مطمئن سا مگر کہاں مجھ کو

Spread the love

غزل

مطمئن سا مگر کہاں مجھ کو جب سے وہ چشم دید ملائی ہے

ان کی أمد ہے أشیانے میں مجھ کو باد صبا بتائی ہے

پھلے ہنس مکھ تھی زندگانی اب ان کی تفصیلیاں رلائی ہے

اعتبار ان کا کیوں نہ کروں کتنی قسمیں وفا کی کھائی ہے

قلب شاہی میں کھلبلی کیوں ہے أج ملنے کو و ہ بلائی ہے

سبطین رضا شاہی

 

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *