زکوٰۃ اسلام کا ایک اہم ترین مالی فریضہ
از : افتخاراحمدقادری برکاتی زکوٰۃ اسلام کا ایک اہم ترین مالی فریضہ
زکوٰۃ اسلام کا ایک اہم ترین مالی فریضہ
زکوٰۃ اسلام کا ایک اہم ترین مالی فریضہ ہے جس کی فرضیت کتاب وسنت سے ثابت ہے۔
اسلام کا نظام زکوٰۃ اجتماعی عدل و انصاف اور باہمی امداد و اعانت کا بہترین آئینہ دار ہے
اس کے اندر سماج کے بہت سے معاشی اور اقتصادی مسائل و مشکلات کا حل بھی موجود ہے
اس کے نفاذ سے ایک ایسے پاکیزہ اور صاف ستھرے معاشرہ اور سوسائٹی کی تشکیل کی جاسکتی ہے جس میں امیر و غریب اہل صنعت و حرفت،مزدور پیشہ اور تجارتی کاروبار والے اور ہر طبقہ کے لوگ ایک دوسرے سے شیر و شکر ہوکر زندگی گذارتے نظر آئیں گے۔اسلامی نظامِ زکوٰۃ کے ذریعہ مال و دولت کی صحیح تقسیم عدل و انصاف پر ہوتی ہے۔
اس میں نہ تو فقرا و مساکین کا استحصال اور ان کے حقوق کی پامالی ہوتی ہے اور نہ ہی مالداروں اور امیروں پر جبر و اکراہ اور ظلم و ستم ہوتا ہے۔ نظام زکوٰۃ کے ذریعہ معاشرہ حرص و دولت،بخل اور خود غرضی و مطلب پرستی جیسے غیر اخلاقی جذبات سے پاک و صاف رہتا ہے۔
قرآن مجید کی نگاہ میں مسلمانوں کے لئے صحیح روشنی یہ ہے کہ وہ اپنی ذات اور متعلقین کے پر دولت کو خرچ کریں۔ اور جو ان کی ضرورت سے زیادہ ہو اسے راہ خدا میں خرچ کریں تاکہ دولت مند حضرات غریبوں کے ہمدرد بن کر رہیں اور معاشی طور پر غریب لوگ اس پوزیشن میں آجائیں کہ وہ بھی غیرت و خود داری کی زندگی بسر کر سکیں۔
اسلامی نظام زکوٰۃ کی گہرائی میں اترئیے اور اس کے پس منظر،،پیش منظر،،کا بغور مطالعہ کیجئے تو یقیناً آپ برملا اس بات کا اعتراف کرتے نظر آئیں گے کہ مذہب اسلام نے انسانی فلاح و بہبود کا جو نقشہ تیار کیا ہے
اور معاشی مسائل سے لے کر قلوب و اذہان کی تطہیر اور تزکیہ نفس تک کا جو خاکہ امت مسلمہ کے سامنے پیش کیا ہے اور ایک باعزت و باوقار زندگی گزارنے کی جو اسکیمیں بنائیں اس جیسا نقشہ اور خاکہ دنیا کا کوئی مذہب و رہ نما ہرگز ہرگز پیش نہیں کرسکتا ہے۔
مذہب اسلام زکوٰۃ کا سسٹم لاگو کرنے سے پہلے انسانی ذہن کی اصلاح کرتا ہے دل و دماغ میں یہ بات بٹھاتا ہے کہ تمہارے پاس جو مال ہے وہ سب رب کائنات کا عطیہ ہے اور اس کا خصوصی فضل و کرم ہے صرف اپنی محنت و مشقت اور عقل سے دولت نہیں ملتی ورنہ دنیا میں کوئی عقل مند اور توانا و تندرست آدمی غریب نہیں رہ جاتا
اسی طرح اسے یہ بھی یقین دلاتا ہے کہ تم جو کچھ بھی راہ خدا میں خرچ کرو گے تمہیں اس کا بدلہ آخرت میں ضرور ملے گا۔ اس سے بہتر ملے گا اور خدا کے بینک میں اگر صحیح طریقہ اور وقت پر قسطیں ادا کرتے رہے تو اس بینک سے تمہیں ستر گنا ملے گا بلکہ اس سے بھی زیادہ یوں ہی ہر سرمایہ دار پر زکوٰۃ لازم بھی نہیں کرتا بلکہ اس کا ایک مخصوص نصاب مقرر کرتا ہے۔
اور اس میں ایک معمولی رقم نکالنے کا حکم دیتا ہے ساتھ ہی ساتھ زکوٰۃ لینے کے بھی اصول متعین کرتا ہے اوران لوگوں کی باقاعدہ لسٹ شائع کرتا ہے جو زکوٰۃ لینے کا قانون حق رکھتے ہیں ایک طرف تو مالداروں کو زکوٰۃ دینے کا پابند کرتا ہے
دینے پر فضائل اور نہ دینے پر تادیبی کارروائی اور تہدییدی احکام سنا کر دلوں سے مال و دولت کی محبت کم کرتا ہے اور دوسری جانب زکوٰۃ کو مال کا میل کچیل کہ کر حاجت مندوں کی غیرت و حمیت کو بیدار کرتا ہے کہ آج تو تم نے ضرورت و مجبوری کے تحت زکوٰۃ قبول کر لیا ہے لیکن یہ جان لو کہ جو کچھ تم لے رہے ہو لوگوں کے مالوں کا میل کچیل ہے ۔
آئندہ تمہاری شرافت کو قطعاً یہ زیب نہیں دے گا کہ تم اس زکوٰۃ ہی کے انتظار میں ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے رہو- اور معاشی اعتبار سے اپنے پیروں پر کھڑے ہونے کی کوشش نہ کرو، نہیں بلکہ تم بھی ایک باعزت انسان ہو تم صلاحیتوں سے لیس ہو
پروردگار عالم نے تمہیں تمام خوبیوں سے نوازا ہے اور تم کو صحیح و سالم اعضاء دے کر پیدا کیا لہذا تم بھی اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لاکر خود اس لائق بننے کی کوشش کرو کہ دوسروں کو زکوٰۃ دے سکوں یہ ہے مذہب اسلام کے نظام زکوٰۃ کا بنیادی خاکہ جواپنے اندر تمام تر خوبیوں اور اچھائیوں کو سمیٹے ہوئے ہے
زکوٰۃ کے لغوی معنی پاکیزگی اور بڑھوتری کے آتے ہیں اور شریعت کی اصطلاح میں مال کے اس مخصوص حصہ کو کہا جاتا ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے مالداروں پر چند شرطوں کے ساتھ واجب کیا ہے اور انہیں حکم دیا کہ وہ مال مخصوص قسم کے لوگوں کو بغیر کسی معاوضہ و بدلہ کے اس کا مال بنا دیں
زکوٰۃ دنیوی کاروبار اور انکم ٹیکس کی طرح کوئی ٹیکس اور بزنس نہیں ہے بلکہ وہ صرف اور صرف انسانوں کی صلاح و فلاح اور معاشی و اقتصادی بحران کے خاتمہ اور باہمی امداد و اعانت کا ایک مکمل نقشہ ہے جس سے معاشرے میں اجتماعیت و اتحاد کا ماحول پیدا ہوتا ہے
ایک طرف دولت مند حضرات حرص و بخل اور حسد جیسی برائیوں سے محفوظ رہ کر اس بات کو خدا کا احساس اور اپنی مغفرت کا سامان جانیں گے کہ ان کو کسی غریب کی ضرورتوں کو پوری کرنے کی سعادت نصیب ہوئی اور پروردگار عالم نے انہیں اپنے دین کی خدمت کا اہل بنایا اور دوسری طرف غرباء کے دلوں میں ان محسنوں کی محبت اور ان کے لیے جذبہ تعاون پیدا ہوگا
اور معاشرہ طبقاتی کشمکش سے محفوظ رہے گا-الغرض زکوٰۃ ایک طرف انسان کو اپنے خالق کا فرمانبردار بندہ بناتی ہے اور دوسری طرف مخلوق کو ایک دوسرے کے گلے لگاتی ہے
اللّٰہ رب العزت نے ہجرت کے دوسرے سال میں اہل اسلام پر زکوٰۃ کی فرضیت کا حکم نافذ فرمایا: اور نبی کریم صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم نے بے شمار حدیثوں میں زکوٰۃ ادا کرنے کی تاکید فرمائی ہے
یہی وجہ ہے کہ مسائل زکوٰۃ سے تفصیل اور شرح و بسط کے ساتھ قرن اول سے لے کر آج تک کتب و فقہ تفسیر بھری پڑی ہیں اور اس کے تمام گوشوں کو فقہائے اسلام نے واضح فرمایا ہے
جیسا کہ،، زکوٰۃ کا پس منظر،، کے عنوان کے تحت یہ بات آچکی ہے کہ مذہب اسلام ہر طرح کے مال میں زکوٰۃ واجب نہیں کرتا بلکہ واجب ہونے کے لیے کچھ شرطیں مقرر کرتاہے بریں بنا مختصراً ان شرائط کا بھی تذکرہ بہتر ہوگا اس لئے ہم نمبر وار ان کو ذکر کرتے ہیں-ملک تام: وجوب زکوٰۃ کی شرطوں میں سب سے اہم اور بنیادی شرط ملک تام ہے
یعنی مذہب اسلام ہر اس مال پر حکم زکوٰۃ نافذ کرتا ہے جو کسی مسلمان کے پاس موجود ہو بلکہ صرف اور صرف اس مال پر ہی زکوٰۃ واجب ہوتی ہے جس پر اس کی مکمل ملکیت حاصل ہو- رہ گیا وہ مال جس پر ملکیت تامہ حاصل نہ ہو تو ایسے مال پر زکوٰۃ نہیں ہے- ملکیت اور ملکیت تامہ یہ دو الگ الگ مفہوم ہیں ۔
چناں چہ ملکیت کا مفہوم تو یہ ہے کہ انسان کے پاس جو مال ہو اس میں اسے تصرف کرنے کا اور اس سے فائدہ اٹھانے کا حق ہو اور ملکیت تامہ کا معنی فقہاے کرام کے ارشادات کی روشنی میں یہ ہے کہ انسان کو اس مال پر حق تصرف کے ساتھ قبضہ اور اختیار بھی پوری طرح سے حاصل ہو اور اس میں تصرف کرنے سے کوئی چیز مانع نہ ہو
اسی مطلب کے پیشِ نظر فقہائے کرام نے فرمایا ہے کہ جو مال گم ہوگیا ہو تو اگر وہ گمشدہ مال اسی شخص کی ملکیت میں رہتا ہے جس کی ملکیت میں وہ گم ہونے سے پہلے تھا تاہم اس مال پر زکوٰۃ اس لیے واجب نہیں ہے کہ اس شخص کے قبضے میں نہیں ہے
البتہ یہ بات قابلِ غور ہے کہ اثر وجوب زکوٰۃ کے لئے ملک تام کس حکمت پر مبنی ہے
ملاحظہ فرمائیں: یہ امر تو روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ ملکیت ایک عظیم نعمت الہی ہے کیونکہ تیمارداری اور انسانیت کا نتیجہ ہے جس سے غلام اور جانور محروم رہتے ہیں
ملکیت سے آدمی کی قائدانہ حیثیت اور سرداری کی پوزیشن میں رہنے کا پتہ چلتا ہے اور ملک تام کے ذریعے انسان اپنے مال سے بے روک ٹوک فائدہ اٹھاتا ہے
اور خود اپنے معاندین و نائبین توسل سے مال کی افزائش اور اس کے بڑھانے اور دونا کرنے پر قادر ہوتا ہے ایسے عظیم نعمت پانے کے سبب انسانیت کا یہی تقاضہ ہے کہ جس نے یہ نعمت عظمیٰ بخشی ہے اس کا شکریہ ادا کیا جائے اور زکوٰۃ کی ادائیگی کی جائے-وجوب زکوٰۃ کی دوسری شرط مال کا نامی ہونا ہے
مال غیر نامی میں زکوٰۃ واجب نہیں ہے لفظ نامی نماء سے بنا ہے جس کا لغوی معنیٰ زیادتی افزائش اور اضافہ کے آتے ہیں
مگر شریعت کی زبان میں نامی اس مال کو کہتے ہیں جس میں حقیقتاً حکما افزائش کی صلاحیت ہو اور صاحب مال کو اس سے نفع اور زیادتی حاصل ہو سکے خواہ اس مال میں توالد و تناسل کی صلاحیت ہو اور وہ اپنی اسی صلاحیت سے نفع بخش ہو پھر تجارت اور بزنس آدمی کو فائدہ پہچانے کی قابلیت رکھتا ہو زکوٰۃ صرف ایسے ہی مال میں واجب ہے
مذہب اسلام نے وجوب زکوٰۃ کے لیے نامی کی شرط کیوں رکھی؟
مذہب اسلام نے امت مسلمہ کے سامنے نظام زکوٰۃ لیے پیش کیا ہے کہ پروردگار عالم نے جس خوش نصیب انسان کو صاحب دولت و ثروت بنایا ہے اور جسے مال جیسی نعمت سے سرفراز کیا ہے وہ اپنے مال کا کچھ حصہ نکال کر غرباء و مساکین کو دے تاکہ ان کی غم خواری ہو اور معاشرہ میں اخوت و بھائی چارگی اور ہم دردی کا مظاہرہ ہو
اور معاشی و اقتصادی بحران کا سد باب ہو اسی لیے زکوٰۃ میں اتنا مال نہ دیا جائے جس سے دینے والا خود فقیر ہو جائے
اب اگر ایسے مال میں زکوٰۃ واجب قرار دی جائے جس میں نمو کی صلاحیت مفقود ہو اور جو مزید نفع بخش نہ بن سکتا ہو تو کوئی عجیب نہیں ہے کہ زکوٰۃ دینے والا ایک دن خود ہی فقیر ہو جائے اور یہ بات اسلامی روح کے بالکل منافی ہے
اور منشاء اسلام سے بہت دور ہے کہ آدمی اپنے ہاتھوں اپنی گداگری کا سامان مہیا کرے اور دوسروں کے سامنے دست سوال دراز کرنے پر مجبور ہو جائے اس لیے زکوٰۃ کا وجوب صرف اموال نامیہ میں ہی ہوتا ہے
مذہب اسلام نے وجوب زکوٰۃ کے لئے حاجت اصلیہ سے فارغ ہونا بھی شرط قرار دیا ہے
جو اموال انسانی حاجات و ضروریات میں مشغول ہوں ان میں زکوٰۃ واجب نہیں ہوتی البتہ اس سلسلے میں ہمیں یہ معلوم کرنا ہے کہ آخر مذہب اسلام نے حاجت اصلیہ کا معیار کیا رکھا ہے اور حاجت اصلیہ سے اس کی کیا مراد ہے؟
فقہاے کرام نے مختلف انداز اور الفاظ میں اس کا مفہوم بیان کیا ہے مگر حاجت اصلیہ کا بہترین مطلب علامہ شامی نے جو ذکر کیا ہے وہ یہ ہے:
کہ حاجت اصلیہ ہر ایسی صورت کو کہتے ہیں جو انسان کو ہلاکت و بربادی سے محفوظ رکھے جیسے کھانا، کپڑا، مکان، جنگی اصلحے یہ ایسی ضرورتیں ہیں جو بہر حال انسان کے لیے ضروری ہیں
جن کے بغیر کوئی چارہ کار نہیں ہے اسی طرح کارخانوں کی مشینیں صنعت و حرفت کے آلات جن کے بغیر انسان کا سارا کاروبار معطل ہوسکتا ہے
مکان میں سونے، کھانے پینے آرام کرنے کے ضروری سامان کہ ان کے بغیر انسان کے پاس مال موجود ہو مگر وہ ان تمام ضرورتوں اور حاجتوں میں مشغول ہو تو ان کا ہونا اور نہ ہونا وجوب زکوٰۃ کے مسئلہ میں برار ہے
زیورات چوں کہ زیب وزینت اور آلائش و زیبائش کے لیے تیار کئے جاتے ہیں اور یہ ان کے فاضل ہونے کی دلیل ہے
لہٰذا وہ حاجت اصلیہ کے دائرے سے باہر ہیں۔ اور مقدار کو پہونچنے کی صورت میں ان مین بھی زکوٰۃ واجب ہوگی
شریعت مطہرہ نے حاجت اصلیہ کی شرط اس حکمتِ بالغہ کے پیشِ نظر رکھی ہے کہ زکوٰۃ چوں کہ ایک عبادت ہے اور عبادت کے لیے طبیعت کی رغبت اور خوشی کے ساتھ اس کی ادائیگی کے لیے تیار ہونا ضروری ہے
اور یہ اسی وقت ہوسکتی ہے جب انسان کو اس کی ضرورت زندگی سے بچے ہوئے مال کی زکوٰۃ نکالنے کا حکم دیا جائے اگر ایسے اموال میں زکوٰۃ کا حکم لگا دیا جائے جو انسان کی بنیادی ضرورتوں میں پھنسے ہوئے ہیں تو وہ طوعا و کرہاً تو زکوٰۃ نکالنے پر تیار ہو جائے گا
مگر وہ رغبت و مسرے اور طبیعت خاطر نہیں پیدا ہو سکے گی جو عبادتوں کی اصلی اسپرٹ اور روحانی تسکین کا سامان ہے
وجوب زکوٰۃ کی ایک شرط مال کا دین سے محفوظ ہونا ہے
یعنی اگر کسی شخص کے پاس ڈھیروں مال ہے مگر اس کے ذمہ ایسا قرض ہے کہ بندوں کہ طرف سے اس کا مطالبہ ہوتا ہے یا ہوسکتاہے
تو مذہب اسلام اس مال سے زکوٰۃ دینے کا حکم نافذ نہیں کرتا کیوں کہ یہ مال اب گویا اس کی حاجت اصلیہ کا ایک حصہ ہے اور وجوب زکوٰۃ کے لیے حاجت اصلیہ سے فارغ ہونا لازم ہے
پرور دگار عالم کی رحمت کاملہ کا یہ کتنا انوکھا باب ہے کہ اگر کسی کے ذمہ حقوق العباد ہو تو اسے یہ پسند نہیں کہ بندے کا حق مؤخر کیا جائے اور میری راہ میں خرچ کیا جائے
وہ فرما رہا ہے کہ میں اب اپنا حق ساقط کئے دیتا ہوں مگر ایک بندے کا دوسرے پر جو مالی حق ہے اسے ضرور ادا کرو
یہ وہ شرائط ہیں جو وجوب زکوٰۃ کے مسئلہ میں بنیادی حیثیت کے حامل ہیں ان میں کسی ایک بھی شرط کا معدوم ہو جانا وجوب زکوٰۃ کو ساقط کریتا ہے
اور تمام شرطوں کے موجود ہونے پر زکوٰۃ بہرحال واجب ہوجاتی ہے اور کسی شخص پر زکوٰۃ واجب ہو اور پھر بھی وہ ادا نہ کرے تو اس کے لیے قرآن وسنت میں ایسے سنگین خطرات سے دوچار ہونے کی خبر دی گئی ہے کہ جس کے تصور سے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں اور کلیجہ دہل جاتا ہے
اور ایک صاحب ایمان پر جو کیفیت طاری ہو جاتی ہے اس کا احساس صرف خوف خدا رکھنے والے ہی کرسکتے ہیں
عبرت کے لیے چند احادیث ملاحظہ فرمائیں
جو ان ارباب مال ودولت اور اغنیاء کے لیے یقیناً باعث نصیحت ہیں جو مال ودولت کے نشے میں اس حکم الہی کو پامال کرنے ہی میں مخر محسوس کرتے ہیں اور خدا کی دی ہوئی اس عظیم نعمت کو اپنی جاگیر سمجھتے ہیں اور اپنی من مانی اس میں صرف کرنے سے ذرا بھی دریغ نہیں کرتے اور حدودِ شریعت سے تجاوز کرکے اپنی عیاشی کا بازار گرم کئے رہتے ہیں
اور اپنے محتاج بھائیوں کی ہم دردی اور غم خواری کا اپنے ذہن میں کبھی تصور بھی نہیں لاتے ہیں
کیا بعید ہے کہ اگر آج ولی خدا کے محتاج بندوں کی غمخواری نہیں کرتے توکل روز محشر میں خدا بھی ان کا یار و مددگار نہ بنے اور ان کو درد ناک عذاب کے شکنجے میں کس دے- خدا ہمیں اس مال داری سے محفوظ رکھے- جس کے نتیجے میں سر محشر ذلیل و خوار رسوا ہونا پڑے اور چند دن کی عیش و آرام والی زندگی کے بدلے کرب و اضطراب اور عذاب خداوندی کا طوق گلے میں ڈال دیا جائے
محترم قارئین ! مضمون کے آخر میں ان احادیث کریمہ کو ملاحظہ فرمائیں جو زکوٰۃ نہ دینے والوں کے بارے میں وارد ہیں جن کو پڑھ کر درس عبرت حاصل کیا جاسکتا ہے
حضورِ اقدس صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم فرماتے ہیں کہ زکوٰۃ کا مال جس مال میں ملا ہوگا اسے تباہ و برباد کردے گا
ایک دوسری جگہ حضورِ اقدس صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم ارشاد فرماتے ہیں کہ خشکی و تری میں جو مال تلف ہوتا ہے وہ زکوٰۃ نہ دینے سے ہی ہوتا ہے
ایک اور مقام پر سرکار ارشاد فرماتے ہیں: جو شخص اپنے مال کی زکوٰۃ نہ دے گا وہ مال روز قیامت گنجے اژدھا کی شکل بنے گا اور اس کے گلے میں طوق ہوکر پڑے گا
اسی طرح اس ایک اور عبرت انگیز حدیث ہے
وہ اژدھا منہ کھول کر اس کے پیچھے دوڑے گا۔ یہ بھاگے گا اس سے کہا جائے گا لے اپنا وہ خزانہ کہ جس کو چھپاکر رکھتا تھا کہ میں اس سے غنی ہوں جب دیکھے گا کہ اس اژدھا سے کوئی مفر نہیں ناچار اپنا ہاتھ اس کے منہ میں دے گا وہ ایسا چبائے گا جیسے نر اونٹ چباتا ہے
نبی کریم صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم نے ارشاد فرمایا: وہ اژدھا اس پر دوڑے گا یہ پوچھے گا تو کون ہے؟
اژدھا کہے گا مین تیرا وہ زکاتی مال ہوں جس کو چھوڑ کر تو مرا تھا- جب یہ دیکھے گا کہ وہ پچھا ہی کئے جارہا ہے تو اس کے منہ میں ہاتھ دے دیگا وہ چبائے گا پھر اس کا سارا بدن چبا ڈالے گا
اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو ان ہول ناک مناظر سے محفوظ رکھے اور ان کو صحیح طور سے زکوٰۃ ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔
از : افتخاراحمدقادری برکاتی
کریم گنج،پورن پور،پیلی بھیت،مغربی اتر پردیش
Pingback: جنگ بدر حق و باطل کا ایک عظیم معرکہ ⋆ اردو دنیا ⋆ از : محمد جنید رضا
Pingback: جنگ بدر امت مسلمہ کے لیے اعجاز سے کم نہیں ⋆ اردو دنیا ⋆ از: محمد فداء المصطفٰے
Pingback: روزہ دوزخ سے چھٹکارہ حاصل کرنے کا اہم ترین ذریعہ ہے ⋆ اردو دنیا ⋆ محمد فداء المصطفٰے
Pingback: علماے کرام کو چندے کے نام پر ذلیل کرنے والو ⋆ اردو دنیا ⋆
Pingback: عید کے دن بھی خدائے قدوس کی عبادت میں مشغول رہے ⋆ اردو دنیا افتخاراحمدقادری برکاتی
Pingback: کہاں ہے میرا بھارت میں اس کو ڈھونڈ رہا ہوں ⋆ اردو دنیا ⋆ تحریر: محمد جنید رضا
Pingback: تین طلاق کے بعد اب ایک طلاق کی باری ⋆ اردو دنیا ⋆ رپورٹ
Pingback: اسمارٹ فون کی مدد سے امراض بتانے والی انقلابی مائیکرو چپ ⋆ اردو دنیا رپورٹ
Pingback: اب ہندوستانی مسلمان کیا کریں ⋆ اردو دنیا ⋆ از : سیف علی شاہ عدم بہرائچی
Pingback: یتیموں پر رحمت عالم ﷺ کا کرم ⋆ اردو دنیا محمد جنید رضا
Pingback: قطب الاقطاب حضورحاجی شاہجی محمد شیر میاں رحمتہ الله علیہ ⋆ افتخاراحمدقادری برکاتی