فریب نہ دیجیے اور نہ کھائیے
فریب نہ دیجیے اور نہ کھائیے
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ
انسانی سماج میں جن چند برائیوں نے مضبوط جگہ بنا لی ہے ، اور انہیں برائی اور گناہ سمجھنے کا تصور دن بدن ختم ہو تا جا رہا ہے ان میں ایک ’’فریب ‘‘ ہے’’ فریب‘‘ کے معنی لغت میں دھوکہ کے آتے ہیں ، دھوکہ دینے والے کو فریبی ، مکار ، عیار دغا بازاور دھوکہ باز کہتے ہیں ، فریب کی جو چند قسمیں سماج میں پائی جاتی ہیں ان میں’’ فریب نفس ‘‘سب سے اہم ہے ، آدمی اپنی ذات کے بارے میں فریب میں مبتلا رہتا ہے ، وہ اپنے کو بڑا اسکالر سمجھتا ہے.
حالاں کہ وہ شیر او رشٖیر میں فرق نہیں کرپاتا ہے ، وہ اپنے کو بڑا عالم سمجھتا ہے، حالانکہ حقیقتاً اسے علم کی ہوا نہیں لگی ، وہ معمولی بس کا ڈرائیور ہے؛ لیکن پائلٹ لکھ کراپنے کو فریب دے رہا ہے۔وہ معمولی کلرک ہے ، لیکن اپنے کو ادارہ کے ذمہ داروں سے بھی بڑا سمجھتا ہے۔ فریب نفس کی ہی ایک قسم یہ ہے کہ آدمی اپنی صحت ، جوانی ، عہدے ، مال اور جاہ ومنصب میں اس طرح کھوجاتا ہے، گویا یہ چیزیں ہمیشہ ہمیش اس کے پاس رہنے والی ہیں
حالانکہ موت اور بسا اوقات احوال وحوادثات ان چیزوں کو آسانی سے جدا کردیتے ہیں اور فریب نفس کا شکار آدمی ٹوٹ کر رہ جاتا ہے ، وہ چلتا پھرتا ، کھا تا پیتا ، ہنستا بولتا ہے؛ لیکن حقیقت میں ’فریب نفس‘ کے بت کے پاش پاش ہونے کی وجہ سے مردہ کی طرح ہوجاتا ہے اور زندگی میں ہی اسے فریب خوردہ ہونے کا عذاب مل جاتا ہے ، جمیل مظہری نے اس فلسفہ کو ایک شعر میں پیش کیا ہے ؎بقدر پیمانۂ تخیل سُرور ہردل میں ہے خودی کا اگر نہ ہو یہ فریب پیہم تو دم نکل جائے آدمی کا انسان فریب پیہم میں مبتلا رہتا ہے ، اور موت اسے آخری نیند سلا دیتی ہے، فریب کا طلسم ٹوٹ جاتا ہے، لیکن اب حقیقت کی دنیا میں آنے کا وقت نہیں رہتا ،اب تو آخرت کے حقائق سے اس کا سامنا ہوتا ہے ،جس کے لئے اس نے کچھ تیاری نہیں کی تھی۔ فریب نفس کی ایک دوسری قسم ، اپنے بارے میں دوسروں کو دھوکہ میں ڈالنا ہے ، اس مرض کا شکار آدمی جیسا ہو تا ہے ویسا نظر نہیں آتا، اورجیسا نظر آتا ہے ویسا ہوتا نہیں ہے ، وہ اپنے کو ایماندار، شریف اور متواضع بنا کر سماج کے سامنے پیش کرتا ہے ، حالانکہ ان چیزوں سے اس کا دور کا بھی واسطہ نہیں ہوتا ۔ پروفیسر لطف الرحمن کا ایک بڑا ہی بلیغ شعر ہے ؎
عجب طرز انا ہے یہ خاکساری بھی قریب سے جو دیکھا تو خدا
نکلاگویا کہ خاکساری اور تواضع صرف دکھاوے کا ہے ،حقیقت میں وہ اتنا متکبر اور اس قدر فخر وغرور رکھتا ہے کہ بزعم خود ،خدا سے مقابلہ کر رہا ہے ۔ یہ دو رُخی زندگی اگر ایمان وعقیدہ کا جز بن جائے تو یہ فریب نفسی انسان کومنافق بنادیتی ہے ، وہ سوچتا ہے کہ میں دوسروں کو دھوکہ دیتا ہوں؛ حالانکہ وہ خود فریب خوردہ ہوتا ہے ، اللہ تعالیٰ نے اسی حقیقت کو واضح کرتے ہوئے فرمایا کہ وہ اللہ اور ایمان والوں کو دھوکہ دینا چاہتے ہیں حالانکہ وہ خود دھوکہ کھا رہے ہیں جس کا انہیں احساس تک نہیں ہے ۔ یُخٰدِعُوْنَ اللّٰہَ وَ الَّذِیْنَ آمَنُوْ وَمَایَخْدَعُوْنَ اِلَّا اَنْفُسَھُمْ وَمَا یَشْعُرُوْن۔ دوسری جگہ ارشاد فرمایا یُخٰدِعُوْنَ اللّٰہَ وَ ھُوَ خَادِعُھُم۔ فریب کی یہ قسم خاص طور پر قابل مذمت ہے ، اس سے بڑے مفاسد جنم لیتے ہیں ،آدمی جن لوگوں پر اعتماد کرتا ہے اور جن کے ظاہری حرکات وسکنات سے ان پر اعتماد کرنے کو جی چاہتا ہے وہی دھوکہ پراتر آتے ہیں اور معاملہ جن پر تکیہ تھا، وہی پتے ہوا دینے لگے کا ہوجاتا ہے ، ایک شاعر نے اچھے انداز میں اس کی ترجمانی کی ہے ؎
دیکھا جو تیر کھا کے کمین گاہ کی طرف
اپنے ہی دوستوں سے ملاقات ہو گئی
یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ایسے لوگوں کا مقام جہنم کے نچلے طبقے میں رکھا ہے ۔ ارشاد فرمایا:اِنَّ المُنَافِقِینَ فِِیْ الدَّرْکِ الأسْفَلِ مِنَ النَّارِ۔ فریب کی ایک قسم فریب نظر بھی ہے ، اس میں آدمی خود دھوکا کھا جاتا ہے ، سامنے والے کی نیت دھوکہ دینے کی نہیں ہوتی ، یہ فریب نظر ہے ، تپتے ہوئے صحرا میں زمین کی حرارت سے اٹھ رہی لہر پانی نظر آتا ہے، حالانکہ وہاں ریت ہی ریت ہوتا ہے، اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا کَسَرَابِ بِقیعۃ یَحْسَبُہُ الظَمْاٰنُ مَائَ اً ، حَتّٰی اِذَا جَائَہُ لَمْ یَجِدْہُ شَیْئاً۔ جیسے صحرا کا سراب کہ پیاسا اسے پانی سمجھتا ہے اور جب قریب جاتا ہے تو کچھ نہیں پاتا ہے ، اسی بنیاد پر کہا جاتا ہے کہ ہر چمکتی ہوئی چیز سونا نہیں ہوتی ،شاعر نے کہا ہے ؎ نہ جا ظاہر پرستی پر اگر کچھ عقل ودانش ہے چمکتا جو نظر آتا ہے سب سونا نہیں ہوتاغالب کا فریب نظر کے سلسلے میں مشہور شعر ہے ؎ہیں کو اکب کچھ نظر آتے ہیں کچھ دیتے ہیں دھوکا یہ بازی گر کھلاعملی اورمعاملاتی زندگی میں بھی ان دنوں فریب اور دھوکہ کی کثرت ہو گئی ہے ، وعدہ کرکے پورا نہ کرنا دھوکہ کی ہی ایک قسم ہے ، آپ نے کسی سے کسی تقریب میں شرکت کا وعدہ کیا ، مال ودولت فراہم کرانے کی یقین دہانی کرائی اور عین وقت پر مکر گئے، یہ بھی دھوکہ ہے ، اسی وجہ سے وعدہ خلافی کو منافق کی علامتوں میں سے ایک علامت قرار دیاگیاہے، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اذا وعد اخلف فرمایا کہ جب وعدہ کرے تو اس کی خلاف ورزی کرے، خیانت بھی فریب کی ایک قسم ہے ، کسی نے آپ کے یہاں امانت رکھ دیا ، آپ نے اس کی امانت واپس کرنے سے انکار کر دیا یا اس میں تصرف کرکے اسے نیست ونابود کر دیا یہ بھی عملی فریب ہے اور اسی وجہ سے اس کو بھی منافق کی علامتوں میں سے ایک قرار دیا گیا ہے ، اذأتمن خان، جب امانت رکھی جائے تو خیانت کرے۔دھوکہ اور فریب کی ایک قسم یہ بھی ہے کہ معاملات میں جو کچھ طے ہوا ہے اس کی خلاف ورزی کی جائے ، کاروبار میں اچھا مال دکھا کر سودا کیا جائے اور خراب مال سپلائی کر دیا جائے ، پھٹے ہوئے تھان کو اچھا تھان کہہ کر بیچ دیا جائے ، گول مرچ میں پپیتے کے بیج کی ملاوٹ کر دی جائے اور گول مرچ کہہ کر بیچ دیا جائے، اللہ کے رسول صلی اللہ وعلیہ وسلم نے ایسے لوگوں کو اپنی جماعت سے خارج قرار دیا ہے ، فرمایا من غش فلیس منا ، جس نے دھوکہ دیا وہ ہم میں سے نہیں ہے ، اس سلسلے میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایت ہے کہ اگر اوپر کا گیہوں ہوا لگنے سے خشک ہوگیا ہو اور اندر کا تر ہو تو نکال کر دکھاؤ کہ اندر کا گیہوں بھیگا ہے ، امام اعظم ابو حنیفہ ؒ کے تذکرے میں لکھا ہے کہ ایک تھان میں کچھ نقص تھا ، خادم نے بغیر بتائے ہوئے بیچ دیا تو اس دن کی ساری آمدنی صدقہ کر دیا ۔ اسلام نے ہر قسم کے فریب کی مذمت کی ہے تاکہ ایک ایسے سماج کی تشکیل کی جا سکے، جس میں کوئی کسی سے بلکہ خود سے بھی دھوکہ نہ کھائے اور معاشرہ میں ایک دوسرے پر اعتبار واعتماد کی ایسی فضا بنے کہ کسی بھی پریشانی اور مشقت کے وقت انسان ایک دوسرے کا دست وبازو بن سکے۔دراصل فریب کی وجہ سے جوبے اعتمادی پیدا ہوئی ہے، اس سے سماج میں انسان کا مرتبہ تو کم ہوتاہی ہے، اس سے انسان بہت ساری اخلاقی برائیوں میں مبتلا ہوجاتا ہے، دھوکہ دینا آسان ہے، لیکن جب انسان دھوکہ کھاتا ہے تو اس کی کراہیں نکل آتی ہیں۔ بعض لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ اس سے ہماری عزت بڑھتی ہے ، یہ خیال بھی ایک فریب ہے، جو شیطان انسانوں کے دماغ میں ڈالتا ہے۔ تجربہ کا ر لوگوں کے مشورہ کے بغیر جو کام کیا جاتا ہے اس میں دھوکہ اور فریب کھانے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔ دھوکہ دینے سے وقتی لذت وفائدہ کا حصول ہو سکتا ہے، لیکن جیسے ہی وقتی لذت ختم ہوتی ہے، انسان بے سکونی میں مبتلا ہوجاتا ہے، اسے یہ ڈر ستانے لگتا ہے کہ اگر ہمارا یہ فریب لوگوں پر کھل گیا تو کیسی رسوائی ہوگی، اس کے علاوہ اگر فریب اور دھوکہ کا معاملہ کسی پر نہ بھی ظاہر ہوا تو بھی وہ کراماً کاتبین سے چھپا ہوا نہیں رہ سکتا، اور آخرت کی رسوائی، دنیا کی رسوائی سے زیادہ سخت ہے۔ ہمارے زمانہ میں فریب اور دھوکہ دہی کی بعض ایسی صورتیں بھی نکل آئی ہیں، جس کا کوئی تصور ماضی میں نہیں تھا، اب بینک میں کلیرنس کے نام پر دھوکہ دینے والوں کی پوری فوج موجود ہے، آپ کے موبائل پر فون آتا رہتا ہے کہ آپ کو اتنی رقم انعام میں ملی ہے، بینک کی تفصیلات بھیجئے اور اپنے اکاؤنٹ میں جمع کرائیے، بہت سارے واقعات میں دیکھا گیا ہے کہ زمین کے دلال دوسرے کی زمین کو آپ کے ہاتھ بیچ دیتے ہیں اوپیسہ لے کر فرار ہوجاتے ہیں، سرکاری زمینوں کو بیچ دینے کا چلن تو عام ہے، اسی طرح غیر ملک میں نوکری دلانے کے نام پر موٹی موٹی رقمیں وصول کر کے لے بھاگنا عام سی بات ہے، لڑکیوں کو محبت کے جال میں پھنسا کر شادی کرنے کے عزم کا اظہار کرکے ناجائز جنسی تعلق کے بعد شادی سے مکر جانا ،یہ سب فریب اور دھوکا کی ہی مختلف شکلیں ہیں، اس لیے دھیان رکھئے نہ فریب دیجئے اور نہ فریب کھائیے، دنیا وآخرت کی بھلائی اسی میں ہے ۔