امارت شرعیہ ترقی کی طرف بڑھتے قدم
امارت شرعیہ: ترقی کی طرف بڑھتے قدم
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
آٹھویں امیرشریعت مفکر ملت حضرت مولانا احمد ولی فیصل رحمانی حفظہ اللہ کا انتخاب بحیثیت امیر شریعت 9؍اکتوبر2021ء کو کثرت رائے سے ہوا تھا۔ ؍اکتوبر2021ء کو پورے ایک سال مکمل ہوگئے، ان ایام میں حضرت امیر شریعت کی مخلصانہ جد و جہد، رہ نمائی اور بروقت اقدام کی صلاحیت کی وجہ سے امارت شرعیہ کا یہ کارواں ہر دم رواں ہے
اس ایک سال میں دس نئے دار القضاء کھولے گیے حضرات قضاۃ اور کارکنوں کی بحالی عمل میں آئی، ہفتہ وار ذیلی دار القضاء سے رپورٹ مرکزی دفتر بھیجنے کا سلسلہ شرع ہوا،تاکہ مرکزی دار القضاء ذیلی دار القضاء کے احوال سے بر وقت با خبر رہے،بدلتے ہوئے حالات میں بعض مسائل میں تنقیح کی ضرورت تھی۔ اس کے لیے ۱۳؍ تا ۱۵؍ نومبر ۲۰۲۲ء کل ہند سمینار جمشیدپور میں رکھا گیا ہے۔
امید کی جاتی ہے کہ حضرات قضاۃ اور وکلاء کی بحث وتمحیص اور غور وفکر کے نتیجے میں شرعی طور پر مثبت راہ سامنے آئے گی، اور اس کے دوررس اثرات مرتب ہوںگے۔ بنیادی دینی تعلیم کے لیے امارت شرعیہ کے پاس خودکفیل نظام تعلیم کا جامع منصوبہ پہلے سے موجود تھا اور سابق امراء شریعت اس منصوبے پر عمل درآمد کے خواہش مند بھی تھے
حضرت امیرشریعت سادس مولانا سید نظام الدین صاحبؒ فرمایا کرتے تھے کہ اگر خودکفیل نظام مکاتب کو رواج نہیں دیا گیا تو یہ کام بڑے پیمانے پر نہیں ہوسکتا کیوں کہ کسی بھی تنظیم کے پاس اس قدر وسائل نہیں ہیں کہ وہ بنیادی دینی تعلیم کی ضرورتوں کی تکمیل کے لیے گاؤں گاؤں مکاتب کھول سکے۔
اس لیے اس مسئلہ کا حل خودکفیل نظام تعلیم ہی ہے۔ آٹھویں امیر شریعت نے اس کو اپنی ترجیحات میں شامل کرکے خود کفیل نظام تعلیم کے لیے کوشش کرنے کا حکم دیا۔
چناں چہ اس وقت تک نوے مکاتب خودکفیل قائم ہوچکے ہیں اور بنیادی دینی تعلیم کے لئے بیداری پیدا ہوئی ہے اور دور دراز کے دیہات کے لوگ بھی اس کام کو اپنی ضرورت سمجھنے لگے ہیں۔مکاتب اور اس میں بنیادی دینی تعلیمی دینے والے اساتذہ وائمہ مساجد کا سہ روزہ بین المکاتب والمدارس اجتماع ۱۶؍ تا؍ ۱۸؍ اکتوبر ۲۰۲۲ء مدینہ مسجد بڑی شیخانہ بہار شریف میں منعقد ہوا، جس میں بڑی تعداد میں معلمین نے شرکت کی، حضرت نے مکاتب کے نصاب تعلیم کی ازسرنو ترتیب پر زور دیا جس پر کام جاری ہے۔
عصری تعلیم کے فروغ اور مسلم آبادیوں تک اسے پہونچانے کیلئے امارت پبلک اسکول کے قیام کا منصو بہ امیر شریعت سابع حضرت مولانا محمدولی رحمانی رحمۃ اللہ علیہ نے بنایا تھا، گر یڈ یہ اور نگری ( رانچی) میں کام بھی آپ کے وقت میں شروع ہوگیا تھا ،ار با رانچی میں امارت انٹرنیشنل اسکول کی بنیاد بھی آپ نے ڈالی تھی ۔موجودہ امیر شریعت نے اس کام کو ترجیحی بنیاد پر آگے بڑھایا۔
آپ کی توجہ سے پانچ نئے اسکول کٹیہار، پورنیہ، کٹک ، گڈا اور ار با میں قائم کئے گئے ، ایک ہائی اسکول آسنسول میں مولانا منت اللہ رحمانی اردو ہائی اسکول اور ایک پٹنہ میں قاضی نور الحسن میموریل اسکول اس کے علاوہ ہے جو پہلے سے چل رہا ہے ۔ معیاری تعلیم وتر بیت، اسلامی ماحول اور بنیادی دینی تعلیم کو نصاب کا لازمی حصہ بنانے کی وجہ سے ان اداروں کی طرف کثیر تعداد میں طلبہ و طالبات کا رجوع ہے ، اسلام میں مخلوط تعلیم کا تصور نہیں ہے ، اس لیے ان اسکولوں میں درجہ سوم کے بعد طلبہ وطالبات کی تعلیم کاالگ الگ شفٹوں میں انتظام کیا گیا ہے ۔
ہائی اسکول سطح کی تعلیم کو مضبوط کرنے کے لئے حضرت ہی کے دور میں کریش کورس شروع کیا گیا ، جس سے طلبہ و طالبات نے فائدہ اٹھایا اور نہ صرف اچھے نمبرات سے کامیاب ہوئے بلکہ اعلی تعلیم کے لیے معیاری درسگاہوں میں ان کے داخلہ کا راستہ بھی صاف ہوا۔ان دنوں اگلے سیشن کے لیے کریش کورس میں داخلے جاری ہیں ۔
سرکار کی نئی تعلیمی پالیسی کے جو نقصانات ہو سکتے ہیں ،اس کے تجزیہ کے لیے آپ نے ایک کمیٹی بنائی یہ نصابی کمیٹی عصری علوم کی درسگاہوں کے لئے ایک نصاب ترتیب دے گی اور اسے تعلیمی اداروں میں رائج کرنے کی کوشش کی جائے گی۔
اس سلسلہ میں کمیٹی کے ارکان کی آرا ء تحریری طور پر موصول ہوگئی تھیں ،15اکتوبر کی میٹنگ میں اس موضوع پر تفصیلی تبادلۂ خیال ہوا اور لائحہ عمل طے کیے گیے، تاکہ نئی تعلیمی پالیسی سے ہونے والے نقصانات کی تلافی کی شکل نکالی جا سکے ۔
نقیب کو قارئین کے لئے پرکشش اور مفید سے مفید تر بنانے کے لئے حضرت کی صدارت میں کئی میٹنگیں ہوئیں، بانی امارت شرعیہ مولانا ابو المحاسن محمد سجاد ؒ نے جو ہدف مقرر کیا تھا، اس پر غور وفکر کے بعد بعض مضامین کا اضافہ کیا گیا اور بعض موضوعات کو خصوصیت کے ساتھ نقیب کا حصہ بنایا جار ہا ہے ، تا کہ بدلتے ہوئے حالات میں وہ عصر حاضر کے تقاضوں کی تکمیل کرسکے۔ تنظیم اور دعوت وتبلیغ کے کاموں کو آگے بڑھانے کے لیے اس شعبہ میں مزید پچیس افراد بحال کیے گئے
اس درمیان چھ سو چالیس گاؤں میں جدید تنظیم قائم ہوئی ، قدیم تنظیموں کو فعال اور متحرک رکھنے کے لیے آٹھ اضلاع میں ضلعی کمیٹیوں کی میٹنگ کی گئی اور سنتاون(۵۷) اضلاع کی ضلعی کمیٹی کے ذمہ داروں کی فہرست کو آخری شکل دی گئی۔ ضلع وار میٹنگوں کا سلسلہ جاری ہے ، نقباء کے اجتماع اور بلاک سطح تک امارت شرعیہ کے ذمہ داران کی تعیین کا جو کام حضرت امیر شریعت سابع مولا نا محمد ولی رحمانیؒ نے شروع کیا تھا۔
اس کو وسعت دی گئی اور جلد ہی یہ ا جلاس آئندہ ماہ جمشید پور، ارریہ اور اور سہرسہ میں منعقد ہوگا ۔
مبلغین کی تربیت کا بھی حضرت نے ایک نظام بنایا اور اس کے لئے جدید انداز میں فکری و عملی تربیت کی خا کہ بندی کی گئی ؛جس کے مطابق تربیتی موضوعات پر مضامین تیار کرائے جار ہے ہیں، امید ہے کہ تربیتی نظام ان شاء اللہ پہلے سے زیادہ مؤثر اور مفید ہوگا ۔اسی طرح وفود کے دورے بھی ہو رہے ہیں۔ امارت شرعیہ میں شعبہ امور مساجد بہت پہلے سے قائم ہے ، قاضی مجاہد الاسلام قاسمی کی تحر یک پرائمہ کے لیے سہ روزہ تربیتی کیمپ لگائے گئے۔اور ان میں اذان ، نماز ، وضواورقرآت قرآن کی عملی مشق ہوئی تھی ۔
اسی موقع پر دہلی سے مولانا عبداللہ طارق خاص کر بلائے جاتے تھے ، قاضی صاحب بعض امور پر تربیت کی ذمہ داری احقر کے ذمہ کرتے تھے ، گذشتہ کئی سالوں سے یہ سلسلہ موقوف تھا، حضرت امیر شریعت ثامن کے حکم سے شعبہ امور مساجد میں فعالیت آئی ہے اورگیارہ روزہ اور یک نشستی تربیتی کیمپ کا انعقاد ہوا، جس سے ائمہ کرام میں اصلاح معاشرہ ، جمعہ کی تقریر میں موضوع کا انتخاب اور عوامی رابطہ کے سلسلہ میں بیداری آئی۔
بیت المال کے نظام میں بھی تبد یلی لائی گئی ، آپ نے حسابات کو جدید طریقوں کے مطابق کرنے کا حکم دیا اور اسے سرکاری نظام کے تابع کیا گیا، کارکنوں کی تنخواہ میں اضافہ کے ساتھ پی ایف اور ای ایس آئی کی سہولت فراہم کرائی گئی۔ غرباء اور ضرورت مندوں کی امداد پر خصوصی توجہ دی گئی اور اس کا ایک فارم تیار کر کے بلا واسطہ مستحقین تک رقومات کی فراہمی ٹرسٹ کے ضابطوں کے یقینی بنائی گئی ۔ بیوگان محتاجان کے وظائف جو پہلے سے جاری تھے لیکن لاک ڈاؤن کی وجہ سے وقتی طور پرموقوف ہو گئے تھے اسے پھر سے جاری کیا گیا۔
تین نئے شعبے منصوبہ سازی ، تحفظ اوقاف اور اصلاحات اراضی کے کھولے گئے ، سارے منصوبوں کو بنانے اور اس کو زمین پر اتارنے کی ذمہ داری مدیر المشاریع کی حیثیت سے نائب امیر شریعت حضرت مولا نا محمد شمشاد رحمانی قاسمی صاحب کو دی گئی وہ پوری مستعدی تندہی کے ساتھ کام کو آگے بڑھارہے ہیں ، اس طرح امارت شرعیہ کی آراضی جو چارصوبوں میں پھیلی ہوئی ہے اس کے تحفظ ، بقا اور سرکاری تقاضوں کی تکمیل کے لئے اصلاحات اراضی کا شعبہ قائم کیا گیا
جس کی ذمہ داری سابق اے ڈی ایم اور ڈی سی ایل آر جناب عبدالوہاب انصاری کو دی گئی ،اس شعبہ سے امارت شرعیہ کی غیرمنقولہ جائیداد کی حفاظت کا کام لیا جار ہا ہے ۔ بہار ،اڈیشہ وجھارکھنڈ اور مغربی بنگال میں اوقاف کی جائداد کا خرد بردعام ہے ، اسے تحفظ فراہم کرنے کے لیے بھی ایک کمیٹی مرکزی دفتر میں سرگرم عمل ہے ۔
مدھوبنی ،مظفر پور، سہرسہ اور گڈا میں امارت شرعیہ کے مختلف مقاصد کو زمین پر اتارنے کے لیے وسیع قطعہ اراضی کا حصول بھی اس ایک سالہ دور کا اہم واقعہ ہے
ان زمینوں پر کام کو آگے بڑھانے کے لیے مدیر المشاریع منصوبہ سازی میں مصروف ہیں۔ امارت شرعیہ کی تاریخ کو زندہ رکھنے اور ا کا بر امارت شرعیہ کی خدمات سے لوگوں کو روشناس کرانے کے لیے مولانامحمدعثمان غنی رحمۃ اللہ علیہ کی حیات و خدمات پر ایک روزہ مضبوط اور وقیع علمی سیمینار بھی حضرت کے دور میں منعقد ہوا ، اس سیمینار کی منظوری حضرت امیر شریعت سابع رحمۃ اللہ علیہ نے دی تھی
لیکن لاک ڈاؤن اور کورونا کی وجہ سے یہ سیمینار منعقد نہیں ہو سکا تھا، حضرت امیر شریعت ثامن مدظلہ کی صدارت میں منعقد اس سیمینار نے ایک تاریخ رقم کی ہے اور حضرت مولانا ابوالمحاسن محمد سجاد رحمۃ اللہ علیہ پر دودہائی قبل منعقد ہونے والے سیمینار کے بعدامارت شرعیہ کی جانب سے منعقد ہونے والا کسی شخصیت پر یہ دوسرا سیمینار ہے ۔
اردو صحافت کے دوسوسال مکمل ہونے کے موقع سے مولانا ابوالمحاسن محمد سجاد کے رفیق کار پر منعقد ہونے والا یہ سیمینا را یک آغاز ہے ، جس سے طویل وقفہ کے بعد دوسرے اکا بر پر سیمینار کی راہ ہموار ہوئی ہے ۔سوشل میڈیا، پورٹل، اخبارات اور الکٹرونک میڈیا نے اس سمینار کی خبروں کو نمایاں طور پر نشر کیا۔
حضرت امیر شریعت مدظلہ کی خصوصی دل چسپی سے مولا نا سجاد میموریل اسپتال بھی پورے طور پر ترقی کی راہ پر گامزن ہے ، یہاں شعبۂ دندان میں رات کی خدمات کا اضافہ کیا گیا ،کاموں کے ڈیجیٹل اور آن لائن طریقہ کارکوفروغ دیا گیا۔
ڈاکٹر عثمان غنی میمور یل گرلس کمپیوٹر انسٹی ٹیوٹ ہارون نگر میں پارا میڈیکل کے شعبہ کا اضافہ ہوا ، دار العلوم الاسلامیہ میں نصابی کتابوں کے ساتھ مختلف مذاہب کے مطالعہ کی شروعات ہوئی ، اس ایک سال میں مختلف جگہوں اور ذیلی اداروں میں تعمیری کام کیے گئے اور ضرورت کے مطابق ان کی تزئین اور آرائش بھی ہوئی ۔ اس کے علاوہ مختلف عناوین سے بہار اور بہار سے باہرحضرت امیر شریعت دامت برکاتہم کے خطابات نے امارت شرعیہ کے استحکام اور صالح معاشرہ کی تشکیل میں اہم رول ادا کیا ۔
سفراب بھی جاری ہے ، ہمیں حضرت کی صحت وعافیت کے ساتھ درازی عمر اور کام کے تسلسل میں مزید وسعت کی دعا کرنی چاہئے ۔
ان سب کو بھی پڑھیں
مذہب اور سیاست کے مابین رشتوں کی نوعیت
ہندوستان کی آزادی اور علامہ فضل حق خیر آبادی
اردو صحافت نے جنگ آزادی میں اہم رول ادا کیا
ہندوستان کی آزادی میں اُردو صحافت کا اہم کردار
کیا کھویا کیا پایا تجربات جن سے آپ بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں
ہندوستان میں فرقہ وارانہ سیاست و فرقہ وارانہ ہم آہنگی میں مولانا آزاد کی میراث