جوبادہ کش تھے پرانے وہ اٹھتے جاتے ہیں

Spread the love

جوبادہ کش تھے پرانے وہ اٹھتے جاتے ہیں

مبسملاوحامدا:ومصلیاومسلما

پچھلے چند دنوں سے حقیر فقیر بیمارتھا،زکام کاجھکڑاس قدر پرزور اور طوفانی تھاکہ سنبھل نہ سکا،اب تک ہم نے اس کے علاج میں رائے کے تیل کااستعمال کرتارہاہے،جو زکام کی راہ میں رائےکاپہاڑ نہیں بلکہ واقعی سنگ وخشت کی دیوار کا بند باندھ دیاکرتاتھا،مگر اس بارکے حملہ کے سامنے یہ بندھ رائے کاپہاڑ ثابت ہوا

بالآخر زکام نے اپنی فتح کے جھنڈے گاڑ ہی دیئے،ہفتہ عشرہ دن تک اسی دردوکرب میں مبتلا رہا،جو گنگا اور جمنا کی طرح بہتا رہا،دوائیاں بھی لیں ،اس سےزکام کم تو ہوا ،مگر میٹر جمنے کے بعد معاملہ اور زیادہ اذیتناک اور سنگین ہوگیا،بن بلائے مہمان کی طرح سردرد لاحق ہوگیا،اور کل تو فجر میں مشکل ہی ہوگیاتھا

رکوع وسجود کی حالت میں مانوسردردسےپھٹاجارہاتھا،مگر آج قدر آرام ہوا،لیکن دوسری آفت یہ آپڑی کہ بائیں آنکھ میں کچھ گرانی محسوس ہوتی ہے، یہ گرانی اور درد تادم تحریر شدت پکڑلی ہے،خیال ہوا کہیں یہ آشوب چشم کا شاخسانہ ہو،مگر یہ خیال خام ثابت ہوا،زوال کے وقت بالکل آرام ہوگیا،جس سے معلوم ہواکہ یہ دردسیسی ہے،یعنی آدھے سرکادرد،اللہ تعالی کی بارگاہ میں آپ بھی میرے ساتھ دعا فرمائیں ،کہ مجھ سے اور صاحبزادے سے بلکہ تمام اہل عیال سے تمام آفات وبلیات کودور فرمائے،اور ہرطرح کے امراض سے شفاء کامل عطافرمائے۔آمین

کلک گوہر نگار ادیب شہیر امیرالقلم ڈاکٹرغلام جابر شمس مصباحی کی ایک کتاب جو سیمانچل سے متعلق ہے،جوتواریخ وتذکار،سیاست وعمرانیت،دلائل ومسائل پر مبنی ہے،اس کی پروف ریڈنگ پچھلے کئی دنوں سے عارضہ میں مبتلا ہونے کے باوجود جستہ جستہ کر رہا تھا،ایک تہائی حصہ سے کچھ کم باقی رہ گیا تھا،کل تہہ کرلیا تھا کہ جب تک پائہ تکمیل کو نہ پہنچ جائے ہرکام موقوف رہے گا،بڑی تمکنت کے ساتھ استقامت نصیب ہوئی،اور 12 بجے تک موبائل کو بھی،دست وانگشت سے دور رکھا۔ بعدہ موبائل ہاتھ میں لیا،اور ڈیجٹل ایپ ،،واٹس ایپ،،آن کیا،پیغامات کاتانتا بندھ گیا،لیکن جیسا کہ فطری دستورہے

سب سے پہلے ان کے پیغامات کی جانب دل کا رجحان اورقلب مائل ہوتاہے،جوزندگی میں خاص اہمیت کے حامل لوگ ہوتے ہیں،اور دل سےقریب ۔ہرانسان کی زندگی میں ایسے خاص لوگوں کاہونالازمی ہے،ورنہ زندگی بے رنگ ونور ہوتی ہے،حرکتوں میں برکتیں نہیں ہوتی،آگے بڑھنے اور کچھ کرگزرنے کاذہن نہیں بنتا،کیوں کہ یہی لوگ آپ کے غم میں مغموم ،اورآپ کی خوشی میں شامل ہوتے ہیں

نیزنہ صرف اپنی خوشی وغمی کوبانٹ کر دل کابوجھ ہلکا کرتے ہیں بلکہ اپنے اطراف واکناف کے خوشگوار ماحول سے بھی آپ کو ہمہ وقت آگاہ کرکے خوشیاں تقسیم کرتے رہتےہیں،اور غمزدہ وغم انگیزحادثات سے بھی خبردار کرتے ہیں،انہیں خاص لوگوں میں سے ایک مولانامفتی نازش المدنی مرادآبادی ہیں ،جو پچھلے برس اس فہرست میں شامل ہوئے،تب سے اب تک تبادلہ افکار

خوشی وغمی وغیرہ کی تقسیمات میں برابر شریک ہیں۔ غرض آج بھی موبائل کے اسکرین پر ان کاایک پیغام دعوت مطالعہ دے رہاتھا،شہادت کی انگلی سے ٹچ کیا تو فائل کھل کر پیغام سامنے آگیا

خبر کیا تھی وحشت اثر تھی،غمناک تھی،کرب انگیز تھی،پل بھر میں دل و ملول ورنجیدہ کرگئی،ایک قدآور روحانی شخصیت کے حامل بزرگ،صوفی باصفا، شیخ دکن کے سجادہ نشین ،جنیدی سلسلہ کے امین،تاج المشائخ حضرت شیخ الشاہ محمد تاج الدین گلبرگہ شریف کرناٹکہ بزم شورافگیں سے شہرخموشاں کے مکین ہوئے،ان کے انتقال پرملال نے آنکھوں کو اشکبار،قلب وجگر کوسوگوار ماتم دارکرگیا۔ اخلاق العلماء للآجری صفحہ  31 میں حضرت کعب کا بیان ہے کہ:تم پر لازم ہے کہ علم کے چلے جانے سے پہلے اسے حاصل کرلو،بے شک اہل علم کاوفات پانا علم کا جانا ہے،عالم کی موت گویا ایک تارا ہے جوڈوب گیا

عالم کی موت ایک ایسی دراڑ ہے جو بھری نہیں جاسکتی ایک ایسا شغاف ہے جو پر نہیں ہوسکتا ،علماء پر میرے ماں باپ قربان ،ان کے بغیر لوگوں میں کوئی بھلائی نہیں۔ اور حلیۃ الاولیاء جلد 3 صفحہ میں حضرت ایوب سختیانی رحمۃ اللہ علیہ کاقول نقل فرماتے ہیں: جب مجھے اہل سنت میں سے کسی فرد کے فوت ہونے کی خبر ملتی ہےتو مجھے یوں لگتا ہے جیسے میرے اعضاء میں سے کوئی عضو جدا ہوگیا ہو۔

سوچا بعد ظہر کچھ نہ کچھ حوالہ قلم کرکے غم ہلکا کروں گا،مگر افتاد یہ آپڑی کہ ظہراور ظہرانہ سے ابھی فارغ بھی نہیں ہونےپایاتھا کہ ہاسٹل سے فون آگیا،وجہ یہ تھی کہ پچھلے دن سے میرے بڑے صاحب زادہ علیل تھے،علاج ومعالجہ کے بعد بھی بخار کی حرارت کم نہیں ہوئی،موسم سردوگرم ہے،طبیعتوں کامتاثرہونا کوئی خاص بات نہ تھی

مگر بخار کی حرارت کم نہ ہونے کے سبب سے فون کیا،تاکہ اسے اپنے ٹھکانے گھر لایاجاسکے،تقریباً ساٹھ کلومیڑ کافاصلہ تھا،بڑی عجلت سے بستی کے ایک لڑکے کوتیار کیااور بائک لیکر چل دیا،اورواپسپی میں تقریباً 25 کلومیٹر ابھی طئے کرناباقی تھا کہ اچانک گاڑی بند پڑگئی۔

معلوم ہوا پیٹرول نے اپنارول ادا کردیا،پیٹرول ڈالا مگر اب گاڑی ہاف ہونے لگی،اسٹارٹ ہوتی چند گام چل کر پھر بند پڑجاتی،کہ اثنائے راہ میکنک کی ایک دکان نظر آئی،اتر کر مرض بتایا،مگر مرض بڑھتا گیاجوں جوں دواکی،ایک ایک کرکے تمام اجزاوپارٹ کھولتے گئے،ساری گاڑی کھول کر بکھیر دی،کچھ پارٹ بدلےپھر ایک ایک پارٹ کوجوڑکردیکھا تو مرض جوں کاتوں ہی رہا،کوئی فائدہ نہ ہوا،کچھ روپئے اوردوگھنٹے برباد ہوئے۔

پھر کسی طرح کچھ دور آگے بڑھے ،جان پہچان کی دکان موٹرمیکنک کےسامنے رکا،مرض بتایااور میکنک کی کارستانی بتائی،کام چلانے اور گھر تک پہنچنے کے لیے ایک پارٹ بدلا اور پیش گوئی کردی کہ اب آپ لوگ بلاکسی تکلف کے جائیں ،گاڑی بند نہیں ہوگی۔

مگر جب سوگز چلے ہی تھے،کہ پیش گوئی فلاپ ہوگئی،اورگاڑی پھر ہاف ہوگئی،راہ پرخار جنگلوں وادیوں ،پہاڑیوں سے گزرتی تھی،کہیں شاہراہ ،کہیں پگڈنڈی،سر راہ پریشانیوں کے خوف سے واپس میکنک کے پاس لوٹ گیا،اور مرض کے جوں کاتوں باقی وسلامت رہنے کی خبر دی،اس نے بھی انجن کے پارٹ کھول کر بکھیر دئے،پوری سرویسنگ کرلی مگر مرض جوں کا توں ہی رہا،بالآخر پیٹرول کی ٹنکی کے ڈھکن کی ربر کو کھرچ کھرچ کر نکال پھیکا،معلوم ہوا،مرض کی بنیاد ،،ڈھکن ،،تھی،یوں پانچ گھنٹے اور ضائع ہوئے۔

اورساتھ میں سیکڑوں روپئے بھی گئےاور شب کے دس بج گئے ،شہر کی ساری دکانیں بندپڑگئی،راستے سنسان ہوگئے،راہ لیا،اورخدا خداکرکے 11بجے منزل میں پہنچ گئے،کھاناکھایااور سوگیااور آج بعدفجر ساری رودادلکھنے بیٹھ گیا۔ جوبادہ کش تھے پرانے وہ اٹھتے جاتے ہیں جی ہاں ! جوپرانے بادہ کش تھے،مست مئے الست تھے،دین کے داعی تھے،نہ صرف دنیا سے بیزار تھے،بلکہ دنیا کو اپنے قدموں کی ٹھوکر پر رکھتے تھے،اس لئے زمانہ ان کے پیچھے پڑی ہوتی تھی،انہیں میں سے ایک اہل سنت کاروشن ستارہ عارف باللہ تقدس مآب صوفی باصفا، شیخ دکن حضرت شیخ سراج الدین رحمۃ اللہ علیہ کے سجادہ نشین ،جنیدی سلسلہ کے امین،حضرت شیخ الشاہ محمد تاج الدین جنیدی گلبرگہ شریف تھے،کل 11 \اگست 2022ء /12 محرم الحرام شب جمعرات1443 ھ تقریباصبح 3بجےخلدآشیاں ہوئے،اناللہ واناالیہ رٰجعون ۔

جنیدیہ سلسلہ کے موجد وبانی عارفوں کے مقتدا،کاملین کے پیشوا،حجت علی الخلق،سلطان طریقت وارشاد،امام الطائفہ خواجہ ابوالقاسم حضرت شیخ جنید بغدادی رحمۃ اللہ علیہ تھے،آپ وقت کے ایک مستند عالم ،فقیہ اور ولی کامل تھے، لسان القوم ،طائوس العلماء،وغیرہ القابات سے ملقب تھے،جنیدیہ سلسلہ تصوف کی تعلیمات واثرات کاچھاپ ہندوستان میں پھیلے تقریباً تمامی سلاسل میں پائے جاتے ہیں

 

بالخصوص سلسلہ عالیہ قادریہ رضویہ کے گیارہوں امام وشیخ طریقت ہیں،جنیدی سلسلہ کی برکات وفیوضات کے ساتھ ساتھ ان کی نسل کے قدموں کی برکتوں سے بھی خطہ ہند لبریز ہے، چناں چہ سب سے پہلا جنیدی النسل بزرگ جو ہندوستان وارد ہوئے تھے،وہ حضرت شیخ ابراہیم جنیدی تھے،854ھ کازمانہ تھا،حضرت شیخ احمد کھٹو مغربی کے خلیفہ مولاناشمس الدین مغربی سے طریقہ جنیدیہ میں خرقہ خلافت حاصل کرکے باکمال ہوئے،اور 856ھ میں فوت ہوئے۔

اوران کے صاحب زادے شیخ زین الدین کنج نشیں 7ربیع الاول 767ھ میں پیداہوئے،یہ اپنے والد کے مرید اور خلیفہ تھے،والدکے وصال کے بعد ترک وطن کاقصد کیا ،چالیس فقراء کے ساتھ بیدر آئے،صاحب کشف وکرامت بزرگ تھے،اور یہیں پر 4 ربیع الثانی 861ھ میں وصال فرمایا۔

اللہ تعالی نے ان کی نسلوں میں برکتیں انڈیل دی،اور یہی سےجنیدی خاندان دکن کے مختلف بلادوامصار میں پھیل گئیں، آصف نگرحیدرآباد ،میدک،گلبرگہ شریف وغیرہ مقامات میں آج بھی شادباد آبادہیں،تاج المشائخ الشاہ محمد تاج الدین جنیدی علیہ الرحمہ کے صاحب زادہ اور سجادہ وجان نشیں ڈاکٹر محمد افضل الدین کے ایک انٹریوسے معلوم ہوا کہ آج سے تقریباً 650سال قبل شیخ دکن حضرت شیخ سراج الدین جنیدی رحمۃ اللہ علیہ تشریف لاکر گلبرگہ کو تبلیغ وارشادکے لئے مسکن بنایا تھا،آپ حضرت جنید بغدادی علیہ الرحمہ کی نسل سے تھے،بارہویں پشت میں ان کا سلسلہ نسب حضرت جنید بغدادی علیہ الرحمہ سے جاکرملتا ہے،آپ بہمنی دور کے بزررگ تھے،اور بہمنی سلطنت کے بانی سلطان علاء الدین حسن بہمنی آپ کے خاص مریدوں میں سے تھے،آپ کے مبارک ہاتھوں سے بہمنی سلطنت کے پانچ بادشاہوں کی تاج پوشی ہوئی،خود علاء الدین حسن بہمنی ،محمدشاہ بہمنی،مجاہد شاہ بہمنی ،محمود شاہ بہمنی تھے۔ اسی عظیم خانقاہ ونوادہ کے سجادہ نشین تھے۔

تاج المشائخ الشاہ محمد تاج الدین جنیدی علیہ الرحمہ،جس نے ہزاروں محبین و معتقدین کو روتابلکتا چھوڑ کر راہی ملک بقا ہوئے،آپ کا وصال پاجانایقیناً نہ صرف اعزاواقربامریدین ومتوسلین کے لیے باعث غم ہے بلکہ قوم ملت کے لیے بھی ناقابل تلافی نقصان ہے،چونکہ آپ ایک فکرمند راہنما، خاندانی سلسلہ تصوف یعنی ،،جنیدیہ سلسلہ ،،کے معروف ومشہور داعی ومبلغ بھی تھے،اور ناشر مسلک اعلی حضرت بھی۔

بالخصوص دکن کی صلح کل ماحول میں پیروکی اکثریت اپنے مریدین ومعتقدین کی تعداد بڑھانے کے لئے،، صلح کلیت ،،اختیار کئے ہوئے ہیں،ایسے میں آپ کا خالص اہلسنت کے معتقدات پر عامل رہنا استقامت فی الدین کی اعلی مثال ہے۔

صرف اتناہی نہیں بلکہ آپ اہل سنت کے فروغ واشاعت میں بھی کارنامے انجام دئے۔مولانا فہیم الدین رضوی کے والدین کی خواہش کی کہ بچہ لکھ پڑھ کر عالم دین بن جائے،اسی غرض سے شہر کے ایک مدرسے میں داخل کرادیا،اسی درمیان یہ واقعہ پیش آیا،اور اس مدرسے کی اصلیت سامنے آئی کہ کس طرح سے بنام سنیت ڈھکی ڈھکی چھپی چھپی لوگوں کو وہابی بنانے میں لگے ہوئے ہیں،مولانا کاشف رضاشاد مصباحی لکھتے ہیں۔

شہرکےاس دینی ادارہ میں حصول تعلیم کےدوران ایک واقعہ درپیش آیا،جس سےاس بات کاانکشاف ہوسکاکہ یہ ادرہ بنام اہل سنت وہابیت کےفروغ میں کوشاں ہے ۔ ہوایوں کہ حضرت شیخ دکن الشاه سراج الدین جنیدی علیہ نالرحمۃ والرضوان کےعرس کےموقع  سے حضرت الشاہ تاج الدین بابا جنیدی مدظلہ نےمحمد فہیم بابا سےفرمایا کہ آج بارگاہ میں آپ صلاۃ وسلام پڑھائیں گے تعمیل حکم کے بجائے آپ ان چیزوں کےعدم جوازپرگفتگوکرنے لگے۔

لہذاحضرت الشاه محمد تاج الدین بابا جنیدی مدظلہ نے بھانپ لیا کہ بچہ بنام اہل سنت وہابیت نواز ادارہ میں تعلیم حاصل کررہاہے، لہذا آپ نےسید فہیم بابا رضوی کے والدین کوحقیقت حال سےآگاہ کیا اوراجازت لے کرفہیم باباکو کولار لے گئے تاکہ وہ وہاں اہل سنت وجماعت کےافکارونظریات کے مطابق وتربیت پاسکے۔ چند سال وہاں تعلیم حاصل کرنے کےبعد الجامعة الرضویہ بمعروف دارالعلوم امجدیہ، مہاراشٹر میں داخل ہوگئے ۔

آخر پیر تو وہی ہے جو لوگوں کے ایمان وعقیدے کی حفاظت کرے،نہ صرف حفاظت بلکہ آئندہ لوگوں کے ایمان واعتقاد کو محفوظ رکھنے کے عوامل اور ذرائع بھی پیداکرے،ایمان واعتقاد کی بنیاد کومضبوط کرنے کے لیے آپ نے خانقاہ میں مدرسہ کوجاری رکھا

بلکہ عامۃ المسلمین عشاقان مصطفے ﷺ کے لیے ایک انوکھی ذریعہ بھی تلاش کرلیا،اوردنیا میں پہلی بارآقائے نامدار مکی ومدنی تاجدارسیدالعرب والعجم کی بارگاہ رسالت مآب ﷺ میں صلوٰۃ وسلام کے گوہر نیاز لٹانے کے لئےایک مکان تعمیر کیا،لہذا پیر وہی ہے جو خداکے بھٹکے ہوئے بندوں کوخداکی بارگاہ میں رجوع کراناہے،نہ کہ اپنے اور اپنی اولاد کے لیے بلڈنگوں پہ بلڈنگیں تعمیر کرتے جائیں،آخر آپ اس خانوادہ کے چشم وچراغ تھے،جن کے نزدیک قرآن وحدیث کے عالم ہی پیرومرشد ہوسکتے ہیں،کوئی جاہل گنواڑ نہیں۔

اور آپ اپنےخاندانی سلسلہ تصوف یعنی ،،جنیدیہ سلسلہ ،،کے معروف ومشہور داعی ومبلغ بھی تھے،اللہ تعالی تاج المشائخ کو جنات عالیہ میں جگہ عطا فرمائے،اور ان کے متعلقین ومنتسبین مریدین کو صبر جمیل عطافرمائے۔آمین بجاہ النبی سید المرسلین ﷺ

اسیر غم محمد ساجد رضاقادری رضوی کٹیہاری بانی تحریک فیضان لوح وقلم جگناتھ پور،آبادپور سنکولہ بارسوئی کٹیہار بہار

خطیب وامام جامع مسجد تہانی علی سالم کاٹے پلی کڑبگل بانسواڑہ ضلع کاماریڈی تلنگانہ

رابطہ نمبر 7970960753

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *