حقیقت کے آئینے میں قوم مسلم پر ایک نظر

Spread the love

تحریر: افتخاراحمد قادری برکاتی حقیقت کے آئینے میں قوم مسلم پر ایک نظر

حقیقت کے آئینے میں قوم مسلم پر ایک نظر

مت محمدیہ کو قرآن مجید نے خیر امت کے لقب سے ملقب کیا اور پیغمبر اسلام جناب محمد رسول اللّٰہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم نے اس امت کی فضیلت و برتری کو دیگر تمام امتوں پر ظاہر کرتے ہوئے فرمایا کہ تم اول بھی ہو اور آخر بھی ہو۔

اول اس طرح کہ سب سے پہلے حساب و کتاب اور جنت میں تمہارا داخلہ ہوگا اور آخر اس لحاظ سے کہ سب کے بعد روئے زمین پر ظاہر ہوئے- ضرورت اس بات کی ہے کہ آج ہم اپنے گریبان میں

ذرا جھانک کر دیکھیں اور ان فرمودات کی روشنی میں اپنا جائزہ لیں کہ کیا ہم امت واحدہ کے صحیح معیار پر اتر رہے ہیں؟

کیا ہم خیر امت، امر باالمعروف اور نہی عن المنکر کے داعی کہے جانے کے مستحق ہیں؟

نہ تو ہمارے درمیان اجتماعیت ہے اور نہ ہی امر باالمعروف اور نہی عن المنکر کے فرائض کی انجام دہی

شاید یہی وجہ ہے کہ خیر امت کی آج خستہ حالت نظر آرہی ہے

اگر آپ سوال کریں اس دور میں سب سے مفلوک الحال کون ہے؟عزت کس کی لوٹی جارہی ہے؟

وقار کس کا ختم ہو رہا ہے؟

تخت و تاج کس کا چھینا جارہا ہے؟

عبادت گاہیں کس کی مسمار کی جارہی ہیں؟

دولت و ثروت سے کون محروم کیا جارہا ہے؟

بے گناہ کسے قتل کیا جارہا ہے؟

سب کا جواب ایک ہوگا،،مسلمان،،ایسا کیوں ہوا جب کہ قرآن کریم کا مژدہ جانفزا،،وانتم الاعلون ان کنتم مؤمنین،، ہمارے کانوں میں فرحت و انبساط کے رس گھول رہا ہے

لیکن ہمارا دل مسرور نہیں،زخموں سے چور ہے  آخر اتنا بڑا انقلاب کیوں آیا؟

قرآن کریم خود ہی اس کی وجہ بیان کرتاہے- ،،ذلک بما قدمت یدک وان اللّٰہ لیس بظلام للعبید،،( یہ تباہیاں) اس کا بدلہ ہیں جو تیرے ہاتھوں نے آگے پیچھے اور بے شک اللّٰہ بندوں پر کچھ ظلم نہیں کرتا

آئیے ذرا حقیقت کے آئینے میں قوم مسلم کو ایک نظر دیکھیں کہ زنا،چوری،ٹھگی،بدمعاشی،ظلم و ناانصافی،سود، غصب،حسد،بغض و تکبر غرور، شراب،گانجا،چرس،جھوٹ،فریب،غیبت،دغابازی،عیاری،مکاری،حرام کاری ، حرام خوری ، ایذا رسانی،والدین کی نافرمانی،ناچنا،گانا،بجانا

حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم کی پیاری شکل وصورت (ڈاڑھی لباس) سے دوری، مسجدوں کو ویران کر کے سنیما گھروں کو آباد کرنا وغیرہ افعال بد اور بیشمار اخلاقی و سماجی عیوب سے اس کا دامن کتنا داغدار ہے؟ وضع میں تم ہو نصاریٰ تو تمدن میں ہنودیہ مسلماں ہیں

جنہیں دیکھ کے شرمائیں یہودیہاں پر میں یہ عرض کر دینا بھی مناسب سمجھتا ہوں کہ جب فرعون اور اس کا لشکر دریائے نیل میں ڈبو دیا گیا تو ان فرعونیوں میں کا ایک شخص ڈوبنے سے محفوظ رہا اس لئے کہ وہ فرعونی حضرتِ موسیٰ علیہ السلام کے لباس و پوشاک میں تھا

اس ظاہری نقل کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے اس کو اس دنیا کے عذاب سے نجات دی-اگر مسلمان بھی اپنے پیغمبر کی شکل وصورت اختیار کریں تو اللہ تعالیٰ ان کو اس کی برکت اور اپنے فضل سے دارین کی عذاب سے نجات بخشے-ہماری بربادیوں کا سبب خود ہمارے کئے ہوئے کالے کرتوت ہیں

 

تاریخ کے اوراق شاہد ہیں کہ مٹھی بھر صحابہ کرام کی جماعت پوری دنیا پر چھائی ہوئی تھی،فتح و نصرت کا الم ان کے ہاتھوں میں تھا-جس طرف رخ کرتے فتح یابی ملتی۔

آج ہم کروڑوں کی تعداد میں ہیں پھر بھی ہماری کوئی شناخت نہیں،ہماری کوئی طاقت نہیں،ہمارے اوپر یہود ونصاریٰ اس طرح ٹوٹ پڑے ہیں جس طرح بھوکے دستر خوان پر ٹوٹ پڑتے ہیں- یہ ہمیں چن چن کر کھا رہے ہیں

اور ہم ہیں کہ اپنی بے چارگی اور کمزوری پر آنسو بہا رہے ہیں- یہود ونصاریٰ مسلمانوں کو ختم کرنے کی سازش کو عملی جامہ پہنانے کے لیے ہزاروں اختلاف بھلا کر آپس میں متحد ہو سکتے ہیں

مگر افسوس صد افسوس ان مسلم حکم رانوں پر جو اپنی جان ومال کی حفاظت کی خاطر بھی بادل ناخواستہ بھی ایک جگہ جمع نہیں ہوسکتے،حرص و ہوس نے انہیں اس طرح اندھا کردیا کہ بھائیوں کے بہتے خون دیکھ کر بھی انہیں ترس نہیں آتا۔

معزز قارئین! آج ہمیں وہ وقت بھی یاد ہے- جس وقت افغانستان کے صحرا میں پتھر کی بے جان مورتی کے توڑے جانے پر ساری دنیا چیخ اٹھی تھی

اصحابِ اقتدار سے لے کر عوام وخواص تک سب نے کھلے لفظوں میں اس کی مذمّت کی تھی اسی افغانستان اور عراق کے بے گناہ بوڑھے،بچے،عورت،مرد،بیمار،تندرست، مسلمانوں کو بے دریغ قتل کئے جانے پر کوئی ٹھوس لائحہ عمل تو دور کی بات کوئی معمولی سا اقدام کرنے کے لئے بھی دنیا تیار نہ تھی۔

اور مسلم ممالک بھی ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے ہوئے تھے

میں یہ پوچھنا چاہتا ہوں کہ کیا اس وقت مسلمانوں کے خون کی قیمت کیا اس پتھر سے کم تھی جس کے سینے میں نہ دھڑکتا ہوا دل اور نہ ہی کسی کے لیے ہم دردی کا جذبہ

کیا صحابہ کرام کی زندگی میں بھی کوئی ایسی تاریخ ملتی ہے کہ ایک بھائی کو بے گناہ قتل کیا جائے اور دوسرا دیکھتا رہے؟

ہر گز نہیں بلکہ ان میں سے اگر کسی کی ایک کے پاؤں میں کانٹا چبھتا تو دوسرا اس کی چبھن کو دل میں محسوس کرتا- آپ نے پڑھا ہوگا کہ جنگ یرموگ میں ایک صحابی زخموں سے چور ہو کر زمین پر گر پڑے شدت تشنگی سے مغلوب ہو کر پانی مانگا

ایک شخص پانی لے کر پہنچے ہی تھے کہ دوسری جانب سے العطش کی آواز آئی سنتے ہی فرمایا کہ پہلے انہیں پلاؤ ان کے قریب گئے ابھی گلاس لبوں تک پہنچا بھی نہ تھا کہ تیسری طرف سے بھی العطش کی آواز آئی اسی طرح سات آوازیں آئیں اور ساتوں کے پاس پانی کا پیالہ لے جایا گیا اور سب اپنے بھائی کی پیاس بجھانے کی خاطر اپنی پیاس نہ بجھا کر جام شہادت نوش فرمالیا اور پانی کا پیالہ ایسے ہی رہ گیا۔

ذرا اس واقعے سے اندازہ لگائیے ہماری زندگی اور ان کی زندگی میں کتنا فرق ہے ہم ہیں کہ اپنے بھائی کا حق مارنے اور مروانے پر تلے ہوئے ہیں اور وہ ایسے لوگ تھے کہ اپنی جان دے کر دوسرے کی جان کی حفاظت فرمایا کرتے تھے۔

ان کے اندر محبت تھی، جذبہ اخلاص تھا ہمدردی اور اجتماعیت تھی جس کے ذریعے ہر مشکل سے مشکل کام آسانی سے حل فرمایا کرتے تھے اور آج یہ چیزیں ہم میں موجود نہیں۔ اگر آج بھی یہ چیزیں ہمارے اندر موجود ہو جائیں تو پھر ہم کل کی طرح کام یاب ہو سکتے ہیں۔

ذرا آپ اپنے ہاتھ کی ان پانچوں انگلیوں کو ہی دیکھیں انہیں اگر آپ جدا جدا کھول کر رکھتے ہیں تو ایک کمزور سے کمزور انسان آپ کے ہاتھوں کی ان پانچوں انگلیوں کو توڑنا چاہے تو الگ الگ توڑ سکتا ہے۔

مگر آپ انہیں پانچوں انگلیوں کو ملا کر ایک مٹھی باندھ لیتے ہیں تو پھر ایک طاقتور انسان بھی آپ کی کسی انگلی کو آسانی کے ساتھ کوئی تکلیف نہیں پہنچا سکتا۔

ایک بڑی طاقت کو جس طرح منتشر کرکے شکست دے سکتے ہیں اسی طرح چند کمزوروں کو متحد کر کے ایک عظیم قوت بن کر ابھر سکتے ہیں۔

متحد ہو تو بدل ڈالو نظام قدرتمنتشر ہو تو مرو شور مچاتے کیوں ہوایک حدیثِ مبارکہ کےراوی حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللّٰہ عنہ ہیں وہ فرماتے ہیں کہ رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم نے اپنی انگلیوں میں انگلیاں پھنسا کر رکھتے ہوئے فرمایا،،ایک مومن دوسرے مومن کے لیے ایسی عمارت ہے جس کا ایک حصہ دوسرے کو مضبوط کرتاہے۔

جس طرح ایک انگلی دوسری انگلی کی طاقت اور گرفت مضبوط کرنے کا ذریعہ ہے۔

ایک دوسری حدیث پاک میں رسول اللہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں: سارے مسلمان ایک جسم کی طرح ہیں اگر اس کی آنکھ دکھتی ہے تو سارے جسم کو تکلیف پہنچتی ہے

اللہ کے رسول صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم نے مسلمان کو ایک جسم قرار دیتے ہوئے اپنی امت کو بتلا دیا کہ اگر دنیا کے کسی خطے میں مسلمان کو تکلیف پہنچے تو دوسرا مسلمان محسوس کرے۔

کاش یہ قوم ایک دھاگے میں پیروئے ہوئے تسبیح کے دانے کے ماند ہوتی تو پوری دنیا اسے تسبیح کی طرح گلے کا ہار بنا کر ہاتھوں ہاتھ لیےہوتی اور فلک بوس عمارتیں ان کی عظمتوں کے ترانے گاتیں

تحریر: افتخاراحمد قادری برکاتی

کریم گنج،پورن پور،ضلع،بھیت،مغربی اتر پردیش

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *