سوشل میڈیا اورانسانی تقدسات کی پامالی

Spread the love

سوشل میڈیا اورانسانی تقدسات کی پامالی

محمد علم اللہ، نئی دہلی

آج کے ڈیجیٹل دور میں سوشل میڈیا ہماری زندگی کا لازمی حصہ بن چکا ہے۔ اپنی نیوز فیڈ پر اسکرول کرنے، پوسٹس لکھنے، ’سوشل میڈیا‘ یا ’سماجی ذرائع ابلاغ‘ پر مسلسل فعال رہنے، کچھ نہ کچھ لکھنے، دوسروں کی تحریریں پسند کرنے، ان پر تبصرے کرنے، انھیں جانچنے پرکھنے اور اپنے رجحان کے مطابق نقطۂ نظر پیش کرنے کا ہم پر یہ اثر ہوتا ہے کہ ہم خود کو بہت اہم سمجھنے لگتے ہیں۔

ہمیں لگتا ہے کہ اس کائنات کی حرکت ہمارے لکھنے، پڑھنے اور متحرک رہنے سے ہے۔ یہ اثر اتنا خفیف ہوتاہے کہ ہمیں اس کی خبر تک بھی نہیں ہوتی۔ لیکن یہ اثر بہت گہرائی تک پہنچ چکا ہوتا ہے، اتنی گہرائی تک کہ اس کی وجہ سے ہمیں کسی بھی وقت دھچکا لگ سکتا ہے۔ہمیں اس وقت اس کا پتہ لگتا ہے جب ہم اچانک ’سوشل میڈیا‘ سے دور چلے جاتے ہیں۔ اس وقت ہمیں ایک دھچکا سا لگتا ہے اور یہ احساس ستاتا ہے کہ ہم بے دست وپا اور بے سہارا رہ گئے ہیں۔

سوشل میڈیا کے ایک معروف پلیٹ فارم فیس بک پر بہت سے ایسے لوگ ہیں جن کے ساتھ وقت گزارنااورتبادلہ خیال کرنا ہمیں اچھا لگتا ہے۔ ہمیں لگتا ہے کہ ہمارے اردگرد کے بہت سے لوگ پڑھے لکھے اور عقل ودانش والے ہیں۔

وہ بدلتی ہوئی دنیا کو سمجھنے کی کوشش کر رہے ہیں اور اپنے اپنے طریقوں اور ذرائع سے مسلسل متحرک رہتے ہیں۔ کئی لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں کہ ان کی اپنی دنیا اور زندگی اتنی خوب صورت اور منظم نہیں ہوتی جتنی وہ یہاں پیش کرتے ہیں۔ میں اسے سرتاسر غلط نہیں سمجھتا۔ اگر کوئی اس سے گزرتا ہے اور بہتر بننے کی کوشش کرتا ہے تو کیا حرج ہے؟

سوشل میڈیا پر وقت گزارنے کا مطلب صرف یہی نہیں ہوتا کہ ہم خود کو متحرک اور فعال رکھنا چاہتے ہیں اور ملک وملت کے حالات سے نہ صرف باخبر رہنا چاہتے ہیں بلکہ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہوتی ہے کہ ہم میں سے کئی افراد خود کو معاشرے سے الگ تھلگ محسوس کرتے ہیں اور فیس بک، ٹویٹر، انسٹاگرام جیسے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر زیادہ سے زیادہ وقت گزارتے ہیں تاکہ خود کو معاشرے سے جوڑ کر رکھ سکیں۔برائی یا حرج تو اس میں بھی کچھ نہیں ہے تاہم یہ اس لحاظ سے ضرور برا ہے کہ ہم اپنے دوستوں، پڑوسیوں اور رشتہ داروں کو نظرانداز کرتے ہیں اور ہماری جسمانی سرگرمی (فزیکل ایکٹوٹیز) دن بہ دن گھٹتی جارہی ہے۔

ایک نئی تحقیق کے مطابق سوشل میڈیا پر بہت زیادہ وقت گزارنے کی وجہ سے صورت حال مزید خراب ہوسکتی ہے۔ سوشل میڈیا نوجوانوں میں ڈپریشن میں اضافہ کر رہا ہے۔ فیس بک ڈپریشن کا خطرہ 7 فی صد تک بڑھاتا ہے، فیس بک چڑچڑاپن کا خطرہ 20 فی صد تک بڑھا دیتا ہے۔ سوشل میڈیا نے موٹاپے، بے خوابی اور کاہلی کے مسائل میں اضافہ کر دیا ہے، تحقیق کے مطابق سوشل میڈیا کے زیادہ استعمال سے خودکشی کی شرح میں اضافہ ہوا ہے۔ انسٹاگرام لڑکیوں میں احساس کمتری پیداکر رہا ہے۔

گزشتہ دہائی میں سوشل میڈیا کے ذریعے چیکنگ اور سکرولنگ ایک مقبول سرگرمی بن گئی ہے۔ زیادہ تر لوگ سوشل نیٹ ورکنگ سائٹس کے عادی ہونے کی وجہ سے سوشل میڈیا کا استعمال کر رہے ہیں۔ درحقیقت، سوشل میڈیا کی لت ایک طرز عمل کی لت ہے جس کی خصوصیت سوشل میڈیا کے بارے میں حد سے زیادہ فکرمند ہونا، سوشل میڈیا پر لاگ اِن کرنے یا استعمال کرنے کی بے پناہ خواہش ہے اور سوشل میڈیا پر اتنا وقت صرف کرنا ہے جو زندگی کے دیگر اہم شعبوں کو متاثر کرتا ہے۔

اس وقت بڑوں سے لے کر بچوں تک کے لیے فون ضروری ہو گئے ہیں۔ بچوں کی تعلیم بھی آن لائن ہو رہی ہے۔ ایسے میں بچے فون پر زیادہ وقت گزارتے ہیں۔ فون کے زیادہ استعمال کی وجہ سے بچے سوشل میڈیا کے عادی بھی ہو رہے ہیں۔ سوشل میڈیا کے نشے کی وجہ سے بچوں کی نیند متاثر ہو رہی ہے۔

بینائی بھی کم زور ہو جاتی ہے۔ نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف ہیلتھ کی ایک رپورٹ میں واضح کیا گیا ہے کہ اگر کوئی بچہ ایک ہفتے تک مسلسل سوشل میڈیا کا استعمال کرتا ہے تو وہ ایک رات تک کی نیند بھی کھو سکتا ہے۔ اکثر بچوں کے ساتھ ایسا ہوتا ہے کہ جب وہ سوشل میڈیا کا استعمال کرتے ہوئے سوتے ہیں تو آنکھیں بند کرنے کے بعد بھی ان کے ذہن میں وہ چیزیں چلتی رہتی ہیں جو انھوں نے دیکھی اور سنی ہوتی ہیں۔

سوشل میڈیا کی لت ایک طرز عمل کی خرابی ہے جس میں نوعمر یا نوجوان سوشل میڈیا کی طرف راغب ہوجاتے ہیں اور واضح منفی نتائج اور سنگین خرابیوں کے باوجود آن لائن میڈیا کو کم کرنے یا بند کرنے سے قاصر ہوتے ہیں۔ اگرچہ بہت سے نوجوان روزانہ کی بنیاد پر آن لائن میڈیا کی کسی نہ کسی شکل میں مشغول رہتے ہیں (بشمول فیس بک، انسٹاگرام، ٹویٹر، یوٹیوب، وائن، اسنیپ چیٹ، اور ویڈیو گیمز)، نوعمر بچوں کے لیے سوشل میڈیا کی لت انتہائی خطرناک ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق دنیا میں ہر پانچواں نوجوان یعنی تقریباً 19 فی صد نوجوانوں نے ایک سال کے اندر کسی نہ کسی کھیل میں پیسہ لگایا ہے۔ اس میں وہ زیادہ تر آن لائن سٹے بازی کا شکار ہوئے ہیں۔ آج کے دور میں سوشل میڈیا کا حد سے زیادہ استعمال نہ صرف نوجوانوں میں خود اعتمادی کو کم کر رہا ہے بلکہ تنہائی کے احساس میں بھی اضافہ کر رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مایوسی اور اضطراب میں بھی اضافہ ہوا ہے۔

اگرچہ سوشل میڈیا پر تمام طبقوں کی سرگرمی میں اضافہ ہوا ہے لیکن نوجوان سب سے زیادہ متاثر ہو رہے ہیں۔ یہاں تک کہ نوجوانوں میں خودکشی کا رجحان بھی بڑھ رہا ہے۔ طویل عرصے تک سوشل میڈیا پر رہنے سے ذہنی صحت پر منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔ ایسے معاملوں میں 15 سے 45 سال کی عمر کے افراد کے معاملے زیادہ رپورٹ ہو رہے ہیں۔

جس کی وجہ سے نیند کی کمی کے ساتھ ساتھ کام کرنے کی صلاحیت بھی متاثر ہوتی ہے۔ آج کا دور موبائل، لیپ ٹاپ جیسے گیجٹس کے بغیر نامکمل ہے۔ ایسے میں آپ اپنی ذہنی صحت کا خیال رکھ کر اور کچھ تدابیر اختیار کرکے سوشل میڈیا کی لت سے بچ سکتے ہیں۔

آج ہم میں سے زیادہ تر لوگ سوشل میڈیا کے عادی ہیں۔ چاہے اسے دوستوں اور رشتہ داروں سے رابطہ قائم کرنے یا ویڈیوز دیکھنے کے لیے استعمال کریں، سوشل میڈیا ہم میں سے ہر ایک کے لیے ایک جانا پہچانا طریقہ ہے۔

ٹیکنالوجی اور اسمارٹ ڈیوائسز کے غلبے والی دنیا میں نیٹ فلکس یا فیس بک پر اسکرول کرنا اور گھنٹوں کے حساب سے وقت ضائع کرنا ان دنوں بہت عام بات ہے۔ سوشل میڈیا کی لت کے بارے میں مطالعے سے پتہ چلتا ہے کہ یہ ذہنی صحت کے مسائل کا باعث بن سکتا ہے جیسےخود اعتمادی میں کمی، احساس تنہائی، افسردگی اور اضطراب وغیرہ۔

دانستہ یا نادانستہ، یہاں لکھتے ہوئے ہم اپنی ایک ایسی تصویر بنا رہے ہوتے ہیں جس سے یہ احساس قوی ہوتا ہے کہ ہم سب سے بہتر، سلجھے ہوئے اور نمایاں انسان ہیں۔ حالانکہ یہ رویہ دنیا کے لیے نہیں ہمارے لیے مہلک اور جان لیوا ہے،یعنی ہم خود کو دھوکہ دے رہے ہوتے ہیں اور اس کا براہ راست اثر ہماری حقیقی زندگی پر پڑتا ہے۔ حقیقی زندگی میں ہم ہر قسم کی کم زوریوں اور خامیوں کے ساتھ موجود رہتے ہیں۔جب کہ سوشل سائٹس پر ہم صرف اپنی خوبیوں کے ساتھ ہی موجود ہوتے ہیں، جن میں سےبعض فرضی اور امکانی بھی ہوسکتی ہیں۔

ایسی صورت حال میں ضروری ہے کہ ہم اس ’آن لائن‘ دنیا سے ’غیر حاضر‘ ہو کر بھی سوچیں اور اسی آپسی تعاون اور میل جول والی زندگی کے دامن کو تھامے رہیں جس کے چھٹ جانے سے سب کچھ درہم برہم ہو کر رہ جاتا ہے۔ اپنے آپ کو اہم اور غیرمعمولی سمجھ کر خود کو بچائے رکھنے سے بڑھ کر کوئی اہم کام نہیں ہو سکتا۔

باقی کلکس، ہٹس، لائکس، شیئرز، وائرل اور ٹرولز وغیرہ ان سب کی ایک منصوبہ بند معاشیاتی حکمت عملی ہے۔ غور طلب بات ہے کہ ہماری بے ضرر اور معصوم سی سرگرمیوں سے بھی لوگ پیسہ کمارہے ہیں،اسی لیے وہ ترغیب دیتے ہیں اور زیادہ سے زیادہ لوگوں کو سوشل سائٹس سے جوڑنے کی بھر پور کوشش کرتے رہتے ہیں۔ ہمیں اس حوالے سے بھی ٹھوس مطالعہ کرنے کی ضرورت ہے۔

تاکہ ہم دانستہ یا نادانستہ دوسروں کے آلۂ کارنہ بنیں۔ سوشل میڈیا نے ہمارے باہم بات چیت کرنے کے طریقے کو تبدیل کر دیا ہےاور یہ نام نہاد بھرم بھی پیدا کردیا ہے کہ سوشل میڈیا وقت کی سب سے اہم ضرورت ہے۔ اس دام ِفریب سے بچنے کے لیے ہمیں یہ یاد رکھنے کی ضرورت ہے کہ ہماری آن لائن شخصیت ہماری حقیقی زندگی کی شناخت کا متبادل نہیں ہے

اور جب سوشل میڈیا کے استعمال کی بات آتی ہے تو ہمیں اپنے لیے صحت مند حدود کا تعین کرنا چاہیے، ہمیں یہ یاد رکھنا چاہیے کہ سوشل میڈیا پر ہماری مصروفیتوں کا دوسروں پر کیا اثر پڑے گا ۔

One thought on “سوشل میڈیا اورانسانی تقدسات کی پامالی

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *