بھیک مانگتے مسلمان کیا ہے سَمادھان

Spread the love

بھیک مانگتے مسلمان کیا ہے سَمادھان ؟

تحریر محمد زاہد علی مرکزی

چئیرمین تحریک علمائے بندیل کھنڈ

دنیا کا سب سے بڑا بھکاری بھارت میں ہی ہے، جس کا نام “بھرت جَین” ہے، اس کے پاس ساڑھے سات کروڑ کا بینک بیلنس ہے ، ممبئی میں ایک کروڑ سے زائد قیمت کا فلیٹ اور کچھ دوکانیں ہیں –

لنچگ کے فیصلے پر سناٹا کیوں

دنیا کے کئی ممالک میں بھیک مانگنے پر پابندیاں عائد ہیں مگر پھر بھی آج کل یہ پیشہ منظم شکل اختیار کرکے بین الاقوامی بزنس بن گیا ہے، گدا گری کا بازار ایسا گرم ہے کہ بچوں کا اغوا کیا جاتا ہے پھر معذور کرکے انھیں راستوں، بازاروں، مذہبی مقامات اور بھیڑ بھاڑ والے علاقوں میں بٹھا دیا جاتا ہے، بہت سے لوگ تو نسل در نسل یہی کرتے آرہے ہیں جب کہ بعض افراد مجبوری کے تحت کرتے ہیں

– خیر! اب بات کرتے ہیں مسلمانوں کی ریلوے اسٹیشن، بس اسٹیشن، بازار یہاں تک کہ بیچ سڑک پر ہری چادر لیے، دودھ پیتے بچوں کو گود میں اٹھائے ہوے مسلم خواتین جب بھیک مانگتی ہوئی نظر آتی ہیں تو شرم و حیا سے آنکھیں اوپر نہیں اٹھتیں۔

تھوڑی دیر کو بس رکتی ہے اور بسوں میں برقعہ اوڑھے خواتین کندھے پکڑ پکڑ کر مردوں کو جھنجھوڑتے ہوے آواز لگاتی ہیں بھائی جان کچھ مدد کر دیں!۔

یقین مانیں جب بھی ایسی صورت حال کا سامنا ہوتا ہے بغل کی سیٹ میں بیٹھا ہوا شخص ایک بار ہم جیسے داڑھی ٹوپی والے مجسمے کی طرف ضرور دیکھتا ہے، بس یہ دیکھنا ہی طوفان نوح سے کم نہیں ہوتا ایسا لگتا ہے کہ ابھی زمین پھٹے اور ہم سما جائیں ۔

مذہب اسلام میں بھیک کی قطعا گنجائش نہیں ، یہی وجہ ہے کہ صدقہ، خیرات، زکات، غربا کی خبر گیری، پڑوسیوں کا خیال رکھنے کی سخت ہدایات ملتی ہیں، باوجود اس کے یوں محسوس ہوتا ہے کہ جیسے دنیا میں سب سے زیادہ مسلمان ہی بھکاری ہیں۔

پچھلے چند سالوں سے غیر مسلم علاقوں میں کئی مسلم بھکاریوں کی پٹائی بھی ہوئی ہے، حد تو تب ہوجاتی ہے جب یہ بھکاری اپنی جوان بچیوں کو لے کر بھیک مانگتے ہیں اور ہماری قوم انھیں خوب نوازتی ہے، بھیک مانگنا اب تو باقاعدہ بزنس ہوگیا ہے بہت سے لوگ عرب ملکوں میں جاکر رمضان المبارک میں بھیک مانگتے ہیں، ہمارے پڑوسی ملک میں تو بھکاریوں کے پاسپورٹ رد کیے جارہے ہیں 

بھیک کی مذمت پر صحاح ستہ میں کافی احادیث مل جائیں گی لیکن ہم یہاں دو پر اکتفا کرتے ہیں 

عن عبيد الله بن عدي بن الخيار، قال: اخبرني رجلان، انهما اتيا النبي ﷺ في حجة الوداع وهو يقسم الصدقة، فسالاه منها، فرفع فينا البصر وخفضه فرآنا جلدين، فقال:” إن شئتما اعطيتكما ولا حظ فيها لغني ولا لقوي مكتسب”. حضرت عبیداللہ بن عدی بن الخیار سے روایت ہے کہ مجھے دو آدمیوں نے بتایا کہ وہ حجۃ الوداع کے موقعہ پر نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے آپ اس وقت صدقہ تقسیم فرما رہے تھے۔ پس انہوں نے بھی صدقہ کا مطالبہ کیا تو آپ نے نظر اٹھا کر انہیں دیکھا اور پھر نظر جھکالی۔

آپ نے انہیں دیکھا کہ دونوں قوی اور طاقت ور ہیں تو آپ نے فرمایا تم چاہتے ہو تو میں تمہیں دے دیتا ہوں (لیکن ایک بات ہے) کہ غنی اور کمائی کرنے والے صحت مند شخص کے لیے اس میں کسی قسم کا کوئی حق نہیں۔(سنن ابی داوُد ،جلد اول، کتاب الزکوۃ، ١٦٣٣)

حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ انصار کے کسی شخص نے حضور ﷺ سے بھیک مانگنے کی اجازت طلب کی، آپ ﷺ نے فرمایا تمہارے پاس کچھ ہے؟۔

انھوں نے عرض کی، ایک کمبل اور ایک پیالہ ہے، آپ دونوں چیزیں منگوا کر انھیں نیلام کیا ایک صحابی نے دو درہم میں خریدا آقا علیہ السلام نے فرمایا ایک درہم سے کھانے کا سامان خریدو اور دوسرے سے کلہاڑی، وہ کلہاڑی لے کر آئے تو آپ نے دستہ لگایا اور فرمایا جنگل سے لکڑیاں کاٹ کر فروخت کرو، میرے پاس پندرہ دن بعد آنا ۔

انھوں نے ایسا ہی کیا، جب پندرہ دن بعد آئے تو ان کے پاس دس درہم تھے، آپ ﷺ نے فرمایا کام (محنت سے روزی کمانا) تیرے لیے اس بات سے بہت بہتر ہے کہ تو قیامت کے دن آئے تو مانگنے کی وجہ سے تیرا چہرہ داغ دار ہو۔ (ابن ماجہ 2198)۔

ایک حدیث شریف میں ہے کہ قیامت کے دن بھیک مانگنے والے کے چہرے پر گوشت نہیں ہوگا ۔

پہلی حدیث میں آقا علیہ السلام نے تندرست اور طاقت ور لوگوں کو دینا پسند نہ فرمایا لیکن ہماری قوم توانا لوگوں کو بھی خوب نوازتی ہے جب کہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ شراب، گونجا، چرس جیسے نشے کریں گے،

سرکار اعلی حضرت ارضاہ عنا ایسے لوگوں کے متعلق فرماتے ہیں کہ انھیں دینا گناہ میں مدد کرنا ہے، اگر نہ دیا جائے تو جَھک مار کر کام کریں – اگر اپنی قوم سے اس ذلت کے داغ کو دھونا ہے تو فالتو لوگوں کو بھیک دینا بند کرنا ہوگا وہی پیسہ آپ مسجد، قبرستان، اپنے غریب رشتہ داروں کے لیے بھی رکھ سکتے ہیں۔

دوسری حدیث میں آپ ﷺ نے کام کو ترجیح دی اور یہی بہتر ہے ہمیں بھی بھیک نہ دے کر مستقل روزگار کی طرف توجہ کرنا چاہیے، ان دونوں حدیثوں سے مندرجہ ذیل نکات برآمد ہوتے ہیں ۔

(1) طاقت ور، تندرست شخص کو نہ بھیک دینا درست اور نہ اس کا مانگنا ۔

(2) بھیک میں ذلت ہے اگر اپاہج یا معذور نہیں ہے تو اسے بھیک مانگنے سے زیادہ کام پر توجہ دینا چاہیے

(3) معذور افراد بھی اگر کوئی ہنر رکھتے ہیں یا سیکھ سکتے ہیں تو انھیں پہلے اسی پر توجہ مرکوز کرنا چاہیے ۔

(4) گدا گری کو ہمارے نبی کریم علیہ السلام نے سخت نا پسند فرمایا ہے اس لیے بلا ضرورت اس میں خیر نہیں ہو سکتی، یہی وجہ ہے کہ کروڑوں کے مالک ہونے کے باوجود ان بھکاریوں کے حصے ذلت ہی رہتی ہے ۔

(5) بھیک مانگ کر نہ خود کو ذلیل کریں اور نا اپنی قوم کو۔

بھکاریوں پر کنٹرول کیسے ہو؟

بھکاریوں کی کثیر تعداد نہ صرف کسی قوم، مذہب، علاقے کو متاثر کرتی ہے بل کہ یہ ملکی ساکھ پر بٹہ بھی لگاتی ہے، دیار غیر میں ایک خاص تصور آپ کے لیے وہاں کی قوم کے ذہن میں رچا بسا ہوتا ہے، اسی بنا پر بہت سے ملکوں نے بھکاریوں پر سخت پابندیاں عائد کر رکھی ہیں، حکومت چاہے تو یہ سب بآسانی بند ہو سکتا ہے، اگر حکومت نہیں کرتی تو قوم مسلم کم از کم اپنی قوم کو اس ذلت سے بچا سکتی ہے  

کرنے کے کچھ کام

(1) اولا ہمیں زکات صحیح لوگوں تک پہنچانا چاہیے تا کہ مزید بھکاری پیدا نہ ہوں ۔

(2) پڑوسیوں کے متعلق اسلامی تعلیمات کیا ہیں سبھی کو معلوم ہیں اگر ہم تھوڑی توجہ دیں تو اپنے محلے، گاؤں میں غریبوں کو گدا گری کی جانب جانے سے روک سکتے ہیں ۔

(3) جو لوگ اس راہ پر چل پڑے ہیں انھیں سمجھا بجھا کر کام پر لگایا جائے، کوئی کام نہ جانتے ہوں تو انھیں دو چار ماہ میں گاڑیوں کی مرمت، لائٹ فٹنگ، پلمبرنگ، سلائی جیسے کام سکھا کر با عزت زندگی گزارنے کی طرف لایا جا سکتا ہے، ہماری چھوٹی سی کوشش معاشرے سے بھکاریوں کی تعداد میں کمی کا باعث بن سکتی ہے 

(4) جہاں بھی فیکٹری ایریا ہیں وہاں تو اسے بآسانی کنٹرول کیا جا سکتا ہے، ہم نے ان علاقوں میں دیکھا ہے کہ جتنے لوگ بھی چاہیں فیکٹریوں میں جائیں سبھی کو کام ملتا ہے اور ہر قسم کا کام ہے ہلکا بھی بھاری بھی، یہ لوگ بقدر طاقت کام کر سکتے ہیں ۔

(5) ہر قسم کی تنظیمیں ہیں کچھ تنظیمیں ایسی بھی ہونا چاہیے جو بھکاریوں پر نظر رکھیں جہاں دیکھیں پکڑ کر کام کو کہیں ،اگر وہ بہانہ بنا کر جاتے ہیں تو دوبارہ آپ کے علاقے میں نہ آئیں گے یوں بھی بہت کمی ہو سکتی ہے ۔

(6) اولڈ ایج ہوم( वृद्धाश्रम) ہر قصبے، شہروں میں موجود ہیں، جہاں بھکاری دکھیں فوراً انھیں پکڑ کر ان میں ڈال دیا جائے حکومت کی جانب سے خوراک کے ساتھ کچھ پیسہ بھی ملتا ہے جو ان کی زندگی کی لیے کافی ہوتا ہے ۔

(7) ہماری خانقاہوں میں اکثر جگہوں پر لنگر ہوتا ہے، مریدین کی آمد سال بھر ہوتی رہتی ہے، ان کے لیے کھانا بنتا ہے، اہل خانقاہ نظر رکھیں ان کے ایریا میں کوئی بھکاری دکھے اسے بھیک مانگنے سے روک کر خانقاہ میں کھانا کھانے کو کہا جائے

درس میں شامل کریں اللہ و رسول کے احکام سنائیں، بھیک سے گھن پیدا کریں، اللہ نے چاہا تو یا وہ سدھر جائے گا یا بھاگ جائے گا، سدھرے تو کام سکھائیں، نہ سدھرے تو خود غائب ہو جائے گا، دونوں صورتوں میں علاقہ بھکاریوں سے خالی ہو جائے گا ۔

(8) چوں کہ قوم مسلم بھیک مانگنے کے لیے بدنام ہے اس لیے ہمیں ہی آگے بھی آنا ہوگا، اپنے علاقے کو بھکاری مُکت بنانے کے لیے اپنے علاقے کے پولیس افسران اور دیگر سماجی تنظیموں سے بھی مدد لی جا سکتی ہے ۔

(9) اس کے علاوہ لوگ چھوٹے چھوٹے کارخانے چلاتے ہیں ان میں بھی مزدوروں کی کمی رہتی ہے وہاں بھی ان بھکاریوں کو کھپایا جا سکتا ہے 

اگر ہم چاہیں تو کوئی بڑی بات نہیں کہ قوم مسلم اس دلدل سے نکل آئے بس شرط یہ ہے کہ ہر آدمی اپنی ذمہ داری سمجھے اور عمل پیرا ہو ۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *