رام نومی پر تشدد اصل مجرم کون

Spread the love

از قلم : سید سرفراز احمد ، بھینسہ رام نومی پر تشدد اصل مجرم کون  ؟

رام نومی پر تشدد اصل مجرم کون

بھارت میں فرقہ وارانہ تشدد ہونا کوئی نئی بات نہیں ہے بس تھوڑا سا فرق ضرور ہے پہلے فرقہ وارانہ تشدد عین انتخابات سے قبل ہوا کرتے تھے جو انتخابی حربہ سمجھے جاتے تھے کیوں کہ سیاستداں پانچ سال تک کیے گئے وعدوں سے منحرف ہوکر عوام کو بہلاتے اور پھسلاتے رہتے ہیں

پھر جب انتخابی موسم دستک دینے لگتا ہے تو فرقہ وارانہ نفرت پھیلائی جاتی ہے جس سے سیاسی فائدہ حاصل کرلیا جاتا ہے لیکن جب سے بھاجپائی اقتدار اس ملک پر قابض ہوا ہے فرقہ وارانہ تشدد کے رویہ میں بھی تبدیلی آئی ہے

جو بناء وجہ کبھی بھی کسی بھی وقت رونما ہوجاتے ہیں بھاجپائی اقتدار سے پہلے فرقہ وارانہ تشدد انتخابات کے موقع پر ہوا کرتے تھے جس کے زمہ دار سیاستدان یا سیاسی پارٹیاں ہوا کرتی تھی

لیکن اب ان ہی سیاسی پارٹیوں نے بالخصوص ہندوتوا ایجنڈے نے نفرت کا زہر سماج میں اتنا پھیلادیا ہے کہ اب سیاسی پارٹیوں کو فرقہ پرستی پھیلانے کی بھی ضرورت نہیں رہی بلکہ ہندوتوا ایجنڈے نے دیش کو خالص ہندو راشٹر بنانے کا میموری کارڈ ہندو طبقہ کے زہنوں میں ایسے بٹھادیا ہے

جنہیں اچھے اور برے کی بھی تمیز باقی نہیں رہی اور وہ خود سیاسی پارٹیوں کا کام بڑی آسانی سے کربھی رہے ہیں

اور اب ملک کی حالت یہ ہوگئی ہیکہ کہیں بھی زبردستی تشدد برپا کرواکر فرقہ وارانہ تشدد کا نام دیا جارہاہے بھاجپائی اقتدار میں قدم رکھے تب سے ہی مسلمانوں پر عملاً سماجی تشدد کا آغاز گائے کے گوشت کے نام پرہجومی تشدد سے ہوا

جو بڑھتے بڑھتے اب یہاں تک پہنچ گیا کہ اب ہندو طبقہ کے تہواروں میں بھی مسلمانوں کو نشانہ بنایا جانے لگا ہے جسکی حالیہ مثال رام نومی شوبھا یاترا کی ہے اس جلوس کے موقع پر ملک کی سات تا آٹھ ریاستوں میں فرقہ وارانہ تشدد پھیلایا گیا سوال یہ ہےکہ اس فرقہ وارانہ تشدد کا اصل مجرم کون ہے؟ ـ

  10  /اپریل بروز اتوار کو ہونے والے سری رام نومی کی شوبھا یاترا کے موقع پر فرقہ وارانہ تشدد کی جھلکیاں ملک کی کم و بیش سات سے آٹھ ریاستیں جن میں گجرات، مدھیہ پردیش، گوا،مغربی بنگال، کرناٹک،جھارکھنڈ، بہار میں دیکھنے کو ملی ہے اس تشدد نے ملک کے اور ریاستوں کے نظم و نسق پر ایک بہت گہرا سوال چھوڑا ہے کہ آخر اس تشدد کے پیچھے نظم و نسق کی کوتاہی ہے یا مذہبی نفرت میں اضافہ؟

انڈین ایکسپریس کی رپورٹ کے مطابق ریاست مدھیہ پردیش کے کھر گون کے مختلیف علاقوں میں جس طرح سے فساد پھوٹ پڑا کئی گھروں کو نذر آتش کیا گیا زرائع کے مطابق تالاب چوک مسجد کے قریب رام نومی جلوس میں اشتعال انگیز گانے بجائے جارہے تھے

جس کی کچھ افراد نے مخالفت کی لیکن دنگائیوں نے موقع کا بھر پور فائدہ اٹھاتے ہوئے مسجد پراور مسلم گھرانوں پر پتھر بازی شروع کردی

جب کہ اہم بات یہ بھی ہے کہ اس شوبھا یاترا میں کپل مشرا بھی شریک تھا جس کا ایک ٹوئٹ سوشیل میڈیا پر وائرل بھی ہورہا ہے جس میں اس نے لکھا کہ

“نہ موسی نہ برہان بس جے سری رام”

جس سے اندازہ مل رہا ہی کہ رام نومی جلوس کا مقصد مذہبی عقائد سے تو پوری طرح سے الگ تھلگ تھا کپل مشرا کا یہ ٹوئٹ ہر حال میں فرقہ وارانہ رنگ دینے کی ایک منظم سازش کو ابھار رہا ہے

اور ریاست کی انتظامیہ یاتو غفلت کی نیند سورہی ہے یا جاگتے ہوئے بھی سونے کا ڈرامہ کررہی ہے

اس ایک واقعہ سے مدھیہ پردیش کے دیگر علاقوں میں بھی جھڑپیں رونما ہوئی مدھیہ پردیش حکومت کی لاپرواہی و کوتاہی کی بھی ستائش کرنی چاہیے کہ حالات بگڑنے کے بعد کرفیو لگا دیا گیا

مسلمانوں کے گھروں پر بلڈوزر چلایا جارہا ہے پولیس کی طرف سے مسلمانوں سے یکطرفہ کاروائی کی جارہی ہے کھرگون میں خواتین بلک بلک کر رو رہی ہے مسلم نوجوانوں کو گھسیٹ کر حیوانوں جیسا سلوک کرکے حراست میں لیا جارہا ہے

کاش کہ انتظامیہ اور حکومت تشدد کی چنگاری لگنے سے پہلے ہی اسے بجھا دیتی لیکن حکومت نے ایسا نہیں کیا جب حکومتیں اپنی ریاست کے نظم و نسق چلانے میں ناکام ہوجاتی ہوں تو ایسی حکومت ہر محاز پر ناکام حکم رانی کی اہل ہوگی خواہ اس کا ایجنڈہ کچھ بھی ہو

خود مدھیہ پردیش کے وزیر داخلہ نے بھی اس تشدد کو پھیلانے کا سر مسلمانوں کے سر مونڈھ دیا اور بڑے پیمانے پر مسلم علاقوں سے گرفتاریاں بھی کی جارہی ہیں بات یہیں نہیں رکتی گجرات میں بھی رام نومی کے موقع پر تین قصبات جنمیں آنند نگر، کھمبات اور ہمت نگر میں تشدد برپا کیا گیا دکانوں کو گاڑیوں کو جلایا گیا

پولیس کا کہنا ہے کہ دونوں طبقات کی جانب سے ایکدوسرے پر پتھراؤ کیا گیا پولیس کی طرف سے آنسو گیس کا استعمال کیا گیا تشدد زدہ علاقہ ہمت نگر میں ایک مسجد اور مزار کو فسادیوں کی جانب سے نذر آتش کرنے کی کوشش کی گئی جس کا ایک ویڈیو وائرل بھی ہورہا ہے جہاں مسجد سے دھواں اٹھ رہا ہے

اسی طرح سرخیوں میں پیش پیش رہنے والی ریاست کرناٹک کے رائچور میں جلوسیوں نے عثمانیہ مسجد کے پاس ڈی جے ساؤنڈ کا بے تحاشہ استعمال کیا اور اشتعال انگیز نعرے بلند کیے بہار کے مظفر پور ضلع میں بھی ہندو انتہا پسندوں نے ایک مسجد کی بے حرمتی کرتے ہوئے دروازے کے اوپر زعفرانی جھنڈا نصب کردیا گیا

جس کا ویڈیو وائرل ہورہا ہے کہ کس طرح بھگوا نوجوان مسجد پر بھگوا جھنڈا لہرا رہے ہیں جو کھلے عام دہشت گردی کا ثبوت بھی دے رہے ہیں

اسی طرح ایک اور مقام پر عیدگاہ پر بھگوا جھنڈا لگایا گیا جس کے بعد دونوں فریقین میں کشیدگی پیدا ہوگئی

لیکن بہار کی پولیس نے نظم و نسق کا استعمال کرتے ہوئے بڑھتی ہوئی کشیدگی کو دور کردیا لیکن ساتھ ہی ساتھ مسلمانوں نے صبر و تحمل کا مظاہرہ کرتے ہوئے اعلی ظرفی کی مثال قائم کی مغربی بنگال میں باوڑہ میں شوبھا یاترا کے دوران فرقہ وارانہ کشیدگی دیکھی گئی

جس کےساتھ ہی دیگر مقامات پر پولیس کو بھاری تعداد میں تعینات کردیا گیا تھا لیکن بنگال کی بھاجپا کا کہنا ہیکہ پولیس نے رام نومی جلوس پر حملہ کیا جھارکھنڈ کے لوہاردگاہ میں رام نومی جلوس کے دوران آتش زنی اور پتھر بازی کے واقعات رونما ہوئے

تین افراد کی حالت انتہائی تشویش ناک بتائی جارہی ہے اور کچھ زخمی ہونے کی بھی اطلاع ہے گوا کے اسلام پورہ علاقہ کی مسجد اقصی کے پاس رام نومی جلوسیوں نے دنگائیوں کا بھر پور مظاہرہ کیا عین افطار کے وقت مسجد میں داخل ہو کر مسجد میں موجود روزے داروں کو ہراساں کرنے کی کوشش کی گئی اور جلوس کے دوران مسلمانوں کی دل آزاری کرتے ہوئے اشتعال انگیز نعرے بھی لگائے

وہیں ایک اور علاقہ واسکو میں تروایح کے دوران مسجد پر حملہ کرنے کی کوشش کی گئی ریاست راجستھان سے بھی رام نومی یاترا کے دوران فرقہ وارانہ کشیدگی کی اطلاع ملی ہے

قارئین اب آپ اندازہ کیجئے کہ ایک رام نومی مذہبی جلوس جس کو جس قدر انتہائی احترام تزک و احتشام سے نکالنا چاہیے اسی جلوس کو آج اس کے برعکس تشدد بھڑکانے کے لیے استعمال کیا جارہا ہے

کیا ہندو طبقہ کی رام سے یہی محبت کا ثبوت ہے؟

اگر ہم ملک بھر کے ان تمام تشدد زدہ ریاستوں کا جائزہ لیتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ جن ریاستوں میں بھاجپائی اقتدار موجود ہے جن میں کرناٹک، گجرات،مدھیہ پردیش، گوا ان ریاستوں میں نظم و نسق کی کوئی پابندی نہیں رہی اور نہ یہاں کی بھاجپا حکومتیں تشدد کو روکنے میں کام یاب رہی

بلکہ اندازہ تو ایسا مل رہا ہے کہ انہی حکومتوں نے دنگائیوں کو کھلی چھوٹ دے رکھی ہے

تب ہی تو یہ بھگوا نوجوان اتنی آزادی سے اور آسانی سے تشدد کو برپا کردیتے ہیں جن میں انسانیت نام کی بھی کوئی چیز باقی نہیں رہی

سب سے بدترین حال مدھیہ پردیش میں کھرگون کا ہے جہاں ایک طرف فساد بھی کیا جاتا ہے اور ساتھ ہی مسلم آبادیوں کو نشانہ بھی بنایا جاتا ہے اور حکومت غیر قانونی اراضی پر گھروں کی تعمیر کا بہانہ بناکر بلڈوزر چلا دیتی ہے اور وہاں کی مسلمان ماؤں اور بہنوں کے ساتھ ظلم وذیادتی کی جارہی ہے جو ابھی بھی جاری ہے

پولیس کی طرف سے مسلم آبادیوں کو نشانہ بنایا جارہا ہے آخر شیوراج سنگھ چوہان اپنی ریاست کے مسلمانوں کے ساتھ کیا کرنا چاہتے ہیں؟

کیوں یکطرفہ صرف مسلمانوں کے گھروں پر کاروائی کی جارہی ہے؟

کیا ہندو طبقہ کے خاندان غیر قانونی طور پر قابض نہیں ہے؟

دنگائیوں کو ان بھگوا حکمرانوں نے ہی اتنی آزادی دے دی ہیکہ اب وہ کھلے عام شر انگیزی کررہے ہیں اور جن کے خلاف کوئی کاروائی بھی نہیں کی جارہی ہے حکومت بھی چپ ہے اور انتظامیہ بھی خاموش تماشائی

لیکن ایک بات یہ بھی ہے کہ ان بھگوا اور ہندوتوا رنگ کے ماننے والوں کو لفظ مسلمان سے کوفت ہے وہ ہر حال میں مسلمانوں کو نشانے پر رکھنا چاہتے ہیں تب ہی اتنی شدت سے ملک کے مسلمانوں کے اوپر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے جارہے ہیں

اور اس طرح کا پورے ملک میں یکساں ہونے والے تشدد کے اصل مجرمین تشدد برپا ہونے والی ریاستوں کے حکمران ہیں اور وہاں کی نااہل انتظامیہ اور نظم و نسق کا فقدان اگر ان تمام کے خلاف بھی ملک کی وزارت داخلہ بھی کچھ کاروائی نہ کرے تو وہ بھی اس کے برابر کے زمہ دار رہیں گے ـ

 

جب سے پانچ ریاستوں کے انتخابی نتائج آئے ہیں تب ہی سے بھگوا اور ہندوتوا کارکنوں کے حوصلوں میں مزید اضافہ ہونے لگا ہے وہ کچھ بھی کرنے سے پیچھے نہیں ہٹ رہے ہیں

مودی ہے تو سب کچھ ہے یہ سوچ نے انھیں ذہنی بھکت بنا دیا ہے اور انھیں اس ملک میں سوائے ہندو کے علاوہ کچھ نظر نہیں آرہا ہے

اور بھاجپا بھی یہ سمجھ رہی ہیکہ ہم ہی فائنل مقابلہ کےدعویدار ہیں اسی بھرم نے انھیں اور انکے اند بھکتوں کو نفرت پھیلانے ، تشدد بھڑکانے ، مسلمانوں کا قتل عام کرنے،جمہوریت کوداغدار بنانے، قانون کی دھجیاں اڑانے

شریعت میں مداخلت کرنے غرض یہ کہ ہر سمت سے مسلمان کو ستانے میں انھیں بڑا مزہ آنے لگاہے اور یہی انکی حد درجہ کی اور نچلی سطح کی سیاست ہے جو نہ اند بھکتوں کو سمجھ میں آتی ہے نہ ملک کی اکثریت کو

اگررام نومی شوبھا یاترا پر تشدد برپا ہونے کے امکانات ہوں تو کیوں ریاستی حکومتیں انھیں جلوس کی اجازت دیتی ہے؟کیوں ڈی جے ساؤنڈ کی اجازت دیتی ہے؟

حالاں کہ عدالت اعظمی کے احکامات کے مطابق کسی بھی جلوس میں ڈی جے کی اجازت نہیں ہے پھر ریاستی حکومتیں اس پر سختی سے عمل آواری کیوں نہیں کررہی ہے؟

کیا حکومتوں نے جمہوریت کو فراموش کردیا ہے؟

یا پھر وہ اپنی دستوری زمہ داریوں کو ادا کرنا بھول گئے؟جب حکومتیں جلوس کی ڈی جے کی اجازت بھی دیتی ہوں تو وہ پہلے اپنا دائرہ کار بھی دیکھ لیں کہ کیا وہ اس جلوس پر کڑی نگرانی کرسکتی ہیں یا نہیں نظم و نسق کی برقراری کیلئے عملی اقدامات کرسکتی ہے یا نہیں،اگر نہیں کرسکتی تو اجازت بھی کیوں دیتی ہے

لیکن حکومت کی جانبدارانہ کاروائی سے یہ صاف نظر آرہا ہیکہ حکومت اور پولیس اس تشدد کی اصل مجرم ہے اگر یہ سختی کرتے اور نظم و نسق کی پابندی کرتے تو کسی مائی کے لال کی ہمت نہیں ہوسکتی

کہ وہ قانون کی دھجیاں اڑاتے ہوئے اس کی خلاف ورزی کریں مودی میڈیا بھی اتنا سب کچھ  دیکھنے کے باوجود بھی اپنی ٹی آر پی کی لالچ میں مودی کے قصیدے ہی پڑھ رہا ہے

سوال ملک کے وزیر اعظم اور وزیر داخلہ پر بھی اٹھتا ہے کیوں کہ اتنی نفرت اور شر انگیزی پھیلنے کے باوجود بھی نہ ملک کے وزیراعظم کی طرف سے ایک اف تک نہیں کہا جاتا اور نہ وزیر داخلہ کی طرف سے

لیکن ان کی خاموشی بھی نفرت انگیز آوازوں کو تقویت دے رہی ہے اور ان کے حوصلوں میں اضافہ بھی کررہی ہے اور جب پولیس خود چور کا کام کرنے لگتی ہوتو اسی طرح کے تشدد اور فسادات رونما ہونے لگتے ہیں

جس میں نہ کوئی عوامی مفاد شامل ہے نہ کسی طبقہ کی ترقی بلکہ ملک زوال کی سمت آگے بڑھتا رہتا ہے جسکی زد میں نہ صرف ملک کا مسلمان آئے گا بلکہ ملک کا ایک ایک شہری اسکی زد میں آئے گا

لہذا ریاستی حکومتوں کو چاہیئے کہ اپنی کرسی کا ناجائز فائدہ نہ اٹھائیں اگر آجوہ مسند پر ہیں تو کل نہیں بھی رہیں گے لیکن انکی ناکام حکمرانی کا ایک ایک لفظ تاریخ کے اوراق میں محفوظ رہے گا

اور ان کی مذہبی عدم روا داری کے کارناموں کو مورخ رقم کرے گا اور ان حکم رانوں کو اور دنگائیوں کو یہ بھی نہیں بھولنا ہوگا کہ ظلم آخر ظلم ہے جب حد سے بڑھ جاتا ہے تو فنا بھی ہوجاتا ہے

جس کی تاریخ نے کئی مثالیں بھی پیش کی ہیں ملک کی سلامتی اور ترقی اسی میں ہے کہ تمام مذاہب کو ساتھ لے کر چلیں امن کا گہوارہ بنائیں مذہبی منافرت کا خاتمہ کریں ورنہ اگر اس کے برعکس کیا جائے تو یاد رہے کہ زد میں سب آئیں گے ـ

سید سرفراز احمد، بھینسہ

رابطہ نمبر:-9014820913

3 thoughts on “رام نومی پر تشدد اصل مجرم کون

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *