منور رانا مٹی کا بدن کردیا مٹی کے حوالے
منور رانا مٹی کا بدن کردیا مٹی کے حوالے
قاضی عمر بارہ بنکوی
کسی کو گھر ملا حصے میں یا کوئی دکاں آئی
میں گھر میں سب سے چھوٹا تھا میرے حصے میں ماں آئی
چلتی پھرتی ہوئی آنکھوں سے اذاں دیکھی ہے
میں نے جنت تو نہیں دیکھی ہے ماں دیکھی ہے
اس طرح میرے گناہوں کو وہ دھو دیتی ہے
ماں بہت غصے میں ہوتی ہے تو رو دیتی ہے
جب بھی کشتی مری سیلاب میں آ جاتی ہے
ماں دعا کرتی ہوئی خواب میں آ جاتی ہے
اس طرح کے بے شمار لا ثانی، لازوال اشعار کے خالق، غزل کو محبوبہ کی زلفوں کے پیچ و خم، لب و رخسار سے نکال کر ماں کی میلی اوڑھنی ، بیٹی کے مقدس احساسات کو، غزل کا لہجہ دینے والے، غزل گوئی میں ماں جیسے مقدس رشتے کی سب سے عظیم ترجمانی کرنے والے معروف شاعر “منور رانا” صاحب، کوچۂ یاد آوری کا حصے بن کر ہمیشہ ہمیش کے لئے چودہ جنوری کی نصف شب ہم سے جدا ہوگئے۔
بھاری بھرکم گورا چٹا چہرہ، بڑی بڑی آنکھیں، کشادہ جبیں ، سیاہ جبہ، لہجے میں متانت اور سنجیدگی مگر گھن گرج کے ساتھ، انقلابی اشعار میں بارعب لہجہ، ماں کی محبت سے سرشار اشعار میں بچوں سی جذباتیت؛ یہ تھے منور رانا۔
پہلی مرتبہ اپنے قصبے میں ہی منور رانا صاحب کو دیکھنے اور سننے کا موقع ملا، چوں کہ ہمارا قصبہ “زیدپور” مشاعروں اور قوالیوں کے لحاظ سے بڑا مشہور اور متحرک ہے، بیسویں صدی کے اکثر بڑے شعراء ہمارے یہاں مشاعروں کی زینت بن چکے اور بنتے رہتے ہیں، اس وجہ سے بچپن سے ہی شعراء کے نام سماعت سے ٹکراتے رہے ہیں، میرے حفظ کا زمانہ تھا جب میں نے پہلی مرتبہ منور رانا صاحب کو سنا اور دیکھا، پھر بارہا یہ موقع ملتا رہا۔
منور رانا “کوئی دوچار برس کا قصہ نہیں بلکہ نصف صدی کی داستاں ہے، اس نصف صدی کے عرصے میں منور رانا نے بلندیوں کا بڑے سے بڑا تمغہ اپنے نام کیا، اور ہم عصروں میں ممتاز اور منفرد رہے۔
منور رانا ” یوں تو عوام کی شعری دنیا میں ماں کی محبت میں کہے گئے اشعار کی وجہ سے شہرت رکھتے ہیں لیکن منور رانا صاحب کا بڑا کارنامہ” مہاجر نامہ” ہے، جس نے ادبی حلقوں میں ان کو بلندیوں کی معراج پر پہنچا دیا۔
منور رانا ” کی شاعری جہاں ماں کی عظمت و محبت کا پرتو ہے تو وہیں ان کے اشعار بیٹی کے نازک اور مقدس خیالات و احساسات کے حسین ترجمان بھی
ان کی شاعری میں جہاں مزدور کا درد اور مہاجر کا کرب ہے تو وہیں معاشرے کی زبوں حالی، اخلاقی اقدار کی پستی کا شکوہ بھی ، ان کی شاعری گاؤں کی معصومیت، غریب کی خودداری کو بھی بیان کرتی ہے اور شہر کے مضرات بھی۔ جہاں ان کی شاعری سیاست اور سیاستدانوں کی عیاری کو عیاں کرتی ہے وہیں ان میں اپنے اسلاف کی عظمت بھی ملتی ہے، منور رانا کی شاعری کے نگار خانے میں ہر رنگ ہے۔ انسانی اقدار کی پاسداری، انسانیت کا احترام، رشتوں کا تقدس، ان کے شاعری کا جزو لاینفک ہے۔
منور رانا جہاں ایک بہترین شاعر تھے وہیں ایک بہترین اور باکمال نثر نگار بھی تھے ، ان کے فن پاروں میں زبان کی شائستگی، اسلاف کی عظمت کا رنگ اور ان کی تہذیب اور ثقافت، اور بزرگوں کی عظمت کے نقوش نمایاں تھے، ان کی نثر نگاری کا خاصہ حق گوئی تھی، وہ جو دیکھتے جیسا دیکھتے ویسا ہی لکھنے کے قائل تھے، ملع سازی، چاپلوسی عارضی جاہ و حشمت سے رعب کھانے والوں میں سے نہیں تھے
ہر چیز پر دو ٹوک گفتگو کرتے تھے، اور اپنی حق گوئی کی وجہ سے مشہور بھی تھے، وہ میرے بچپن کا زمانہ تھا جب وہ، راشٹریہ سہارا” میں سوانحی کالم لکھتے تھے، جنہیں میں شوق سے پڑھتا تھا،اور مزید کا مشتاق رہتا تھا۔
چہرے یاد رہتے ہیں” ان کے نثر کا شاہکار ہے، جس میں ان کی نثر نگاری کے جوہر کھلے ہیں۔بغیر نقشے کا مکان” بھی ان کے نثری فن پاروں کا ایک باب ہے، جو انہوں نے اپنے دوست، احباب اور کرم فرماؤں کی یاد میں رقم فرمایا ہے، جو ایک طرح سے خاکے حیثیت بھی رکھتے ہیں، مزید ان کی نثری تصانیف” سفید جنگلی کبوتر، ڈھلوان سے اترے ہوئے، پھنک تال “ہیں ۔
تقریباً” پچیس ” اردو، ہندی ” شعری مجموعوں کا یہ خالق، اردو کا منور، سنہ انیس سو باون میں” رائے بریلی” کی مردم خیز سرزمین سے طلوع ہوا، اور نصف صدی تک اپنے سخن سے اردو کی خدمت کرتے کرتے بالآخر چودہ جنوری دو ہزار چوبیس کی نصف شب ملک عدم کا راہی بن گیا، انا للہ وانا الیہ رٰجعون ۔
اردو کی گرتی ہوئی عمارت کا ایک ستون تھے منور رانا، جن کی کمی محفلوں میں ہمیشہ رہے گی، اور جن کا خلا شائد ہی کبھی پر ہو۔