ماہ مقدس رمضان کا استقبال کیسے کریں

Spread the love

ماہ مقدس رمضان کا استقبال کیسے کریں ؟

از۔۔۔ محمدمحفوظ قادری

اسلام کی بنیاد پانچ باتوں پر رکھی گئی ہے جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایاکہ سب سے پہلے اس بات کی گواہی دینا کہ اللہ ایک ہے اس کے سوا کوئی عبادت کے قابل نہیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے آخری رسول ہیں۔دوسرے نماز کی پابندی کرنا۔تیسرے زکوٰۃ ادا کرنا۔

چوتھے رمضان کے روزے رکھنا۔پانچواں حج کرنا۔ان میں سے ایک روزہ بھی ہے جومرتبہ ومقام کے اعتبار سے قرب خداوندی حاصل کرنے کیلئے بہت اہم عبادت ہے۔رمضان جہاں اللہ کا مہمان ہے وہیں اللہ کی طرف سے ہمارے لیے ایک عظیم نعمت بھی ہے۔

اور روزہ ہی صرف ایک ایسی عبادت ہے کہ جس کا اجر خود اللہ رب العزت قیامت کے دن اپنے بندوں کو اپنے دست قدرت سے عطافرمائے گا۔رمضان کے روزوں کا رکھنا اللہ رب العزت نے فرض قراردیا ہے۔

جس کی فرضیت کے متعلق ارشاد باری تعالیٰ ’’یٰایھاالذین اٰمنواکُتب علیکم الصیام کماکُتب علی الذین من قبلکم لعلکم تتقون‘‘سورہ بقرہ(قرآن) ترجمہ :اے ایمان والو! تم پراسی طرح روزے فرض کیے گئے ہیں کہ جس طرح تم سے پہلے لوگوں پرفرض کیے گئے تھے تاکہ تم پرہیز گار بن جاؤ۔

رمضان المبارک کی آمد جیسے جیسے قریب ہوتی جاتی ہے اہل ایما ن کے دل میں خوشی اور مسرت کا اظہار بڑھنے لگتاہے۔

یہ وہ مبارک مہینہ ہے جس کی آمد کا انتظار ہر مسلمان ایک رمضان سے دوسرے رمضان تک کرتا ہے اور یہ مبارک مہینہ اللہ کی طرف سے اہل ایمان کے لیے ایک انمول تحفے کی حیثیت رکھتا ہے کیوں کہ یہ مہینہ اللہ کی طرف سے خوش خبری دیتا ہے نیکی وبرکت ، بخشش و مغفرت ، توفیق عبادت ، صداقات و خیرات ، جنت کی بشارت ، جہنم سے آزادی ، خاک ساری و مساوات و دیگر اعمال صالحہ کی ۔

یہ مبارک مہینہ بندۂ مومن کو اِن تمام اعمال صالحہ کی طرف لگا دیا کرتا ہے۔اس مبارک اور مقدس مہینے کے ذریعہ بندۂ مومن کے دل میں فکرآخرت اور اللہ رب العزت سے ملاقات کی خواہش پیدا ہوجاتی ہے۔

اب ہمارا یہ فرض بنتا ہے کہ ہم اس مبارک مہینے کا استقبا ل کس طرح کریں۔۔؟اور کس طرح اس کی رحمتوں وبرکتوں سے اپنے خالی دامنوں کو بھرنے کی کوشش کریں۔۔؟جب ہم حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی مبارک زندگی کا مطالعہ کرتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ رمضان سے دو مہینے پہلے ہی حضور صلی اللہ علیہ وسلم اس مقدس مہینے(رمضان) کا ذکر کرنا شروع فرمایا کرتے تھے۔

اوراس کی تیاری کرتے ہوئے آپ فرماتے کہ رجب اللہ کامہینہ ہے اورشعبان میرا اوررمضان میری امت کا مہینہ ہے۔ آپ اللہ سے رمضان کی آمد کی یہ دعا بھی کیا کرتے تھے کہ’’اے اللہ ہمارے لیے رجب و شعبان میں برکت عطافرمائی اوررمضان تک ہمیں پہنچانے ( نصیب فرما ) ‘‘۔

جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم شعبان کے مہینے میں داخل ہوتے تو رمضان کی تیاری اور تیز فرمایا کرتے تھے۔

حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا ارشاد فرماتی ہیں کہ میں نے کبھی نہیں دیکھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے رمضان المبارک کے علاوہ کسی پورے مہینے کے روزے رکھے ہوں،اورمیں نے نہیں دیکھا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی مہینے میں شعبان سے زیادہ نفلی روزے رکھے ہوں ۔(بخاری شریف)

حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سال میں کسی مہینے کے مکمل روزے نہیں رکھتے سوائے شعبان کو رمضان سے ملانے کے لیے ۔(سنن ابی داود)

شعبان کے مہینے میں کثرت کے ساتھ نفلی روزے رکھنا یہ بھی استقبال رمضان کا ایک طریقہ تھا۔کہ روزے رکھتے ہی رکھتے رمضان المبارک میں داخل ہوجاتے۔ان مبارک احادیث سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی چاہت یہ ہوا کرتی تھی کہ شعبان المعظم کے مہینے کو رمضان المبارک میں داخل ہونے کے لیے روحانی و اخلاقی تربیت، اعمال صالحہ کی پابندی کے ساتھ روزے،تلاوت قرآن ودیگر صدقات وخیرات کا ذریعہ بنا کر گزارا جائے۔

تاکہ جب رمضا ن ہمارے اُپر سایہ فگن ہو تو ہم اِن اعمال صا لحہ کے پابند ہوچکے ہوں۔ اسی ماہ مقدس کی بشارت دیتے ہوئے نبی صلی علیہ وسلم نے فرمایاکہ جب رمضان المبارک شروع ہوتا ہے توآسمان کے دروازے کھول دئیے جاتے ہیں اورایک روایت میں ہے کہ جنت کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں اوردوزخ کے دروازے بند کردیئے جاتے ہیں اورشیاطین زنجیروں میں جکڑدئے جاتے ہیں اوروروایت دیگررحمت کے دروازے کھول دئے جاتے ہیں۔(بخاری ومسلم)

حضرت شیخ عبدالحق محدث دہلوی اس حدیث مبارک کے تحت تحریرفرماتے ہیں کہ آسمان کے دروازے کھول دئے جانے کامطلب ہے کہ پے درپے اللہ کی رحمت کا نازل ہونا بغیر کسی رکاوٹ کے اور اعمال صالحہ کا بارگاہ الٰہی میں پہنچنا اور دُعا کا قبول ہونا

جنت کے دروازے کھول دئے جانے کامطلب ہے کہ نیک اعمال کی توفیق اللہ رب العزت کی طرف سے عطا ہونا ،دوزخ کے دروازے بند کیے جانے کے معنیٰ ہیں روزے داروں کے نفوس کو ممنوعات شرعیہ کی آلودگی سے پاک وصاف کرنا ۔

اور گناہوں پراُبھارنے والی تمام چیزوں سے نجات دلانا اوردل سے دنیوی لذتوں کو نکالنا اور شیاطین کو جکڑدئے جانے کا مطلب ہے کہ بُرے خیالات کادل سے پاک و صاف ہوجانا۔توہمیں چاہیے کہ رمضان کی آمد سے پہلے پہلے اللہ سے توبہ واستغفار کے ذریعہ گناہوں کی معافی مانگیں تاکہ اللہ ہم سے راضی وخوش ہوجائے او رہم رمضان المبارک کی رحمتوں ، برکتوں ،بخشش و مغفرت کے حق دار بن جائیں۔

اسی ماہ مقدس کی امت مُسلمہ کو خوش خبری دیتے ہوئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جوشخص ایمان کے ساتھ ثواب کی امید سے روزے رکھے گا تواُس کے اگلے گناہ بخش دیئے جائیں گے۔

اورجو ایمان کے ساتھ رمضان المبارک کی راتوں میں قیام یعنی عبادت کریگااُس کے بھی اگلے گناہ بخش دئے جائیں گے ، اورجوایمان کے ساتھ ثواب حاصل کرنے کی نیت سے شب قدر میں قیام (عبادت)کرے گا اُس کے بھی اگلے گناہ بخش دئے جائیں گے۔(مسلم شریف)

آمد رمضان کی تیاریاں آسمانوں پر بھی کی جاتی ہیں جس کا منظر بیان کرتے ہوئے تاج دار کائنات حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایاکہ جب ماہ رمضان کی پہلی رات ہوتی ہے توشیاطین اورسرکش جنات قید کردئے جاتے ہیں اورجہنم کے دروازے بند کر دیئے جاتے ہیں اور پھر پورے مہینے ان میں سے کوئی دروازہ نہیں کھولا جاتااورجنت کے دروازے کھول دئے جاتے ہیں

ان میں سے کوئی دروازہ بند نہیں کیاجاتا اور منادی پکارتاہے کہ اے خیرکے طلب کرنے والے متوجہ ہو(آگے بڑھ)اوراے برائی کا ارادہ رکھنے والے برائی سے رُک جا اور اللہ بہت سے لوگوں کو دوزخ سے آزادی عطا فرماتاہے اور ہررات ایسا ہوتاہے۔ (ترمذی شریف)

لہٰذا معلوم ہوا کہ ماہ شعبان ماہ رمضان کیلئے ایک مقدمہ کی حیثیت رکھتاہے اس لئے اس مہینے میں وہی اعمال کثرت کے ساتھ کرنے چاہئیں کہ جن اعمال کی کثرت ماہ رمضان میں کی جاتی ہے یعنی روزے ،تلاوت قرآن ، نمازوں کی  پابندی ،صدقات و خیرات ،ایک دوسرے کے ساتھ ہم دردی بُرے کاموں سے بچنا دوسرے مسلمان بھائیوں کوبُرے کاموں سے بچنے کی نصیحت کرنا وغیرہ۔

 

ماہ شعبان میں روزوں وتلاوت قرآن کی کثرت اس لئے کی جاتی ہے کہ رمضان کی برکتوں ، رحمتوں وسعادتوں کو حاصل کرنے کی تیاری مکمل  ہوجائے اور ساتھ ہی ہمارانفس اللہ رب العزت کی اطاعت ،عبادت وشکرگزاری پر اطمنان وخوش دلی سے راضی  ہوجائے ۔

رمضان کی آمد واستقبال کا ذکرکرتے ہوئے  حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے شعبان کے آخری دن کچھ اس طرح بھی ارشاد فرمایا :

حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ راوی ہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااے لوگو!تمہارے اُپر ایک مہینہ سایہ فگن ہونے والا ہے جوبہت بڑااورمبارک مہینہ ہے اس میں ایک رات ایسی ہے جو ہزار مہینوں سے بہتر ہے۔اس کے روزے اللہ تعالیٰ نے فرض کئے ہیں اور اس کی رات میں قیام کرنا(نماز پڑھنا)نفل قراردیاہے اس میں نیکی کا کوئی کام یعنی نفلی عبادت کرے توایسا ہے جیسے اورمہینوں میں فرض ادا کیا۔

اور جس نے فرض اداکیاتو ایساہے جیسے اور دنوں میں ستر(70)فرض ادا کیے یہ صبر کا مہینہ ہے اورصبر کا بدلہ جنت ہے اور یہ غم خواری کا مہینہ ہے اور اس ماہ مقدس میں مومن کا رزق بڑھا دیاجاتا ہے ۔

جو اس مہینے میں روزے دار کو افطار کرائے اُس کے گناہوں کے لیے مغفرت ہے اُس کی گردن دوزخ سے آزاد کردی جائے گی اورروزہ افطار کرانے والے کو ویسا ہی ثواب ملے گاجیسا روزہ رکھنے والے کو ملے گا بغیر اِس کے کہ اُس کے ثواب میں کچھ کمی واقع ہو۔ صحابہ کرام نے عرض کیا یا رسول اللہ! ہم میں کا ہر شخص وہ چیز نہیں پاتا کہ جس سے وہ روزہ افطار کرائے۔

حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا اللہ یہ ثواب اُس شخص کو بھی عطا فرمائے گا جو ایک گھونٹ دودھ یا ایک کھجوریا ایک گھونٹ پانی سے روزہ افطار کرائے،اور جس نے روزے دار کو پیٹ بھرکرکھانا کھلایا تو اُس کواللہ رب العزت میرے حوض سے سیراب کرے گا کہ کبھی وہ پیاسا نہ ہوگا یہاں تک کہ وہ جنت میں داخل ہوجائے گا۔

یہ وہ مہینہ ہے کہ اِس کا ابتدائی حصہ رحمت ہے اور اِس کا درمیانی حصہ مغفرت ہے اور اِس کاآخری حصہ جہنم سے آزادی کاہے۔اورجو اپنے غلام پر اِس مہینے میں تخفیف کرے یعنی کام لینے میں کمی کرے تو اللہ تعالیٰ اُس کو بخش دے گااورجہنم سے آزادفرمائے گا۔

اس حدیث مبارک میں رمضان کی عبادت کا مقام بھی بیان فرمایا کہ نفل عبادت کو فرض کا درجہ دے دیا جاتا ہے اورفرض کا مقام و ثواب ستر گنا بڑہادیا جاتا ہے اور جب بندۂ مومن اس مہینے میں اپنے آپ کوبھوک پیاس و تمام بُرے کاموں سے بچاکر رضائے پروردگار حاصل کرنے کیلئے صبر کامظاہرہ کرتا ہے تواِس صبر کاصلہ اللہ نے جنت رکھاہے۔

اور اِس مہینے میں اللہ اپنے بندوں کے وہم وگمان سے کہیں زیادہ اُن کے رزق کے میں اضافہ فرمادیاکرتاہے اپنی بے شمار نعمتوں کے ذریعہ۔اورفرمایاکہ جواس مہینے میں کسی کاروزہ افطار کرائے گااللہ کی عطا کردہ کسی بھی حلال و پاک چیز سے تواُس کے گناہوں کومعاف فرماکر بخش دیاجائے گا۔

اور کسی ایک کے ثواب میں ذرہ برابر کمی نہیں کی جائے گی۔جو اس ماہ مقدس میں کسی روزے دار کو یا کسی ضرورت مند کو کھانا کھلائے گا تو اللہ رب العزت اس کو حضور کے حوض سے ایسی سیرابی عطا فرمائے گا کہ کبھی وہ پیاسا نہ ہوگا۔

یہاں تک کہ وہ جنت کوپالے گا۔فرمایا اس کے پہلے دس دنوں میں اللہ اپنی رحمت کواپنے بندوں کے لیے عام فرمادیاکرتاہے اوربعد کے دس دنوں میں اللہ اپنی مغفرت کو اپنے بندوں کے واسطے عام فرمادیا کرتا ہے اور آخر کے دس دنوں میں اللہ اپنے بے شمار بندوں کو جہنم سے آزادی عطا فرماتا ہے۔جو اس مہینے میں کسی محنت کش مزدور انسان وغلام کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آئے گا تو اللہ اس کو بھی جہنم سے آزادی عطاف رمائے گا۔

اللہ رب العزت آمد رمضان سے پہلے ان سب کاموں کے لیے ہمیں تیار رہنے کی توفیق عطافرمائے۔

اگر ہم صحابہ کرام کی زندگی کا مطالعہ کریں توصحابہ کرام شعبان کا چاند دیکھتے ہی رمضان کی تیاری میں مصروف ہوجایاکرتے تھے۔

حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ صحابہ کرام جب رمضان کا چاند دیکھتے تو کثرت کے ساتھ تلاوت قرآن عظیم میں مشغول ہوجاتے۔

مال دار لوگ اپنے مالوں کی زکوٰۃ نکالتے تاکہ کمزوراورمحتاج لوگ اپنی ضرورتوں کو پورا کرکے رمضان المبارک کے روزے رکھنے پر قادر ہوسکیں۔

حکمران قیدیوں کوبلاتے اگر کسی کو حد لگانی ہوتی توحد لگاتے ورنہ رہاکردیتے۔تاجر حضرات سفر شروع کردیتے دوسروں کاقرض اداکرتے اور اپنا مال اٹھا لیتے یہاں تک کہ جب رمضان کا چاند دیکھتے توغسل کرتے اور اعتکاف میں بیٹھ جاتے۔(غنیتہ الطالبین)

اللہ ہمیں بھی صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے اِس عمل کواپنے لیے نمونہ عمل بنانے کی توفیق عطافرمائے۔آمین ۔

لفظ رمضان پانچ حروف پرمشتمل ہے حرف’ر‘اللہ تعالیٰ کی رضا سے۔

میم اللہ کی محبت سے۔

’ض‘اللہ کی ضمانت سے۔

’الف‘اللہ کی الفت سے۔

نون اللہ تعالیٰ کے نور سے لیا گیا ہے۔

پس یہ مہینہ اللہ کے محبوب بندوں اور نیک لوگوں کے لئے اللہ کی رضا، محبت، ضمانت ، الفت ، نور بخشش و بزرگی کو حاصل کرنے کا مہینہ ہے۔

ماہ رمضان اپنے روزے داروں کے لئے شفیع ہوگا قیامت کے دن۔ماہ رمضان تلاوت قرآن کے نور سے مزین و منور ہے۔رمضان کے مہینے میں اگر کسی کی بخشش نہ ہوئی تو وہ سخت خسارہ اٹھانے والوں میں شمار ہو جائے گا۔

لہٰذا انسان کوچاہیے کہ توبہ کا دروازہ بند ہونے سے پہلے اس ماہ مقدس میں توبہ کرلے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا میری امت جب تک رمضان کی عظمت کوبرقرار رکھے گی ذلیل و رسوا نہ ہوگی ،ایک شخص نے عرض کی یارسول اللہ !ان کی ذلت کیا ہے۔۔؟

فرمایا کسی شخص نے رمضان میں حرام یابرا عمل کیا شراب پی یازنا کا ارتکاب کیا اس سے رمضان المبارک کا عمل قبول نہ ہوگا اورآئندہ رمضان تک فرشتے اورآسمان والے اُس پر لعنت بھیجتے رہیں گے، اورآئندہ رمضان سے پہلے مرگیا تو اللہ کے یہاں اس کی کوئی نیکی نہیں ہوگی۔(غنیتہ الطالبین)

اے بندۂ مومن ! آنے والاماہ مقدس رمضان قلبی وذ ہنی صفائی کا مہینہ ہے، یہ وفا کا مہینہ ہے، ذاکرین ، صابرین وصادقین کا مہینہ ہے اے اللہ کے بندے! اگر یہ مہینہ تیرے دل کی اصلاح کرنے اللہ کی نافرمانی سے بچانے اور جرائم پیشہ لوگوں سے علی حید گی دلانے میں موثر نہیں بن سکا تو پھر کون سی چیز تیرے دل پر اثر انداز ہوگی۔۔؟

اے بندئہ مومن جوچیز تیرے اندر جگہ بنا چکی ہے اُس سے خبردار!وآگاہ! ہوجا اور غفلت کی نیند سے بیدار ہو۔ دعا ،توبہ ، استغفار ، عبادات کے ذریعہ ندامت کے آنسو بہا کر اپنے دل پر لگی گناہوں کی گندگی کو دور کرنے کے لیے اپنے مالک حقیقی اللہ رب العزت کے دربار کی طرف رجوع کر یقینًا تیرا رب تیری دعا و استغفار سے بہت زیادہ خوش ہوتا ہے اور اللہ تیرے دل پر لگی گناہوں کی گندگی کوآب رحمت سے دھوکر تجھ سے راضی و خوش ہوجائے گا۔

ہمیں چاہیے کہ ہم آنے والے ماہ مقدس کی تیاری اس انداز سے کریں کہ جس طرح جب ہمارے گھرپرہمارے کسی عزیز مہمان کی آمد ہوتی ہے ہم اُس کیلئے بہت ساری تیاریاں کرتے ہیں گھر وآگن کو بہت اچھے طریقے سے سجاتے و سنوارتے ہیں اورہمارے گھر میں ایک عجیب خوشی کا ماحول ہوتاہے  ہم خود بھی زینت کو اختیار کرتے ہیں اورآنے والے مہمان کی خاطر وتواضع کے لیے پُرتکلف سامان (کھانے وغیرہ) بھی تیار کرتے ہیں  جب ہم اپنے ایک عزیز مہمان کے لیے اس قدر پر تکلف ہوکر تیاری کرتے ہیں تو پھر وہ مہمان جو تمام مہمانوں سے افضل و اعلیٰ اوراللہ کی طرف سے بھیجا ہوا ہو تواُس کی تیاری کہیں زیادہ پُرزور طریقے پر ہونی چاہیے۔

اُس کی تیاری کیلئے ہم نمازوں کے پابند ہوجائیں ،تلاوت قرآن شروع کردیں ، جھوٹ، مکرو فریب ، ریا کاری، حسد ، بغض ، کینہ ، عداوت ونفرت اورتمام عادات قبیحہ و رذیلہ سے اپنی حفاظت کریں ۔

اگرواقعی ہم تمام ممنوعات شرعیہ سے پاک وصاف رہے تویقیناً آنے والے مہمان کاصحیح انداز سے استقبال بھی کرسکیں گے اوراِس کی مہمان نوازی میں یعنی نماز،روزہ،نماز تراویح ، تلاوت قرآن ، صدقات وخیرات کا خصوصی اہتمام کرکے زیادہ سے زیادہ اللہ کے روزے دار بندوں کوافطار کراکرایک دوسرے کے ساتھ ہمدردی ودل جوئی کرکے اس کا حق ادا کرسکیں گے۔

اللہ رب العزت ہمیں ماہ مقدس رمضان کابہترین طریقے سے استقبال کرنے اوراس مہینے سے ہرطرح کافائدہ اٹھانے اورماہ رمضان کی تمام رحمتوں ، برکتوں ، بخشش ومغفرت کو حاصل کرنے کے ساتھ جہنم سے آزادی امت مسلمہ کو نصیب فرما ئے اورتمام اعمال صالحہ کو آخرت میں نجات کا ذریعہ بنائے ۔ آمین

از: محمدمحفوظ قادری

رام پور،یو۔پی

9759824259

One thought on “ماہ مقدس رمضان کا استقبال کیسے کریں

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *