تحریک آزادی میں حافظ ملت کا کردار

Spread the love

از قلم : محمد ہاشم اعظمی مصباحی تحریک آزادی میں حافظ ملت کا کردار

مکرمی : مدارس اسلامیہ ہند نے جہاں جہالت و ناخواندگی کا قلع قمع کیا ہے وہیں علوم و فنون کی اشاعت اور ملت اسلامیہ کی دینی وملی قیات کا فریضہ بھی بحسن و خوبی انجام دیا ہے

اور ملک و ملت کے وسیع تر مفادات میں ان مدارس اسلامیہ کی خدمات بھی بڑی روشن ہیں بالخصوص برطانوی سامراج کے ظلم و استبداد اور غلامی و محکومی سے ہندوستانیوں کو نجات دلانے اور ابنائے وطن کو عروسِ حریت سے ہم کنار کرانے میں مدارس اسلامیہ اور ان کے قائدین کی قربانیاں آب زر سے لکھی جانے کے قابل ہیں وہ مدارس کے جان باز علما ہی تھے

جنھوں نے ملک میں آزادی کا صور اس وقت پھونکا جب عام طور پر دیگر لوگ خواب غفلت میں مست اور احساسِ غلامی سے عاری تھے علماے کرام اور مجاہدین حریت نے ملک کی آزادی کی خاطر قید و بند کی صعوبتیں برداشت کیں مالٹا اور کالا پانی میں ہر طرح کی اذیتیں جھیلیں اور جان نثاری و سرفروشی کی ایسی مثالیں قائم کیں جن کی نظیر نہیں ملتی ملک کا چپہ چپہ ان علما و مجاہدین کی قربانیوں کا چشم دید گواہ ہے

ان علماے کرام میں جلالة العلم حافظ ملت علامہ شاہ عبد العزیز محدث مرادآبادی ثم مبارک پوری علیہ الرحمۃ کا نام نامی اسم گرامی بھی بڑی اہمیت کا حامل ہے 1932ء کا زمانہ تھا جب حافظ ملت کی تعلیم کا سلسلہ تکمیل کو پہنچا اور سند فراغت سے نوازے گیے۔

اس پرآشوب زمانے میں حافظ ملت نے آزادی کے حصول کے لیے برادرانِ وطن کی جہد پیہم اور ان پر ہورہے انگریزوں کے ظلم و ستم کا بغور مشاہدہ فرمایا تو تڑپ گیے آپ کو فکر دامن گیر ہوئی کہ کس طرح انگریزوں کے چنگل سے وطن عزیز کو آزاد کرایا جائے آخر وہ کون سے اسباب ہیں جن کی وجہ سے طویل مزاحمت کے بعد بھی آزادی نہیں مل پا رہی ہے۔

تو آپ نے پایا کہ ہندو مسلم ایکتا کا شیرازہ منتشر ہے اسی انتشار کی وجہ سے تن کے گورے من کے کالے انگریز ہندوستان میں قدم جمائے بیٹھے ہیں آپ نے اس انتشار کو ختم کرنے کا منصوبہ بنایا

واضح رہے کہ حافظ ملت 1934ء ہی میں اپنے استاذ گرامی صدر الشریعہ علامہ امجد علی اعظمی علیہ الرحمۃ کے حکم پر مرادآباد سے ضلع اعظم گڈھ کے مردم خیز قصبہ مبارک پور تشریف لا چکے تھے مبارک پور پہنچ کر اپنے مشن کو پورا کرنے میں منہمک ہوگیے

مدرسہ اشرفیہ مصباح العلوم مبارک پور کی ذمہ داریوں کو انجام دینے کے ساتھ لوگوں کو اپنی تقریروں اور تحریروں کے ذریعہ آزادی کی اہمیت اور اختلاف و انتشار کے نقصانات کو سمجھاتے رہے اس دوران آپ نے ایک انقلابی نعرہ دیا تھا جس کی شہرت و اہمیت کا جلوہ آج بھی قائم ہے تحریک آزادی میں اس نعرے نے اہم کردار ادا کیا

حافظ ملت نے کہا تھا کہ اے لوگو :”آزادی کی ایک دن کی زندگی غلامی کے ہزار دن سے بہتر ہے”اور اے میرے بھائیو ” اتحاد زندگی ہے اختلاف موت”

آپ کبھی پیدل کبھی سائیکل کے ذریعہ ضلع بھر کا دورہ کرتے اور لوگوں کو اتحاد و یک جہتی کا درس دیتے مسلسل کئی سالوں تک پوری تندہی کے ساتھ اپنے مشن کی تکمیل کے لیےسینہ سپر رہے اپنوں اور غیروں کی مخالفت بھی جھیلتے رہے اور انگریزوں کے ظلم وستم کا نشانہ بھی بنتے رہے

لیکن” مردحق باطل سے ہرگز مات کھا سکتے نہیں”کا پیکر بن کر مثل آفتاب برادران وطن کی قیادت و رہنمائی کی تابناک کرنیں فراہم کرتے رہے بالآخر آپ نے لوگوں کو آزادی کے لیے آمادہ کر ہی لیا حافظ ملت کی آواز پر لوگ آپسی اختلاف و انتشار کو بھولا کر آزادی کے متوالے بن گیے اور تحریک آزادی میں ہرقسم کی قربانیوں کے لیے تیار ہوگئے۔

یہی وجہ رہی کے ۱۹۴۲ء میں ” انگریزو بھارت چھوڑو” تحریک میں اعظم گڈھ مبارک پور و اطراف کے باشندوں نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیاجسے تاریخ آزادی نے اپنے سینے میں تابندگی کے ساتھ محفوظ رکھا ہے نتیجتاً ۱۵/اگست ۱۹۴۷ء کو وطن عزیز انگریزوں کے پنجہ ظلم و استبداد سے مکمل طور پر آزاد ہو گیا۔

آپ کے پر اثر مجاہدانہ کردار کو دیکھتے ہوئے ایک موقع پر سابق وزیراعظم ہند، مسز اندراگاندھی نے کہا تھا : ” حافظ ملت جیسی شخصیت کا ملک میں ہونا ہمارے لیے باعث فخر ہے۔ “(استقامت، کان پور، جون ۱۹۷۶، ص:۶۵)۔

از قلم : محمد ہاشم اعظمی مصباحی

نوادہ مبارک پور اعظم گڈھ یوپی

ان مضامین کو بھی پڑھیں

کیرالہ کی تین عیسائی لڑکیاں اور سپریم کورٹ کا تاریخی فیصلہ

حجاب ہمارا آئینی حق ہے

ہمارے لیے آئیڈیل کون ہیں ؟ 

خطرے میں کون ہے ؟۔ 

3 thoughts on “تحریک آزادی میں حافظ ملت کا کردار

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *