بھاگوت جی کیا یہی آپ کا ہندو راشٹر ہے
از قلم : سید سرفراز احمد، بھینسہ بھاگوت جی کیا یہی آپ کا ہندو راشٹر ہے
بھاگوت جی کیا یہی آپ کا ہندو راشٹر ہے
یہ بات برسوں سے سنتے آرہے ہیں کہ کوئی بھی مذہب دہشت گردی کی تعلیم نہیں دیتا اور نہ کسی دوسرے مذہب پر لعن طعن کرنے یا مذہبی جذبات سے چھیڑ خوانی کرنے کی بھی کوئی ترغیب نہیں دیتا
پھر بھی ملک کے اندر مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچائی جارہی ہے ملک کی چاروں سمت بدامنی پھیلائی جارہی ہے ہر طرف تشدد توڑ پھوڑ اور خود حکمران مذہب کی چال بازیاں کا کھیل رچا رہے ہیں آخر یہ کونسا مذہب ہے یا وہ کون لوگ ہیں جو ملک میں افرا تفری پھیلا رہے ہیں
جو مذاہب میں نفرت کی دیوار کھڑی کر رہے ہیں، ملک کی تہذیب کو بدلنے کی کوشش کررہے ہیں،غالباً یہ وہی ہندو راشٹر کا خواب رکھنےوالا سنگھ پریوار ہے جو ملک میں ہندو راشٹر کو قائم کرناچاہتے ہیں جو ہندو راشٹر کے نام پر قانون کی دھجیاں اڑا رہے ہیں اور اپنی من مانی چلارہے ہیں
اور ملک کے اندر اقلیتوں میں خوف و ہراس کا ماحول پیدا کرنے کی کوشش بھی کررہے ہیں لیکن نہ انھیں کبھی دہشت گرد تسلیم کیا جاتا ہے نہ قانونی چارہ جوئی کی جاتی ہے
اگر کی بھی گئی تو باعزت بری بھی کردیا جاتا ہے لیکن ایک عرصہ دراز سے بھارت ہی نہیں بلکہ پورے عالم میں زرا سا بھی کچھ ہلچل ہوجاتی ہے تو بناء کسی تحقیق کے دہشت گردی کا ٹھپہ مسلمانوں کےاوپر لگادیا جاتا ہے اور دہشت گردی کو اسلام سے جوڑ دیا جاتا ہے
لیکن بہت بڑا سوال یہ ہے کہ بھارت کا جو موجودہ منظر نامہ ہے یا جو ملک میں ہر طرف نفرت کی تباہی مچی ہوئی ہے ان سب کا زمہ دار کون ہے؟آخراس نفرت کی مہم کے پسِ پشت کونسی آئیڈیا لوجی کارفرما ہے؟
جس طرح سے پچھلے چھ ماہ سے جس برق رفتار سے ملک کےحالات میں جو تبدیلی آئی ہے وہ پچھلے سات سالہ بھاجپائی دور میں بھی دیکھنے کو نہیں ملی
ایک طرف ہندوراشٹر کے بینر تلے چلنے والے دھرم گرو سادھوں اورسنتوں نے جگہ جگہ دھرم سنسد اجلاس منعقد کرکے کھلے عام مسلمانوں کی نسل کشی کرنے کے بیانات دیئے نفرت و کدورت سے بھرے دل دماغ کے پوشیدہ رازوں کا زہر اگلا گیا کوئی سادھو اپنے اند بھکتوں کو مسلم عورتوں کی عصمت ریزی کرنے کی کھکےعام شر انگیزی پھیلاتا ہے
تو کوئی سادھو مسلمانوں کا بائیکاٹ کرنے کی باتیں کرتا ہے کوئی مسلمانوں سے ہندوؤں کا تقابل کرتے ہوئے ہندو عورتوں کو زائد بچے پیدا کرنے کا مشورہ دیتا ہے تو دوسری طرف ہندو توا کے وہ حکمران جو ملک اور ریاستوں پر جمہوریت کے منصب پر فائز ہوتے ہوئے اپنی من مانی کی حکم رانی چلارہے ہیں
کوئی مساجد سے لاؤڈ اسپیکر ہٹانے کی باتیں کررہا ہے کوئی حجاب، حلال پر تنازعات کھڑے کررہا ہے تو کوئی ریاست یکساں سول کوڈ کی تیاری میں ہے تو کوئی ریاست نظم و نسق کی جان بوجھتے ہوئے لاپرواہی کا مظاہرہ کرتے ہوئے عوام کی جان اور املاک کا تحفظ نہیں کررہی ہے
بلکہ الٹا مسلمانوں کو زد میں لیکر نشانہ بنایا جارہا ہے مکانات اور دکانات پر بلڈوزر چلایا جارہا ہے حالیہ کچھ دن پہلے بھاجپا کے رکن پارلیمنٹ ساکشی مہاراج جو ہمیشہ سے متنازعہ بیانات میں گھرے رہتے ہیں انھوں نے پھر سے ہندو دھرم کے نوجوانوں کو بھڑکانے اور مسلم طبقہ کے جذبات مجروح ہونے والابیان دیا ہے
ساکشی مہاراج نے ہندوؤں کو اپنے فیس بک اکاؤنٹ سے صلاح دیتے ہوئے کہا کہ ہندو اپنے گھروں میں کانچ کی بوتلیں تیر کمان اور تلواریں رکھیں کیونکہ جہادی بھیڑ سے بچانے کے لیے پولیس نہیں آنے والی ہے
شاید ساکشی مہاراج یہ بھول رہے ہیں کہ بھیڑ کے حملے ہمیشہ اکثریتی طبقہ کی جانب سے ہوئے ہیں جسکا نشانہ اقلیتی طبقہ مسلمان بنا ہے پچھلے سات سالوں میں جسکی مثالوں کی ایک طویل فہرست بھی بن جائے گی
لیکن ایسی کوئی ایک مثال ساکشی مہاراج ہندوؤں پر ہوئے حملے کی پیش نہیں کرسکتے لیکن ایسی اشتعال انگیزی سے ماحول ضرور خراب کرسکتے ہیں اب سوال موہن بھاگوت سے ہے کیا بھاگوت جی یہی آپکا ہندو راشٹر ہے ـ ـ ـ؟
جس میں دیگر مذاہب پر ظلم ڈھایا جائے،مسلمانوں کی نسل کشی کی جائے، ان سے کوٹ کوٹ کر نفرت کی جائے،خود جیئں اور دوسروں کو جینے نہ دیا جائے،ایک مذہبی انسان دوسرے مذہبی انسان کے خون کا پیاسا ہوجائے،دیگر مذاہب کے مذہبی عقائد سلب کرلیے جائیں
قانون کو بالائے طاق رکھکر اپنی من مانی چلائی جائے،غریبوں کی بستیوں کو اجاڑ دی جائے، مذہبی جنون میں غیر انسانی طریقہ کو اپنایا جائے ، یہ سب ہندو راشٹر کا حصہ ہوسکتا ہے بھاگوت کا ہندو راشٹر ہوسکتا ہے سنگھیوں اور بھاجپا کی آئیڈیا لوجی ہوسکتی ہے
لیکن سناتن ہندو دھرم کا طریقہ ہرگز بھی نہیں ہوسکتا لیکن جس ڈگر پر بھاگوت اور انکی سیاسی تنظیم چل رہی ہے جن کا صرف اور صرف ایک ہی مقصد ہے کہ اس ملک سے مسلمانوں کا صفایا کرنا یا مسلمانوں کو اپنے ماتحت رکھکر دوسرے درجہ کے شہری بناکے رکھنا تاکہ ملک کو ایک ہی ہندومذہب کا ہندو راشٹر بنایاجائے
لیکن دلچسپ بات یہ ہیکہ اس ملک کی حصہ داری میں ان ہندو توا کارندوں کا نہ انکے آقاؤں کا تاریخ میں کوئی رول نہیں رہا بلکہ یہ ملک سے بے وفائی کرتے ہوئے گوری رنگت کے ہمیشہ
شانہ بہ شانہ رہے ہیں یہ ہمیشہ ہندو مسلم یکجہتی کے کٹر مخالف رہے ہیں جس راستے کو انگریزوں نے اپنایا تھا یہ بھی وہی راستہ اختیار کررہے ہیں
محض اسی لیے کہ انھیں وہ مسلمان پسند نہیں ہے جو آزادی کے وقت اس مادرِ وطن میں رہنے کو ترجیح دی تھی، انھیں وہی مسلمان پسند نہیں ہے جنکے علماء کی لاشیں آزادی کے وقت کشمیر سے کنیا کماری تک ایک ڈھنکی چادر کی طرح بچھی ہوئی تھیں
لیکن آج انہی مسلمانوں کے ساتھ ظلم و ذیادتی انگریزی حکومت کی یاد دہانی کروارہا ہے فرق صرف اتنا ہیکہ جب ملک کے ہندو مسلمان مظلوم بنے ہوئے تھے
لیکن آج ملک کے حکمرانوں اور اکثریتی طبقہ کےہاتھوں ملک کا مسلمان مظلوم بنا ہوا ہے
لیکن جو سیکولرزم کا لباس اوڑھے بیٹھے ہیں وہ سب بھی تماشائی بنے بیٹھے ہیں کیونکہ فی الحال ملک کی اکثریت ہندوتوا کے جال میں بری طرح سے پھنسی ہوئی ہے جنھیں ہندوراشٹر کے قیام کےلالچ نے اپنے نرغہ میں لے لیاہے جو بالکل ہتھیلی میں جنت دکھانے کے مترادف ہے ـ
موجودہ حالات کےپسِ منظر سے یہ عیاں ہورہا ہے کہ ملک میں ہندو راشٹر کا قیام عملی طور پر ہوچکا ہے جو صرف قانونی طور پر باقی رہ گیا ہے لیکن اتنا آسان نہیں ہیکہ قانونی طور پر بھی بنالیا جائے جو صرف ادھورے خواب کی مانند ہے
لیکن آر ایس ایس کی یہ خفیہ پالیسی رہی ہے کہ موہن بھاگوت جس ہندو راشٹر کی بات کرتے ہیں وہ لفظوں میں الگ جھلکتا ہے اور عملی کارناموں میں الگ
لیکن انکی اس خفیہ پالیسی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہیکہ وہ ملک میں پھیل رہی بد امنی ، تشدد،اور اشتعال انگیز بیانات کے خلاف نہ بھاگوت اور نہ انکی سیاسی جماعت کے حکم ران ایک لفظ تک نہیں بولتے
درحقیقت یہ ہے کہ اگر یہی بھاگوت اور سنگھیوں کا ہندو راشٹر ہے تو نہ صرف اسکا خمیازہ مسلمانوں کو بھگتنا پڑسکتا ہے بلکہ انھیں بھی بھگتنا پڑے گا جو آج ہندو راشٹر کے قیام کیلئے قدم بہ قدم ساتھ چل رہے ہیں
کیوں کہ بھاگوت کا ہندو راشٹر اکثریتی طبقہ میں بھی صرف مبتخبہ افراد کی نمائندگی کرتا ہے جنکا منشاء صرف ہندوؤں کے ایک بڑے طبقہ پر حکمرانی کرنا ہے جسمیں اکثریتی طبقہ کی اکثریت کو بھی اپنا غلام بناکر رکھنا چاہتے ہیں
لیکن اس اکثریتی طبقہ کی عوام کو کون سمجھائے کہ تمہارا مفاد ہندو مسلم نفرت میں نہیں بلکہ یکجہتی میں ہے
لیکن پھر بھی ملک کے سیکولر ہندو مسلم دانش وران کو چاہیے کہ وہ ہر آن ملک کی سلامتی کی کوشش کریں ملک کی سلامتی اور ملک کی ترقی ہندو مسلم یکجہتی کا سبق اور ہندوتوا کے نقصانات سے ان اکثریتی ذہنوں کو آگاہ کروائیں
اور یہ کام ایسا ہی جیسے صحرا میں پانی کی تلاش لیکن نہ ممکن بھی نہیں ہے اگر ہم یہی کام کرتے چلے جائیں تو یقیناً اس ملک کی ترقی بھی ہوگی اور ملک کی عوام خوشحال بھی رہے گی ـ
سید سرفراز احمد، بھینسہ
رابطہ نمبر:-9014820913
Pingback: کیا بھارت سر لنکا بن رہا ہے ⋆ اردو دنیا ⋆ از : سید سرفراز احمد، بھینسہ