اردو زبان کی عظمت و شہرت
اردو زبان کی عظمت و شہرت : اک تجزیاتی مطالعہ
از : مزل حسین
جو یہ ہندوستاں نہیں ہوتا
تو یہ اردو زباں بھی نہیں ہوتی
یہ لائنیں ہمیں بتاتی ہیں کہ اردو کیا ہے کہاں سے آئی اور کہاں پروان چڑھی ہے ؟ دنیا جس کا تصور ہر فرد کے لیے مختلف ہے،جو کئ برّے اعظموں پر مشتمل ہے انہیں برّ اعظموں میں ایک بڑابرّ أعظم ایشیا ہے-ایشیا جس میں کئ خطے ہیں جس میں سے ایک خطہ جسے دنیا بنام برّصغیر جانتی ہے ۔
وہ برّصغیر جس کے احاطے میں سات ممالک اور وطن عزیز ہندوستان بھی شامل ہے ۔ یہ انوکھا ملک دنیا میں اپنی ایک الگ ہی شناخت رکھتا ہے ۔ جو اپنی آغوش میں مختلف مذاھب و مختلف زبانیں بولنے والے کو بسائے ہوے ہے ۔ جن میں کل اکیس صوبائی اور پھر ہر صوبے کی سیکڑوں علاقائی زبانیں ہیں
انہیں میں ایک شیریں زبان اردو ہے ۔ اردو “12 و 16” صدی کے مابین جنوب مغربی ہندوستان میں گنگا جمنا تہزیب کا روپ لیتے ہوئے ہندؤ و مسلم کے عام بول چال میں پروان چھڑتی ہے جسے اُس وقت۔۔۔ “اردو ، ہندی، ہندوستانی ،دکنی، ریختہ اور زبانِ ہند” کے نام سے جانی جاتی تھی ۔
اُس وقت یہ زبان دیگر تمام ہندوستانی زبانوں پر صدارتی رول نبھاتی تھی۔
یہی وجہ ہے کہ دیگر صوبائی زبانوں میں اردو الفاظ کثیر تعداد میں پاۓ جاتے ہیں ۔ رام چندر گاندھی جی (“12 اکتوبر 1869ء” وفات ” 30 جنوری 1948ء”) دیگر ہندوستانی زبانوں کی طرح اردو کو بھی یکساں زبان تسلیم کرتے اور انہوں نےاس کی ترقی کے لئے بہت قربانیاں بھی دی ہیں ۔جس کی ایک مثال یہ ہے کہ “گاندھی جی” جنوبی افریقہ سے لوٹنے کے بعد ‘ہندی، انگریزی ، و گجراتی ‘ میں نکالی جانے والی” ہریجن سیوک” نامی اخبار کو “1946ء ” میں اردو میں نکالنا شروع کیا ۔
غلام محمد صاحب کہتے ہیں کہ اس وقت یہ اخبار دیگر اخباروں سے کئ گنا زیادہ بکتا تھا- مزید کہتے ہیں کہ اردو کے لئے گاندھی جی کی بے شمار خدمات ہیں- گاندھی جی کو اردو سے اس قدر والہانہ محبت تھی کہ وہ اپنے خطوط بھی اردو میں لکھتے پھر ان مکتوبات پر دستخط بھی کرتے تھے۔
مصنف کتب کثیرہ” منشی پریم چند ” (31جولائی 1880ء”وفات 8 اکتوبر 1936ء”) کہتے ہیں کہ جس طرح انگریز کی زبان “انگریزی” چین کی زبان “چینی” اسی طرز پر ہندی و اردو ہندستانی زبان ہے.
انہوں نے اردو میں کئی کتابیں لکھیں ہیں جن میں مشہور کتاب” بازار حسن ” اب بھی مارکیٹ میں مقبول ہے ۔
جنگ آزادی میں مسلمانوں کے ساتھ ساتھ اردو نے بھی اہم رول ادا کیا ہے -مجاہدین اور دیگر ہندوستانیوں کو ان نعروں سے طاقت و قوت اور ہمت ملتی تھی –
سرفروشی کی تمنا اب ہمارے دل میں ہے
دیکھنا ہے زور کتنا بازوئے قاتل میں ہے
اب اتنے سارے دلائل پیش کرنے کے بعد بھی اگر کوئی یہ کہے کہ اردو مسلمان کی زبان یا پھر پاکستان کی زبان ہے تو میں کہوں گا کہ وہ ان پڑھ اور جاہل ہے ۔جسے تاریخ کا کچھ علم نہیں
تاریخ تو یہ بتاتی ہے کہ حقیقت تو یہ ہے کہ” ہندی اردو “سے بنی ہے- 1837ء میں جب ہندوستان میں برطانوی حکومت کی چلتی تھی تب اس وقت برطانوی حکومت نےدیگر زبانوں کو خارج کر دیاتھااور اردو کو دفتری زبان ہونے کی سعادت عطا کی تھی
تب ہندوؤں نے “جدید ہندی” کے لیے ایک تحریک چلائی اور انہیں اس میں نمایاں کام یابی ملتی ہے
پھر یہ دو زبان اردو براۓ مسلم اور ہندی برائے ہندؤ ہو جاتی ہیں جس کے نتائج ہندوستان کو دو حصوں بھارت و پاکستان میں تقسیم ہونے پر مجبور کر دیے جاتے ہیں۔ ” اردو والے پاکستان ہجرت کر جانے کے بعد بھی بہت مخلص شعراء ، خطبا و ادباء حضرات مشرق جنوبی ہندوستان ہی میں رہائش پذیر ہو جاتے ہیں پھر وہاں سے آہستہ آہستہ اردو کا فروغ ہونے لگتا ہے۔
اردو حیدرآباد و تلنگانہ ہوتے ہوئے صوبہ اترپردیش کو دستک دیتی ہے اور” اترپردیش” کو اپنا گھر بنا لیتی ہے اس وقت سے ہنوز “اترپردیش” اردو کا ایک میعاری صوبہ رہا ہے اور آج بھی یہ صوبہ اردو کا ایک مضبوط قلعہ ہے ۔
اسی لیے اترپردیش کو اردو کا ہیڈ آفس کہا جاتا ہے۔۔ اترپردیش کے علاوہ بھارت کی کئی ریاستوں میں مثلاً بہار وغیرہ میں اردو دوسری سرکاری زبان کی حیثیت بھی رکھتی ہے۔
ماہرین لسانیات کہتے ہیں کہ اردو و ہندی ایک ہی زبان ہے مگر دو شکلیں ہیں اسی لیے منور رانا کہتے ہیں: » لیپٹ جاتا ہوں ماں سے اور موسی مسکراتی ہے میں اردو میں غزل لکھتا ہوں ہندی مسکراتی ہے «
ماہرین لسانیات مزید کہتے ہیں کہ پہلے برصغیر میں بولی جانے والی یہ زبان اب ایشیا کے متعدد مقامات پر بولی جارہی ہے اور یہ دنیا کی ساتویں سب سے بڑی زبان ہے اور گر دونوں (ہندی اردو) کو ایک کر دیا جائے تب دنیا کی چوتھی سب سے بڑی زبان ہوگی ۔
مزمل حسین
(ضلع: سنیت پور’ آسام)
ڈائیرکٹر: علیمیؔ اکیڈمی آسام” و ضلع صدر MSO
6307951967
Pingback: اردو زبان کی اہمیت و افادیت ⋆ مجیب الرحمٰن سلطانی ثقافی