پَرمانو بناؤ دیش بچاؤ

Spread the love

پَرمانو بناؤ دیش بچاؤ


یہ تحریر 2019 رمضان المبارک کے موقع پر لکھی گئی تھی، موجودہ وقت دیکھتے ہوئے آج دوبارہ شئر کر رہا ہوں –

رمضان المبارک شروع ہوتے ہی جس طرح یہودیوں نے فلسطین کو نشانہ بنایا ہے یہ کوئی نئی بات نہیں ہے. یہ کام ان کا محبوب مشغلہ بن گیا ہے کہ کوئی بھی خوشی کا موقع وہ فلسطینیوں کو نہیں دینا چاہتے، جب مرضی ہوتی ہے بمباری شروع کردیتے ہیں، عرب دنیا کی خاموشی “السکوت کالرضا” کی مانند محسوس ہوتی ہے – قطر نے مالی مدد کی ہے مگر ہر بار مالی امداد سیکڑوں فلسطینیوں کی شہادت کے بعد پہنچتی ہے کیا یہ احساس نہیں کراتا کہ فلسطینیوں کے خون کی ہولی دیکھنا عربوں کو بھی پسند ہے؟ آخر کوئی مؤثر پہل کیوں نہیں کرتے؟ شاید ان میں یہ طاقت نہیں، عرب کے ڈرنے کی جہاں اور بھی وجوہات ہو سکتی ہیں وہاں ایک خاص وجہ عسکری طاقت کا نہ ہونا ہے، مسلم ممالک کے پاس پیسہ تو بہت ہے مگر وہ اسے لندن، پیرس میں عیاشیوں پر خرچ کرتے ہیں، کاش یہی پیسہ نیوکلیئر ٹیکنالوجی پر خرچ کرتے تو صورت کچھ اور ہوتی ن –
مسلم ممالک اگر اپنی بقا چاہتے ہیں تو انھیں ایک نکاتی نیوکلیئر ایجنڈے پر کام کرنا ہوگا، آج اگر کوئی ملک کسی دوسرے پر حملہ کرنے کا ارادہ کرتا ہے تو سب سے پہلے اس کی نظر نیوکلیئر پاور پر جاتی ہے اگر اس ملک کے پاس یہ قوت ہے تو حملہ تقریباً ناممکن ہوتا ہے – کیا اتر کوریا کو نہیں دیکھتے، ذرا سا ملک ہے مگر دنیا کا کوئی بھی ملک اسے آنکھ دکھانے کی ہمت نہیں کر سکتا یہی وجہ ہے کہ جب بھی کوئی مسئلہ ہوتا ہے ہر بار امریکا خود جھک کر ڈائلاگ پر آمادہ ہوتا ہے –
اگر عراق، افغانستان شام لیبیا وغیرہ کے پاس یہ جوہری توانائی ہوتی تو ان ممالک کے باشندے دوسرے ملکوں میں زندگی کی بھیک مانگنے پر مجبور نہ ہوتے!!!
فلسطینی جس بہادری سے لڑ رہے ہیں وہ قابل تعریف ہے کسی کا یہ شعر یاد آگیا
اس سادگی پہ کون نہ مر جائے اے خدا
لڑتے ہیں مگر ہاتھ میں تلوار تک نہیں

کچھ اسرائیل کے بارے میں

جون 1982میں اسرائیل نے “مرکوا”(اللہ کی سواری) نامی ٹینک تیار کیے اور انھیں ناقابل تسخیر سمجھتے ہوئے لبنان پر حملہ کردیا، مگر لبنانی فوج نے انکے بیس پچیس ٹینک تباہ کردیئے،شدید جانی مالی نقصان ہوا مجبوراً انھیں بھاگنا پڑا، اس سے قبل مصر کے صدر نے 1973 میں قریب دو سو ٹینک تباہ کیے تھے، 1982 کے بعد پھر اسرائیل نے جدید ٹیکنالوجی سے لیس ٹینک تیار کیے اور اسرائیلی جنرل نے لبنان کو تباہ کرنے کے لیے اپنی حکومت سے صرف پانچ دن مانگے، اس بار مارک 1 مارک 2،مارک 3 بنائے گئے تھے بالآخر 12 /جولائی 2006 کو لبنان پر حملہ کردیا، مجھے خوب یاد ہے کہ پانچ دن کی مہلت مانگنے والے جنرل تقریباً 26 دن تک لبنان کے سامنے دھول چاٹتے لڑتے رہے اور اور جنگ بند کردی، کیونکہ نتیجہ وہی رہا تھا جو 1982 میں ہوا تھا –

انھیں ٹینکوں کو اسرائیل نے ایک بار پھر سے اپڈیٹ کیا اور 2008 میں لبنان پر پھر حملہ کیا، اس بار بھی عزت بچاتے ہوئے واپس ہوگئ، حزب اللہ نے صیہونیوں کو جنگی میدان میں ایسا ناچ نچایا تھا کہ باوجود تمام وسائل کے صیہونیوں کو ہی جنگ بندی کی منت کرنی پڑی تھی اور بری شکست سے دوچار ہوئے تھے – گویا انکو کھجلی ہے جو وقتاً فوقتاً اٹھتی رہتی ہے بس ضرورت مؤثر علاج کی ہے اگر مسلم ممالک فلسطین کی فوجی مدد کردیں تو یقیناً انکی اس کھجلی کا ہمیشہ کیلئے علاج کیا جاسکتا ہے –

گذشتہ دنوں امریکا نے ایران پر حملہ کرنے کا ارادہ جتایا ہے اور کئی جنگی طیاروں کی پروازیں ایران کے ارد گرد دیکھی گئی ہیں، لیکن امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو معلوم ہے کہ ایران کسی بھی قیمت پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں ہوگا اور اسی کے انداز میں ترکی بہ ترکی جواب دینے کی بات کہ چکا ہے، امریکا جانتا ہے کہ ایرانیوں کو امریکا پر حملہ کرنے کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ عراق، افغانستان، شام میں کافی فوجی اڈے ہیں جنھیں ایران بآسانی ہدف بنا سکتا ہے اسی لیے امریکا جلدی ہمت نہیں کرے گا، نیز ایرانی میزائل امریکا کے کئی شہروں تک حملہ کرنے کی طاقت رکھتے ہیں، ایران نے پچھلے چالیس سالوں سے جس قدر پابندیاں برداشت کرکے اپنی پوزیشن مضبوط کی ہے شاید امریکا وہ دیکھنا چاہتا ہے اگر ایسا ہوا تو امریکا کو بھی سخت نقصان اٹھانا پڑ سکتا ہے، کیوں کہ ایران افغانستان یا عراق نہیں ہے وہاں اگر کچھ برباد ہوگا تو امریکا میں بھی کئ شہروں کی صورت بگڑ سکتی ہے –

اللہ تعالیٰ فلسطینیوں کی مدد فرمائے، آمین –

تحریر :محمد زاہد علی مرکزی
چیئرمین تحریک علمائے بندیل کھنڈ

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *