روزہ اللہ کے لے ہے اور وہی اس کی جزا دے گا
روزہ اللہ کے لے ہے اور وہی اس کی جزا دے گا
از۔ نورالہدی مصباحی گورکھ پوری
روزہ ارکان اسلام کا تیسرا اہم رکن ہے۔ یہ ایک بدنی عبادت ہے۔ روزہ ایک ایسی عبادت ہے جو دکھاوے اور ریاکاری سے بالکل پاک عبادت ہے۔ یہ مکمل طور پر اللہ اور اس کے بندے کا آپس کا معاملہ ہے، لہٰذا روزے کے اجر و ثواب کے بارے میں ارشاد ہے کہ روزہ اللہ کیلیے ہے اور وہی اس کی جزا دے گا۔
امت پر سال میں ایک مرتبہ ماہ رمضان المبارک کے روزے فرض کیے گئے ہیں۔ پوری دنیا کے مسلمان اپنے اپنے وقت کے مطابق صبح فجر سے غروب آفتاب یعنی مغرب تک اللہ کے حکم کو بجا لاتے ہوئے کهانا پینا اور دوسری حلال اشیا کو ترک کر دیتے ہیں۔ جہاں روزے کا عبادت کے لحاظ سے بہت زیادہ اجر و ثواب ہے وہیں اس سے بہت سارے دنیاوی فوائد بهی حاصل ہوتے ہیں۔ چند اہم فوائد آپ کے پیش خدمت ہے،
روزہ ہمیں مضبوط قوت ارادی اور اپنی ذات پر کنٹرول حاصل کرنے میں مدد دیتا ہے۔ جب ہم روزے کی نیت کر لیتے ہیں تو بهوک اور پیاس لگنے پر قدرت اور اختیار رکهنے کے باوجود ہم کوئی چیز کهاتے پیتے نہیں ہیں۔ اس سے ہمارا اپنی ذات پر کنٹرول بڑهتا ہے اور قوت ارادی مضبوط ہوتی ہے۔ جو دیگر کاموں کو مکمل لگن اور لگاؤ سے بطریق احسن انجام دینے کی مشق ثابت ہوتی ہے۔
روزہ انسان کو اپنے دنیاوی کاموں میں بهی بہتری لانے میں مدد فراہم کرتا ہے، جسمانی طور پر انسان صحت و تندرست ہو جاتا ہے کیوں کہ روزہ رکهنے سے ہمارے جسم میں موجود زائد چربی ختم ہو جاتی ہے، ہمارا شوگر لیول، بلڈ پریشر کا لیول اور کولیسٹرول لیول گرنا شروع ہو جاتا ہے۔
ان تمام عوامل کے نتیجے میں ہم جسمانی لحاظ سے بہتری کی جانب بڑهتے ہیں۔ عارضہ دل، ٹی بی، شوگر اور بلڈ پریشر جیسے امراض کا خاتمہ ہو جاتا ہے۔ انسان کا جسم چاک و چوبند ہو جاتا ہے۔ ہمارے جسم میں خون کے سفید خلیوں کی نشوونما میں بہتری آتی ہے اور ہم یوں بہت سے معمولی و مہلک امراض سے محفوظ رہتے ہیں۔
روزہ رکهنے سے انسان اعصابی طور پر مضبوط ہوتا ہے اور اس کی قوت برداشت میں اضافہ ہوتا ہے۔ یوں بهوک پیاس برداشت کرنے کی مشق اسے زندگی کے دیگر معاملات غم و غصہ اور دوسری ناپسندیدہ باتوں کو برداشت کرنے کا عادی بناتی ہے۔
روزہ معاشرے میں احساس اور ایثار کے جذبہ کو پروان چڑهاتا ہے، جب ہم روزہ سے ہوتے ہیں تو ہمارے اندر معاشرے کے بهوکے اور پیاسے لوگوں کی بهوک اور پیاس کا احساس ہوتا ہے جس کے نتیجہ میں جذبہ ایثار و قربانی جنم لیتا ہے اور ہم معاشرے کے ضرورت مند طبقے کی فلاح و بہبود کا سوچتے ہیں۔ اس کے علاوہ باہمی احساس اور ایثار کا معیار معاشرے کی ہر سطح پر بہتر ہوتا ہے۔
ماہ صیام میں انسان اپنے مال سے زکوۃ و خیرات اور عطیات کے ذریعے مستحق افراد کی مدد کرتا ہے جس سے معاشرے میں بہتر معاشی حالات پیدا ہوتے ہیں اور خوش حالی بڑھ جاتی ہے۔ مستحق افراد کی مدد ہوجاتی ہے جس سے ان کی ضروریات بهی پوری ہوجاتی ہیں اور اس طرح معاشرے کا اجتماعی معیار بہتر ہوجاتا ہے۔
ہم عبادات میں وقت صرف کرتے ہیں اور ہمارے کردار میں بہت سی اخلاقی بہتریاں پیدا ہوتی ہیں۔ ہم چوری، کرپشن، بدگمانی، بدزبانی اور دیگر اخلاقی بیماریوں پر قابو پا لیتے ہیں جس سے اجتماعی طور پر معاشرے میں امن و امان کی صورت حال بہتر ہو جاتی ہے۔ معاشرہ اخلاقی طور پر بہتری کی طرف گامزن ہو جاتا ہے۔ معاشرے میں امن و اخوت، بهائی چارے اور ایثار کے جذبات پروان چڑهتے ہیں۔
اللہ ہمیں رمضان المبارک کے فیوض برکات سمیٹنے کی توفیق دے اور اسلام کے سنہری اصولوں پر عمل پیرا ہونے کی توفیق بخشے۔ آمین یارب العالمین بجاہ سید المرسلین صلی اللہ علیہ وسلم