ابلاغ کی اہمیت سیرت ذرائع رسولﷺ کے آئینے میں
روزنامہ انقلاب کے آج کے شمارے میں شائع شدہ میرا مضمون بشکریہ انقلاب :
ذرائع ابلاغ کی اہمیت : سیرت رسولﷺ کے آئینے میں
عصر حاضر میں ذرائع ابلاغ کی اہمیت سے کوئی بھی ذی شعور انسان انکار نہیں کر سکتا۔آج اطلاعات کی نشریات و ابلاغ عامہ کی برق رفتاری نے اس وسیع و عریض دنیا کو ایک گلوبل ولیج میں تبدیل کر دیا ہے۔ کوئی بھی اطلاع سچی ہو یا جھوٹی، حق ہو یا باطل، اچھی ہو یا بری، چشم زدن میں ساری دنیا میں پھیل جاتی ہے۔اخبار و رسائل، ریڈیو، ٹی وی کے علاوہ اس دور میں انٹرنیٹ نے احوال و پیامات کی ترسیل میں بے انتہا سرعت پیدا کردی ہے۔ اس کے ذریعے بہت قلیل وقت میں عالمی سطح پر بڑی تعداد میں لوگوں کو متاثر کیا جا سکتا ہے۔ یوٹیوب، فیس بک، ٹوئٹر اور انسٹاگرام جیسے سوشل میڈیا پلیٹ فارم آج عوام الناس کی ذہن سازی کا ذریعہ بن گئے ہیں۔ مرکزی ذرائع ابلاغ(مین اسٹریم میڈیا) کے علاوہ سوشل میڈیا بھی اپنے نظریات کی تبلیغ میں انتہائی موثر کردار ادا کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ ایک طرف جہاں بین الاقوامی سطح پر بی بی سی، سی این این جیسے ادارے ہیں تو قومی سطح پر ہندی انگریزی کے علاوہ مقامی زبانوں میں بےشمار چینلز ہیں جو کسی خاص نظریے کی ترویج و اشاعت میں شب وروز کوشاں ہیں۔ ان سب میں ایک بات جو قدر مشترک کے طور پر دیکھی جاسکتی ہے وہ ہے اسلاموفوبیا اور مسلم دشمنی۔کہیں کم تو کہیں زیادہ،کہیں پوشیدہ تو کہیں اعلانیہ اسلام اور مسلمانوں کے خلاف زہر افشانی کا سلسلہ جاری ہے۔
مرکزی ذرائع ابلاغ میں بن الاقوامی سطح پر اور تقریباً پوری دنیا میں مقامی سطح پر بھی اسلام اور مسلمانوں کے خلاف نفرت کا بازار گرم ہے۔ اگر ہم اپنے ملک ہندوستان پر ایک نظر ڈالیں تو یہاں مین اسٹریم میڈیا کے ساتھ برسراقتدار طبقہ کا آئی ٹی سیل سوشل میڈیا کے ذریعے مسلمانوں کے خلاف نفرت کو فروغ دیتا ہے ساتھ ہی حکومت کی خامیوں کی نہ صرف پردہ پوشی کرتا ہے بلکہ انتہائی مضحکہ خیز دلائل سے اسے درست ثابت کرنے کی کوشش بھی کرتا ہے۔ نتیجتاً حکومت کی تباہ کن پالیسیوں کے باوجود مسلم دشمنی میں اکثریتی طبقہ سب کچھ فراموش کردیتا ہے اور حکومت کی حمایت میں کھڑا نظر آتا ہے۔ نوٹ بندی کے بعد 2019 میں مرکز میں اور کرونا کے درمیان لاشوں کا انبار لگ جانے کے بعد بھی اتر پردیش میں بی جے پی کا دوبارہ برسر اقتدار آ جانا ذرائع ابلاغ کی طاقت کو واضح کر دیتا ہے۔ اس جاں گسل صورت حال میں جب ہم امت مسلمہ کی طرف دیکھتے ہیں تو کبھی اقوام عالم کی رہنمائی کرنے والی یہ امت انتہائی بے چارگی میں کھڑی نظر آتی ہے۔ دنیا کے سامنے انصاف کا عملی نمونہ پیش کرنے والی امت آج انصاف کی بھیک مانگ رہی ہے۔
امت مسلمہ کی رہنمائی کے لیے اللہ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو اسوہ بنا کر دنیا میں بھیجا۔ میڈیا کے میدان میں اس امت کی زبوں حالی دیکھتے ہوئے خود بخود یہ خیال ذہن میں آتا ہے کہ ذرائع ابلاغ کے قیام اور اس کے استعمال کے لیے اللہ کے رسولؐ نے ہماری کیا رہنمائی کی ہے؟ چونکہ قرآن نے آپؐ کو ہمارے لیے بہترین نمونہ بتایا ہے اس لیے یہ ممکن نہیں کہ اس سلسلے میں ہمارے لیے آپؐ کی رہنمائی موجود نہ ہو۔ اب یہاں یہ سوال ذہن میں آسکتا ہے کہ انٹرنیٹ، سوشل میڈیا، ٹی وی، ریڈیو تو کجا اخبارات، رسائل اور چھاپہ خانہ تک آپؐ کے صدیوں بعد وجود میں آئے تو ان چیزوں کے تعلق سے رہنمائی کیسے مل سکتی ہے؟ جواب یہ ہے کہ اسلام ہمارے لیے کچھ اصول مرتب کرتا ہے اور ان اصولوں کی روشنی میں ہر دور کی ضرورت کے مطابق اس دور کے لوگوں کو رہنمائی ملتی رہتی ہے۔ مثال کے طور پر رسولؐ نے تیراندازی کی ترغیب دی، تیر اپنے دور کا نفیس ترین ہتھیار تھا اس لیے اصول یہ ٹھہرا کہ مسلمانوں کو اپنے دور کے بہترین ہتھیاروں کا استعمال آنا چاہیے تاکہ بوقت ضرورت وہ دشمنوں سے اپنے ملک و ملت کی حفاظت کر سکیں۔ اللہ کے رسولؐ نے مسلمانوں کو گھڑ سواری کی ترغیب دی چونکہ گھوڑا اس دور کی سب سے تیز رفتار سواری تھی اس لیے اصول یہ بنتا ہے کہ ہر دور میں مسلمانوں کو اس دور کی تیز رفتار سواری کا استعمال آنا چاہیے۔
آئیے ان اصولوں کی روشنی میں یہ جاننے کی کوشش کرتے ہیں کہ اس دور میں پیغام رسانی یا ابلاغ عامہ کے لیے کن ذرائع کا استعمال کیا جاتا تھا؟ اور کیا رسولؐ نے ان ذرائع کا استعمال کیا یا نہیں؟ اور اگر کیا تو اس میں کچھ تبدیلی بھی کیں یا اسے من و عن قبول کرلیا؟ اس دور کا دستور تھا کہ اگر کوئی شخص اپنے اہل خاندان کو اپنی کوئی خاص بات پہنچانے کا ارادہ کرتا تو انھیں اپنے گھر پر مدعو کرتا۔ کھانے سے فارغ ہوکر وہ سارے اہل خاندان سے مخاطب ہوتا اور انھیں اپنی خوشی، غم، مصائب یا ضرورت سے واقف کراتا۔ اگر کوئی شخص کسی بات کا اعلان عوام الناس کے لیے کرنا چاہتا تو کسی بلند مقام پر کھڑا ہو کر آواز لگاتا اور جب لوگ اس کی طرف متوجہ ہوجاتے تو وہ اپنا مدعا بیان کرتا۔ ابلاغ عامہ کا ایک اور طریقہ بھی رائج تھا کہ کوئی شخص اگر اجنبی لوگوں تک اپنا کوئی پیغام پہنچانا چاہتا تو میلے ٹھیلے میں جا کر دور دراز سے آئے لوگوں سے ملاقات کرتا اور اپنا پیغام ان تک پہنچاتا۔ لوگوں کو اپنی جانب متوجہ کرنے کے لیے کچھ لوگ گانے بجانے کا بھی سہارا لیتے اور لوگوں کے متوجہ ہونے کے بعد اپنی بات کہتے۔ ایک طریقہ خطوط رسانی کا بھی تھا جو آج بھی رائج ہے اور شاید تاقیامت باقی رہے گا، کہ لوگ سماج کے بااثر لوگوں خاص طور پر حکمرانوں کو خطوط کے ذریعے اپنی بات پہنچاتے ہیں۔ مذکورہ ذرائع ابلاغ کا اللہ کے رسولؐ نے کس طرح استعمال کیا ذیل میں انتہائی اختصا ر کے ساتھ جائزہ پیش کیا جارہا ہے۔
جب حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو غار حرا میں پہلی وحی موصول ہوئی تو آپ نے اس کی اطلاع سب سے پہلے اپنی زوجہ محترمہ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کو دی۔ بعدہـ دوسرے اہل خانہ بشمول حضرت علیؓ اور حضرت زیدؓ بن ثابت کے سامنے اسلام پیش کیا۔ جب آپ کو اسلام کی دعوت اپنے قبیلے کے لوگوں تک پہنچانے کا حکم ملا تو آپؐ نے بعینہ وہی طریقہ ختیار کیا جو اس دور میں رائج تھا۔ آپؐ نے اپنے خاندان بنو ہاشم کو کھانے پر مدعو کیا، اور کھانے کے بعد ان تک اللہ کا پیغام پہنچایا۔ اس طرز ترسیل میں مہمان نوازی بھی شامل ہے جو کہ عربوں کی ایک اعلی اخلاقی قدر ہے لہٰذا آپ نے اس ذریعۂ ابلاغ کو ہو بہو اختیار کیا۔ کچھ عرصہ کے بعد آپ کو حکم ہوا کہ اسلام کی دعوت ہر خاص وعام تک پہنچائی جائے تو آپ نے اپنے دور کا مروجہ طریقہ اختیار کیا۔ آپؐ کوہ صفا پر تشریف لے گئے اور آواز دے کر لوگوں کو متوجہ کیا، اور انہیں آخرت کے عذاب سے خبردار کیا۔ اس ذریعۂ ابلاغ میں برہنہ ہوکر خبر دی جاتی تھی جسے آپﷺ نے قطعی اختیار نہیں کیا۔ آپؐ کا یہ طرز عمل ہماری رہنمائی کرتا ہے کہ اگر مروجہ طریقہ مفید تو ہے لیکن اس میں کچھ مفسدات بھی شامل ہیں تو اس کے مفید طریقے کو اختیار کیا جائے، گناہ یا بے حیائی کی چیزوں کو ترک کر دیا جائے۔ کسی میڈیا کو صرف اس لیے ترک نہیں کیا جاسکتا کہ اس میں بعض برائیاں شامل ہیں، بلکہ اس کی فاسد چیزوں کو چھوڑ کر مفید چیزوں کا اختیار کرنا سنت رسولؐ ہے۔
بالکل یہی طریقہ کار آپؐ نے میلوں میں پیغام رسانی کے طریقے میں اختیار کیا۔ حج و دیگر مواقع پر جب لوگ مکہ مکرمہ میں جمع ہوتے تو آپ ان سے ملاقاتیں کرتے۔ اس میں ناچ گانے کو ترک کرکے آپؐ نے اسے صرف ملاقات اور پیغام رسانی تک ہی محدود رکھا۔ ایسی ملاقاتوں کا نتیجہ بیعت عقبی اولیٰ اور بیعت عقبی ثانی تھا، جس نے ہجرت کی راہ ہموار کی۔ یہاں بھی ہم دیکھتے ہیں کہ آپؐ نے اپنے وقت کے مروجہ ذرائع ابلاغ کو تصحیح کے ساتھ استعمال کیا۔ ہجرت کے بعد جب مدینہ منورہ میں ایک ریاست وجود میں آ گئی اور آپؐ کی حیثیت اب رسول کے ساتھ ساتھ حاکم وقت کی بھی ہوگئی تو آپؐ نے ترسیل پیغام کا وہ طریقہ بھی اختیار کیا جو اس دور میں بھی رائج تھا اور آج بھی جاری ہے۔ آپؐ نے اپنے دور کے بادشاہوں، قبیلوں کے سرداروں اور دیگر بااثر افراد کو خط لکھ کر اسلام کی دعوت پیش کی۔ اس طرح ہم دیکھتے ہیں کہ آپؐ نے اپنے دور کے مروجہ ذرائع ابلاغ کا بھرپور استعمال کیا، اگر ان میں کہیں معیوب پہلو پائے جاتے تھے تو اسے ترک کردیا اور مفیدپہلوؤں کا حتی الامکان استعمال کیا اور ہمارے لئے اس میدان میں اسوہ حسنہ فراہم کیا۔
اپنے دور کے مروجہ ذرائع ابلاغ کے سبھی طریقوں کا استعمال کرنے والے رسولؐ کی امت میں اگر آج الجزیرہ سے صرف نظر کیا جائے تو بین الاقوامی سطح پر اس امت کے پاس کوئی ایسا چینل نہیں ہے جس کے ذریعے ہم دنیا کے سامنے اسلام اور مسلمانوں کی صحیح تصویر پیش کر سکیں، دشمنان اسلام کے جھوٹے پروپیگنڈے کا جواب درست اور حق بات کے ساتھ دے سکیں۔ دعوت اور تبلیغ کے موضوع پر اگر چند چھوٹے چھوٹے چینل قائم بھی ہوئے تو ان کی رسائی غیر مسلموں تک بالکل نہیں ہے۔ دوم یہ کہ یہ چینلز اسلام کی نشرواشاعت کے بجائے اپنے نظریے یا مسلک کی تبلیغ و ترویج میں مصروف ہیں۔ جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ یہ چینلز اسلام اور مسلمانوں کی قوت بننے کے بجائے تفریق کو ہوا دے کر ان کی کمزوری کا سبب بنتے ہیں۔ سوشل میڈیا کی بات کریں تو اس پر یک طرفہ مغربی اقوام کا دبدبہ ہے۔ تقریباً تمام سوشل میڈیا پلیٹ فارم مغربی سرمایہ داروں کے ہاتھ میں ہیں۔ اگرچہ سوشل میڈیا کا کچھ نہ کچھ فائدہ اس امت کو بھی پہنچ رہا ہے لیکن وہ بہت کم ہے۔ دوسرے یہ کہ اگر کوئی چینل، کوئی پیج یا فردبہت مشہور ہو جاتا ہے اور وہ ان مغربی اقوام کے نظریات یا اسلام دشمن پالیسی کے لیے مضر ثابت ہونے لگتا ہے تو اس کی پہنچ کم کر دی جاتی ہے، یا اس پر بے سروپا الزام لگا کر پابندی عائد کر دی جاتی ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ امت کے سرمایہ داران اس جانب فوری توجہ دیں اور بڑے پیمانے پر ایسے میڈیا ہاؤس قائم کیے جائیں جن میں تینوںسطح (مالکانہ، ادارت اور نامہ نگاری) پر ملی فکر رکھنے والے افراد متعین ہوں تاکہ کسمپرسی کی حالت میں زندگی گزار رہی امت مسلمہ سر اٹھا کر زندگی بسر کر سکے۔
Dr. Joohi Begum
59C/67C, South Malaka
Allahabad. 211003