کو قصبہ بریلی سے (جوآج شہر بریلی ہے)اوریہ مصطفی آباد (رام پور )سے دوروز کی پیادہ مسافت پر ہے (جوتقریباً65کلومیٹر ہے)سے کوئی چیز منگانی ہوتی یا کسی کو خط بھیجنا ہوتا تو وہ حضرت کا اسم اعظم لے کر اس عورت سے کہتا کہ فلاں شخص کویہ شئے یا کوئی خبر منگانی ہے تووہ عورت صبح کو روانہ ہوتی اور شام تک وہ خبر یا وہ چیز لے آتی حضرت کی نظر کرم سے اس کے اندرایسا جوش وجذبئہ الٰہی پیدا ہوگیا تھا کہ جب چلتی تو قدم آہستہ نہ اٹھاتی بلکہ بجلی کی طرح دوڑ تی ۔
اللہ نے آپ کو روحانی طاقت اس درجہ کمال کی عطا فرمائی تھی کہ جو جس مقصد سے آپ کی بار گاہ میں حاضر ہوتا وہ اپنے مقصد میں کام یاب ہوکر آپ کی بارگاہ سے واپس ہوتا آپ کے دربار میں آنے والا لفظ ’’لا‘‘کا تصور ہی نہیں کرتھا۔
ساتویں خوبی:
اللہ نے آپ کویہ عطا فرمائی تھی کہ دنیا داری کی طرف آپ کی توجہ بالکل نہیں تھی جیسا کہ یقین شاہ کا بیان ہے کہ میں نے ایک کیفیت آپ کی ایسی بھی دیکھی کہ سرتاپا برہنہ تھے اور میں آپ کی اس حالت کو دیکھ کر بہت حیران ہوا صبح کو حضرت نے میرے دل کے خطرات کو ازروئے مکاشفہ آگاہ ہوکر مجھے اپنے پاس بلایا اور فرمایا کہ ہم کو عریاں دیکھنا اس وجہ سے ہے کہ ابتدا سے انتہاء تک ہماری توجہ دنیا کی طرف سے بالکل ہٹی ہوئی ہے یقین شاہ فرماتے ہیں کہ آپ کا یہ ارشاد سن کر میرے دل کا خطرہ دور ہوگیا۔راوی کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں نے حضرت کو نابینا دیکھا،اور دیکھتا ہوں کہ آپ کے گوشت کے ٹکڑے صنوبر سے مشابہت رکھتے ہیں مگر اس کی جسامت سے بڑے اور دونوں آنکھوں سے لٹکے ہوئے ہیں اس واقعہ سے میرے دل میں تین مہینے تک ایک عظیم خطرہ رہا اور میں اس خطرے کو حضرت سے عرض کرکے دفع کرتا مگر حضرت اس دار فانی سے عالم بقا کی طرف کوچ فرما چکے تھے ۔
مگر توجہ معنوی اور ارشاد روحانی کیلئے گویا آپ ہمارے واسطے موجود تھے چناں چہ حضرت کے ہی تصرفات عالیہ سے مجھے ’’منہاج السالکین ‘‘ کے مطالعہ کا شوق ہوااس میں، میں نے پڑھاکہ ایک شخص نے خواب میں اپنے پیر کو دونوں آنکھو سے نا بینا دیکھا اور وہ اس خواب کو لے کر اپنے پیر کی خدمت میں حاضر ہوامگر اس کے روشن ضمیر پیر نے اس کے بیان کرنے سے پہلے ہی خواب کی تعبیر دیکر اس کو تسلی بخشی اور ارشاد فرمایاکہ اگر کوئی پیر کو ایک آنکھ سے نابینا دیکھے تو سمجھو کہ مقام ’’جبروت‘‘ میں ہے ابھی کامل نہیں،اور اگر دونوں آنکھو ں سے نابینا دیکھو تو سمجھ جائو میرا پیر درجہ ’’لاہوت ‘‘ پر فائز ہے اور کامل ہے یعنی اس کو فنا اور بقا دونو حاصل ہوچکی ہیں۔
راوی کہتے ہیں کہ کتاب کی اس عبارت کوپڑھ کر میں سمجھ گیا کہ یہ بھی حضرت کی کرامت ہے کہ اپنا درجہ کمال کو پہنچا ہوامقام غلام کو خواب میں دکھا دیا اور تین ماہ بعد دل بے قرار سے خطرہ دور ہوگیااور میں سمجھ گیا کہ دونوں آنکھوں کوایک حالت میں دیکھنااس بات کی دلیل ہے کہ آپ درجہ ’’لاہوت ‘‘ پر فائز ہیں اس وقعہ سے معلوم ہوا کہ آپ کی منزلت کے لیے لامکاں کی طرح کوئی منزل ہی باقی نہیں رہی۔
آٹھویں خوبی:
اللہ نے آپ کو یہ عطافرمائی تھی کہ آپ خاکساری،صبروتحمل،بردباری کا مکمل پیکر تھے راوی کہتے ہیں کہ ایک رات حضرت کو میں نے ایک محفل میں دیکھا اور اس محفل میں حضرت کی خاکساری اس قدر تھی کہ میں دیکھ کر حیران رہ گیا۔
اچانک ایک شخص جس کا نام سلطان تھا اوروہ حضر ت محبوب الٰہی کا مرید بھی نہیں تھا اس نے میرے بیان کی تصدیق کرتے ہوئے ایک واقعہ حضرت کابیان کیاکہ میری شادی کو کچھ ہی عرصہ گزرا تھا ایک دن میں اپنی خسرال گیا میں نے دیکھا کہ حضرت محبوب الٰہی میری خوش دامن کے یہاں مہمان ہیں اور تمام عورتیں بے پردہ آپ کے سامنے ہیں یہ دیکھ کر مجھے نہایت ہی برالگااور آپ کا یہ طریقہ پسند نہیں آیاکہ ایک فربہ جسم والا انسان نا محرم بے حجاب عورتوں کے سامنے بیٹھا ہوا ہے۔
لیکن آپ سے میں نے کچھ نہیں کہا اور میں اضطرابی حالت میں آگیا اور میں دیوانہ وار صحن میں ٹہلنے لگا اور حضرت کی یہ سب باتیں میرے دل میں گردش کر رہی تھیں اسی غصہ کی حالت میں میری نگاہ اپنے پاؤں پر پڑی اور میں نے دیکھا کہ حضرت کا جسم پورے صحن میں بکھرا ہوا ہے اور میرے پیروں کے نیچے آرہا ہے میں نے یہ سب کچھ دیکھ کر بہت غور کی پھر سوچا ہوسکتا ہے کہ یہ میرا وہم ہولیکن حضرت کے جسم کے سوا صحن میں مجھے خاک کا ایک ذرہ بھی نظر نہیں آرہا تھابہت دیر تک اسی کیفیت میں رہنے کے بعد ایک دم میرے اُپر خوف طاری ہوگیا
اور میں نے حضرت سے معافی طلب کی اور عرض کی کہ میں سمجھ گیا کہ آپ کس قدر خاکساری،عاجزی انکساری،صبروتحمل کا پیکر ہیں اس کی مثال ناممکن ہے۔ حضرت کے اوقات کا یہ حال تھا کہ ہر لمحہ استغراق ومحویت کے عالم میں رہتے تھے دن ہو یارات آپ کسی سے کلام نہیں فرماتے اگر چہ جذب کی منزل طے کرکے سلوک کی منزل پر فائز ہو چکے تھے مگر پھر بھی آپ کی حالت جذبی سلوک پر غالب تھی اور ہمیشہ آپ کا حال یہ ہوتا کہ نہ مکمل طریقے سے سوتے اور نہ مکمل طریقے سے جاگتے بلکہ آپ پر ایک طرح کی غنود گی طاری رہتی
حضرت سے اس کیفیت کا سبب معلوم کیا گیا تو آپ نے ارشاد فرمایا کہ فقیر کے دل سے اللہ کے علم کے سوا ہر علم نکل گیا ہے بس ہمیں اللہ کے سوا کچھ یاد نہیں آتا یہاں تک کہ ہمیں اپنی بھی خبر نہیں ہوتی کہ ہم خود کس حالت میں ہیں۔ایسی جذبی حالت نہ حضرت سے پہلے کسی بزگ میں دیکھی گئی اور نہ حضرت کے بعد۔
نویں خوبی:-
اللہ رب العزت نے حضرت محبوب الٰہی کو یہ عطا فرمائی تھی جس کا دین سے بہت اہم تعلق ہے کہ کبھی بھی آپ کے در بارسے کوئی بھوکا نہیں جاتا تھا چاہے دن ہو یارات آپ کے خادم خاص یقین شاہ بیان کرتے ہیں کہ ایک روز آدھی رات کے وقت چالیس مہمان آگئے جو حضرت کے دست مبارک پر بیعت تھے چونکہ میں(یقین شاہ)خانسامہ تھا حضرت محبوب الٰہی نے مجھے حکم دیا کہ یہ لوگ سفر طے کر کے آرہے ہیں بھوکے ہوں گے ان کے لیے کھانا تیار کرو!مہمان کابھوکا رہنا اچھا نہیں ہے،خانسامہ کہتے ہیں کہ میں نے حضرت سے عرض کی اس وقت آدھی رات میں بازار سے کون آٹا لے کر آسکتا ہے ؟۔
یہ سن کر حضرت غضب ناک حالت میں آگئے اور فرمایا یہ احمق مہمان ہم کو امیر سمجھتے ہیں امراء ورؤسا کے یہاں آدھی رات کو کھانا دستیاب ہوجاتا ہے ہمیں توخود اپنی خبر نہیں تو ہمیں کھانے کے سامان کی کیا فکر ہوگی کہ مطبخ میں ہے یا نہیں؟ اس کے بعد حضرت نے فریا جاؤ سیر دوسیرجس قدر بھی آٹا ہے اس کی روٹیاں پکا لو کمی و بیشی کی فکر نہ کرو امیروں کا سامان ان کے گھر میں ہوتا ہے فقیروں کا معاملہ خالق کائنات کے حوالے ہوتا ہے
خانسامہ کہتے ہیں کہ میں حضرت کی حکم کی تکمیل کرتے ہوئے روٹیاں پکاکر حضرت کی بارگاہ میں لے کر حاضر ہوا آپ نے فرمایا کہ روٹیاں مہمانوں کے سامنے رکھ دو اور اپنی چادر روٹیوں کے اُپر ڈال دو اور مجھے حکم دیا کہ خود بھی روٹیوں کے پاس بیٹھ جاٶکپڑا ہٹاکر نہ دیکھنا اور نہ کچھ کسی سے کہنا سنا جب تک کہ سب کھانا نہ کھا لیں اورچارروٹیاں نکال کر مہمانوںکے سامنے رکھنا جب ان کوکھا لیں پھر چار نکال کر رکھ دینا۔
اسی طرح سب ختم کر دینا خانسامہ کہتے ہیں میں نے حکم کو پورا کرتے ہوئے مہمانوں کو کھانا کھلایا اور ان میں سے ہر ایک نے خوب کھایا اوربعد میں،میں نے دستر خوان کو سمیٹ لیااور میں نے چادر ہٹا کر دیکھا تو الحمد للہ جتنی روٹیاں میں نے تیار کی تھیں سب کی سب چادر کے نیچے موجود تھیں،اور مہمان کھاتے وقت آپس میں ایک دوسرے سے کہہ رہے تھے کہ اللہ کی قسم!کہ ایسی لذیذ روٹیاں ہم نے کبھی نہیں کھائیں روٹیاں کھاتے ہوئے ہماری عمر گزر گئی اور نہ اس قدر کبھی سیر ہوئے ۔
یہ جھلک ظاہر فرمائی تھی آپ نے بشکل کرامت حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے اس معجزے کی کہ جنگ خندق کے موقعہ پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کثیر صحابہ کرام کی جماعت حضرت جابر رضی اللہ عنہ کے مکان پر تشریف لے گئی سخت بھوک کی وجہ سے،حضرت جابر رضی اللہ عنہ کے یہاں چند آدمیوں کے کھانے کا انتظام تھا کثیرصحابہ کی جماعت کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ دیکھ کر آپ کو فکر ہونے لگی کہ یہ چند آدمیوں کا کھانا اس جماعت کو پورا نہیں ہوپائے گالیکن ساتھ میں شہنشاہ کونین کے ہونے کی وجہ سے ان کی یہ فکر ختم ہوگئی،آقا علیہ السلام کے حکم کے مطابق سب کو کھانا کھلایا گیا سب نے خوب سیر ہوکرکھایا اور کھانے میں ذرہ برابر کمی واقع نہیں ہوئی اور حضور کے حکم کے مطابق وہ کھانا بعد میں دوسرے بھوکے لوگوں کو بھی تقسیم کیا گیا۔
یہی حال شہنشاہ کونین کے غلاموں کا ہوتا ہے کہ جو اپنے آپ کو ذات مصطفی کے ذریعہ ذات الٰہی میں فناء کر دیتا ہے تو اس کے دربار سے دن ہو یا رات اپنا ہو یا غیر کوئی بھوکا نہیں جاتا ہے ۔آج بھی محبوب الٰہی کے دربار کا یہی حال ہے کہ عرس کے ایام کے علاہ بھی سال کے عام دنوں میں بھی لنگر تقسیم ہوتا رہتا ہے اور مخلوق خدا جوق در جوق آرہی ہے اور محبوب الٰہی کے فیض سے فیض یاب ہو رہی ہے اور ان شاء اللہ تا قیامت محبوب الٰہی کے فیض کا دریا اسی طرح مخلوق خدا کے لیے جاری رہے گا۔ حضرت محبوب الٰہی کی صفات میں یہ بات بھی شامل تھی کہ آپ تمام اولیاے کرام کے سردار حضرت غوث الثقلین محبوب سبحانی قطب ربانی سیدنا شیخ عبد القادر جیلانی کا تصور کثرت کے ساتھ کرنے کی وجہ سے ہو بہو آپ غوث اعظمؒ کے مثل و مشابہ ہو گئے تھے جن حضرات نے آپ کو دیکھا ان کی تصدیق ہے کہ دونوں کی وضع و شکل میں کوئی فرق نہیں تھا گویا تصور غوث صمدانی کے سبب حضرت محبوب الٰہی عین قطب ربانی ہو گئے تھے ۔
اس کی تفصیل اس طرح بیان کی گئی ہے کہ حضرت قدوقامت میں دلکش اوسط درجہ کے تھے
آپ کا رنگ چمک دار خوب صورت تھا ، آپ کی چشمان مبارک بھی اوسط درجہ کی تھیں،چہرئہ مبارک گول تھا اور ناک بھی چہرے کی طر ح دیکھنے میں گول و خوب صورت تھی ، دونوں لب باریک تھے ، آپ کا دہن مبارک زیادہ کشادہ نہیں تھا، آپ کے دندان مبارک موتیوں کی لڑی کی طرح ایک دوسرے سے جڑے ہو ئے تھے ، ریش مبارک بڑی اور گولائی میں تھی،گردن دراز تھی ، سینئہ مبارک کشادہ تھا ، جسم مبارک ابتدا سے جوانی کے آخری حصہ تک حالت جذب کی حرارت کی وجہ سے کمزور رہا،لیکن بزرگی(حالت ضعف)کے زمانے میں جب آپ جذ ب سے سلوک کی طرف آچکے تھے تو موٹا ہوگیا تھااور (معمولی سا) شکم بھی نکل آیا تھا،غرض کہ آپ کے چہرئہ مبارک و ریش مبارک کی خوبصور تی کو دیکھ کر معلوم ہوتا تھا کہ یہ چمکتا ہوا در نایاب آفتاب وماہ تاب ہے ۔
اور اس آفتاب حق سے جو نور کی شعاعیں نکلتی تھیں تو ایسا معلوم ہوتا تھا کہ اس کے سامنے آفتاب کی بھی کیا تاب کہ اس شان کے ساتھ اپنی چمک دمک کا دعوایٰ کرے۔ آپ مرشد معظم سلطان الاولیا حضرت سیدنا حافظ شاہ جمال اللہ صاحب کے اس قدر منظور نظر تھے اگرحضرت حافظ صاحب کے پاس کوئی دعا کرانے کے لیے اپنے حق میں حاضر ہوتا تو حضرت حافظ صاحب فرماتے جاٶ درگاہی کے پاس جاٶ ان سے اپنے حق میں دعا کراؤ۔
چناں چہ لوگ آپ کے پاس حاضر خدمت ہوتے اور عرض کرتے کہ بڑے حضرت نے ہمیں چھوٹے حضرت کے پاس بھیجا ہے اور وہ لوگ آپ کو اپنی آپ بیتی سناتے،آپ مر شد معظم کے حکم کو پورا کرتے ہوئے ان پریشان حال لوگوں کے حق میں دعا فرماتے اللہ رب العزت آپ کی دعاؤں کو اپنے بندو کے حق میں شرف قبولیت عطا فرماتا،اللہ نے اپنے اس ولی کامل کو مستجاب ا لدعوات بنایا تھا کبھی اللہ آپ کی دعاؤں کو رد نہیں فرماتا۔آپ اپنے وقت کے غوث تھے اور غوث وہ ہستی گرامی ہوتی ہے کہ اگر وہ اللہ تعالیٰ کی قسم کھا لے کسی کام کے واسطے تو اللہ اس کی قسم کو پورا فرماتا ہے اس کی دعا کورائیگا نہیں جانے دیتا۔
بہر حال آپ کا دل عشق الٰہی سے معمور اورحب مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم سے پُر تھا آپ کی ذات مبارک سے مخلوق خدا کو خدا تک رسائی حاصل ہوئی، شاہ وگدا سب آپ کی چو کھٹ کے غلام بنے یہاں تک کہ نوابین رامپور نے بھی آپ کی بے حد تعظیم و توقیر کی اور عقید ت و احترام کا آپ کے ساتھ سلوک کیا۔
آپ کی ظاہری حیات میں کثیر مخلوق خدا نے آپ سے فیض حاصل کیا اور بعد وصال بھی اللہ رب العزت نے اس فیض باطنی میں خوب اضافہ فرمایا اور یہ فیض آپ کے خلفا کے ذریعہ بر صغیر پاک وہند کی سرحدوں کو پار کرکے دوسرے ممالک تک پہنچا جیسا کہ بنگلہ دیش ، افغانستان ، لنکا ، برما، بخارا ، ایران ، ترکی ، سمرقند اور ملک عرب تک آپ کے خلفا کی رسائی ہے۔
بہر حال آپ کے خلفاء کی صحیح تعداد شمارکرنا ممکن نہیں ہے آپ کے خلفاء کا دائرہ بہت وسیع ہے جن میں سے کچھ کو بہت زیادہ شہرت حاصل ہوئی اور ان میں سے بھی ایک ہستی گرامی حضرت شاہ سلطان امام الدین غالب جہاں قدس سرہٗ آپ کے خلیفہ اکبر و جانشین اعظم تھے اور انہی نے آپ کی صحبت بابرکت میں رہ کر آپ کے جن حالات و واقعات کا خود سے مشاہدہ کیاان کو آپ نے اپنی کتاب ’’مجمع الکرامات ‘‘ میں جمع کیا ۔محبوب الٰہی کے در کے اس معمولی سے غلام (محمد محفوظ قادری)نے بھی ’’ مجمع الکرامات ‘‘ سے استفادہ کرکے آپ کی چند خصوصیات و صفات اور کرامات کو تحریر کرنے کی جسارت کی ۔ در حقیقت آپ کی ذات گرامی اتنی جلیل القدر ہے کہ تحریر میں لانا آسان کام نہیں ہے کیونکہ غوث اعظمؒ کے بعد اگر کسی ولی کامل سے تواتر کے ساتھ کرامات کا اظہار ہوا ہے تو وہ حضرت محبوب الٰہی کی ذات اقدس ہے آپ کے سوا کوئی دوسری ذات گرامی ہمیں نظر نہیں آتی۔
اللہ رب العزت آپ کے غلام کی اس معمولی سی سعی کوآپ کے دربار میں قبول فرماکر مقبو ل وخاص وعام بنائے اور محبوب الٰہی سے دونوں جہان کی وابستگی عطافرمائے۔
آپ کا وصال 14جمادی الاخریٰ1226ھ مطابق 6 جولائی 1811ء کو مصطفی آباد عرف رام پور میں ہوا۔مزار مبارک باغ پختہ پر واقع ہے جو آج تک مرجع خلائق بنا ہوا ہے اور تا قیامت ان شااللہ بنا رہے گا ۔
اللہ رب العزت اپنے اس محبوب بندے کے ظاہری و باطنی فیضان سے اپنے بندوں کو خوب فیض یاب فرمائے۔
از۔ محمد محفوظ قادری ،رامپور یو۔پی
9759824259