حضور قطب الزمان سید علوی مولی الدویلہ ممبرمی حیات و خدمات
حضور قطب الزمان سید علوی مولی الدویلہ ممبرمی حیات و خدمات
اللہ کے محبوب دانائے غیوب منزہٌ عن العیوب محمد مصطفی ﷺ کا فرمانِ عظمت نشان ہے: ” أتاکم أہل الیمن ہم أرق أفئدۃ وألین قلولبا،الایمان یمان،والحکمۃ یمانیۃ، والفخر والخیلاء فی أصحاب الابل، والسکینۃ والوقار فی أہل الغنم“۔ (صحیح البخاری،حدیث نمبر:4388)۔
جس کا مطلب یہ ہے کہ ایمان کا نور اور علم و حکمت یمن سے ہی پھیلے گی۔ اور اگر تاریخ کے اوراق کی ورق گردانی کریں گے تو یہ بات نیم روز کی طرح روشن ہوجائے گی کہ اس دنیا کے ہر خطے میں یمن کے علمائے کرام، صوفیاے عظام اور مبلغین دین نے ہی تبلیغ اسلام کا کا م بحسن و خوبی انجام دیا ہے۔
صرف اتنا ہی نہیں بلکہ سماج میں جتنی بھی برائیاں پھیلی ہوئی تھی اور جتنے بھی ذات پات کے رواج تھے سب کو اکھاڑ پھینکا۔
اور خاص طور پر یمن کے صوفیائے کرام نے ہندوستان، سری لنکا، ملیشیا اور انڈمان وغیرہ ممالک کو اپنا مہجر و گہوارہ بنایا۔ اور وہاں کے ظلمت کدہ کو بقع نور سے منور فرمادیا۔
اس بات سے کسی کو انکار نہیں کہ جنوبی ایشیا میں یمن کے بے شمار قبائل موجود ہیں اور بالخصوص ہندوستان کے ساحلی علاقوں اور ریاستوں میں جیسے احمد آباد، بیجاپور ا،سورت، دکن، حیدر آباد اور ملیبار میں یمن کے قبیلے بکثرت پائے جاتے ہیں۔ ان قبائل میں سے جو مشہور ومعروف قبیلے ہیں وہ مندرجہ ذیل ہیں:
1) شہاب الدین،2) جمل اللیل،3) جفری،4) آل برامی،5) عیدروس، 6) عیدید،7) بافقیہ،8) حداد،9) باعلوی، 10) آل حبشی،11) سقاف اور 12) مولی الدویلہ۔مذکورہ بالا جتنے بھی قبائل ہیں سب آل رسول ہیں اور سب کا تعلق یمن کے شہر حضر موت کے قریہ تریم سے ہے اور ان میں سے اکثر و بیشتر قبائل جنوبی ہندوستان کے ریاست کیرالا میں موجود ہے اور آج بھی یہ اپنی خدمات بحسن و خوبی انجام دے رہے ہیں۔
18 ویں صدی میں سر زمین حضرموت (یمن) نے جن مقدس و عظیم، روحانی، علمی اور دینی ہستیوں کو پیدا کیا جن سے مذہب اسلام کی اشاعت ہوتی رہی انہیں عظیم ہستیوں میں سے ایک مقدس ہستی اور بابرکت ذات حضور قطب الزمان سیدِ علوی مولی الدویلہ ممبرمی ؒکی ہے اور وہ ان عظیم ہستیوں میں سے ہیں جن کی شان کیا ہی نرالی اور عظمت والی ہے۔
آپ ایک بلند پیشواے طریقت اور مقتداے اصحاب حقیقت تھے جو صرف مسلمانوں کے لئے ہی نہیں بلکہ ہر مختلف اور متنوع قوم کے پیرومرشد اور مصلح تھے۔
تاریخ کے صفحات پرنظر ڈاتے ہیں تو پتا چلتاہے کہ اس زمین پر بیشمارلعل و گوہر کی چمک پڑی ہے مگر آپ کی ذاتِ بابرکات وہ نادرالوجود ذات ہے جس کی شہرت و مقبولیت اور اہمیت و افادیت کا شمس اس عالم کے ہر گوشے میں پھیلا ہوا ہے۔
آپ کی روحانی اور دینی خدمات سے پورے کیرالا کے لوگ راہ مستقیم پر گامزن ہوگیے، دین دار اور مخلص بن گئے اور آج بھی کیرالا کے لوگوں کے اندر اسلامی تہذیب و ثفافت خوب نظر آتی ہے۔
آپ 1166 ہجری 23 ذی الحجہ کو حضر موت کے ایک قصبہ تریم میں پیدا ہوئے۔ آپ کی والدہ ماجدہ نیک سیرت و خاتون تھیں جو جفری خاندان کے رہبر و رہنما کی دختر نیک تھیں اور آپ کے والد محترم سیدی محمد بن سید سہیل مولی الدویلہ اس وقت کے یگانا روزگار ہونے کے ساتھ ساتھ خوف ِخدا ترسی کے عظیم مقام پر فائز بزرگ ہستی تھے۔
آپ کم سن میں ہی والدین کی شفقت و محبت سے محروم ہوگئے۔ آپ کی خالہ حلیمہ بی بی نے آپ کی پرورش بحسن وخوبی انجام دیں۔
آپ کا شمار حسینی سادات میں ہوتا ہے۔ آپ کے بلند وبالااخلاق و کردار سے حسینیت کا عکسِ جمیل جھلکتا ہے۔
آپ تاریخِ اسلام کے ان خوش قسمت اور منتخب اشخاص میں سے ہیں جو نہ صرف اپنی ذات بابرکات سے نبوتِ محمدی ﷺکے کمالات و اوصاف کا ایک زندہ معجزہ اور اسلام کی ابدیت و سرمدیت اور اس کی سحر انگیزی و انقلاب آفرین کے روشن نشانی تھے بلکہ ایک عظیم ملکیت کے حامل بھی تھے۔
آپ کا نسبِ مبارک سرور عالم جناب احمد مجتبی محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچتا ہے۔ آپ کا نسب مبارک کچھ یوں ہے: سید علوی مولی الدویلۃ بن سید محمد بن سید سہل بن سید محمد بن سید احمد بن سید سلیمان بن سید عمر بن سید محمد بن سید سہل بن سید عبد الرحمن بن سید عبد اللہ بن سید علوی بن سید محمد مولی الدویلۃ…..۔ اس طرح آپ کا نسب زین العابدین بن حسین بن فاطمہ زہرہ بنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچتا ہے۔
آپ کی ابتدائی تعلیم گھر ہی پر ہوئی آپ بچپن ہی میں بہت ہی ہونہار اور ذہین و فطین طالب علم تھے گویا کہ ”بالائے عرش زہوش مندی می تافت ستارہ بلندی“۔ آپ کی پرورش اور تعلیم و تربیت آپ کی خالہ حلیمہ بی بی کے ذمے رہی۔
ابتدائی درسیات کی تمام کتابیں اپنے حضرموت کے علما و فصحا اور بلغا سے حاصل فرمائی پھر آپ نے تکمیلِ علومِ ظاہری و باطنی آپ کے ماموں محترم قدوۃ العارفین سیدی حسن جفری سے کی۔
آپ کافی ذہین و فطین ہونے کی وجہ سے آپ 8 سال کی عمر میں ہی پورے قرآن شریف کے حافظ بن گئے اور پورے عالم میں با کمال صلاحیت کا مظاہرہ کیا۔
قادریہ باعلویہ طریقت: یہ بات ظاہر ہے کہ سلاسل طریقت کا وجود صدر اسلام میں نہیں تھا۔ جس کا سب سے اہم سبب یہ تھا کہ اسلام کے ابتدائی دور میں تصوف ایک باقاعدہ فن ہوکر ظاہر نہین ہوا تھا۔
لیکن جیسے جیسے اسلام بڑھتا گیا ویسے ویسے تصوف بھی ایک اہم فن ہو گیا جس میں صوفیہ کاملین نے دسترس حاصل کی اور اس کے ذریعہ مخلوق الہی کی راہنمائی فرمائی۔ اور عالم اسلام میں بے شمار سلاسل طریقت کا وجود ہوا ار اس کو ان کے امام سے منسوب کردیا گیا۔
جیسے قادریہ‘ چشتیہ‘ سہروردیہ‘ باعلویہ اور جنیدیہ وغیرہ وغیرہ۔ اور یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ قطب الزمان سید علوی مولی الدویلہ رحمہ اللہ قادریہ اور باعلویہ طریقت کے شیخ بھی تھے۔ اور اپنے دور کے قطب اور صوفی باصفا بھی اس لئے میں ضروری سمجھتا ہوں قادریہ اور باعلویہ طریقت کے بارے میں یہاں پر مختصرا ذکر کریا جائے۔
باعلویہ طریقت کے بانی محمد بن علی بن محمد المعروف بالفقیہ المقدم ہے۔ جو ک جنوبی عرب زمانہ کے بہت بڑے ولی اور صوفی تھے۔ انہوں نے اپنے زمانے مین تحکیم نامی ایک خاص صوفی ادب کو لوگوں کے درمیان معروف کروایا تھا۔
انہوں نے اپنے مریدین کو مذہبی فلاح و بہبود کے لئی ہتھیار اور جنگ و جدال سے ہمیشہ دور رہنے کی تربیت دی۔ باعلوی طریقت کے فرامین کے مطابق ہر شخص کو نرمی‘ بردباری اور ہم دردی سے برتاؤ کرنا ہے اور ہر کام میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اپنا امام اور قائد ماننا ہے۔
اسی فرامین میں سے ایک یہ بھی ہے کہ جو شخص دین کے فرائض کو باقاعدہ سے ادا نہیں کرتا ہے ایسے شخص کو ہر وقت خدا کی وعیدوں سے ڈراتے رہنا ہے۔
یہ تمام فرامین کو یقینا ہر علوی خاندان کے مشائخ نے پوری دنیا میں پھیلا یا بالخصوص سرزمین ملیبار میں۔ اور یہ بات بھی قابل غور ہی کہ علوی خاندان کے مشائخ کو کسی دوسرے طریقت کو اتباع کرنے کی اجازت نہیں تھی۔
اور رہی بات سرزمین ملیبار کی تو یہاں سید شیخ جفری رحمہ اللہ نے باعلوی طریقت کے ساتھ ساتھ قادریہ طریقت کے بھی شیخ تھے۔
اور سرزمین ملیبار میں سب سے آپ ہی باعلوی صوفی جو کہ قادریہ کے ساتھ ساتھ باعلویہ کے بھی شیخ تھے۔ اور حسن جفری رحمہ اللہ اور قطب الزمان سید علوی مولی الدویلہ رحمہ اللہ اور فضل پوکویا تنگل بھی آپ ہی کے نقش قدم کو اختیا رکیا۔
اور قادریہ طریقت کے بانی غوث اعظم محی الدین عبد القادر جیلانی رحمہ اللہ علیہ ہیں۔
آپ کی پیدائش ۰۷۴ہجری /۵۷۰۱ء میں ہوئی اور وفات ۱۶۵ہجری /۶۶۱۱ء میں ہوئی۔ اور آپ نجیب الطرفین تھے اور آپ کے والد کا نام ابوصالح موسی جنگی دوست اور والدہ کا نام ام الخیر فاطمہ ہے۔
اور آپ کی شخصیت کے اوپر بہت ساری کتابیں لکھی گئی ہے آپ محتاج تعارف نہیں ہے۔
حضور قطب الزمان سیدِ علوی ممبرمی رحمتہ اللہ علیہ رشد و ہدایت کی مسند پر جلوہ افروز ہونے کے بعد ہمہ تن لوگوں کی ہدایت اور اصلاح معاشرہ میں مصروف ہوگئے۔ انہوں نے اپنی پوری زندگی کی ہر حرکت خدمت دین حنیف اور رضائے الہی کے حصول میں کچھ اس طرح وقف کردی تھی کہ ”الفقیر لا یملک شیئااور من کان اللہ کان اللہ لہ“ کے مستحق بن گئے تھے۔
آپ جب کیرالا کے سرزمین پر تشریف لائے تو وہ ایک ایسا دور تھا کہ کیرالا میں بھی ہندوستان کے دوسرے علاقوں کی طرح ہندو قوم میں جہالت کی رسوم بہت بڑی زوروں پر تھی،نچلی ذات کے آدمی کو قتل کرنے سے بھی برتر سمجھتے تھے،غریبوں اور مساکین پر ظلم کے پہاڑ ڈھائے جاتے تھے،
مظلوموں کا کوئی سہارا نہ تھا بس ہر سمت ضلالت و گمراہی پھیلی ہوئی تھی گویا اس زمانے کو دیکھ کر ایسا محسوس ہوتا تھا کہ صرف گائے کو مار دینا اچھوت آدمی کو قتل کرنے سے بھی بڑا گناہ ہے اس طرح سے مختلف قسم کے فسادات اور برائیاں ریاست کیرالا میں بھی پھیلی ہوئی تھیں یہ صرف کیرلا کے کچھ محدود علاقوں میں ہی نہیں تھی بلکہ دیہاتی علاقوں میں بھی جہالت و گمراہی، چوری، عداوت، زناکاری اور شراب نوشی عام تھی اور لوگ دین سے بالکل ناواقف تھے۔
ایسے پر فتن اور نازک دور میں آپ نے بڑی جانفشانی کے ساتھ ضرورت اور حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے چیلنج اور مشکلات کا سامنا کیا۔ آپ کی روحانی طاقت کو دیکھ کر کر ملیبار کے کافی سارے علاقوں سے لوگ آپ کی طرف روبرو ہوئے۔ آپ نے اپنی روحانیت و علم و سیاسی بصیرت سے ان کے اندر کی تمام برائیوں کا خاتمہ کیا۔
ان کی رگوں میں اسلامی روح پھونکی۔آپ کی وجہ سے کثیر تعداد میں لوگوں نے آپ کے دست مبارک پر اپنے گناہوں سے توبہ کی اور شریعت محمدیﷺ کے پابند بن گئے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے دین کی حفاظت کے لیے کہ بہت سارے مدارس کھولے اور جہاں بہت دور دور تک مسجدوں میں اذانیں نہیں ہوا کرتی تھیں وہاں کے لوگوں کو راہِ حق پر گامزن کیااور انہیں خیرات کی ایسی رشدوہدایت فرمائیں کی وہاں کے لوگ پنجگانہ نمازیں باجماعت ادا کرنے والے بن گئے۔ پورے کیرلا میں خدائے لم یزل کے دین کی اشاعت و تبلیغ ہوئی اور انگنت لوگ راہ مستقیم پر گامزن ہوگئے۔
حضور قطب الزمان ایک عظیم قائد انقلاب اور شیخ مربی تھے اس لیے حالات اور وقت کے تقاضوں کے مطابق آپ عربی میں ضروری فتاویٰ اور دیگر تحریرات لکھتے اور آپ کے خلفاء کے ذریعے اسے شائع کراتے تھے- لیکن بایں ہمہ مصروفیت آپ نے کچھ مستقل تصنیفات بھی یادگار چھوڑی ہیں جن میں ”السیف البتار لمن یوالی الکفار و یتخذونھم من دون اللہ و رسولہ والمؤمنین أنصارا” معرکۃ الآراء تصنیف شمار کی جاتی ہے۔درحقیقت یہ کتاب آپ سے پوچھے گئے آٹھ مختلف سوالات کے مدلل جوابات ہیں۔
یہی وہ کتاب ہے جس نے باشندگان ملبار کے دل میں انگریزوں کے خلاف جہاد کرنے کی روح پھونکی۔ اسی کتاب کی مرہون منت کہیے کہ باشندگان ملبار نے ملک کو انگریزوں کے تسلط سے بچانے کی خاطر اپنا سب کچھ قربان کر دیا۔ جنگ آزادی کی آتش میں جل کر راکھ بن گئے۔ ملاپورم سے لے کر چیرور بازار اور کوچے خون سے لالہ زار ہو گئے۔ شہروں میں جگہ جگہ پھانسیوں کے پھندے لگا دیے گئے
ہزاروں باشندگان ملبار کے سرقلم کردیئے گئے۔ ان مجاہدین میں چند کا نام آزادی کے افق پر اب تک سر خ رو اور سنہرے حرفوں میں لکھا ہوا دکھائی دیتا ہے۔ آزادی کی اس عظیم بغاوت و جنگ میں ہندو مسلم یکجہتی اپنے شباب پر تھی اور آزادی کا نعرہ اگر کسی نے کھل کر لگایا تھا تو وہ تھے حضور قطب زماں جو انتہائی جواں مردی کے ساتھ انگریزوں کے خلاف بڑے حوصلے سے لڑتے رہے اور زندگی کے آخری لمحات تک دشمنوں کی گرفت میں نہیں آئے۔ ”السیف البتار” کے علاوہ عدۃ الأسراء، تاریخ العرب و العربیۃ آپ کی اہم و مشہور تصنیفات میں سے ہیں۔
جہاں ایک جانب آپ ایک قائد انقلاب تھے وہیں آپ ولایت و قرب الہی کے اعلیٰ مناصب پر فائز ولی اللہ بھی تھے۔ آپ کی نگاہوں کی فراست کہیے کہ انگریزوں کے زوال و انحطاط کی آپ نے اپنی حیات مبارکہ ہی میں پیش گوئی فرمائی اور یہ بھی فرمایا کہ: ”انگریزوں کی یہ حکومت و تسلط ایک دن ختم ہو جائے گی اور اہل ملیبار پر کمیونسٹ و دہریت کے سیاہ بادل چھائینگے اور کیرالا کی باگ ڈور عقل پرستوں کے ہاتھ ہوگی۔“ لہٰذا آپ نے فرمایا:
بعد ارتحال الانکلیز الوالی
یزداد دھریون فی الاضلال
وقولھم بقسمۃ الأموال
بین الأناس فاحش الأقوال
حضور قطب الزمان سید علوی مولی الدویلہ رضی اللہ عنہ جب ہندوستان میں تشریف لائے تب انگریزوں کا تسلط شباب پر تھا۔ اور آپ اس وقت فرما رہے ہیں کہ: ‘
‘ہندوستان سے مکمل صفایا ہونے کے بعد ملیبار میں دہریوں اور عقل پرستوں کا دور دورہ ہوگا، الحاد و لادینیت و گمراہی کی تند و تیز آندھیوں سے ایمان و اعتقاد کے آئینے گرد آلود ہونگے۔ کمیونسٹ نظریات کے علمبردار امت مسلمہ کو صحیح اسلامی عقائد سے بھٹکانے کی محنت شاقہ کرینگے امت مسلمہ کے زاویہ سوچ کو ٹیڑھا کرنا اور محراب فکر کو کم کج صحت کرنے کی مکمل سازشوں کا جال بچھا دیا جائے گا۔
یہ روسی نظریات کے قائلین در حقیقت دجال کے خدام و جانشین ہیں۔ آخر آپ اپنے محبوب خلیفہ و مجاز ‘حضرت اوکویا مسلیار’ کو نصیحت کرتے ہوئے ان فرمودات عالیہ کو مسجد کے محراب پر نقش کرنے کا حکم فرمایا۔
اگر ہم قطب الزمان سیدعلوی مولی الدویلہ ممبرمی ؒ کی کراما ت پر ایک نگاہ ڈالیں تو وہ غوث اعظم دستگیر کے ہم مثل نظر آتے ہیں اور خواجہء خواجگاں خواجہ غریب نوازؒ کی ہم سفر لگتے ہیں کیوں کہ ان کی کرامات سے مردے بھی زندہ ہوگئے اور ملاحوں کے بیڑے بھی پار ہوئے۔ آئیے ذرا ان کی کرامات پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔
ترنقال کے قاضی نے سید علوی مولی الدویلہ رحمہ اللہ کو جماعت ترک کرنے پر بہت لعن و طعن کیا، تب آپ نے جمعہ کے جامع مسجد میں قاضی کی اقتدا میں جمعہ کی نماز باجماعت ادا کی۔ پر آپ نے تحریمہ باندھ لیا پھر آپ نے نماز کو توڑ کر اس مسجد کے کونے میں جاکر ظہر کی نماز اداکرنے لگے۔
تو لوگوں نے آپ کو شک کی نگاہوں سے دیکھا اور آپس میں ایک دوسرے سے پوچھنے لگے اور اس شہر کے علماء کرام اور قاضی کے مابین قیل و قال ہونے لگا تو آپ سے لوگوں نے اس کی وجہ پوچھی تو سید علوی مولی الدویلہ رحمہ اللہ علیہ نے جواب دیا کہ ”ما کان لنا ان نصلی خلف من یتبع فی صالتہ البقرۃ الحلوب“ یعنی ہم اس کی اقتدا میں کیسے نماز پڑھے جو کہ نماز میں گائے کے دودھ کے فکر میں مشغول ہو۔
پھر قاضی سے اس کے بارے میں پوچھا گیا تو اس نے کہا کہ ہاں میری بیوی بیمار ہے اور ہر دن دوا کھانے کے لئے گائے کے دودھ کے محتاج رہتی ہے۔ اور میری بیوی نے ایک آدمی کا نام بتایا تھا جس کے پاس بہت زیادہ دودھ دینے والی گائیں تھیں اور وہ شخص اتفاقا جمعہ کی نماز میں حاصر تھا اور خطبہ دیتے وقت میں اس کو دیکھا بھی تھا تو میرے ذہن میں یہ فکر گردش کرتی رہی اور جمعہ کے بعد اس سے ملنے کے لئے سوچنے لگا۔ اور اسی فکر کے درمیان میں نے تکبیر تحریمہ باندھ لیا اس ڈر سے کہ کہیں وہ شخص ملاقات سے پہلے ہی نہ چلا جائے۔ تو میں اسی فکر میں مستغرق رہا اور جب لوگوں نے اس واقعہ کو سنا تو پھر سید علوی مولی الدویلہ رحمہ اللہ کے بارے میں حسن ظن رکھنے لگے۔
ایک مرتبہ کا واقعہ ہے کہ جب حضور قطب الزمان سیدی علوی مولی الدویلہ ممبرمیؒ حج بیت اللہ کرکے کیرالاکی سرزمین پر دوبارہ تشریف لاتے ہیں اور اپنے دوست و اقارب سے ملنے کے بعد اپنے گھر کی طرف روانہ ہوتے ہیں اور گھر پہنچتے ہیں تو یہ خبر آپ کو ملتی ہے کہ آپ کی اہلیہ وفات پاچکی ہے اور ان کا جنازہ بھی تیار ہے بس نماز جنازہ پڑھنا ہی باقی ہے اتنا سنناتھا کہ ان کے اوپر جلال طاری ہوجاتاہے اور گھر کے اندرا جاکر اپنی اہلیہ سے مخاطب ہوکر کہتے ہیں کہ آپ کو مجھ سے پوچھے بغیر جانے کو کس نے کہا اور کس کے حکم سے آپ مجھے تنہا چھوڑکر چلی گئیں چلو اٹھ جاؤ اور مجھ سے بات کر و اتناکہنا تھا کہ ان کی اہلیہ اٹھ کھڑی ہوتی ہیں اور ان سے بات بھی کرتی ہیں۔ پھر کچھ دنوں بعد ان کی اہلیہ کی وفات ہوجاتی ہے۔
ابو بکر کانانجیری کے ایک مشہور ومعروف ولی کامل تھے جو کبھی بھی اپنی ولایت کے بارے میں لوگوں ک، نہیں بتاتے تھے اور ہمیشہ اپنے احوال کو چھپا کر رکھتے تھے۔ اور کبھی کبھی مویشی او رچوپائے چرایاکرتے تھے او رچھوٹے بچے کی طرح عورتوں کی خدمت کیاکرتاتھے۔ اور لوگوں کو ان کی ولایت کے بارے میں نہیں معلوم تھابلکہ لوگ ان کو ایک فقیر اور بے وقوف سمجھا کرتے تھے۔ تو ایک مرتبہ یہ ولی اللہ سید علوی مولی الدویلہ ؒ کے ساتھ کانانجیری کی جامع مسجد میں جمعہ کی نماز پڑھنے کے لئے حاضر ہوتے ہیں۔تو جب سب نماز سے فارغ ہوگئے تب سید علوی مولی الدویلہ ؒ بلند آواز سے تین مرتبہ پکار کر یہ کہے ” من حضر منکم معنا فی ھذا الیوم للجمعتین ” یعنی تم میں سے کون ہے جو ہمارے ساتھ بیت المقدس او رااس جامعہ مسجد میں جمعہ کی نماز ادا کی ہے۔ آخر کار تیسری مرتبہ میں اس ولی اللہ نے جواب دیا کہ ”انا یا قطب الزمان“ میں ہوں اے اللہ کے قطب۔اور پھر لوگوں نے دیکھاہی نہیں تھاکہ وہاں سے وہ ولی غائب ہوگئے۔
ایک مرتبہ چار شخص سید علوی مولی الدویلہ رحمہ اللہ کے پاس حاضر ہوئے او رانہوں نے سید علوی مولی الدویلہ رحمہ اللہ سے فالج کی بیماری کی شکایت کئے کہ ہمارے شہر مین وہ وبا پھیل چکی ہے او رہم چاروں کو بھی پیر میں فالج کی بیماری ہے۔ اس وقت سید علوی مولی الدویلہ رحمہ اللہ کے پاس ان کے مرید عبداللہ بن عمر بھی موجود تھے تو وہ لوگ ملیالی زبان میں سید علوی مولی الدویلہ رحمہ اللہ سے شکایت کئے تب آپ کے مرید عبد اللہ بن عمر نے اس مسئلہ کو سید علوی مولی الدویلہ رحمہ اللہ سے پوچھا تو آپ رحمہ اللہ نے فرمایا کہ وہ لوگ مجھ سے اس بیماری کو ٹالنے کے لئے اور دور کرنے کیلئے کہہ رہے ہیں اور یقینا یہ لوگ جیسے ہی اپنے شہر میں قدم رکھے گے ویسے ہی ان کی موت ہوجائے گی اور اس شہر سے وہ بلا خدا کی قدرت سے دور ہوجائے گی۔ خدا کی قدرت سے جیسا سید علوی مولی الدویلہ رحمہ اللہ نے فرمایا ویسا ہی ہوا۔
انگریزوں کا ایک لیڈر سید علوی مولی الدویلہ ؒ کی بارگاہ میں تشریف لاتاہے اور سمندری سفر کی اجاز ت مانگتاہے او ر اس نے مرشد قطب الزمان سید علوی مولی الدویلہ کو ایک چادر ہدیہ کے طور پر دیا۔ دورانِ سفر اس کی کشتی ایک بڑے طوفان سے ٹکراکر تباہ ہونے لگی اور سب اپنی اپنی موت کا نظارہ دیکھ رہے تھے۔ تبھی سب لوگ قطب الزمان سید علوی مولی الدویلہؒ سے استغاثہ طلب کرنے لگے اور آپ رحمۃ اللہ علیہ نے ان کی پکار پر لبیک کہا اور مدد کرکے آپ فورا ہی واپس پہنچ گئے۔
ولی اللہ سید عبد اللہ بن عمر رحمہ اللہ علہ نویں ذی الحجہ کو سید علو ی مولی الدویلہ رحمہ اللہ کے پاس تھے تو سید علوی مولی الدویلہ رحمہ اللہ علہ نے فرمایا کہ اے عبد اللہ ہم کو حج کرانے لے چل تو سید عبد اللہ بن عمر نے فرمایا کہ اے اللہ کے ولی میں اس کی اہلیت نہیں رکھتا۔ پھر سید علوی مولی الدویلہ رحمہ اللہ ایک دن اور ایک رات کے لئے ان کے پاس سے غائب ہوگئے۔ اور دوسرے دن جب حج ادا کرلئے تب واپس اسی مکان پر واپس لوٹ آئے۔
سمندر میں ایک شخص کی کشتی طوفان کے سبب ٹوٹ گئی تو اس نے سید علوی مولی الدویلہ رحمہ اللہ سے مددمانگا تو اس نے ایک ہتھیلی کو محسوس کیا کہ اس سے اس کی جان بچ گئی۔ حتی کہ وہ سات دن بعد صحیح سلامت اپنے گھر آگیا۔ وہی شخص آپ کی زیارت کے لئے آیا اور آپ رحمہ اللہ علیہ کے ہتھیلی کو بوسہ لیا اور فرمایا کہ یہی وہ ہتھیلی ہے جس نے مجھے ڈوبنے سے بچایا ہے۔
انگریزوں کا ایک لیڈر سید علوی مولی الدویلہ رحمہ اللہ سے جنگ کرنے کے لیے اپنے سپاہیوں کو تیار کیا پر جب وہ لوگ سید علوی ممبرمی رحمہ اللہ علیہ کے شہر کے قریب پہنچے تو انگریزوں کا لیڈر اچانک گر کر مرگیا تب اسی وقت اس کی فوج اپنے ارادہ سے پلٹ گئی اور واپس چلی گئی۔ (النفحات الجلیلۃ‘ لأبی الفیض احمد بن نور الدین الملیباری).
حضور قطب الزمان سیدِ علوی ممبرمی مولی الدویلہ رحمتہ اللہ علیہ 7 محرم الحرام126 بروز اتوار بمطابق 24 فروری 1844 کو 94 سال کی عمر میں اس فانی دنیاسے جدا ہو کر اپنے پروردگار عالم سے جا ملے انا للہ وانا الیہ راجعون۔ اللہ رب العزت حضور قطب الزمان سیدِ علوی ممبرمی مولی الدویلہ کو جنت الفردوس کے اعلی ترین مراتب پر فائز فرماکر انواروبرکات آپ کے سارے خاندان کے تمام متوسلین کو اورہم فقیروں پر جاری و ساری رکھے آمین۔ اللہ تبارک وتعالی سے دعا ہے کہ اللہ ہمارے بچوں کو ان کے ہم مثل دین متین پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور ہمیں بھی شریعت محمدی کے احکام پر عمل پیراں ہونے کی توفیق عطافرمائے اور ساتھ ہی آنے والی نسلوں کو راہ حق کا سچا اور بہادر سپاہی بنائے۔ آمین یا رب العالمین۔محمد فداء المصطفیٰ گیاوى
رابطہ نمبر:9037099731
ڈگری اسکالر: جامعہ دارالہدی اسلامیہ، ملاپورم، کیرالا