پروفیسر وسیم رضا کی شخصیت اردو زبان وادب کے طلبا کے لیے مشعل راہ
پروفیسر وسیم رضا کی شخصیت اردو زبان وادب کے طلبا کے لیے مشعل راہ
امان اللہ شفیق تیمی مدھوبنی بہار
طلباکی زندگی میں کام یاب اور بامراد شخصیت کی اہمیت ہمیشہ سے مسلم رہی ہے ،کامیاب افراد کی جدو جہد ،مصائب وآلام ،تلخ تجربات اور پھر نامساعد حالات میں کامیابی وکامرانی کا پرچم بلند کرنے کی روشن کہانیاں یقیناطلباء و طالبات کی زندگی میں سنگ میل اور مینارہ نور کی حیثیت رکھتی ہیں۔
راقم الحروف کی ملاقات چند دنوں قبل ایک ایسی ہی عظیم شخصیت،اردو زبان وادب کے پروفیسر عالی جناب وسیم رضا چمپارنی سےہوئی،آپ انتہائی خلیق و ملنسار ،منکسر المزاج اور اعلی اخلاق و کر دار کے بے نظیر مظہر ٹھہرے ،
آپ کی زندگی ،طرز معاشرت میں انتہائی اعلی درجہ کی سادگی اور بلندی اخلاق نے ناچیز کو آپکی شخصیت کے روشن پہلوؤں سے واقفیت کی جستجو اور طلب کو بڑھا دیا، آپکی زندگی یقینا اردو زبان وادب میں کیریئر بنانے والے طلباوطالبات کے یے کسی عظیم مشعل راہ سے کم نہیں۔
آئیے یہاں درجہ ذیل سطور میں آپکی زندگی اور زندگی کے ان روشن پہلؤں پر روشنی ڈالتے ہیں جو اردووزبان وادب کے طلباو طالبات کے لیے نمونہ حیات کی حیثیت رکھتی ہیں۔
موصوف ممدوح پروفیسر وسیم رضا صاحب کی ولادت باسعادت 1977ء کو ریاست بہار کے مشہور ضلع مشرقی چمپارن کے ایک چھوٹے سے گاؤں رمڈیہا میں ہوئی
آپ کے والد جناب محمد کامل مرحوم اردو مڈل اسکول کیسریا ،مشرقی چمپارن میں بحیثیت ہیڈ ماسٹر درس وتدریس سے وابستہ تھے
آپ کی بنیادی تعلیمات اپنے گاؤں ہی کے مکتب میں ہوئی، آپ نے آٹھویں جماعت تک کی تعلیم مڈل اسکول پٹکھولیہ کلیان پور سے مکمل کیا اوراس کے بعد ہائی اسکول کی تعلیم کے لیےآپ نے بی ،اے،اے ہائی اسکول باڑا چکیا میں داخلہ لیا اور1991ء میں فرسٹ ڈیوزن سے میٹرک امتحان میں کامیابی وکامرانی سے ہمکنار ہوئے،اور اس کے بعد آپ نےانٹر میڈیت میں سائنس اسٹریم کا انتخاب کیا اور 1993ء میں ایس ،آر،کے،پی کالج چکیا سے انٹرمیڈیت کا امتحان بھی امتیازی نمبرات کے ساتھ پاس کیا۔
آپ کو شروع سے ہی اردوزبان و ادب سے خاص دل چسپی رہی اور ذاتی مطالعہ کا شوق آپکےخمیرکا جزء لاینفک تھا اور شاید یہ ذاتی مطالعہ کا بے انتہا شوق اور قابل رشک رغبت کا ہی نتیجہ تھا کہ آپ نے بچپن ہی میں اردو زبان وادب کی شہرہ آفاق تصنیف باغ وبہاراور فسانہ عجائب جیسی دقیق کتابوں کا مطالعہ کرلیا تھا۔
اور یہ اردو زبان وادب سے گہری دل چسپی ہی کا نتیجہ تھا کہ آپ نے گریجویشن میں اردو زبان وادب کو آنرس کے طور پر پڑھا اور انتہائی شاندار کام یابی حاصل کی ،آپ ایک دیہات سے آتے ہیں
لیکن اپنی جہد مسلسل اور عمل پیہم کی وجہ بی ۔اے اور ایم ۔اے دونوں ہی سالوں میں نہ صرف امتیازی نمبرات سے ہم کنار ہوئے بلکہ آپ موصوف ممدوح کو گریجویشن اور ماسٹری میں 75 فیصد نمبرات کے ساتھ بہار یونیورسٹی کا گولڈ مڈلسٹ بننے کا اعزاز حاصل ہوا۔
آپ کے مشہور اساتذہ میں ڈاکٹر ممتازاحمد خاں،ڈاکٹر فاروق احمد صدیقی،ڈاکٹر نور الحسن ،ڈاکٹر ناز قادری ،ڈاکٹر محبوب اقبال اور ڈاکٹر سید آل ظفر وغیرہ کے اسمائے گرامی خصوصیت کےساتھ قابل ذکر ہیں۔
ایم کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد بھی آپ نے اپنا تعلیمی سفر منقطع نہیں کیا بلکہ مزید اعلی تعلیم کی حصولیابی کا عزم مصمم کیا اور آپ نے بہار یونوسٹی سے ہی پروفیسر محبوب اقبال کی زیر نگرانی “رشیدحسنخان ،شخصیت اور ادبی خدمات ” کے موضوع پر پی ایچ ڈی کرنا شروع کیا اور آپ کا کامیاب پی ایچ ڈی 2010ء میں پوری کامیابی وکامرانی کے ساتھ پائہ تکلمیل کو پہنچ گیا۔
تعلیم کی تکمیل کے بعد انسان کو فطری طور پر ملازمت کی خواہنش ہوتی ہے اور انسان کی مادی ضرورتوں کی تکمیل کے لیے کوئی نہ کوئی جائز پیشہ اختیار کرنا ناگزیر معلوم ہوتاہے ،موصوف ممدوح پروفیسر وسیم رضا صاحب نے بھی ملازمت کا آغاز 2010ء میں اپنے گاؤں ہی کے مکتب میں بحیثیت نیوجت ٹیجر کیا اور 2013ء تک مسلسل مکتب ہی میں درس وتدریس اور تعلیم وتعلم سے وابستہ رہے۔
اور اس کےبعد پھر 2013ء میں مظفر پور ضلع کے صاحب گنج بلاک کے ایک مڈل اسکول میں بحال ہوگیے لیکن طبیعت میں بلندی کو چھونے کی للک افکاروخیالات کو مہمیز لگاتارہا اور ایک ہی سال کے بعد پھر سگولی ہائی اسکول مشرقی چمپارن میں آپ کی تقرری ہو گئی اور یہاں مسلسل 2020ء تک پڑھاتے رہے یہاں تک کہ دیرینہ خواہنش کی تکمیل کا وقت آن پہنچا اور آپ اسی سال مئی کے مہینہ میں رامیشور کالج مظفر پور میں اردو زبان وادب کے اسسٹنٹ پروفیسر کی حیثیت سے بحال ہوگیے۔
پروفیسر موصوف نے اپنے ہدف کو ہمیشہ سامنے رکھا اور حالات کے پیچ وخم سے نبر د آزما ہوتے رہے لیکن اس عظیم مقصد کی حصول یابی کی خاطر آپ نے اپنا علمی ،فکری اور ادبی مضامین کو لکھنے کا سلسلہ جاری رکھا۔ او رآپ کے مضامین و مقالات مشہور و معروف علمی ،فکری اور ادبی جرائد میں شائع ہوتے رہے ،آپ نے خصوصیت کے ساتھ “سہ ماہی تحقیق نئی دہلی ” ،”زبان وادب پٹنہ “،” سہ ماہی ورثہ نیویارک امریکہ ،” فروغ ادب کلکتہ جیسے معیاری ادبی رسالوں میں لکھا ہے۔
جب آپ نے مشہورو معروف محقق،بے نظیر ماہر لسانیات اور با کمال شاعر رشید حسن خاں کی شخصیت اور ادبی خدمات ” کے موضوع پر پی ایچ ڈی کا مقالہ تحریر کیا تو آپ موصوف کو رشید حسن خاں کی ادبی زندگی سے ایک خاص انسیت ہوگئی
اور آپ نے اسی تحقیقی مقالہ کو مزید حذف واضافہ اور ترمیم کے ساتھ کتابی شکل میں مرتب کیا اور یہ وقیع تحقیقی مقالہ اپنی پوری حسن آرائیوں اور دلفریبیوں کے ساتھ ایجوکیشنل پبلیشنگ ہاؤس دہلی سے این ،سی،پی،یو،ایل کی مالی تعاون سے “رشید حسن خاں ایک عبقری شخصیت ” کے عنوان سے 2013ء میں زیور طباعت سے آراستہ ہوکر شائع ہوا اور رشید حسن خاں کے عقیدت مندوں میں خصوصا اور حلقہ اردو زبان وادب میں عموما انتہائی قدر اور پذیرائی کی نگاہ سے دیکھا گیا۔
اس تحقیقی مقالہ کی کام یابی اور اردوزبان وادب کے فروغ میں اس کی اہمیت و ضرورت کے اعتراف میں بہار اردو اکادمی پٹنہ کی جانب سے آپ موصوف ممدوح کو عبد الغفار شہباز ایوارڈ سے بھی سرفراز کیا گیا۔
مذکورہ تمام باتیں پروفیسر موصوف سے ناچیز کی ایک اتفاقی ملاقات کے دوران ہوئی،بعد میں جب راقم الحروف نے آپکی شخصیت پر ایک مضموں لکھنے کا ارادہ ظاہر کیا تو آپ نے مزید مواد فراہم کرکے ناچیز کی عزت افرائی فرمائی۔
آپ نے دوران گفتگو بہت سارے شعرااور ادباء کی زندگی اور ان کےتخلیقات پر سیر حاصل گفتگو فرمائی ،آپ نے فراق گو رکھپوری ،علامہ اقبال کے کلام کا خصوصیت کے ساتھ ذکر کیا،جب راقم الحروف نے تعلیمی میدان میں رہ نمائی کے فقدان سے بہت سارے طلبا کی محرومی کی بات کہی تو آپ نے برجستہ مولوی وحید الدین سلیم کے دواشعار پڑھتے ہوئے کہا “مثل پروانہ تم اک پل میں نہ جلنا سیکھوعمر بھر شمع کی ما نند پگھلنا سیکھو ہوکے پامال حوادث نہ ترقی سے رکو دوب کی طرح سے دب دب کے نکنا سیکھو نیز موصوف ممدوح نے مذکورہ کلام کی انتہائی مؤثرانہ و دل پذیرانہ تشریح فر مائی۔ چوں کہ ہملوگ لوک سبھا الیکشن کے انتہا ئی اہم فریضہ پر معمور تھے
اور دونوں آدمی کو رپورٹ کے لیے ایم آئی ٹیی کالج مظفر پور جانا تھا تاہم یہ ملاقات اتفاقا موتی پور ہی میں بس میں ہوگئی ،ایک عظیم علمی شخصیت کے ساتھ سفر کا لطف اس قدر خوش گوار رہا کی مسافت کا احساس جاتارہا ، جلد ہی چاند نی چوک آگیا ،پروفیسر موصوف نے کہا دیکھیے وقت کیسے نکل گیا پتہ ہی نہیں چلا اور ہم لوگ چاندنی چوک پہنچ گئے ۔
اس کے بعد ایم آئی ٹی کالج مظفر پور کے کیمپس میں پہنچتے ہی ہم لوگ اپنے اپنے حلقہ میں چلے گئے ۔تقریبا ایک گھنٹہ کے ملاقات کے بعد جدائی تو ہوگئی لیکن ذہن و ماغ پر ان کی شخصیت کے انمٹ نقوش ہمیشہ کیلۓ کندہ ہوگیا،مجھے شاعر کا وہ کلام یاد آتاہے اجالے اپنی یادوں کو ہمارے ساتھ رہنے دونہ جانے کس گلی میں زندگی کی شام ہوجائے۔
امان اللہ شفیق تیمی مدھوبنی بہار
Email. amanullahtaimi12th@gmail.com
Mob.9546884882
مدارس اسلامیہ کی تاریخ اور ہندوستانی مسلمانوں پر اس کے اثرات
Pingback: ناجیہ کو پی ایچ ڈی کی ڈگری تفویض ⋆