آزادی انسان کا بنیادی حق
آزادی انسان کا بنیادی حق
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ
محترم جناب مولانا محمد عبد الحفیظ اسلامی (1997)بن محمد قاسم صاحب مرحوم 1957میں غیر منقسم آندھرا پردیش اور موجودہ حیدر آباد دکن تلنگانہ کے ایک با شعور دینی گھرانے میں پیدا ہوئے، جامعہ نظامیہ حیدر آبادسے 1969میں فراغت حاصل کی، مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودی کی تصنیفات وتالیفات سے استفادہ کرکے فہم قرآن اور فہم دین کی صلاحیت پائی ، رضائے الٰہی اور فلاح آخرت کو زندگی کا نصب العین اور ایک خدا کی بندگی، تفرقہ سے اجتناب اور بنی آدم کے تصور انسانیت کی ترویج واشاعت کو زندگی کا مشن بنایا
اس فکر کو عام کرنے کے لیے ۲۵؍ نومبر 1996سے سینئر کالم نگار اور آزاد صحافی کی حیثیت سے کام کرنا شروع کیا اور کثرت سے مضامین لکھنے، ہندوستان کا شاید ہی کوئی قابل ذکر اخبار ہوگا، جس میں مولانا کی تحریریں روز بروز نہ چھپتی ہوں، زود نویس ہیں، اس کے باوجود ان کے مضامین قرآن وحادیث سے مزین اور منطقی اسلوب سے آراستہ ہوتے ہیں
اس لیے قارئین پسند کرتے ہیں، موصوف کی کم وبیش سات کتابیں اے ایمان والو، رب کائنات کا فرمان، واقعہ معراج، تعارف قرآن ، تذکیرات، آداب بندگی اور آئینہ شہر وغیرہ طباعت کے مراحل سے گذر کر نذر قارئین ہو چکی ہیں، ان کی خدمات کے اعتراف میں تلنگانہ اسٹیٹ اور مختلف ادبی تنظیموں نے انہیں اعزازات وایوارڈ سے نوازا ہے۔
انہیں مولانا عبد الحفیظ اسلامی کی کتاب آزادی- انسان کا بنیاد ی حق- دستور آسمانی اور منشور سلطانی کا تقابلی جائزہ ہے ۔ ایک سو چھپن صفحات کی یہ کتاب اس موضوع پر مختصر مگر دریا بکوزہ کے مصداق ہے۔ تلنگانہ اسٹیٹ اردو اکیڈمی کے جزوی مالی تعاون سے شائع شدہ اس کتاب کی قیمت دو سو روپے اردو کتاب کے قارئین کے لیے گراں بار ہے، دار الاشاعت تعلیمات (فطرت انسانی) حیدر آباد اس کتاب کا ناشر ہے، ملنے کے پتے حیدر آباد کے ہی نصف درجن ہیں، سہولت مرکزی مکتبہ اسلامی چھتہ بازار حیدر آباد سے لینے اور منگوانے میں ہے، آپ چاہیں تو مصنف کے پتہ مکان نمبر 18-13- 8/J33/1 یونیک ریسیڈنسی، بنڈلہ گولہ، مین روڈ، جہانگیر آباد ، حیدر آباد 500005سے بھی حاصل کر سکتے ہیں۔ کتاب کا پیش لفظ مفتی محمد ظہیر صادق حسامی ندوی نے لکھاہے ، آغازآغاز خود مصنف کتاب کا ہے، انتساب والدین مرحومین کے نام مولانا کی سعادت مندی کی دلیل ہے۔
کتاب کا آغاز اقوام متحدہ کا منشور ۔ ایک حسین دستاویز کے عنوان سے ہوتا ہے ، اس کے ذیل میں منشور کی حقیقت ، رکن ممالک ، حقوق کی پامالی، انسانی المیوں کو روکنے میں ناکامی اور اس جیسے کئی موضوعات پر گفتگو کی گئی ہے، مسئلہ فلسطین، بوسینیا میں مسلمانوں کے قتل عام، عراق پر حملہ، روہنگیا مسلمانوں کے مسائل کا بھی ذکر ہے، منشور سلطانی کے در وبست کا جائزہ لینے کے بعد مولانا دستور آسمانی پر آتے ہیں، اور ’’قوانین باری تعالیٰ میں انسانی فلاح وکامیابی کی ضمانت‘‘ قرار دیا ہے
اس ضمن میں آسمانی دستور کا دائزہ اطلاق، تصور حاکمیت ، فرائض کی اولیت، فطری اور پیدائشی حقوق، احترام آدمیت ، مشاورت کی اہمیت اور خلافت پر تفصیل سے مولانا نے روشنی ڈالی ہے، مولانا نے آسمانی حکمرانی کے لیے خلفاء راشدین کو مستقل نمونۂ تقلید قرار دیا ہے اور اس ضمن میں حضرت عمرؓ اور حضرت علی ؓکے دورخلافت کو ذرا تفصیل سے پیش کیا ہے۔ البتہ حضرت ابو بکر صدیق ؒ کے دور خلافت کا تذکرہ ذرا ہلکا ہے، حضرت عثمانؓ کا دور، ابتلاء وآزمائش کا ضرور تھا، لیکن اس موضوع سے متعلق ا ن کے دور کے کارہائے نمایاں کا ذکر بھی تفصیل سے آنا چاہیے تھا، کیوں کہ یہ نئی نسل کی ذہنی تطہیر کے لیے ضروری تھا، جو اس دور کے واقعات کو پڑھ کر شکوک وشبہات میں مبتلا ہو جاتے ہیں اور صحابہ کرام کی طرف بھی ان کی نظر ترچھی ہوجاتی ہے، اور وہ اصحابی کالنجوم بایھم اقتدیتم اھتدیتم کے حدیث ہونے کا ہی انکار کر بیٹھتے ہیں، حالاں کہ اس دور کے بڑے محقق محدث حضرت مولانا مفتی سعیداحمد ؒ پالن پوری اسے حسن درجہ کی حدیث قرار دیتے ہیں۔
ان موضوعات سے فراغت کے بعد مولانا نے آداب معاشرت ، شخصی آزادی کے تحفظ ، اظہار رائے کی آزادی، مذہب ودھرم کے لیے زور زبر دستی نہیں اور بھارت دیش ایک عظیم جمہوریت کو بھی اپنی تحریر کا موضوع قرار دیا ہے۔ مولانا کی تحریر کا اپنا رنگ وآہنگ ، فکر کی راستگی اور مطالعہ کی گہرائی ہے، قرآن واحادیث اور نصوص پر ان کی نظر اچھی ہے، اس لیے جو بھی لکھتے ہیں، مدلل لکھتے ہیں، البتہ حوالہ جات کے ذکر کا اہتمام کم کرتے ہیں، مضامین میں اس کی گنجائش بھی ذرا کم ہی ہوتی ہے، قاری حوالوں کے بوجھ تلے دب کر رہ جاتا ہے اور مطالعہ کا تسلسل متاثر ہوجاتا ہے، مضمون کو پڑھتے وقت جو فکری ارتکاز اور یک سوئی ہونی چاہیے، وہ باقی نہیں رہتی ، اس لیے رسائل کے لیے جو مقالات لکھے جاتے ہیں، ان میں اس کا اہتمام کیاجاتا ہے، مضامین میں نہیں ، لیکن یہ مضامین ایک خاص ترتیب کے ساتھ کتابی شکل میں اکائی کے طور پر قارئین کے سامنے لائے گئے ہیں، اس لیے ان میں حوالوں کا اہتمام ہونا چاہیے تھا۔
مولانا کی یہ کتاب اس خاص موضوع پر اہم ہے،اس موضوع پر مولانا اختر امام عادل کی کتاب ’’حقوق انسانی کا عالمی منشور‘‘ کے نام سے شائع ہو چکی ہے اور مقبول ہے۔ کتاب خوبصورت چھپی ہے، دیدہ زیب ہے، سر ورق پر دو ہاتھوں کی تصویر ہے، جس نے زنجیروں کو توڑ دیا ہے، اس سے مصنف کی رجائیت کا پتہ چلتا ہے کہ ظلم وجور ، حق تلفی ، ستم شعاری کی زنجیریں ٹوٹیں گی اور دستور آسمانی سے منشور سلطانی مغلوب ہو کر رہ جائے گا، بے اختیار فیض یاد آگیے، کہتے ہیں۔
اب ٹوٹ گریں گی زنجیریں اب زندانوں کی خیر نہیں
جو دریا جھوم کے اٹھے ہیں تنکوں سے نہ ٹالے جائیں گے