مولانا نظام الدین اصلاحی

Spread the love

مولانا نظام الدین اصلاحی

مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ ممتاز عالم دین، مشہور ملی رہ نما، مدھیہ پردیش اور گجرات کے سابق امیر حلقہ ، استاذ الاساتذہ جامعۃ الفلاح بلیریا گنج اعظم گڑھ کے سابق شیخ التفسیر وصدر المدرسین، مجلس نمائندگان اور مرکزی مجلس شوریٰ جماعت اسلامی آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈعلی گڈھ مسلم یونیورسیٹی کورٹ کے سابق رکن ، بہترین خطیب، عمدہ منتظم مولانا محمد نظام الدین اصلاحی کا اِیرا میڈیکل کالج اسپتال لکھنؤ میں ۲۵؍ ستمبر ۲۰۲۲ء مطابق ۲۸؍ صفر ۱۴۴۴ھ بروز اتوار بوقت صبح انتقال ہو گیا، تدفین آبائی قبرستان چاند پٹی اعظم گڈھ میں ہوئی، پس ماندگان میں دو بیٹے اور پانچ بیٹیاں شامل ہیں، وہ مولانا ابو اللیث اصلاحی کے چچا زاد بھائی تھے۔

مولانا نظام الدین اصلاحی کی ولادت اعظم گڈھ ضلع کے مشہور گاؤں چاند پٹی میں کوئی پنچانوے سال قبل ہوئی، ابتدائی تعلیم کے حصول کے بعد ۱۹۴۱ء میں مدرسۃ الاصلاح سرائے میر اعظم گڈھ میں داخل ہوئے، ۱۹۴۸ء میں وہیں سے سند فراغ حاصل کیا، مولانا امین احسن اصلاحی (م۱۹۹۷) کے وہ آخری شاگرد زندہ بچ گیے تھے، انہیں کے سامنے زانوئے تلمذ تہہ کر قرآن فہمی میں کمال پیدا کیا اور اس کے لیے دو سال تخصص فی القرآن میں لگایا

مدرسۃ الاصلاح میں ان کے اساتذہ میں مولانا اختر احسن (م ۹؍ اکتوبر ۱۹۵۸) اصلاحی، مولانا صدر الدین اصلاحی، اور مولانا ابو اللیث اصلاحی (آمد ۱۵؍ فروری ۱۹۱۳، رفت: ۵؍ دسمبر ۱۹۹۳کا بھی نام قابل ذکر ہے۔ ۱۹۵۰ء میں فراغت کے فورا بعد مولانا اختر حسن اصلاحی کی ایماء پر مدرسۃ الاصلاح میں ہی تدریسی خدمات انجام دینے لگے۔

۱۹۶۰ء میں مدرسہ کے صدر المدرسین کے عہدہ پر پہونچے، لیکن ۱۹۶۱ء میں بعض نا گزیر وجوہات کی وجہ سے مدرسۃ الاصلاح کو الوداع کہہ دیا، زندگی کے دس سال امیر جماعت اسلامی مدھیہ پردیش کی خدمت کرتے ہوئے گذاری، ایمرجنسی کے دور میں زندان میں بھی رہے

آخر عمر میں راشٹریہ علماء کونسل سے منسلک ہونے کی وجہ سے ان کا تعلق تنظیمی اعتبار سے جماعت اسلامی سے ختم ہو گیا۔ ۱۹۷۱ء سے ۲۰۱۹ء تک جامعہ الفلاح بلیریا گنج میں استاذ تفسیر اور صدر مدرس کی حیثیت سے خدمات انجام دیں۔

مولانا کو اللہ رب العزت نے طلاقت لسانی سے نوازا تھا، قرآن واحادیث سے مزین ان کی تقریریں کافی مؤثر ہوا کرتی تھیں، حالات کے صحیح اور سیاسی تجزیے میں انہیں مہارت حاصل تھی، وہ مطالعہ کے انتہائی شوقین تھے، کتابوں سے شغف تھا

اس لیے ان کے علم میں گہرائی بھی تھی اور گیرائی ، وہ حاصل مطالعہ لکھنے کے عادی تھے، ایسے کئی رجسٹر ان کے پاس تھے، جن کی حیثیت علمی خزانے کی، مختلف رسائل میں ان کے مضامین اشاعت پذیر ہوتے تھے۔ اقامت دین کے موضوع پر ان کی ایک کتاب شائع ہو کر مقبول ہو چکی ہے، تقریر وخطابت کے بعد مولانا کی شہرت استاذ کی حیثیت سے تھی، ان کا درس کافی مقبول تھا۔

مزاجا وہ خوش اخلاق بلند اطوار اور بڑے رجائیت پسند تھے، محی الدین غازی کے بقول لوگ رات کے بڑھتے ہوئے اندھیروں کا شکوہ کرتے اور وہ طلوع آفتاب کی نہیں؛بلکہ ظہور آفتاب کی نوید سناتے۔

ان کی اس رجائیت پسندی نے ایمرجنسی کے زمانہ میں جیل کی سلاخوں کے پیچھے بھی انہیں خوش و خرم رکھا، جیل میں رہتے ہوئے جن لوگوں سے ان کی ملاقات ہوئی، ان کا کہنا تھا کہ وہ جیل کی زندگی سے لطف اندوز ہوا کرتے تھے، ان کی کسی بات سے نہیں لگتا تھا کہ وہ قید وبند کی صعوبتوں سے نا خوش یا رنجیدہ ہیں

ان کے اس طرز عمل سے نوجوانوں میں حوصلہ، جوش ، جذبہ، بہادری اور جرأت کی صفت پیدا ہوتی تھی، البتہ وہ نو جوانوں کو جذباتیت سے بچنے کی تلقین کرتے تھے، پنچانوے سال کی عمر میں بھی وہ نوجوانوں کی طرح چست اور متحرک تھے۔

مولانا ملت کے ہمدرد، دین کے معاملہ میں مخلص اور بٹلہ ہاؤس ان کاؤنٹر کے بعد سیاسی سر گرمیوں میں پُر جوش ہو گیے تھے، مگر سیاست نے انہیں اپنوں خصوصا جماعت اسلامی سے دور کر دیا ، گو وہ آخر تک اپنے کو جماعت اسلامی ہی سے منسلک قرار دیتے رہے

لیکن یہ اقرار یک طرفہ ہی تھا، مولانا کو مداہنت نہیں آتی تھی، اور کہنا چاہیے کہ وہ علم وفضل ، صلاح وتقویٰ خود داری وجرأت میں اپنے عہد کے ممتاز ترین لوگوں میں تھے، ایسے انسان کا اٹھ جانا عظیم علمی، ملی، دعوتی سانحہ ہے، اللہ ان کی مغفرت فرمائے، پس ماندگان کو صبر جمیل دے۔ آمین یا رب العالمین

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *