یونیفارم سول کوڈ منظر و پیش منظر
یونیفارم سول کوڈ منظر و پیش منظر
🖋️ مفتی محمد نوید سیف حسامی
ایڈووکیٹ کریم نگر، تلنگانہ
منظر
لاءکمیشن کے عوامی رائے طلب کرنے کے اعلان پر آج بوقت تحریر چھبیس دن گزر چکے ہیں۔
انسانی خِلقت و فطرت؛ اختلافِ لون و لسان و قد و قامت پر تو مشتمل ہے ہی ساتھ ہی افکار و نظریات، خیالات و احساسات میں بھی ہر فرد دوجے سے جدا گانہ ہے، لاءکمیشن کے اس اعلان پر بھی قوم مسلم مختلف نظریوں میں منقسم ہے
اور دل چسپ امر یہ کہ ہر نظریہ و صاحب نظریہ اپنی جگہ پر ایک حد تک درست و صحیح ہے…
پورا مضمون پڑھیں : بائیسواں لاء کمیشن اور یونیفارم سول کوڈ
ایک طبقہ کا ماننا ہے کہ لاءکمیشن کی اس حرکت کے پس پردہ حکمراں جماعت کی شرارت کا عمل دخل ہے
وہ یو سی سی کا شوشہ چھوڑ کر مسلم طبقہ میں ہیجان پیدا کرکے مخالفت پر مجبور کرتے ہوئے ملک کی دوسری آبادی کو اپنی طرف کرنا چاہتی ہے، ماضی کے کئی معاملات آنکھوں کے سامنے ہیں اور یہ کوئی ڈھکی چھپی بات بھی نہیں رہی۔
اس طبقہ کہنا ہے کہ یا تو یو سی سی کی مخالفت نہ کی جائے یا کرنا ہی منظور ہو تو مکمل خاموشی اور غیر محسوس طریقہ پر کہ کسی کو پتہ نہ چلے کہ مسلمان اس کی مخالفت میں ہیں…
دوسرا گروپ یہ کہتا ہے کہ یو سی سی شریعت میں مداخلت کا دوسرا نام ہے اور چونکہ لاءکمیشن نے رائے طلب کی ہے
لہذا رائے کے انبار لگا دئیے جائیں، یہ طبقہ مکمل حرکت میں ہے، مخالفت پر مشتمل تحریریں عام کرکے صرف ایک کِلِک پر لاءکمیشن کے دروازے پر پہونچانے کے انتظامات کے ساتھ ہر فرد تک پہونچنے کی سعی میں لگا ہوا ہے، یہ طبقہ ”مقدور بھر کوشش تو کرنی چاہیے” کے فارمولہ پر عمل پیرا ہے…
تیسری جماعت ملک میں یو سی سی کے نفاذ کو عملا ناممکن مانتی ہے، لاءکمیشن کے اعلان کو بے وقت کی راگنی گردان کر نظر انداز کرنے کا نہ صرف مشورہ دیتا ہے بلکہ مدلل طریقہ پر یہ ثابت کرتا ہے کہ یو سی سی کی زد مسلمانوں سے زیادہ غیر مسلموں پر پڑے گی، اس کے نزدیک لاءکمیشن کا اعلان معمول کی کاروائی ہے اور کچھ نہیں
ان کے مطابق لاء کمیشن ماضی کی طرح “یو سی سی فی الحال غیر ضروری” کی رپورٹ حکومت کو تھما دے گا، اس لیے زیادہ تشویش میں پڑنے کی ضرورت نہیں ہے…
اس کے علاہ بھی کچھ اور نظریات ہیں جیسے یہ کہنے والے کہ کچھ بھی کرلو یو سی سی آکر رہے گا، حکومت طئے کرچکی ہے اور نفاذ کے لیے بظاہر کوئی رکاوٹ نہیں ہے، اسی طرح یہ ماننے والے کہ شرعی قوانین عملا عدالتوں سے ختم ہوچکے ہیں
اور یو سی سی بس ایک مُہر ہے ورنہ مسلم عوام کی ایک معتد بہ تعداد خود شرعی مخالف قانون سے فیصلہ چاہتی ہے لہذا یو سی سی آئے نہ آئے کوئی فرق پڑنے والا نہیں
ایک گروپ یہ اور اس جیسے مواقع سے فائدہ اٹھا کر مسلم عوام میں شعور بیداری اور فروغِ علم و معلومات کی بات کرتا ہے وغیرہ وغیرہ، جیسا کہ ابتداءمیں بتایا گیا سب اپنی جگہ درست ہیں لہذا ہر فریق دوسرے کو غلط ٹھہرانے کے بجائے اپنے دائرہ کار میں لگا رہے اپنے نظریہ کو فروغ دیتا رہے…۔۔
پیش منظر
لاءکمیشن کے اعلان پر اپنے خیالات جمع کروانے کی مدت چودہ جولائی کو مکمل ہورہی ہے، اس کے بعد لاءکمیشن موصول ہونے والی آراء کو سامنے رکھتے ہوئے یوسی سی کے نفاذ یا عدم عدم نفاذ پر غور کرے گا۔
ٹائمز آف انڈیا کی ویب سائٹ کے مطابق چھ جولائی تک لاءکمیشن کو بیس لاکھ تحریریں پہونچ چکی ہیں، کتنی یو سی سی کے حق میں ہیں اور کتنی خلاف میں یہ پتہ نہیں
نیز ان بیس لاکھ سے زائد تحریروں کو پڑھے گا کون اور کیسے اس کا تجزیہ کیا جائے گا کہ عوام کا موقف کیا ہے یہ بھی واضح نہیں ہے، دوسری جانب اتراکھنڈ حکومت اس سلسلہ میں کافی متحرک ہے
گذشتہ برس اسمبلی انتخابات سے قبل کئے گئے یونیفارم سول کوڈ کے وعدے کو عملی جامہ پہناتے ہوئے اتراکھنڈ حکومت نے سابق سپریم کورٹ جج رنجنا دیسائی کی صدارت میں ایک کمیٹی تشکیل دی جس نے تیس جون کو یہ کہا کہ مسودہ تیار ہے اور اسے فائنل ٹچ دے کر حکومت کو سونپ دیا جائے گا اور ممکن ہے کہ اس سال کے اواخر تک وہاں یونیفارم سول کوڈ نافذ ہوجائے
اگر ایسا ہوتا ہے تو اتراکھنڈ حکومت کا یہ اقدام نہ صرف منفرد مانا جائے گا بلکہ ملکی سطح پر بھی اس قانون کو بطور نمونہ دیکھا جاسکتا ہے…
یو سی سی کے مضر اثرات
یو سی سی کا تعلق نہ مساجد سے ہے نہ مدارس سے، نہ مکاتب سے نہ خانقاہوں سے، نہ داڑھی سے ہے نہ برقعہ سے، ایسا نہیں ہے کہ یو سی سی آجائے تو مسلم لڑکیاں پردہ نہیں کرسکتیں اور نہ ہی ایسا ہے کہ اس کے نفاذ کے بعد داڑھی مونڈنا لازم ہوجائے گا، اسی طرح یوسی سی کا معاشی مسائل سے بھی کوئی لینا دینا نہیں ہے، کاروبار و نوکریوں کو تو یہ چھو کر بھی نہیں گذرتا، تعلیمی میدانوں پر سے بھی اس کا گذر نہیں ہے۔
یونیفارم سول کوڈ کا تعلق صرف عائلی مسائل سے ہے جسے عرف فام میں فیملی لاز بھی کہتے ہیں یعنی نکاح ، طلاق، خلع، حضانت، وراثت وغیرہ، اب تک ملک میں بسنے والی مختلف اقوام اپنے عائلی مسائل سے اپنے مذہب یا اپنے علاقہ کے رسوم و رواج کے مطابق نمٹتی چلی آرہے ہیں، یو سی سی یہ دعوی کیا جارہا ہے کہ علاقائی و مذہبی رسوم و رواج کو ختم کرکے سب کے لئے ایک ہی قانون لایا جائے گا…
یو سی سی کا تعلق بڑی حد تک صرف عدالتوں تک محدود رہے گا یعنی خدانخواستہ یو سی سی نافذ ہو بھی جائے تب بھی گھر کے اندر شرعی قوانین پر عمل کرنے والوں کے لئے کوئی رکاوٹ نہیں رہے گی، مثلا والد کے انتقال کے بعد اولاد شریعت کی روشنی میں جائداد تقسیم کرلے تو یہ قانون گھر کے اندر گھس کر ان کے فیصلے کو باطل قرار نہیں دے گا
ہاں اگر کوئی فریق تقسیم سے ناخوش ہوکر عدالت چلا جائے تو پھر تقسیم شریعت کی روشنی میں نہیں بلکہ اس قانون کے اعتبار سے ہوگی جو یو سی سی کے نام پر نافذ کیا جائے گا۔
بعینہ اگر کوئی جوڑا شادی کی گاڑی چلانے سے عاجز آکر باہمی رضامندی سے طلاق و خلع کا فیصلہ لے لے تو یو سی سی کی اتنی اجارہ داری نہیں ہوگی گھر کی فصیلیں پھاند کر کھڑکی دروازہ توڑ کر اس جدا ہونے والے جوڑے کی طلاق یا خلع کو کالعدم کردے لیکن میاں بیوی میں سے کوئی ایک اگر عدالت چلا جائے تو پھر فیصلہ یونیفارم سول کوڈ کے حساب سے ہوگا
آج جب کہ عدالتوں میں پرسنل لاء نافذ ہے اور ججس مسلم فریقین کے درمیان شریعت کے مطابق فیصلہ کرنے کے پابند ہیں تب بھی مسلم عوام کی ایک بڑی تعداد خود قران و حدیث کے خلاف فیصلہ چاہتی ہے اور مسلم وکلاء میں سے کئی ایک ایسے ہیں جو ان معاملات کی کامیاب پیروی بھی کرتے ہیں۔
مطلقہ کے نفقہ کے مقدمات میں شاید ہی کوئی ایسا معاملہ ہوگا جس میں نفقہ صرف عدت تک محدود رہا ہو، مطلقہ تو چاہتی ہی ہے کہ پیسہ زیادہ ملے ساتھ میں پیروی کرنے والے بھی پیشہ ورانہ تقاضوں کو پورا کرتے ہوئے سالوں پر مشتمل نفقہ جاری کرواتے ہیں، یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ آج جو عدالتوں میں بے ضابطہ ہورہا ہے اسی کو یو سی سی باضابطہ کردے گا…
درج بالا سطور کو پڑھ کر ہرگز یہ نہ سمجھا جائے کہ راقم یو سی سی کے حق میں ہے یا اس کے اثرات کو کم کرکے پیش کررہا ہے، ایسا ہرگز بھی نہیں ہے۔
راقم کا یہی ماننا ہے کہ عوام و وکلاء کا مخالف شریعت عمل؛ عدالت یا خارج عدالت؛ کچھ بھی ہو ہم دستوری و ملکی سطح پر شریعت کا نام باقی رکھنے کی ہر ممکن کوشش کریں گے، ما قبل پیراگراف میں جو ذکر کیا گیا وہ اس پس منظر میں کہ کچھ لوگ یو سی سی کے نفاذ کو ہندوستان سے شریعت کے مٹنے سے تعبیر کرکے ایک عجیب صورت حال پیدا کررہے ہیں۔
یقنا یہ تعبیر درست ہے لیکن صرف قانون اور کاغذوں کی حد تک، گھر کے اندر یا ذاتی زندگی میں کوئی شریعت پر عمل کرنا چاہے تو کوئی قانون رکاوٹ نہیں ڈال سکتا…
خلاصہ یہ کہ لاء کمیشن کو اپنی رائے بھیجنے کے ساتھ مستقبل کی صورت حال کا ادارک کرتے ہوئے قوم مسلم کو آگاہ و خبردار کرتے رہنا چاہیے، طلاق ثلاثہ بل اور نئی تعلیمی پالیسی کے صرف نفاذ سے اتنا نقصان نہیں ہوا جتنا ہماری قوم کی لاعلمی، بے فکری و غفلت سے ہوتا چلا آرہا ہے…
مضمون نگار سے رابطے یا رائے کے اظہار کے لیے: