جنگ آخر جنگ ہے
جنگ آخر جنگ ہے
انس مسرورانصاری
ہمارے میردانش مند بہت اداس بیٹھےتھے ۔ فلسطین اوراسرائیل کےمابین جنگ زوروں پر تھی ۔ ایک دوسرے کوجی جان سے شکست دینے کی کوشش کر رہےتھے ۔ میر صاحب نے پوچھا۔۔ آخر جنگ ہوتی کیوں ہے ۔۔،،؟ ہم نے انھیں سمجھایا کہ یہ ہماری آ بائی رسم ہے جسے ہم گاہےگاہےادا کرتے رہتے ہیں ۔جنگ کی تاریخ قدیم سے قدیم ترہے ۔لیکن جنگ چاہے میدان میں ہو یا گھر میں، تباہیاں دونوں جگہ آتی ہیں ۔
گھریلو جنگ میں شوہِر نام دارہمیشہ ہارمان لیتےہیں اوربیویاں ہمیشہ جیت جاتی ہیں ۔ جنگ کی بہت ساری اقسام ہیں۔دوملکوں کےدرمیان جنگ کو۔۔جنگِ صغیراوربہت سارےملک جب آپس میں لڑنے لگیں تو اسے جنگِ عظیم کہتے ہیں ۔ بعض مرتبہ گھروں میں بھی جنگِ عظیم برپاہوتی ہے۔میدانی جنگوں میں بین الاقوامی اصولوں کی ہمشہ خلاف ورزی کی جاتی ہے۔عورتیں،بچےاورضعیف مردوں کاقتلِ عام کیا جاتا ہے ۔آبادیاں اجاڑ دی جاتی ہیں۔اوربہت کچھ ہوتاہے۔
ایک جنگ میں فتح حاصل کرنےوالی فوج کے دو سپاہی مفتوحہ علاقہ کےایک مکان میں داخل ہوئے جہاں ایک خوبصورت جوان لڑکی اپنی استانی کے ساتھ خوفزدہ بیٹھی تھی ۔انھیں دیکھتےہی ایک سپاہی مسرت کےساتھ چیخا۔۔ہمارے ساتھ رنگ رلیاں منانےکے لیےتیارہوجاؤ۔۔۔!
لڑکی گڑگڑانےلگی۔۔۔ دیکھو۔! میرےساتھ جوچاہو سلوک کرومگرمیری استانی کوہاتھ مت لگاؤ۔وہ مردکے سائےسےبھی دورہے۔اس نےشادی بھی نھیں کی ہے۔۔،، استانی نےلڑکی کی بات کاٹتےہوئےکہا۔۔۔ان کو مت روکومیری بچی۔! جنگ آخر جنگ ہے۔
امر یکن گا ئے
ہمارے سابق پردھان منتر ی آنجہانی اٹل بہاری واجپئی ہرچندکہ آرایس ایس سےوابستہ تھےمگر بڑے سلجھےہوئےمزاج کےبھولےبھالےآدمی تھے ۔شدت پسندی ان میں بالکل نہ تھی۔انھوں نے ہمیشہ فلسطین کی حمایت کی اوراسرائیل کوغاصب قرار دیا۔ ۔ایک باروہ امریکا کےدّورےپرگئے۔وہاں ڈنرلیتے ہوئےاپنے پہلو میں بیٹھےشخص سےکھانےکی تعریف کی۔۔۔بڑاسوادشٹ بھوجن ہے۔۔۔! اس نےمسکراتےہوئےکہا۔۔۔ سر!آپ جس کھانےکی تعریف کررہےہیں وہ گائےکابیف ہے۔۔،،واجپئی جی نےبرجستہ جواب دیا۔۔۔کوئی بات نھیں،کوئی بات نھیں۔یہ انڈین گائےکا بیف توہےنہیں،یہ توامریکن گائےکا بیف ہے۔۔
وضاحت
دنیا کے تین بڑے نفسیات دانوں میں ڈاکٹرالفریڈ ایڈلرکانام لیا جاتا ہے۔ایک باراحساسِ کمتری کےموضوع پرایک یونیورسٹی میں وہ لکچردےرہےتھے۔
جسمانی طورپرمعذوراورکمزورافراداکثرایسےکا موں کواختیارکرتےہیں جوان کی معذوری اورکمزوری کےبرعکس ہوتےہیں۔یعنی اگر وہ ضعفِ تنفس کامریض ہوتاہےتولمبی دّوڑ کےجیتنےمیں لگ جاتاہے۔لکنت کا مریض ہے توخطیب بنناچاہتا ہے۔ کمزورآنکھیں رکھتا ہے تومصوری کی طرف نکل جاتاہے۔ ،،
انھوں نےاوربہت سی مثالیں بیان کیں۔اچانک درمان میں ایک طالب علم نے اٹھکرمداخلت کرتےہوئےپوچھا۔۔۔۔ سر!اجازت ہوتو کچھ پوچھوں۔؟ڈاکٹرایڈلرنےکہا۔۔۔ہاں ہاں،ضرورپوچھو۔مجھے خوشی ہوگی۔،، ۔۔ ڈاکٹرصاحب! آپ کی باتوں کایہ مطلب تونہیں کہ ضعفِ دماغ میں مبتلالوگ ماہرِنفسیات ہوجاتےہیں۔؟
مفت کی دعا ئیں
اودھ کےنواب واجدعلی شاہ اخترعیش وعشرت میں پڑکرواجدعلی کےبجائےسائل علی ہوگئے تھے۔مجبوری کی حالت میں انگریزبہادرسےوظیفہ کی درخواست کی۔ انگریزافسران کےپاس آیااورپوچھا۔۔۔ تم اپنی حیات تک وظیفہ چاہتے ہویا مرنے کے بعد اپنے پسماندگان کے لیے بھی چاہتے ہو۔۔۔؟
۔۔۔ صرف اپنی حیات تک وظیفہ چاہتا ہوں ۔۔۔ اس جوب پر ان کےوارثوں نےاحتجاج کیا اور کہا ۔۔۔ یہ آپ کیا کرنے جا رہے ہیں۔۔؟ پھر ہمارا کیا ہوگا۔؟؟
واجد علی شاہ نےجواب دیا۔۔۔ایسا اس لیے کر رہا ہوں کہ میرےورثاءمیرامرنانہ تکنے لگیں ۔اب سب لوگ میری لمبی عمرکی دعائیں کیا کریں گے۔میں زیادہ سے زیادہ جینا چاہوں ۔۔اس طرح وظیفےکےساتھ میں نے دعائیں مفت میں حاصل کرلیں۔
عا د ت سے مجبو ر
نیتا جی کےاعزادمیں ایک تقریب تھی،جس میں انھیں ایک شانداربھاشن دیناتھا۔یہ بھوشن وہ ایک رائٹرسےپانچ سوروپئےمیں لکھوا کرلائے تھے۔ بھاشن بہت اچھااورکامیاب رہا۔ پبلک نے خوب تالیاں بجائیں۔ اتنی تالیاں کہ ان کاسینہ چھپن انچ کاہوگیا۔
پروگرام ختم ہوا تو نیتاجی اپنےچاہنےوالےچاپلوسوں کے جِلومیں منچ سےنیچےآئے۔تبھی میڈیاوالوں نے انھیں گھیرلیا۔ایک چینل والےنےسوال کیا ۔۔۔۔ شری مان جی۔!ابھی تک آپ نے شادی نھیں کی۔کیا اس کی وجہ بتا سکتے ہیں۔؟،، ۔۔۔
کیوں نھیں بھائی۔! نیتاجی دونوں ہاتھ جوڑ کرمسکراتےہوئےبولے۔۔۔بہت سارےلڑکےاورلڑکیاں جواب سننےکےلیےہمہ تن گوش ہوگئے۔موصوف کافی شرمیلے تھے۔اس لیےمسکراتےاورلجاتےہوئےفرمایا۔ ۔۔۔ تین چاربہنوں کےرشتےآئےہوئےہیں۔اورایک بہن جی سےتوباتیں بھی چل رہی ہیں۔ ،،
نہلے پر د ہلا
رگھو مل جی بہت مال دارآدمی تھے۔لیکن تھے بڑے کنجوس۔انھیں چنتابس ایک ہی بات کی تھی۔ان کا اکلوتابیٹاراجن نہاتانھیں تھا۔وہ صرف کپڑےبدلتارہتا۔ہفتہ ہفتہ بھرنہانےکانام نھیں لیتا تھا ۔رگھومل جی کو بیٹے کی اس عادت سے بڑی الرجی تھی۔
انھوں نے ایک ترکیب نکالی اور اپنے بیٹے راجن سے کہا۔ ۔۔۔ بیٹا! اگرتم روز بلا ناغہ نہاؤگےتوایک ماہ بعد میں تمھیں ا نعام میں دوسوروپئےدوں گا۔،، بیٹارا جن باپ کی بات سن کربہت خوش ہوا۔دوسوروپیوں کےلالچ میں وہ روزبلاناغہ نہانےلگا۔
آخر جب ایک ماہ پوراہوگیاتواس نےباپ کواس کاوعدہ یاددلایا۔کنجوس باپ نے مسکراتے ہوئے اس کےہاتھ میں ایک بل تھمادیاجس میں دوسوپچیس روپئےصابن کے درج تھے۔باپ نے بیٹے سے کہا۔۔ ۔۔ تمھارےدوسوروپئےانعام کےاورپچاس روپئے جیب خرچ کے،کاٹ کریہ بل دوکاندارکواداکیاجائےگا۔،،
بیٹےنےمسکراتےہوئےجواب دیا۔۔پتاجی۔! آپ دوسوروپئےمجھےدیں۔میں ایک ماہ سےبغیرصابن کے نہاتارہاہوں۔
قومی اردو تحریک فاؤنڈیشن (انڈیا)
رابطہ/9453347784