ہندوستان کی آزادی میں اُردو صحافت کا اہم کردار

Spread the love

ہندوستان کی آزادی میں اُردو صحافت کا اہم کردار

از : نور الہدیٰ مصباحی

تحریک آزادی میں اردو صحافت نے قابل فخر کارنامہ انجام دیا ہے ،جب اس دور میں لوگ اپنے غصے کا اظہار مختلف انداز میں کر رہے تھے اور حکومت سے باغی ہو چکے تھے تو اس وقت اردو صحافت نے ایک راستہ دکھایا ۔

برطانوی حکومت کے ظلم و ستم بڑھنے کے باعث ملک کے دانش وروں ، عالموں، شاعروں، مفکروں اور وطن پرستوں نے یہ محسوس کیا کہ اب صبر کا باندھ ٹوٹ چکا ہے اور یہ لڑائی ہم سب کو مل کر وسیع پیمانے پر لڑنی ہوگی، عوام کو یک جا کر کے ہم فکر لوگوں کی جماعت بنائی جائے۔ اس کا موثر ذریعہ صحافت ہی تھی۔

صحافت کا معاشرے سے چولی دامن کا ساتھ رہا ہے، جو کہ سماج پر پوری طرح اثر انداز ہوتا ہے۔ ان وطن پرستوں نے اپنے احساس کو قلم کی طاقت بخشی اور اس طرح اردو صحافت نے ایک تحریک کی شکل اختیا ر کرلی جس سے عوام کو بیدار کرنا بہت آسان ہو گیا۔ معروف شاعر اکبر الہ آبادی نے اسی پس منظر میں کہا تھا کہ

کھینچو نہ کمانوں کو نہ تلوار نکالو

جب توپ مقابل ہو تو اخبار نکالو

اردو صحافت کے ابتدائی دور میں کوئی بھی اخبار روزنامہ کے طور پر شائع نہیں ہوتا تھا۔

یہ ہفت روزہ، سہ روزہ، ماہا نہ ہوتے تھے۔ ان اخباروں میں جو خبریں شائع ہوتی تھیں وہ انگریزی اخبار سے لی جاتی تھیں۔ اردو اخبارات کے محدود ذرائع کی طرح ان کی تعدادِ اشاعت بھی محدود تھی ۔اردو کا پہلا اخبار’جامِ جہاں نما ،تھا جو کلکتہ کی سر زمین سے 1823 میں منظرعام پر آیا۔ جام ِجہاں نما ہفتہ واری اخبار تھا جسے ایسٹ انڈیا کمپنی نے اپنی ضرورت کے تحت نکلوایا تھا۔

اسے کبھی اردو کبھی فارسی کبھی دونوں زبانوں میں شائع کیا گیا۔ جامِ جہاں نما کے سلسلے میں خاص بات یہ ہے کہ اس کے مالک ہری ہردت تھے اور ایڈیٹر لالہ سدا سکھ تھے۔ ابتداء میں اس کا پرنٹر ایک انگریزولیم ہوپ کنگ تھا۔

چناں چہ 1823سے 1857 کے غدرتک اردو میں 122 اخبارات شائع ہونے کا سرکاری ریکارڈ آج بھی موجود ہے۔1857 کے غدر کی ناکامی کے بعد 1858 سے 1900 تک 400 سے زائد اردو اخبارات وجود میں آچکے تھے۔ اردو صحافت اپنے آغاز کے وقت بھی ملک میں تیسرے نمبر پر تھی اور آج بھی اردو اخبارات تیسرے مقام پر ہی قائم ہیں۔

” ہندی اخباروں کے ریویو کا خیا ل دل میں آتے ہی پہلے اردو اخبار کی طرف نگاہ جاتی ہے کیوں کہ اردو اخبارات ہندی اخبارات سے پہلے جاری ہوئے اور پہلے ہی انہوں نے ترقی کے میدان میں قدم آگے بڑھایا ۔

ظاہرہے اردو اور ہندی میں اس وقت بڑی ناچاقی ہے اردو کے طرف دار ہندی والوں کو اور ہندی کے طرفدار اردو والوں کو ذرا ترچھی نگاہ سے دیکھتے ہیں، مگر حقیقت میں اردو اور ہندی کا بڑا میل ہے یہا ں تک کہ ایک ہی شہ کہلانے کے لائق ہیں جس نے فارسی رسم الخط کا جامہ پہننے سے اردو نام پایا وہی دیوناگری کے لباس میں ہندی کہلائی،1823سے1857 تک شائع ہونے والے اخبارات کی سرپرستی برطانوی سرکار کرتی تھی اور بیشتر کاپیاں خود خریدتی تھی ۔

اس کے باوجود اردو اخبارات نے جذبات بر انگیختہ کرنے والی نظمیں اور باغیانہ مضامین شائع کئے ۔ ہندوستانیو ں پر انگریزوںکے مظالم کو نمایاں انداز میں شائع کیا۔ 1830 میں ایسٹ انڈیا کمپنی نے اردو کو ہندستان کی سرکاری زبان بنایا جب کہ اس سے قبل فارسی سرکاری زبان تھی اور عوام میں اردو پہلے سے ہی رائج تھی ۔

 

اسی دوران اخبار جاری کرنے پر لگی پابندی بھی ہٹا دی گئی جس سے نئے اخبارات کی اشاعت کی راہیں آسان ہو گئیں۔ تحریک آزادی میں اردو صحافت نے اپنا ایک نمایاں اور اہم کردار ادا کیا ہے۔ انقلابی جذبات کو ابھارنے اور عوام و خاص کو خبر سے با خبر کرنے کا اہم کارنامہ اردو صحافت نے بڑی کامیا بی اور لیاقت کے ساتھ انجام دیا ۔

“ہندوستان کی جدو جہد آزادی میں خاص اخباروں کا رول رہا،اس اخبار نے تحریرو ں کے ذریعے کمپنی کی نگرانی اور برطانوی حکومت کے خلاف کھلم کھلا بغاوت کا اعلان کردیا تھا ۔اس وقت کے نامور دانش وران ‘صحافی ‘ادبا اورشعرا نے اس میں اپنے قلم کی تلواریں چلا کر انگریزی حکومت کی ناک میں دم کیے رکھا ۔۔اردو صحافت کے پروانوں پر یہ حقیقت پوری طرح عیاں ہو چکی تھی کہ صحافت ہی وہ طاقت ہے جو عوام کو ہر راز سے اورہرحقیقت سے وابستہ کرا سکتی ہے ۔

اس کے ذریعہ ہی اپنے احساسات وتا ثرات کو ظاہر کیا جا سکتا ہے اور مقاصد کو راہ تقویت حاصل ہو سکتی ہے ۔اس کے ساتھ ساتھ انگریز ی حکومت کی تمام چالبازیوں اور ان کے ناپاک مقاصد کو طشت از بام کردیا

’شیر محمد امین ‘ لکھتے ہیں کہ 1857 کی جنگ آزادی بلکہ اس سے بھی پہلے سے لے کر 1947 کی حصول آزادی تک اردوصحافت نے آزادی اور قومی اتحاد کی تحریک میں جو نمایاں رول ادا کیا ہے وہ تاریخ کا ایک روشن باب ہے۔

یہ اردو صحافی ہی تھے جو سب سے پہلے برطانوی سا مراج کے ظلم وستم کا نشانہ بنے ۔انہوں نے نہ صرف یہ کہ قیددبند کی صحبتیں برداشت کیں بلکہ مالی قربانیاں بھی دیں۔ جس میں انگریزوں کے خلاف بیانات شامل تھے ۔اس کے بعد 1857 میں اردو کا پہلا روز نامہ اردو گائڈ‘کلکتہ سے شائع ہوا ۔روز نامہ پنجاب ‘‘لاہور سے جاری ہوا وغیرہ وغیرہ ، اس دور کے بعد اخباروں کا ایک سنہرا اور جو شیلا دور شروع ہوا ۔

یہ وہ دور تھا جب ہندوستان میں ظلم وستم کی انتہاہوچکی تھی اور عوام کے صبر کا باندھ ٹوٹ چکا تھا ۔اخباروں میں صاف گوئی اور بغاوت کا تیز رنگ نظر آنے لگا جس میں زمیندار ،لاہور سے اور حسرت موہانی نے یکم جولائی 1903 کو علی گڑھ سے اپنا ماہانہ رسالہ اردو معلٰی جاری کیا ۔

اس رسالے کے پہلے ہی شمار ے کی خوبی یہ تھی کہ اس میں مکمل آزادی کا مطالبہ کردیا تھا ۔یہ وہ وقت تھا جب ہندوستان میں سیاسی بیداری عروج پر تھی اور اس وقت کے تمام بڑے بڑے رہ نما بھی اتنی بڑی جرأت نہ کرسکے کہ مکمل آزادی کا مطالبہ کریں ۔ب

بظاہر اس رسالہ کا وہی حشر ہونا تھاجو ہوا آخرکار 1908 میں برٹش حکومت کے خلاف مضمون میں بغاوت کے الزام میں پابندی کا اعلان ہوا اور مولانا کو قید کرلیا۔

دو سال تک مولانا قید رہے ۔ان اخباروں نے برطانوی حکومت پر سخت وار کیا جس کے نتیجے میں ان پر پابندیاں عائد کردی گئیں مگر اس قدم سے اردو صحافت کے شعلوں کو اور ہوا ملی اور آگے چل کر اندازہ بغاوت اور انقلاب سے پر اخباروں کی جھڑی لگ گئی ۔تحریک آزادی پورے ہندوستان میں پھیل چکی تھی اور ہر طر ف سے بغاوت کے شعلے برس رہے تھے ۔

ادیبوں کی بے باک بیانی اور شاعروں کے جو شیلے نغمیں اسے تقویت پہنچا رہے تھے ، اخباروں کی فہرست میں کئی بڑے نام بھی ہیں، خوشی کی بات یہ ہے کہ ان میں سے کئی اب بھی جاری ہیں اور خدمت انجام دے رہے ہیں۔ان سب اخباروں میں جوشیلی تحریروں کے ساتھ ساتھ وطن پرستی اور قومی اتحاد کے جذبے سے لبریز نظمیں بھی شائع ہوتی تھیں،

جنگ آزادی کی لڑائی میں اردو اخبارات کی خدمات نا قابل فراموش ہے ۔جب تک ہندستان کی آزادی کے بارے میں ذکر کیا جائے گا تو اردو اخبارات کا نام جلی حروف میں ضرور لکھا جائے گا ، بڑی جدو جہد اور قربانیوں کے بعد ہندوستان میں 15اگست 1947کو آزادی کا سورج طلوع ہوا اور سب نے مل کر آزادی کا جشن بڑے زور وشور سے منایا ۔

یہ اردو صحافت کی کوششوں اور کاوشوں کا ہی نتیجہ ہے جس نے ہندوستان کو آزادی دلانے میں ایک اہم کردار ادا کیا ہے۔ ہمیں چاہیے کہ اردو اخبارات کے فروغ کے لیے اپنے گھروں کی زینت بنائیں،اسے مانگ کر کے نہیں خرید کرکے پڑھیں ،اپنی خوشیوں کے مواقع پر اس کے اشتہارات میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے رہیں ۔

نورالہدی مصباحی

گورکھ پوری

14 thoughts on “ہندوستان کی آزادی میں اُردو صحافت کا اہم کردار

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *