نفاذ جمہوریت سے استحصال جمہوریت تک‎‎

Spread the love

نفاذ جمہوریت سے استحصال جمہوریت تک‎‎

از : اظفر منصور

یہ وہ سحر تو نہیں جس کی آرزو لے کر

چلے تھے یار کہ مل جائے گی کہیں نہ کہیں

فلک کے دشت میں تاروں کی آخری منزل

کہیں تو ہوگا شب سست موج کا ساحل

کہیں تو جا کے رکے گا سفینۂ غم دل

ہمارا ملک عزیز ہندوستان بے بہا ذخائر، اپنی زرخیزی نیز اپنے مادی وسائل کی حیثیت سے دنیا کے دیگر ممالک کے مقابلے میں فوقیت رکھتا ہے، اسی وجہ سے اسکو سونے کی چڑیا بھی کہا گیا، لیکن افسوس اس ملک کی یہ آفاقیت زیادہ دن قائم نہیں رہ سکی، اور اسی کے افق پر سامراجیت کا وہ پرچم بھی لہرایا کہ اس کا تذکرہ کرتے ہوئے کلیجہ منہ کو آتا ہے، 

ابھی باقی ہیں پتوں پر جلے تنکوں کی تحریریں

یہ وہ تاریخ ہے بجلی گری تھی جب گلستاں پر

حضرات آج کی یہ تقریب اور محفل یوم آزادی پندرہ اگست کے بجائے یوم جمہوریہ ۲۶ جنوری کے نام منسوب ہے، یعنی ایسا دن جس دن کہ آج سے ۷۲ سال پہلے ۱۹۵۰ میں برطانوی ایکٹ جو کہ ۱۹۳۵ء سال قائم تھا اسے منسوخ کر کے ملک کا اپنا آئین نافذ ہوا، ملک کو سفید فاموں کے تسلط سے آزادی پندرہ اگست ۱۹۴۷ کے خورشید جہاں تاب کی پہلی کرن کے ساتھ ہی ملی، مگر ۲۹ اگست کو یہ طئے کیا گیا کہ اس ملک کا اپنا آئینی نظام ہونا چاہیے ، جس میں اس ملک کی عوام کا تحفظ بھی ہو

اور ان کی خوش حال اور پرامن زندگی کی ضمانت بھی، اس مقصد کے لیے دستور ساز اسمبلی نے سات افراد پر مشتمل ایک کمیٹی تشکیل دی جس کی کمان یعنی صدارت کا عہدہ ڈاکٹر بھیم راؤ امبیڈکر کو سونپا گیا، اس کمیٹی نے دو سال گیارہ مہینے اٹھارہ دن یعنی تین سال کی سعی پیہم و جہد مسلسل نیز ایک کروڑ روپے کی خطیر رقم کے بعد ملک کا آئین تیار کیا، آئین سازوں نے اس سے مختلف ممالک بالخصوص امریکا برطانیہ کناڈا وغیرہ کا مطالعہ کیا

اور اس کی روشنی میں یہاں کے حالات تقاضوں کے مطابق اپنا آئین مرتب کیا، جسے ملک کی پارلیمنٹ کے ذریعے ۲۶ جنوری ۱۹۵۰ء کو منظور کر کے ملک پر نافذ کر دیا گیا، اور بس یہیں سے ہندوستانی جمہوریت (Indian democracy) کی ابتداء ہوتی ہے، لیکن یہ جمہوریت یا ڈیموکریسی ہے کیا؟

جس کا ڈھنڈورا ہر سال پیٹا جاتا ہے اور سیاسی لیڈران اپنے بیانوں میں اس کا حوالہ دیتے نہیں تھکتے؟ 

یہ یونانی زبان کے دو الفاظ دیموس(لوگ) اور کراتوس(حاکمیت) سے مأخوذ ہے انگلش میں democracy اور عربی میں دیمقراطیہ کہا جاتا ہے،،اور اردو میں جمہوریت!!

جمہوریت کی تعریف کے متعلق چند اقوال ہیں،،فورمر پریزیڈنٹ آف امریکہ ابراہم لنکن نے جمہوریت کے متعلق کہا تھا، the government of the people by tha people for the people.

لوگوں کی حکومت، لوگوں کے ذریعے ،لوگوں پر،  

یونانی مفکر ہیرو ڈوٹس جمہوریت کا مفہوم بیان کرتا ہے اور کہتا ہے کہ جمہوریت ایک ایسی حکومت ہوتی ہے، جس میں ملک کے حاکمانہ اختیارات قانونی طور پر پورے معاشرے کو حاصل ہوتے ہیں، البتہ علماء سے ایسا نظام حکومت مراد ہے، جس میں عوام کی رائے کوکسی نہ کسی شکل میں حکومت کی پالیسیاں طے کرنے کے لیے بنیاد بنایا گیا ہو، الغرض جمہوریت ایک طرز حکومت ہے جسے آسان الفاظ میں لوگوں کی حکومت کہا جاتا ہے،

حضرات سامعین! 

لوگوں کو ظلم سے بچانے کے لیے جمہوریت میں تین اختیارات ہوتے ہیں تینوں ایک دوسرے سے آزادانہ اور خود مختار ہوتے ہیں، اور اسی طریقے سے ملک کا نظام چلتا ہے

1- مقننہ ( Ligislature) پارلیمنٹ جہاں قانون بنتے ہیں

2- انتظامیہ/ عاملہ( Exicutive) قانون کے مطابق ملک کا نظم و نسق..اس میں دو لوگ ہوتے ہیں صدر اور وزیراعظم، دونوں مل کر ملک چلاتے ہیں

3: عدلیہ( Judiciary) اس کے تحت عدالتیں ہوتی ہیں جیسے سپریم کورٹ، اسکا کام ہوتا ہے انصاف کرنا اور جھگڑے کو ختم کرنا،

مطلب مقننہ( پارلیمنٹ) قانون بنائے،،عاملہ( صدر اور وزیراعظم اسکو نافذ کریں،

اور عدلیہ(سپریم کورٹ) انصاف کرنے میں خود مختار اور آزاد ہو،

ایک طرف تو یہ دوسری طرف جمہوریت کے چند منفی پہلو بھی ہیں، جیسا کہ علامہ اقبال نے فرمایا جمہوریت ایک طرز حکومت ہےکہ جس میں

 بندوں کو گنا کرتے ہیں تولا نہیں کرتے

اسی طرح جمہوریت میں اکثریت ہی کو ترجیح دی جاتی ہے خواہ وہ سب کے سب غلط غلط راہ پر ہوں، کارل مارکس،مشہور جرمن مؤرخ ، نقاد، فلسفی لکھتا ہے جمہوریت سرمایہ دارانہ نظام کی ایک عالمگیر سازش ہے جس کے ذریعے عوام کو تبدیلی کے نام پر صرف استحصال کرنے والوں کے درمیان انتخاب کا حق دیا جاتا ہےعزیز ساتھیو، لیکن اسوقت جب یہ نظام ہم پر مسلط ہے، تو ہمیں اسکو بہتر بنانا چاہیے، ہم کنارہ کشی اختیار نہیں سکتے، اس لیے جمہوریت ایک بہترین نظام ہونے کے ناطے عوام پہ کچھ غیر معمولی ذمہ داریاں بھی عائد کرتا ہے۔ جمہوریت کے فروغ کے لئے سب سے بنیادی بات یہ ہے کہ عوام روشن خیال، تعلیم یافتہ اور باشعور ہوں۔

وہ ہمہ وقت باخبر ہوں اور کسی بھی قیمت پر اپنے بنیادی انسانی حقوق پامال نہ ہونے دیں۔ وہ اپنے حقِ حکمرانی کے تحفظ کے لئے ہمہ وقت تیار رہیں۔ اختلافِ رائے کا احترام کیا جائے اور منطقی استدلال پہ کامل یقین رکھا جائے۔ ریاست کے اعضا اپنے اپنے دائرہ کار میں رہتے ہوئے ریاست کی بہتری کے لئے کوشاں رہیں۔ سیاسی پارٹیوں پہ چند افراد یا خاندانوں کی اجارہ داری نہیں ہونی چاہیے۔

جمہوریت ہی میں ترقی و خوشحالی کا راز مضمر ہے لیکن ایسا ہونا صرف اسی صورت میں ممکن ہے جب جمہوریت کی عائد کردہ ذمہ داریوں کو دیانتداری کے ساتھ پورا کیا جائے۔ جب جمہوریت کی بات ہو رہی ہے تو آئیے جمہوریت کا سہارا لے کر ملک میں جو مسلمانوں کا استحصال کیا گیا یا آئندہ ارادہ ہے اس پر مختصر روشنی ڈال لیتے ہیں۔

آج ملک کو سفید فاموں کے پنجہ استبداد سے آزاد ہوئے ۷۴ برس گذر گئے، اور اس ملک کے نیلگوں آسمان کے نیچے عوام پر جمہوری طرز حکومت بھی اتنے ہی سال سے جاری ہے مگر جس خواب و محنت کے ساتھ دستور ساز اسمبلی نے کنچٹیوشن آف انڈیا کو تیار کیا تھا وہ اپنی حقیقت کی وجہ سے ان اراکین کو شرمندہ کر رہا ہے، کیونکہ آزادی کے ساتھ ہی اس ملک میں مسلمانوں پر جبر و ستم رانیاں بھی شروع ہوگئیں۔ بیشمار مسلمانوں کا قتل عام کیا گیا، گجرات ۲۰۰۲ء کا وہ خونین منظر تو یاد ہوگا، 

خون خرابا خون خرابا امْن کا پیکر دیکھا ہے

ہاں میں نے گجرات کا منظر دیکھا ہے

بھاگلپور، میرٹھ، مظفر نگر دہلی کا قتل عام بھی جمہوریت کے چہرے پر بدنما داغ ہے، جسے اب چاہ کر بھی مٹایا نہیں جاسکتا، 

جمہوریت کے بیچ پھنسی اقلیت تھا دل

موقعہ جسے جدھر سے ملا وار کر دیا

زیادہ دور نہ جاکر ابھی ماضی قریب کے ہی صفحات دیکھئے! ۲۰۱۴ کے بعد سے ہی کنچٹیوشن آف انڈیا کا کس قدر مذاق بنایا گیا، طلاق ثلاثہ کے ذریعے مسلم پرسنل لاء میں ترمیم ہو یا آئے دن ملک کو ہندو راشٹریہ میں تبدیل کر دینے کی بات، اب تو مزید طرہ یہ کہ موجودہ حکومت اپنی دیرینہ خواہش کہ ملک کو ایک ہی زعفرانی رنگ میں رنگ دیا جائے پوری کرنے پر رات دن ایک کئے ہوئی ہے

جسے آئین ہند کے دفعہ۴۴ جس میں لکھا ہے کہ کوئی بھی برسراقتدار پارٹی اپنے عہد حکومت میں چاہے تو اکثریت کی بنیاد پر یونیفارم سول کوڈ نافذ کر سکتی ہے، کا استعمال کر کے اسے پورے ملک پر نافذ کرنے کا بے محل خیال بنا لیا ہے، حالاں کہ یونیفارم سول کوڈ کا اطلاق ایسے ممالک کے لیے مفید ہے جہاں مذاہب کی ریل پیل، مختلف النوع تہذیب و تمدن کا کوئی اثر نہ ہو

کیوں کہ اس قانون کے نافذ ہوجانے کے بعد ایک ملک ایک قانون کا اثر شروع ہو جاتا ہے پھر کوئی بھی اپنے مذہبی امور میں آزادی کے ساتھ عمل نہیں کر سکتا ہے

لیکن ہندوستان جیسے ملک کے لیے جہاں ہزاروں سال سے مختلف مذاہب کے معتقد سکونت پزیر ہیں ایسے ملک میں یونیفارم سول کوڈ کے نفاذ کی بات محض مضحکہ خیزی، نفرت انگیزی، اور تشدد آمیزی کے علاوہ کچھ نہیں

حضرات سامعین! اسی ڈیموکریٹک ملک میں کشمیر سے اس کا خصوصی درجہ چھینا گیا، اور طرح طرح سے وہاں کی عوام کو پابند سلاسل کرنے کی کوشش کی گئی بلکہ اب بھی جاری ہے،

کتنے لگے ہیں زخم جگر پر کسے خبر

ڈھائی ہے کس نے کتنی قیامت نہ پوچھیے

 آج ملک کو جمہوریہ بنے ۷۴ سال بیت رہے ہیں مگر اس درمیان مسلمانوں کی ترقی کو لے کر جو کہ انہیں آئین دیتا ہے کوئی قدم نہیں اٹھایا گیا، مثلاً آئین کے دفعہ ۳۴۱ کے مطابق تمام مذاہب کے پسماندہ طبقوں کو ریزرویشن کا فائدہ ملے گا مگر محض آٹھ مہینے بعد اس قانون میں ترمیم کر کے اسے ہندو دلت ہریجن کے لیے خاص کر دیا اور مسلمانوں کو ریزرویشن سے فائدہ اٹھانے والوں کی فہرست سے نکال باہر کیا، یا پھر سیٹیں بہت محدود کر دی گئیں۔ 

حیران ہو رہا ہوں بصیرت کے نام پر

میں دیکھتا کچھ اور ہوں منظر کچھ اور ہے

جمہوریت بہرحال ڈکٹیٹر شپ سے بہتر ایک نظام حکومت ہے، اگرچہ اسلام کلی طور جمہوریت کا نہ حامی ہے نہ مخالف، اور جہاں جمہوری نظام قائم ہے وہاں اس میں پائداری لانے کے لیے ان چار اداروں جنکا تذکرہ اوپر بھی تفصیل سے آچکا ہے

مقننہ (پارلیمنٹ) 

انتظامیہ (گورنمنٹ) 

عدلیہ (جیوڈیشری) 

ذرائع ابلاغ ( میڈیا) 

ان چاروں ستونوں کو غیر متزلزل ہونا ضروری ہے، لیکن موجودہ صورتحال یہ تصویر پیش کر رہی ہے کہ مقننہ بے حس، انتظامیہ غیر معتمد، عدلیہ خائف، ذرائع ابلاغ غلام، جب جمہوریت کے یہ چاروں ستون ہی کمزور و ناتواں ہوگئے ہیں تو ڈیموکریسی کی روح کہاں باقی ہوگی۔ 

شاہ ہے برطانوی مندر میں اک مٹی کا بت

جس کو کر سکتے ہیں جب چاہیں پجاری پاش پاش

حضرات! 

آئیے آج کے اس عظیم دن کی عظیم تقریب میں یہ عہد کریں کہ جب عظیم جاں فروشوں نے اپنی جان کی قربانی دے کر اس ملک کو جمہوریت کا گہوارہ بنایا ہی تو ان کی عظیم محنت بھی رائگاں نہ جائے، ورنہ جمہوریت کے بال و پر نوچنے کی سازش شباب پر ہے، گھڑی دو گھڑی کی بھی گر تاخیر ہوئی ہمارا ملک اس عظیم دلدل میں پھنسے گا جہاں سے پھر صحیح سالم نکلنا بہت ہی مشکل ہوگا۔ بس ان ہی چند معروضات کے بعد ہم اس شعر کے ساتھ آپ سے رخصت ہوتے ہیں۔ 

یہ وہ سحر تو نہیں جس کی آرزو لے کر

چلے تھے یار کہ مل جائے گی کہیں نہ کہیں

فلک کے دشت میں تاروں کی آخری منزل

کہیں تو ہوگا شب سست موج کا ساحل

کہیں تو جا کے رکے گا سفینۂ غم دل

از : اظفر منصور

8738916854

4 thoughts on “نفاذ جمہوریت سے استحصال جمہوریت تک‎‎

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *