یتیموں پر رحمت عالم ﷺ کا کرم
از قلم : محمد جنید رضا :: یتیموں پر رحمت عالم ﷺ کا کرم
نبی کریم ﷺ کی حیات طیبہ تمام عالموں کے لیے رحمت ہے۔ چاہے وہ عالم انسانیت ہو یا عالم حیوانیت، چاہے وہ عالم جمادات ہو یا نباتات۔ اسی وجہ سے نبی اکرم ﷺ نے تمام عالم کے حقوق بیان فرمائے اور اپنی امت کو اس کی پاسداری کی ترغیب دی۔
اس لیے کہ اللہ تبارک و تعالی نے آپ کو سارے جہان کے لیے رحمت بنا کر بھیجا ہے۔ اسی طرح حضور ﷺ نے بے سہارا لوگوں پر اپنا خصوصی کرم فرمایا اور بچوں سے بہت محبت فرمائی۔ یتیموں کو ان کے حقوق دلاۓ اور سختی سے ان کی پاسداری کروائی۔
یتیم اس نابالغ بچے کو کہتے ہیں جس کے سر سے اس کے باپ کا سایہ اٹھ گیا ہو۔ بچہ، قسمت کے اس فیصلے کے بعد بالکل بے سہارا اور لاوارث ہو جاتا ہے۔ جس کی پرورش اور اچھی تربیت کی ذمہ داری کوئی نہیں لینا چاہتا۔
اگر کوئی اس کے سر پر شفقت و محبت کا ہاتھ رکھنے والا مل بھی جائے تو وہ اس کا استحصال کرنے لگتا ہے۔ یتیم کے مال پر بری نظر لگا کر ہڑپنا چاہتا ہے۔ کیوںکہ اس کی اصل محبت مال سے ہوتی ہے، یتیم سے نہیں۔ اور مال ختم ہونے کے بعد اس پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے جاتے ہیں۔ بسا اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ ان غریب و یتیم بچوں سے بھیک بھی منگوائی جاتی ہے۔
جب کہ قرآن مجید میں ﷲ عزوجل نے متعدد جگہوں پر ارشاد فرمایا ہے: اور یہ کہ یتیموں کے حق میں انصاف پر قائم رہو( سورہ نساء4 ، آیت:127)
تو یتیموں پر دباؤ نہ ڈالو (کنز الایمان) اور یتیم کے مال کے پاس نہ جاؤ۔ مگر بہت اچھے طریقے سے سے جب تک وہ اپنی جوانی کو پہنچے۔ (سورہ انعام،آیت:152)
ان آیات میں مال لینا تو درکنار بری نیت سے اس مال کے قریب جانے کے لئے بھی منع کیا گیا ہے۔ تو ان کا مال ظلما لینا کتنا بڑا گناہ ہوگا۔ اس کے علاوہ بھی بہت سی آیات یتیموں کے ساتھ نیک سلوک اور ہمدردی کرنے کے متعلق وارد ہوئی ہیں۔ اس زمانے میں جن لوگوں کو لاوارث سمجھا جاتا ہے۔
جن کو حقارت بھری نگاہوں سے دیکھا جاتا ہے۔ جن کے سر پر دست شفقت رکھنے والا کوئی نہیں ہوتا۔ ان پر بھی نبی کریم ﷺ نے بہت کرم کیا اور ان کو بھی اپنے سینے سے لگایا۔ ان کی دل جوئی کا سامان کیا۔ ساتھ ہی یتیموں کے ساتھ حسن سلوک کے تعلق سے نبی ﷺ نے بہت تاکید فرمائی ہے اور حق تلفی کرنے پر سخت وعیدوں کا ذکر فرمایا ہے۔
حضرت ابو ھریرۃ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور سید عالم ﷺ نے ارشاد فرمایا: اے اللہ! میں لوگوں کو دو ضعیفوں کے حق سے بہت ڈراتا ہوں ایک یتیم اور دوسری عورت۔ (پیغمبر رحمت اور ان کی تعلیمات، صفحہ 246)
یتیموں کی کفالت کرنے والا جنت میں سرکار کے ساتھ حضرت سہل رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ سید عالم ﷺ نے ارشاد فرمایا: میں اور یتیم کی کفالت کرنے والا جنت میں اس طرح ہوں گے۔ آپ نے شہادت کی انگلی اور بیچ کی انگلی سے اشارہ کیا اور دونوں کے درمیان تھوڑی سی کشادگی کی۔
اس حدیث پاک میں غایت قرب بتانا مقصود ہے، کہ یتیم کی کفالت کرنے والا جنت میں سیدعالم ﷺ سے بہت قریب ہوگا۔ (پیغمبر رحمت اور ان کی تعلیمات صفحہ ,247 248)
کوئی شخص اپنے تین چار بچوں کے اخراجات برداشت کرے۔ اسی کے ساتھ کسی ایک یتیم کی ذمہ داری بھی اپنے سر لے، اور اس کے ساتھ حسن سلوک کرے تو وہ کتنے عظیم انعام کا مستحق ہے کہ جنت میں سرور عالم کے قرب میں اسے جگہ میسر آئے گی۔
یتیم بچوں سے حضور ﷺ کی ہمدردی حضرت عبداللہ بن جابر رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ حضرت جعفر بن ابی طالب کے انتقال کے بعد تین دن تک نبی اکرم ﷺ ہمارے پاس نہیں آئے۔ پھر آپ تشریف لائے تو فرمایا کہ آج کے بعد میرے بھائی پر مت رونا۔
پھر آپ نے فرمایا کہ میرے بھائی کے بچوں کو بلاؤ۔ ہمیں بلایا گیا، ہم چوزوں کی طرح (چھوٹے چھوٹے) تھے۔
آپ نے فرمایا: حجام بلاؤ۔ حجام کو بلاکر آپ نے ہمارے سروں کو مونڈنے کا حکم فرمایا۔ ( پیغمبر رحمت اور ان کی تعلیمات صفحہ 250) اس سے یہ بات سامنے آئی کہ چھوٹے بچوں کی کفالت کرنے والے پر ضروری ہے کہ ان کی ضروریات کا خیال رکھے، ان کی اچھی پرورش کرے۔
محمد جنید رضا
اسلامک اسکالر، بریلی (یوپی)
- زکوٰۃ اسلام کا ایک اہم ترین مالی فریضہ
- اسلام سچا دین کیوں؟
- جنگ بدر حق و باطل کا ایک عظیم معرکہ
- بھارتی مسلمانوں کوفو ٹو میں نہیں مشکل میں ساتھ کھڑی رہنے والی قیادت کی ضرورت ہے
- کیا سری لنکا کی طرح بھارت کو بھی کنگال بنایا جارہا ہے؟
- نئے بھارت میں ہم مسلمانوں کا مستقبل
- ہمارے لیے آئیڈیل کون ہیں ؟
- کہاں ہے میرا بھارت میں اس کو ڈھونڈ رہا ہوں
- جمہوریت کا قاتل کون ؟