آئین ہند خصوصیات کے آئینے میں
آئین ہند خصوصیات کے آئینے میں
عقیل ساجد تیمی
(استاد سیکینڈری اسکول مظفر پور ) دستور یا آئین کسی حکومت کے لیے قوانین او ر اصولوں کے ایک ایسے مجموعے کو کہاجاتا ہے جس کے ذریعہ ایک سیاسی وجود کے اختیارات اورکارکردگیوں کو محدود اور متعین کرنے کے ساتھ ساتھ عدالتی اور انتظامی امور کے دائرہ کار کا بھی تعیین کیاجاتا ہے
کچھ ملکوں میں یہ دستور ایک تحریری دستاویز کی شکل میں ہوتا ہے جیسا کہ ہندوستان، پاکستان اور چین وغیرہ جب کہ چند ایسے ممالک بھی ہیں جن کا کوئی تحریری دستور نہیں ، بلکہ چند دستاویزات، قوانین وفرامین اور روایات کے مجموعے کو دستور کے طورپر استعمال کیاجاتا ہے۔ ایسے ملکوں میں برطانیہ وغیرہ شامل ہے۔
جہاں تک وطن عزیز ہندوستان کے دستور وآئین کی بات ہے تو اس کی ضرورت اس وقت پڑی جب یہاں کے باشندوں نے سفید فام انگریزوں کے تسلط وجبرواستبداد سے اس سرسبزوشاداب اور سونے کی چڑیا کہے جانے والے ملک کو آزادی کا پروانہ دلایا
تو اس وقت میدانِ سیاست میں ید طولیٰ رکھنے والے افراد واشخاص اور بڑے بڑے لیڈروں نے یہ سوچا کہ ملک کے لیے ایسے دستور وآئین وضع کئے جائیں جو عالمی سطح پر بے مثال اور منفرد ہو تاکہ ملک اپنی ترقی کی راہ پرگامزن رہے اور تمام باشندگانِ ملک امن وامان کی خوشگوار فضا میں ہرلمحہ سانسیں لیتے رہیں وغیرہ۔
جہاں تک دستورِ ہند کے امتیازات وخصوصیات کی بات ہے تو ہمیں یہ معلوم ہونا چاہئے کہ یہ دستور ہمیں اپنی حکومت از خود بنانے کا اختیار دیتا ہے، جبکہ دوسری حکومت اس پر اپنا حق نہیں جماسکتی ہے، اسی طرح دستورِ ہند نے پارلیمانی طرز کی جمہوریت کے سامنے کابینہ کو اپنے فیصلے یعنی قانون سازی اور اپنی پالیسی کے لیے جوابدہ بنایا ہے
اس کے ذریعہ تمام باشندے بلا تفریق مذہب وملت ایک مشترکہ جمہوریت کی لری میں پرودیئے گئے ہیں، جمہوریت میں مذہب کی اہمیت کابھی خیال رکھا گیا ہے جیسا کہ ۲۴ویں ترمیم سے ہندوستان کو سیکولر ملک قرار دیا گیا ہے جہاں مذہب کا مکمل احترام ہوگا مذہب یاذات پات کی بنیاد پر کسی شہری کو شہریت کے حقوق سے محروم نہیں کیا جائے گا
چوں کہ آئین ہند کے مطابق ہر ہندوستانی قانون کی نگاہ میں برابر ہے، ہر شہری کو آزادیِ رائے، آزادیِ خیال اور آزادیِ مذہب حاصل ہے۔اقلیتوں (Manorities) کو بھی دستور میں ان کا حق دیاگیا ہے جس کے تحت وہ اپنے علیحدہ تعلیمی ادارے قائم کرسکتے ہیں، اپنی تہذیب وتمدن اور زبان کو قائم رکھ سکتے ہیں اور اپنے مذہب کی اشاعت بھی کرسکتے ہیں، قانون کی خلاف ورزی کی صورت میں کسی شخص کو اس وقت سزادی جاسکتی ہے
جب اس پر لگائے ہوئے الزام قانونی طور پر ظلم ہو بعینہ اس دستور میں برابری کاحق، آزادی کاحق، استحصال کے خلاف بولنے کا حق، مذہبی آزادی کا حق اور آئینی چارہ جوئی کا حق حاصل ہے، ان حقوق کے مکمل تحفظ کرنے کی ضمانت دی گئی ہے۔
بھارت کے آئین میں عدالتی نظرثانی اور پارلیمنٹ کی خود مختاری کا بہترین امتزاج ہے یعنی کسی بھی نچلی عدالت نے کوئی فیصلہ سنادیا تو اوپری عدالت کو اس فیصلے پر غور کرنے کا حق بھی حاصل ہے یہاں پارلیمانی حکومت ہے یعنی آمرانہ، شاہانہ اور موروثی طرز حکومت سے ہمیں نجات مل چکی ہے۔ اور اس ملک میں جمہوری طرز کا نظام رائج ہے
اسی طرح ہمارے ملک کے آئین میں اس بات کو بھی بیان کیاگیا ہے کہ بین الاقوامی تعلقات کو قائم ودائم رکھیں گے، امن کا پیغام دیں گے شانتی کو فروغ دیں گے نیز اس دستور کی نمایاں خصوصیت یہ ہے کہ یہ سب سے بڑا آئین ہے جسے پوری دنیا میں ایک مثالی آئین کی حیثیت حاصل ہے۔
واضح رہے کہ آئین ودستور ہند کے سلسلے میں پہلے پہل باضابطہ ایک اسمبلی تشکیل دی گئی اوراس کا پہلا اجلاس ۶۴۹۱ءکو بلایا گیا جس کے اولین صدر جمہوریہ ہند بابو ڈاکٹر راجندر پرساد چیئرمین بنائے گئے پھر ۴۱-۵۱اگست ۷۴۹۱ءکی درمیانی شب میں آئین ساز اسمبلی کے اجلاس میں وائس رائے لوڈ ماﺅنٹ مینٹن کو ہندوستان کا گورنر جنرل منتخب کیا گیا، اسی اسمبلی میں پنڈٹ جواہرلال نہرو کو پہلے وزیر اعظم کی حیثیت سے حلف دلاگیا ساتھ ہی چند آپ کے دوسرے وزراءنے بھی حلف لیا
دراصل یہیں سے اسمبلی سسٹم کاآغاز ہوتا ہے، یہاں یہ چیز بھی قابل ذکر ہے کہ ہمارے دستور کو بنانے کے لئے ابتدائی کئی کمیٹیاں تشکیل دی گئی انہیں کمیٹیوں کی مختلف رپورٹوں کی بنیاد پر ہمارا یہ دستور معرض وجود میں آیاہے
۔۹۱اگست ۷۴۹۱ءکو ایک ڈرافٹنگ کمیٹی کی تشکیل کی گئی اس طرح بالآخر فروری ۸۴۹۱ءمیں اس دستور کا کامل مسودہ یعنی ڈرافٹ شائع کیا گیا پھر ۶۲ نومبر ۹۴۹۱ءمیں آئین کو باضابطہ منظوری دے دی گئی بلکہ فوری طور پر ۳۱آرٹیکل کانفاذ بھی کردیا گیا تھا، لیکن باضابطہ طور پر اس آئین کو ۶۲جنوری۰۵۹۱ءمیں نافذ العمل قرار دیاگیا۔
درحقیقت اسی مناسبت سے ہر سال ۶۲جنوری کو ہم یوم جمہوریہ کے طور پر جشن منایا کرتے ہیں، اسی آئین میں ۰۵۹۱ءسے لے کر اب تک کم وبیش سواسو ترمیمات ہوچکے ہیں یہاں اس بات کو بھی یاد رکھنی چاہئے کہ آئین سازی کے سلسلے میں اور لوگوں کے ساتھ ساتھ ہمارے پروجوں نے بھی بھرپور حصہ داری کو یقینی بنایا ۔
چناں چہ مولانا ابوالکلام آزاد، بیرسٹر آصف علی خان، خان عبدالغفار خان، محمد سعد اللہ، عبدالرحیم چودھری، بیگم اعجاز رسول اور مولانا حسرت موہانی جیسے قدآور لوگ اس کے اہم حصہ بنے، اس دستاویز پر مولانا حسرت موہانی کے علاوہ سبھی اراکین اسمبلی نے دستخط کئے، اسمبلی کا آخری اجلاس ۴۲دسمبر ۹۴۹۱ءکو منعقد ہوا جس میں ڈاکٹر راجندر پرساد صاحب کو اتفاق رائے سے ہندوستان کا پہلا صدر جمہوریہ منتخب کرلیاگیا۔
آئین کی اہمیت وافادیت اپنی جگہ مسلم ہے کیوں کہ بغیر اس کے اس عالم کاخ وکوہ میں نہ کوئی ملک منظم طریقے سے چل سکتا ہے اور نہ ہی امن وسکون کی فضا قائم ہوسکتی ہے اس اعتبار سے دیکھا جائے تو دستور ہند اپنی مثال آپ ہے۔
دنیا کے سب بڑے جمہوری ملک کا یہ آئین ودستور اپنے ہر شہری کو سکون وطمانیت کے ساتھ کھلی فضا میں سانس لینے کا حق دیتا ہے، یہاں مذہبی ،لسانی اور علاقائی بنیادوں پر کوئی فرق وامتیاز حاصل نہیں ہے
یہی وہ بنیادی خصوصیات ہیں جن کے سبب پوری دنیا ہمارے اس دستور کو قابل رشک نگاہوں سے دیکھتی ہے بلکہ کسی بھی ملک کے دستور وآئین سازی کے وقت اس کی خوشہ چینی ہوتی ہے، ہاں یہ الگ بات ہے کہ کچھ مٹھی بھر لوگ اپنی انانیت وانتہا پسندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس کے بدلنے کا ناپاک خواب دیکھتے ہیں۔
یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ ہمارا یہ دستور ۲۲ابواب اور ۵۹۳ دفعات پر مشتمل ہے ساتھ ہی دستور ہند بنیادی طور پر تین باتوں پر مشتمل ہے (۱) عدلیہ (۲) انتظامیہ (۳) قانون سازیہ ان تینوں کے آپسی تال میل سے ہمارا یہ ملک روبہ ترقی ہے۔
آئیے اس بات کا عزم کرتے ہیں کہ جیتے جی اس خوبصورت آئین ہند پر ہم کسی طرح کا داغ دھبہ نہیں آنے دیں گے، اوراس نادر ونایاب دستور کو اس کی اصلیت کے ساتھ قائم رکھنے کی ہر ممکن کوشش کریں گے۔