مذہب اور سیاست کے مابین رشتوں کی نوعیت

Spread the love

از قلم : زاہد کمال ، مذہب اور سیاست کے مابین رشتوں کی نوعیت

مذہب اور سیاست کے مابین رشتوں کی نوعیت

مذہب اور ریاست کا رشتہ کس نوعیت کا ہوتا ہے؛ اگر ہم عالمی منظر نامے کو دیکھتے ہوئے کہیں تو موٹے طور پر پانچ نوعیت کے رشتے نظر آتے ہیں۔

1 :نیا نیا پیار، نیا نیا اظہار۔ نئی نئی، بہار، 16 برس کی کچی عمر، نا تجربہ کاری دور اور نئے احساس کی شدت۔ اس پیار میں محبوب بی پوری کائنات ہے، اس کا خیال ہی اعصاب پر صبح و شام سوار ہے۔

مانو جس دن محبوب کو یاد نہ کیا، وہ دن زندگی کا آخری دن ہوگا۔ اس نظام میں مذہب ہی سب کچھ ہے۔ مذہب ہی سے سب کچھ ہے۔جیسے ویٹیکن سیٹی۔ ایران۔ اس کو ہم تھیوکریسی یعنی مذہبی حکومت کہتے ہیں

2: شادی کی بعد کا پیار جہاں گھریلو ذمہ داریاں، نت نئے چیلینج، مزاج کا فرق، عادتوں کا اختلاف، لہجوں کی شدت، غلط فہمیوں کا سلسلہ، ہر قدم پر ایک نیا مسئلہ کھڑا کرتے رہتے ہیں، اور کچی عمر کے کچے پیار کو نت نئے طریقوں سے آزمائشوں کی چکی میں پیس کر زندگی دوبھر بناتے رہتے ہیں۔

ہر صبح ایک نئی زندگی ہوتی ہے، اور ہر دن ایک نیا چیلینج۔ جیسے بندہ نے پیار نہیں کیا، آسمان سر پر اٹھا لیا۔  حالت یہ ہے نہ نگلتے بنے نہ اگلتے بنے۔ اس نظام میں مذہب کو منائے بے غیر کوئی بڑا قدم نہیں اٹھا یا جا سکتا۔ جیسے پاکستان، اس نظام کو ہم سیمی تھیوکریسی semi theocracy کہ سکتے ہیں

3 : جدائی کے بعد دشمنی کا دور ۔ یعنی مذہب سے جانی دشمنی کا رشتہ، جیسے کمبوڈیا، نارتھ کوریا، چین اور روس میں کسی وقت ہم نے دیکھا، جہاں لاکھوں لوگوں کو صرف ان کے مذہب کی وجہ سے موت کی نیند سلا دیا گیا۔ یہ حالت عام طور پر کٹر مارکس وادی حکومتوں میں پیدا ہوتی ہے

4 : جدائی کے بعد شدید بے رخی اور نظر اندازی کا دور، کہ محبوب کا دیدار بھی گوارا نہیں، اگر سامنا ہو بھی جائے تو نظریں پھیر لیں، یا راستہ ہی بدل لیں۔ جیسے فرانس جہاں مذہبی علامتوں جیسے نقاب، صلیب، ٹیکا ، پگڑی، جیسی تمام مذہبی علامتوں پر پابندیاں عائد ہیں۔ سرکاری مقامات، آفس اور اداروں میں ان علامات کو پوری طرح بَین کردیا گیا ہے۔ اس نظام کو ہم منفی سیکولرزم کہتےہیں

5 : یک طرفہ محبت کا دور، اور وہ بھی دل میں چھپی چھپی سی، دبی دبی سی، سہمی ہوئی محبت، جس کا رازدار فرشتوں کے سوا کوئی نہیں۔ جہاں محبوب کی خیر خواہی، اس کی پسند اور اس کی مرضی ہی محبت کا عنوان ہے۔ یہاں عشق اپنے محبوب کو خود غرض نہیں بناتا۔ بلکہ محبوب کو اپنی زندگی میں خوش دیکھنا چاہتا ہے۔ اور اس کو اپنی زندگی جینے کا پورا موقع دیتا ہے۔

یہاں ریاست ہر مذہب کو ایک آنکھ سے دیکھتی ہے۔ چاہیے والوں کو بھی اور نہ چاہنے والوں کو بھی۔ کسی کے ساتھ بھید بھاؤ، امتیازی سلوک اور مراعات نہیں برتٌی۔ غیروں پہ کھل نہ جائے کہیں راز دیکھنا میری طرف بھی غمزہ غماز دیکھنا۔محفل میں تم اغیار کی، دزدیدہ نظر سے منظور ہے، پنہاں نہ رہے راز تو دیکھوجیسے پریزاد ڈرامے میں، پری زاد کی یک طرفہ محبت ناہید کے لیے۔

ایک وقت ایسا بھی آتا ہے جب ناہید نے پریزاد کی زندگی میں آنے کی خواہش ظاہر کی تو اس نے سلیقے سے منع کردیا۔ لیکن جب کبھی شدید ضرورت پیش آئی، راز داری کے ساتھ ہر ممکن مدد کی۔ ہندوستانی آئین کا مذہب کے تعلق سے یہی رشتہ ہے۔ ہندوستانی آئین نہ مذہب کا دشمن ہے، نہ مذہب کا گرویدہ عاشق ۔ اور نہ مذہب سے بیزار۔ ہندوستانی آئین کو مذہب سے یک طرفہ دبی دبی، دھیمی آنچ پہ پکی ہوئی

محبت ہے جس میں بے تحاشا خیر خواہی ہے، اور محبوب کے لیے ہزاروں نیک تمنائیں۔ آئین نہ مذہب کی زندگی میں بے جا دخل دیتا ہے اور نہ تو کوئی شدید بے رخی کا راستہ اپناتا ہے۔ بل کہ مذہب کو اپنی زندگی اپنی مرضی کے مطابق جینے کا پورا موقع دیتا ہے۔

بشرطیکہ نظم و نسق، صحت عامہ، اور عام اخلاقیات کی خلاف ورزی نہ ہوتی ہو۔ اس نظام کو ہم مثبت سیکولرزم کہتے ہیں۔

زاہد کمال۔

21 thoughts on “مذہب اور سیاست کے مابین رشتوں کی نوعیت

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *