بہار کے ذریعہ اردو فکشن کا مستقبل روشن ہے

Spread the love

بہار کے ذریعہ اردو فکشن کا مستقبل روشن ہے ۔ پروفیسر اسلم جمشید پوری شہاب ظفر اعظمی کا طرز تنقید انفرادیت رکھتا ہے ۔

عبدالصمدپٹنہ ( پریس ریلیز )

بہار میں اردو فکشن کی تو انا روایت رہی ہے جو سہیل عظیم آبادی ، اختر اور بینوی، شکیلہ اختر کے بغیر مکمل نہیں ہو سکتی ۔

اس خیال کا اظہار معروف ناقد اور شعبۂ اردو چودھری چرن سنگھ یو نیورسٹی کے صدر پروفیسر اسلم جمشید پوری نے شعبہ اردو پٹنہ یونیورسٹی میں ایک تقریب میں کلیدی خطبہ دیتے ہوئے کیا۔

انہوں نے مزید کہا کہ نئے فکشن کو اعتبار قائم کروانے میں عبدالصمد غضنفر، آفاقی ، ذوقی حسین الحق ، شموئل احمد ذکیہ مشہدی اور شوکت حیات وغیرہ کا بڑا رول رہا ہے۔

بالکل نئے لکھنے والوں میں او بیناش امن، نورین علی حقی ، نیاز اختر ، فیاض احمد وجیہ، رومانہ تبسم اور نیلوفر یاسمین وغیرہ افسانے کی دنیا کو وسیع کر رہے ہیں جبکہ ناولوں میں عبدالصمد ، صغیر رحمانی، احمد صغیر ، وغیرہ کی اقتدا میں سلمان عبد الصمد، پیسین احمد وغیرہ کا ذکر کیا جا سکتا ہے۔

نئے لکھنے والے صرف تہذیب کا رونا نہیں روتے ، ان کی تخلیقات پچاسی فیصد دیگر آبادی کے مسائل و موضوعات کا بھی احاطہ کرتی ہیں۔ اس لیے کہا جا سکتا ہے کہ اردو فکشن کا مستقبل بہار کے لکھنے والوں کے توسط سے محفوظ ہاتھوں میں ہے۔

واضح ہو کہ شعبہ اردو پٹنہ یونیورسٹی میں آج ایک قومی سیمینار کا انعقاد کیا گیا تھا جس کی صدارت معروف فکشن نگار عبد الصمد نے کی اور کلیدی خطبہ پر وفیسر اسلم جمشید پوری نے پیش کیا۔

اس موقع پر شعبے کے استاد ڈاکٹر شہاب ظفر اعظمی کے تنقیدی مضامین کے مجموعہ ” اردو فکشن تنقیدات و تفہیمات کا اجرا ابھی عمل میں آیا جسے ڈاکٹر عارف حسین نے ترتیب دے کر پیش کیا ہے۔

بہار میں نے فکشن اور شہاب ظفر اعظمی کی فکشن تنقید پر پروفیسر عبدالصمد، پروفیسر افسانہ خاتون ، ڈاکٹر شاداب علیم اور ڈاکٹر ارشاد سیانوی نے بھیاپنے خیالات کا اظہار کیا۔

صدارتی خطبہ پیش کرتے ہوئے معروف فکشن نگار عبد الصمد نے کہا کہ بہار نے ۱۹۸۰ کے بعد اردو فکشن کی طرف لوگوں کو متوجہ کرنے میں بڑا رول ادا کیا ہے۔ مگر ایک اہم سوال ہے کہ اردو میں بڑا ناول کیوں نہیں لکھا جا رہا ہے؟“۔

ضرورت ہے کہ فکشن پر بڑے سیمینار اور ورک شاپ ہوں اور ان میں اس سوال پر غور کیا جائے اور نئے لکھنے والوں کی ضروری تربیت کی جائے۔ انہوں نے زور دیا کہ ادب کی تخلیق محنت طلب کام ہے، نئے لکھنے والوں کو نجات پسندی سے کام نہ لے کر محنت اور صبر سے کام لینا چاہیے۔ پروفیسر افسانہ خاتون نے شہاب ظفر اعظمی کی تنقیدی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے ان کی کتاب کو فکشن کی تفہیم میں اہم کتاب قرار دیا اور طلبہ کو تلقین کی کہ جس طرح شہاب ظفر ادبی وغیر ادبی سیاست سے دور رہ کر صرف کام پر توجہ دیتے ہیں ۔

اسی طرح آپ بھی اپنے کام پر توجہ دے کر اپنی شناخت قائم کریں ۔ جد و جہد اور مسلسل محنت سے ہی آپ کامیابی حاصل کر سکتے ہیں۔

انہوں نے شعبہ اردو کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ کسی شعبے کی رونق اس کے بچوں سے ہوتی ہے اور یہ بھرا ہوا حال ثبوت ہے کہ شعبہ اردو اپنے بچوں کی تربیتاحسن طریقے سے کر رہا ہے۔

شعبہ اردو میرٹھ یونیورسٹی کی استاد ڈاکٹر شاداب علیم نے شہاب ظفر اعظمی کی کتاب کے لئے انہیں مبارکباد دیتے ہوئے ان کی تنقید نگاری پر گفتگو کی اور کہا کہ ادب و تنقید کے تعلق سے ان کے نظریات بہت واضح ہیں ۔ وہ تنقید میں استہزائی اور منفی لہجہ کے قائل نہیں ہیں۔ ان کی گفتگو ہمیشہ معتدل رہتی ہے۔

وہ فکشن کی باریکیوں سے کما حقہ واقف ہیں ۔ وہ نظریاتی اصولوں کے ساتھ ساتھ عملی شواہد بھی پیش کرتے ہیں۔ اپنی کتاب میں انہوں نے ۱۷ مضامین کلاسیکی وجدید فکشن کے تعلق سے لکھ کر اپنے ہمہ جہت مطالعے کا ثبوت دیا ہے۔

شعبہ اردو چودھری چرن سنگھ یو نیورسٹی کے استاد اور نوجوان نا قد ڈاکٹر ارشاد سیانوی نے بھی شہاب ظفر اعظمی کے تنقیدی رویئے پر اپنی آرا پیش کی اور کہا کہ شہاب صاحب کا ذہن تنقیدی میدان میں تعصبات و تحفظات سے پاک ہے۔

انہوں نے ہم عصر فلکشن پر خاص نگاہ رکھی ہے۔ وہ ٹکشن جمالیات کے ساتھ ساتھ کلاسیکی افسانوی روایت پر بھی نظر رکھتے ہیں۔ پروگرام کا آغاز کتاب کی مرتب ڈاکٹر عارف حسین کی تلاوت کلام پاک سے ہوا۔

اس کے بعد صدر شعبہ اردو ڈاکٹر سورج دیوسنگھ نے مہمانوں کا استقبال کرتے ہوئے ان کی شرکت کے لیے ہدیہ تشکر پیش کیا۔

پروگرام کی پیش روی ڈاکٹر شہاب ظفر اعظمی نے کی جب کہ انتظام و انصرام کی ذمہ داری شعبے کے طلبہ واسکالرز بالخصوص فیاض کریم ، واصف اعلم معظمی، عافیہ بشری، شیر میں تسنیم ، آفرین عالیہ ، رحت ظہیر محمد هنو از قمر الزماں، کمیل رضا محمد عطا اللہ شاذیہ خاتون وغیرہ نے بخوبی نبھائی۔

اس تقریب میں ڈیڑھ سو سے زاید طلبہ طالبات کے علاوہ عظیم آباد کے ہم اساتذہ اور معتبر شخصیات نے شرکت کی جن میں پروفیسر صفدر امام قادری فخرالدین عارفی ، ڈاکٹر اے کے علوی، ڈاکٹر جاوید حیات ، ڈاکٹر سرور عالم ندوی ، ڈاکٹر صادق حسین، نوشاد احمد عاطر ، عبد الباسط حمید محمد جلال الدین، سہیل انور، بالمیکی رام ، مسرت جہاں نور السلام ندوی، رہبر مصباحی، افضل حسین ، حبیب مرشد خان افقی احمد جان، ہاشم رضا مصباحی، سلیم اختر ، ابوالکلام آزاد محمود عالم، نرجس فاطمہ، صفدری صاحب، انوار اللہ صحافی ، ضیاء الحسن صحافی وغیرہ کے نام شامل ہیں ۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *