گورنروں کی رشہ کشی
مفتی محمد ثنا ء الہدی قاسمی
نائب ناظم امارت شرعیہ
آئین میں منتخب ریاستی حکومت کے اوپر قانونی سر براہ گورنر کو قرار دیا گیا ہے، یہ اصلامرکزی حکومت کا نمائندہ ہوتا ہے، ریاست میں حکومت کسی پارٹی کی ہو، گورنر مرکزی حکومت کے مشورے کا پا بند اور اس کے منصوبوں کے مطابق ریاستی حکومت سے کام کروانا چاہتا ہے، اب اگر ریاست ومرکز میں الگ الگ پارٹی کی حکومت ہو تو گورنر اور ریاستی وزراء اعلیٰ کے درمیان اختلاف، رسہ کشی اورٹکراؤ ناگزیر ہو جاتا ہے، دونوں الگ الگ سمت میں ریاست کو لے جانا چاہتے ہیں اورجب انجن ڈبل ہو اور وہ گاڑی کو مخالف سمتوں میں کھینچ رہے ہوں تو کیا حشر ہوگا، آپ خود سمجھ سکتے ہیں، ریاست کی بد حالی اور ترقی کی رفتار میں رکاوٹ کا یہ بڑا سبب ہے، اس ٹکراؤ کی وجہ سے ترقیاتی کام رک جاتے ہیں اور ان کاموں کو روکنے کے لیے منتخب جمہوری حکومت کے خلاف گورنر سد راہ ہوجاتا ہے او رظاہر ہے جب رکاوٹ آئینی عہدہ دار کی طرف سے ہو تو اسے دور کرنا آسان نہیں ہوتا، کانگریس کے عہد حکومت میں اس قسم کے ٹکراؤ کی نوبت عموما نہیں آتی تھی اور آجاتی تو بھی اخلاقی اقدار کا خیال رکھا جاتا تھا، تہذیب کا دامن نہیں چھوڑا جاتا تھا اور اختلاف کی ایک سر حد تسلیم کی جاتی تھی، جس سے آگے بڑھنا عہدے اور وقار کے منافی سمجھا جاتا تھا۔
مرکز میں بی جے پی حکومت کے آنے کے بعد یہ اقدار باقی نہیں رہے، گورنر سے ریاستی حکومتوں کو کمزور کرنے کا کام لیا جانے لگا یا ان کی بے لگام زبان فرقہ پرستوں کی ترجمان بن گئی، اڈیشہ اور میگھالیہ کے سابق گورنر کا یہ بیان تو آپ کو یاد ہی ہوگا کہ ہندوستان ہندوؤں کا ملک ہے، آئینی عہدہ پر بیٹھے ہوئے ملکی آئین کے خلاف اس قسم کا بیان گورنر کے عہدے اور وقار کے خلاف ہے، بھگت سنگھ کو شیاری کا یہ کارنامہ بھی آپ کو یاد ہوگا کہ انہوں نے مرکزی حکومت کے اشارے پر راتوں رات صدر راج ختم کرنے کی سفارش کی اور پھر صبح صادق کے وقت دیو رفرز نو یس کو وزیر اعلیٰ کا حلف دلا دیا، اسمبلی میں ان کی اکثریت نہیں تھی اس لئے معاملہ ”بیٹھے بھی نہیں تھے کہ نکالے گئے“ جیسا ہوگیا اور انہیں استعفیٰ دینا پڑا، کانگریس، این سی پی اور شیو سینا کی مہااگھاڑی کی حکومت قائم ہوئی اور کچھ دن کے بعد گورنر کی ہی مدد سے ایکناتھ شنڈے کی سرکار مہاراشٹر میں بن گئی، ان تمام اُتھل پتھل، ادل، بدل، میں گورنر کے رول سے جمہوریت پسند عوام کو سخت صدمہ ہوا۔
ابھی کچھ دن قبل ہی کی بات ہے کہ مغربی بنگال کا گورنر ہاؤس سبزی منڈی بن گیا تھا، وہاں کے گورنر جگدیپ دھنکڑے ہر دن منتخب حکومت کو دھمکیاں دینے لگے تھے، اعلیٰ افسران کو طلب کرکے باز پرس کرنا ان کا روز کا معمول بن گیا تھا، ایک بار تو انہوں نے اسمبلی کے بجٹ اجلاس میں خطبہ پڑھنے سے انکار کردیا تھا، بڑی مشکل سے ان کو راضی کیا جا سکا، ان امور کا ان کو آئینی اختیار نہیں تھا، لیکن دھنکڑے اپنے حدود واختیار سے تجاوز کرنے لگے تھے، بالآخر ممتا بنرجی کو پریشان کرنے کا انعام انہیں نائب صدر جمہوریہ بنا کر دیا گیا۔
جھارکھنڈ کے گورنر نے تو وہاں کے وزیر اعلیٰ ہیمنت سورین کی اسمبلی کی رکنیت کوہی خطرے میں ڈال دیا تھا، وہاں بی جے پی نے کانگریس ارکان اسمبلی کی خریداری کا کام بھی شروع کر دیا تھا؛تاکہ حکومت گرا دی جائے، ہیمنت سورین نے بڑی جرأت کے ساتھ اسمبلی میں تحریک اعتماد لاکر اس سلسلے کو ختم کرایا، لیکن اب بھی گورنر صاحب کا کہنا ہے کہ جھارکھنڈ میں ایٹم بم کا دھماکہ ہوگا۔
تازہ رسہ کشی کیرل کے گورنر عارف محمد خان نے شروع کر رکھی ہے، انہوں نے کیرل کی تمام یونیورسیٹیوں کے وائس چانسلر کو یک قلم برخواست کر دیا، معاملہ ہائی کورٹ گیا اور کیرل ہائی کورٹ نے گورنر کے حکم کی تعمیل پر روک لگا دی، عارف محمد خان کے نزدیک مشہورمؤرخ ڈاکٹر عرفان حبیب مجرم ہیں، انہیں مسلمانوں کے ”اللہ حافظ“ کہنے پر بھی اعتراض ہے، بہت سارے اخبار اور چینل کے لیے انہوں نے اپنے دروازے پر نو انٹری، ممنوع الدخول کا بورڈ لگا رکھا ہے، وہ آر ایس ایس کے منظور نظر ہیں، وہ خود بھی تین دہائی قبل سے ہی آر ایس ایس سے اپنے تعلقات کا اقرار کرتے ہیں، تعلقات کی اس مدت کو وہ کم کرکے دکھاتے ہیں، کیوں کہ آر ایس ایس کے لیے کام کرنا تو انہوں نے نفقہ مطلقہ کے وقت سے ہی شروع کر دیا تھا، ان کی پارلیامنٹ میں نفقہ مطلقہ سے متعلق اسلام مخالف تقریر کو اب تک لوگ نہیں بھولے ہیں، مشہور یہی ہے کہ عوام کاحافظہ کمزور ہوتاہے، لیکن اب اتنا بھی کمزور نہیں ہے کہ پینتیس چالیس سال قبل کی دھواں دھار تقریر بھی ذہن سے محو ہوجائے۔
گورنر وں کا یہ طرز عمل اور ان کی مداخلت (Governoritis) ہماری جمہوریت کو کمزور کر رہی ہے، یہ غیر دستوری، غیر جمہوری اور غیر آئینی بھی ہے، کیوں کہ گورنر کا دائرہ کار آئین میں مذکور ہے اور اس دائرہ سے باہر نکل کر کام کرنے کی اجازت کسی پارٹی سے متعلق گورنر کو نہیں دی جا سکتی۔