عورتوں کی تعلیم اور روشن کے خیالوں کے الزامات
تحریر: غلام مصطفیٰ نعیمی ایک جائزہ : عورتوں کی تعلیم اور روشن کے خیالوں کے الزامات
عورتوں کی تعلیم اور روشن کے خیالوں کے الزامات
کسی بھی عہد کی حقیقی صورت حال کا درست اندازہ اسی وقت لگایا جاسکتا ہے جب انسان اس عہد کی ضروریات، عوامی نفسیات اور معاشرتی صورت حال سے اچھی طرح واقف ہو۔اس صورت میں بھی انسان صرف اندازہ ہی لگا سکتا ہے۔
کیوں کہ سو سال کے طویل عرصے میں حقائق و واقعات کی کئی کڑیاں ٹوٹ چکی ہوتی ہیں، کتنے ہی حقائق کتابوں کے ساتھ ختم ہوجاتے ہیں اور کتنے حقائق ایسے ہوتے ہیں جو سرے سے تاریخ میں درج نہیں ہوپاتے اس لیے کسی فاضل دانش ور کا یہ دعوی کہ۔
۔”جنوبی ایشیائی مفسرین وفقہا نے علاقائی معاشرتی اثرات ورسوم کے قبول وعدم قبول کے چکر میں دین فطرت کے متعدد احکام کو یکسر نیا رنگ دیا ہے
۔”مودودی صاحب کے بعد یہ غالباً پہلا ایسا الزام ہے جس میں بیک جنبش قلم بر صغیر کے جملہ مفسرین وفقہا پر دین فطرت کو بدلنے جیسا بے بنیاد اور انتہائی سستا الزام لگانے کا شرف حاصل کیا گیا ہے
جس کے لیے وہ بجا طور پر ‘روشن خیالوں’ کی داد وتحسین اور اوارڈ وانعام کے حق دار ہیں۔
یہاں فاضل موصوف کی جادو گری کی داد دینا ہوگی کہ انہوں نے نہایت چابک دستی سے بحث کا رخ اس طرح بدلا ہے کہ عام بندہ ان کے ہاتھ کی صفائی سمجھ نہیں پاتا، علما نے ممانعت تو محض کتابت نسواں کے متعلق کی
مگر فاضل دانش ور نے نہایت صفائی سے کتابت نسواں کی ممانعت کو تعلیم نسواں کی ممانعت پر چسپاں کرکے اکابر علما کو غیر ذمہ دار، شخصیت پرست، حرام کے ایمبیسڈر جیسی مہذب صلواتیں سنانے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیا
اسے ہی کہتے ہیں؛تم قتل کرو ہو کہ کرامات کرو ہو بر صغیر کی تاریخ میں ایسا کوئی معتبر عالم نہیں گزرا جس نے تعلیم نسواں کو منع کیا ہو۔
جن علما پر موصوف نے دین فطرت کو بدلنے کا الزام لگایا اُنہیں علما کی بچیوں نے مختلف علوم وفنون میں گراں قدر علمی خدمات انجام دے کر اپنے والدین و استاذہ کی فکری بلندی کا جیتا جاگتا ثبوت فراہم کیا ہے
مگر جوش تعلی کا کیا کِیا جائے جسے اس وقت تک چین نہیں پڑتا جب تک ماضی کے علما و فقہا کو حالات زمانہ سے بے خبر اور خود کو کائناتِ عالم کا سب سے بڑا مفکر ثابت نہ کر لیا جائے۔
تعلیم نسواں کے حوالے سے کسی مفسر و فقیہ کو ہدف تنقید بنانے اور اس فکر سے عدم اتفاق ظاہر کرنے سے پہلے فاضل دانش ور کو چاہیے تھا کہ وہ اس حدیث پر کلام فرماتے جس میں نبی اکرم ﷺ نے خواتین کو دو چیزیں(سورہ نور اور کاتنا) سکھانے اور دو چیزوں (بالاخانے اور کتابت) سے بچانے کا حکم دیا ہے۔
اس حدیث پاک کو نقل کرکے پھر آنجناب یہ رائے دیتے کہ “مجھے اس قول(رسول) سے ہرگز اتفاق نہیں ہے۔”۔
کیوں کہ جن فقہا ومحدثین نے کتابتِ نسواں کو ممنوع قرار دیا وہ اسی حدیث پاک سے استدلال کرتے ہیں۔
مذکورہ حدیث پاک سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے جسے امام طبرانی نے “معجم اوسط” میں، امام حاکم نے “مستدرک” میں، اور امام بیہقی نے “شعب الایمان” میں اپنی اسناد کے ساتھ نقل کیا ہے۔
اس کی ہم معنی روایات نوادر الأصول للحکیم الترمذی میں عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے اور امام ابن عدی کی “الکامل” میں عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالی عنہما سے مروی ہیں۔
متعدد طُرُق(اسانید) والی اس حدیث کی بنیاد پر علماے کرام نے کتابت نسواں کو ممنوع قرار دیا۔
اس روایت کے بالمقابل ابو داؤد شریف کی ایک روایت پائی جاتی ہے جس میں حضور ﷺ نے خواتین کو کتابت سکھانے کی بات ارشاد فرمائی۔دونوں روایتیں بہ ظاہر ایک دوسرے کے متعارض ہیں مگر حقیقتاً یہ دونوں روایتیں معاشرے کے دو مختلف رویوں کی ضرورت واصلاح پر مشتمل ہیں۔
چوں کہ فی نفسہ تحریر و کتابت کوئی بری چیز نہیں اس لیے ایک روایت میں اس کے سیکھنے کو مثبت انداز میں بیان کیا گیا۔
تو خواتین کی جذباتی کیفیت اور احتمال فتنہ کے مد نظر کتابت نسواں کو منع بھی قرار دیا گیا۔اسی ممانعت اور مخصوص معاشرتی حالات کی وجہ سے بعض فقہا نے کتابت نسواں کو منع فرمایا مگر یہ ممانعت کراہت تنزیہی کے درجے میں تھی
جیسا کہ شیخ احمد شہاب الدین ابن حجر ہیتی مکی نے فتاوی حدیثیہ میں اس کی صراحت کر دی ہے:أن النهي عنه تنزيها لما تقرر من المفاسد المترتبة عليه،(ج 1ص 193)
امام احمد رضا نے بھی کتابت نسواں کو ایک جگہ منع تو دوسری جگہ مکروہ لکھا یعنی آپ کے نزدیک ممانعت کراہت پر محمول ہے۔علماے عصر کے مطابق جہاں احتمال فتنہ کا غلبہ ہو تو کراہت درجہ تحریم میں ہوگی۔
یعنی مدار حکم احتمال فتنہ پر ہے اگر احتمال فتنہ ختم ہو جائے تو انتفاے علت سے حکم بھی منتفی ہوگا اور علم کتابت بلا کراہت جائز ہوگا۔
دوسرے لفظوں میں اس ممانعت کو ایسا ہی سمجھیں جیسے آج کل کی سماجی بے راہ روی، معاشقے کے بڑھتے چلن اور خواتین کے فرار ہونے کے اسباب میں موبائل کو ایک اہم وجہ قرار دیا جاتا ہے
جس کی بنا پر دفع فتنہ اور سد ذرائع کے طور پر بہت سارے کالجوں/یونیورسٹیوں میں موبائل رکھنے پر پابندی کی تجویز دی جاتی ہے اور بعض مقامات پر پابندی عائد بھی کی جاتی ہے۔اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ ایسی پابندی لگانے/تجویز دینے والے افراد “تشدد پسند اور شخصی غلامی کے شکار” ہیں۔
کیوں کہ تجاویز دینے والوں میں بہت سارے روشن خیال بھی ہوتے ہیں، جن کی آزاد خیالی پر شک کرنے کا گناہ کم از کم ہم جیسے تنگ نظر تو بالکل نہیں کر سکتے۔
اب سو سال کے بعد کوئی انقلابی جیالا اٹھے اور پابندی موبائل پر برستے ہوئے ایسی تجاویز دینے والوں کو ‘تشدد پسند اور شخصی غلامی کا شکارقرار دے تو اس روشن خیال مفکر کو کیا کہا جائے گا؟۔اصلاح معاشرہ کے لیے بعض اقدامات احتیاطی اور وقتی ضرورت ہوا کرتے ہیں۔
اس زمانے میں چونکہ احتمال فتنہ خط وکتابت سے تھا تو احتیاطاً کتابت نسواں کو منع کیا گیا اب پیغامات کی ترسیل کے دوسرے ذرائع آگیے ہیں اور یہ جگہ موبائل نے حاصل کرلی ہے تو اس کے استعمال پر جز وقتی پابندی یا نگرانی کی بات کی جاتی ہے جو عین سمجھ داری اور معاشرے کے تئیں فکرمندی کی دلیل ہے۔
اس بنیادی بات کو نظر انداز کرکے اپنی فکر کو برتر ثابت کرنا اور علماے سلف کی توہین کرنا کہاں کی دانش وری اور کہاں کا ادب ہے؟۔
اختلاف رائے کے نام پر اکابر پر طعن وتشنیع کرنا، سستے اور بھونڈے اسلوب میں ان پر طنز کسنا کِیا نئی نسل کو جری اور گستاخ بنانا نہیں ہے؟ ۔
امام احمد رضا تو اپنے پیش رو بزرگوں سے اختلاف رائے کو اپنا “تطفل” قرار دیتے ہیں جب کہ آج کے فاضلین بیک جنبش قلم ان پر دین بدلنے کا گھنونا الزام لگاتے ہیں۔
شکوہ بے جا بھی کرے کوئی تو لازم ہے شعور
از قلم: غلام مصطفیٰ نعیمی
مدیر: سواد اعظم ،دہلی
رکن: روشن مستقبل ،دہلی
ان مضامین کو پڑھ کر ضرور شئیر کریں
سیاسی پارٹیاں یا مسلمان کون ہیں محسن
اتحاد کی بات کرتے ہو مسلک کیا ہے
Pingback: - سوشل میڈیا بلیک میلنگ - اردو دنیا - تحریر: شاہد علی مصباحی
Pingback: افغانستان سے لوگ کیوں بھاگتے ہیں - اردو دنیا - تحریر: ڈاکٹر غلام زرقانی
Pingback: ٹیچرس ڈے بھارت کی عظیم ثقافت - اردو دنیا تحریر: محمد اشفاق عالم نوری فیضی
Pingback: ارتداد کی جانب قدم بڑھاتی مسلم لڑکیاں اور ہماری بے حسی - اردو دنیا
Pingback: بھارت میں جمہوریت ہے پھر بھی مسلمانوں کی سیاسی شناخت کیوں گم ⋆ تحریر: جاوید اختر بھارتی
Pingback: شاعر حضرت حفیظ میرٹھی ⋆ اردو دنیا ⋆ ازقلم: شہباز انصاری
Pingback: کسی کو بھی سیاست کے معیار کو گرنے کی فکر نہیں ہے ⋆ اردو دنیا ⋆ از قلم : جاوید اختر بھارتی
Pingback: صرف معافی مانگنے سے چھپ جاے گا امریکا کا جرم ⋆ از قلم : محمد شعیب رضا نظامی فیضی
Pingback: خطرے میں کون ہے ⋆ اردو دنیا ⋆ تحریر: غلام مصطفیٰ نعیمی
Pingback: مجاہد آزادی علامہ فضل حق خیر آبادی ⋆ تحریر: محمد زاہد علی مرکزی
Pingback: گاندھی کا بھارت ،سراج الدین قریشی کی حق گوئی اور آر ایس ایس ⋆ اردو دنیا ⋆ تحریر: محمد احمد
Pingback: مہنگی ہوتی دوائیاں لوٹ کھسوٹ میں مصروف کمپنیاں اور ڈاکٹرز ⋆ از محمد ہاشم قادری مصباحی
Pingback: آسام کے مختصر روداد ⋆ اردو دنیا
Pingback: علم دین حاصل کرنا سب مسلمانوں پر فرض ⋆ از قلم : محمد اظہر شمشاد رضوی
Pingback: میرج بیورو کے ذریعہ کرائی گئیں شادیاں کتنی کام یاب کتنی ناکام ⋆ تحریر: ہاشم قادری مصباحی
Pingback: ईद मिलाद-उन-नबी का सामाजिक महत्व - लेखक : गुलाम मुस्तफा,नईमी
Pingback: نئی دنیا اور نئے کاروبار ⋆ اردو دنیا از قلم : پٹیل عبد الرحمن مصباحی
Pingback: اپنے کام پر دھیان دیں ⋆ اردو دنیا
Pingback: کسانوں کا آندولن حقائق کی روشنی میں سمجھیں ⋆ بلال احمد نظامی مندسوی
Pingback: تفریح کے نام پر آوارگی کب تک ⋆ از قلم: غلام مصطفیٰ نعیمی
Pingback: دینی مدارس میں عصری علوم کی شمولیت مدرسہ بورڈ کا حالیہ ہدایت نامہ ⋆ از: ڈاکٹر غلام زرقانی
Pingback: غلطی کرنے والے کو سزا دینے کے طریقے ⋆ اردو دنیا ⋆ تحریر: حافظ محمد ہاشم قادری مصباحی
Pingback: تری پورہ وزٹ کے لیے اگرتلا میں بتیس گھنٹے ⋆ اردو دنیا ⋆ تحریر: خالد ایوب مصباحی
Pingback: حیا سوز کارٹونوں کے اسلامی متبادل کارٹونز ⋆ اردو دنیا ⋆ از قلم : خلیل فیضانی
Pingback: قمر غنی عثمانی کی گرفتاری اور تری پورہ میں کھلے عام بھگوا دہشت گردی ⋆ شعیب رضا نظامی
Pingback: ہاں سیاست بھی ہے امراض ملت کی دوا ⋆ اردو دنیا از قلم : جاوید اختر بھارتی
Pingback: ائمہ مساجد بھی انسان ہیں ان کے بھی یومیہ اخراجات ہیں ⋆ اردو دنیا ⋆ از : جاوید اختر بھارتی
Pingback: دغا باز ⋆ اردو دنیا ⋆ افسانہ نگار : محمد اظہر شمشاد مصباحی
Pingback: کسان بل واپس ہوسکتا ہے تو سی اے اے اور این آر سی بل کیوں نہیں ⋆ اردو دنیا احمد حسن سعدی
Pingback: عظیم دولت ہے ماں ⋆ اردو دنیا از قلم : عبدالباقی نوری مصباحی
Pingback: زرعی قوانین واپس ہوسکتے ہیں تو سی اے اے اور این آر سی کیوں نہیں ⋆ اردو دنیا
Pingback: کسانوں کی تحریک و قربانی رنگ لائی ⋆ اردو دنیا تحریر :جاوید اختر بھارتی
Pingback: سوشل میڈیا کا استعمال اور ہمارے بچے و بچیاں ⋆ ColorMag Pro از :محمد مقتدر اشرف فریدی
Pingback: جب جاہل علم حاصل کیےبغیر عالم بننے لگیں ⋆ ColorMag Pro ⋆ از قلم : عقیل احمد فیضی
Pingback: یوپی اسمبلی کے انتخابات اور مسلمان ⋆ اردو دنیا ⋆ از قلم : محمد احمد حسن سعد امجدی
Pingback: پردے کی اہمیت قرآن و حدیث کی روشنی میں ⋆ اردو دنیا
Pingback: پردے کی اہمیت قرآن و حدیث کی روشنی میں ⋆ اردو دنیا تحریر: ساغر جمیل رشک مرکزی
Pingback: مسلمانان جھارکھنڈ سے دردمندانہ اپیل ⋆ اردو دنیا ⋆ از : ڈاکٹر غلام زرقانی
Pingback: حج جیسی اہم عبادت کو بلا روکٹوک پوری طرح سے جاری رکھا جاے ⋆ محمد ہاشم قادری مصباحی
Pingback: انصاف بھی ضروری ہے اور مساوات بھی ضروری ہے ⋆ اردو دنیا ⋆ تحریر:جاوید اختر بھارتی
Pingback: تجلیات حضرت سرکار آسی علیہ الرحمہ ⋆ اردو دنیا ⋆ از:ابوضیاءغلام رسول مِہْرسعدی
Pingback: آن لائن تعلیم اور طلبہ کی بے رغبتی ⋆ اردو دنیا ⋆ تحریر: محمد حبیب اللہ بیگ ازہری
Pingback: یوپی الیکشن کیا ہماری مجبوری ختم ہوگی ⋆ اردو دنیا ⋆ از : غلام مصطفی نعیمی
Pingback: حجاب ونقاب اورکامن سول کوڈ کا بھوت ⋆ اردو دنیا ⋆ تحریر: طارق انور مصباحی
Pingback: حجاب تنازعہ اور مسلم پرسنل لا بورڈ کا مؤقف ⋆ اردو دنیا ⋆ از قلم: سمیع اللہ خان
Pingback: ⋆ سوشل میڈیا بلیک میلنگ ⋆ اردو دنیا ⋆ تحریر: شاہد علی مصباحی
Pingback: سپریم کورٹ کا یوپی حکومت کو زور دار طمانچہ ⋆ اردو دنیا ⋆ رپورٹ
Pingback: ایک سفر تین شخصیات ⋆ اردو دنیا از قلم : پٹیل عبد الرحمن مصباحی
Pingback: یار لوگ قانوں کی بات کرتے ہیں ⋆ اردو دنیا از قلم : مجیب الرحمٰن رہبر
Pingback: ماڈرن تصوف کے چائنیزبرانڈ ⋆ اردو دنیا غلام مصطفےٰ نعیمی
Pingback: اللہ کا شیر ⋆ اردو دنیا ⋆ تحریر: غلام مصطفےٰ نعیمی
Pingback: شدید نامناسب علیہم الرحمہ ⋆ اردو دنیا تحریر: غلام مصطفےٰ نعیمی
Pingback: لوگوں کی مدد ضرورکریں لیکن انہیں کیمرے کے سامنے ذلیل نہ کریں ⋆
Pingback: سراواں کے متضاد سُر ایک جائزہ ⋆ غلام مصطفےٰ نعیمی
Pingback: کالجوں کے شہر دھارواڑ میں ایک دن ⋆