حضور صدرالافاضل مرادآبادی اورعلم تفسیر
حضور صدرالافاضل مرادآبادی اورعلم تفسیر :: از: محمد نفیس القادری امجدی مدیر: اعلی سہ ماہی عرفان رضا مرادآباد
حضور صدرالافاضل مرادآبادی اورعلم تفسیر
بسم اللہ الرحمن الرحیم
قرآن حکیم اہل اسلام اور پوری انسانیت کے لیے دنیا و آخرت کے تمام تر امور و معاملات میں ہدایت و رہنمائی کا سر چشمہ ہے۔مگر اس کے فیوض و برکات سے استفادہ اسی ُوقت ممکن ہے جب معلوم ہو کہ قرآن کریم میں کیا بیان ہوا ہے؟۔
جب اسلام کی نورانی شعاعیں سر زمین عجم میں پہنچیں تو اہل عجم کو احکام قرآن مجید سمجھانے کے لیے علماے دین و ملت نے دیگر زبانوں میں تراجم کیے اور تفسیریں لکھیں بالخصوص اردوزبان کی ترقی کے پیشِ نظر اور احکام کتاب الله کو جاننے کے لیے علماے اہل سنت ہند و پاک نے بھی متعدد اردو تفاسیر قرآن تحریر کی ہیں۔ انھیں تفاسیر میں ایک مشہور ترین تفسیر تفسہر خزائن العرفان بھی ہے، اس کا پورا نام خزائن العرفان فی تفسیر القرآن ہے ۔
اس کے مصنف مفسر قرآن حضور صدر الافاضل علامہ سید محمد نعیم الدین مرادآبادی علیہ الرحمہ ہیں۔ یہ تفسیر مجدد اعظم امام احمد رضا قدس سرہ کے نادر روزگار ترجمہ قرآن: کنز الایمان ساتھ دو بار صدر الافاضل کی حیات طیبہ میں ہی مطبع اہل سنت مرادآباد سے شائع ہوئی اور اب تک مسلسل شائع ہورہی ہے۔
بلکہ اب تو متعدد زبانوں میں چھپ کر قارئین اور احساب اہل سنت وجماعت سے خراج تحسین قبول کر رہی ہے۔
علم تفسیر میں حضور صدرالافاضل کے کمالات ومحاسن اور تعمق وزرف نگاہی پر کچھ تبصرہ کرنے سے قبل علم تفسیر کی تعریف،موضوع،شرائط تفسیر،شرائط مفسر،قواعد تفسیر جیسے ضروری امور پر مختصر توضیحات ملاحظہ کریں۔
تفسیر کی تعریف:
تفسیر ایسا علم ہے جس میں قرآن کریم کے احوال سے بحث کی جاتی ہےاس لحاظ سے کہ نزول میں وہ مکی ہے یا مدنی، حضری ہے یا سفری، اس کی سند کیا ہے ،طرز ادا کیا ہے،الفاظ کیا ہیں، احکام سے متعلق معانی کیا ہیں اور اس طرح کی دوسری چیزیں۔
موضوع:
مذکورہ حیثیت سے کلام الٰہی۔
شرائط تفسیر : حضرت امام جلال الدین سیوطی علیہ الرحمہ نے قرآن حکیم کی تفسیر کے لیے پندرہ علوم و فنون میں مہارت تامہ کی شرط لگائی ہے۔
جو شخص ان علوم و فنون میں سے کسی ایک میں بھی ناقص ہو اسے قرآن حکیم کی تفسیر کرنے کا حق نہیں ہے۔
وہ علوم یہ ہیں:
- (1)لغت عربیہ
- (2)علم النحو
- (3)علم الصرف
- (4)علم الاشتقاق
- (5)علم المعانی
- (6)علم البیان
- (7)علم البدیع
- (8)علم القرات
- (9)قواعد شرعیہ
- (10)اصول فقہ
- (11)علم اسباب النزول
- (12)علم ناسخ و منسوخ
- (13)علم فقہ
- (14)علم الحدیث
- (15)علم الموہبہ۔
اور بعض مفسرین کرام نے پچس علوم و فنون کی شرط لگائی ہے۔
شرائط مفسر: مفسر قرآن مجید کے لیے جن شرائط کا ہونا مستند مفسرین کرام نے لازم و ضروری قرار دیا ہے۔
وہ مندرجہ ذیل ہیں:
(1)ذکی، فہیم ہو۔قرآن فہمی کی کامل و مکمل مہارت رکھتا ہو۔
(2)علوم مذکورہ بالا میں ماہر و حاذق اور تبحر کار اساتذہ کرام سے شاگردی حاصل کی ہو۔
(3)علماے معاصرین اور فضلائے ہم زبان کی نظر میں اس کا علم، فہم و تقوی معتبر ہو۔
(4)خود رائے اور متکبر نہ ہو۔
(5)سنی اور صحیح العقیدہ ۔
قواعد تفسیر: تفسیر قرآن کے لیے پانچ قواعد ضروری ہیں:
(1)تفسیر القرآن بالقرآن
(2)تفسیر القرآن بالحدیث
(3)تفسیر القرآن باقوال الصحابہ
(4)تفسیر ان امور سے جو لغت عربیہ اور قواعد اسلامیہ کے متعلق ہوں۔
(5)تفسیر کی وہ قسم جو وجوہ مذکورہ میں سے کسی ذریعہ سے ثابت اور متعین ہو۔ (تفسیر روح البیان جلد اول۔مقدمہ)
ان مبادیات علم تفسیر کی معرفت کے بعد جب ہم مفسر قرآن حضور صدر الافاضل علامہ سید نعیم الدین مرادآبادی اور اس کی نادر روزگار تفسیر پر غور کرتے ہیں تو یہ حقیقت آفتاب نیم روز کی طرح کھل کر سامنے آتی ہے آپ مذکورہ بالا شرائط پر سو فیصد کھرے نظر آتے ہیں اور آپ کی تفسیر مذکورہ قواعد پر کامل ومکمل دکھائی دیتی ہے۔
تفسیر خزائن العرفان کے اسلوب :
حکیم الامت حضرت احمد یار خاں نعیمی قدس سرہ تفسیر خزائن العرفان کے بارے میں لکھتے ہیں: اردو تفاسیر میں سب سے بہتر (ممتاز) خزائن العرفان حضور صدر الافاضل حضرت علامہ سید محمد نعیم الدین مرادآبادی علیہ الرحمہ کی ہے۔ یہ تفسیر دراصل امام احمد رضا خان قادری محدث بریلوی قدس سرہ کےترجمہ کنز الایمان کے ساتھ حواشی میں لکھی گئی ہے اس حواشی تفسیر میں مصنف کا اسلوب بیان یہ ہے۔
کہ جس سورت کی تفسیر کرتے ہیں وہ جتنے بھی ناموں سے منسوب ہو،تمام کو تحریر کرتے ہیں اور سورتوں کے فضائل بھی بیان کرتے ہیں سب سے پہلے سورت کا مکی و مدنی ہونا بیان کرتے ہیں آیات ،حروف اور کلموں کی تعداد بیان کرتے ہیں آیات کے سبب نزول اور جن سورتوں میں کوئی آیت ناسخ ومنسوخ ہونے نہ ہونے کو بھی بیان کرتے ہیں جیسا کہ سورہ فاتحہ کی تفسیر میں وضاحت کرتے ہیں کہ اس میں کوئی آیت منسوخ نہیں ہے۔
ترجمہ کو چھوٹے چھوٹے حصوں میں تعین کرتے ہیں اور ان کو گنتی سے واضح کرتے ہیں کہ فلاں حصے کی تفسیر فلاں ہے اور نیچے تفسیر میں بھی وہ نمبر تشکیل دیتے ہیں جو کہ قاری کو سمجھنے میں آسانی کا سبب بنتا ہے آپ کی تفسیر انتہائی سہل انداز میں ایک جامع گفتگو اور عین برضائے الہی کا خوب صورت امتزاج ہے جہاں بھی فقہی مباحث کا ذکر آتا ہے وہاں “مسئلہ ” کے عنوان کے تحت جتنے بھی متعلقہ مسائل ہوتے ہیں بیان کر دیتے ہیں۔
مفسر حنفی ہونے کی وجہ سے مسائل میں احناف ہی کی آراء کو واضح کر کے مسئلہ بیان کرتے ہیں اس لیے اس تفسیر میں حنفی کتب کے حوالہ جات ہی موجود ہیں جن میں شامی ،عالمگیری اور ردالمختار نمایاں ہیں۔ تحریر کے اندر ہی حوالہ جات بیان کرتے ہیں مگر پورا حوالہ موجود نہیں ہے اس تفسیر کے تفسیری ماخذات میں تفسیر خازن ،تفسیر بیضاوی ،تفسیر جمل اورتفسیر مدار ک خصوصی طور پرشامل ہیں۔ (دیباچہ تفسیر نعیمی)
تفسیر خزائن العرفان کے مفسرات :
جس طرح حضور سیدی سرکار اعلی حضرت امام احمد رضا قادری محدث بریلوی قدس سرہ کا ترجمہ قرآن “کنزالایمان” تمام اردو تراجم میں فوقیت رکھتا ہے اسی طرح حضور صدر الافاضل سید محمد نعیم الدین مرادآبادی علیہ الرحمہ کی تفسیر” خزائن العرفان”اردو تفاسیر میں نمایاں وممتاز ہے۔اردو زبان میں قرآن پاک کی متعدد تفسیریں لکھی گئیں۔
اغیار کے علاوہ علماے اہل سنت نے بھی قرآن مجید کی تفسیر لکھنے میں بڑی اہم کاوشیں انجام دیں مگر جس اختصار،جامعیت اور سلیس انداز میں حضور صدر الافاضل نے کنزالایمان کی تفسیر رقم کی ہے اس کا متبادل پیش نہیں کیا جا سکتا۔
تفسیر خزائن العرفان بلا شبہ علم و معرفت کا عظیم خزینہ ہے جس کے مطالعہ کے بعد قرآن کے صحیح معنیٰ و مطالب تک رسائی بہت آسان ہو جاتی ہے۔ساتھ ہی جن نام نہاد مفسرین نے قرآنی آیات کی خود ساختہ تفسیریں کی ہیں ان کا چہرہ بھی بے نقاب ہو جاتا ہے۔اسلام کے مسلمہ عقائد میں سے جن امور کو یہود و نصاری اور منافقین و خوارج نے متنازع بنا نے کی مذموم کوششیں کیں ان میں سے ایک علم غیب بھی بے۔
قرآن مقدس میں علم غیب کے اثبات ونفی دونوں کے متعلق آیتیں موجود ہیں۔مگر کچھ لوگوں نے دانستہ طور پر رسول اکرم کے علم پر اعتراض کرنا شروع کیا اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے غیب کا علم ماننے سے انکارکردیا اور مسلسل یہ پروپیگنڈہ کرتے رہے کہ غیب کا علم صرف اللہ کو ہے۔
جو حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم یا کسی دوسرے نبی ورسول کے لئے غیب کا علم مانے تو وہ مشرک ہے۔اس طرح وہ قرآن کی کئی آیات جن سے انبیا ورسل علیھم السلام کے لئے غیب کا اثبات ہوتا ہے انکارکرکے خود ہی کفر کے غار عمیق میں جا پہنچے۔
اعلی حضرت امام احمد رضا خان قادری محدث بریلوی قدس سرہ نے دونوں قسم کی آیتوں کے درمیان نہایت خوبصورت تطبیق کرتے ہوئے فرمایا کہ جن آیات سے غیر خدا کے لئے علم غیب کی نفی ہوتی ہے اس سے مراد ذاتی علم غیب ہے۔
یعنی بنا اللہ کے بتائے کوئی غیب نہیں جانتا یہ صرف اللہ کی صفت ہے اور جن آیات سے خاصان خدا یعنی انبیا ورسل خصوصا حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے لئے غیب کا ثبوت ہے ان سے مراد عطائی علم غیب ہے۔ذاتی اور عطائی فرق کے ساتھ علم غیب کا عقیدہ رکھنے سے نہ تو قرآن کی کسی آیت کا انکار لازم آتا ہے اور نہ ہی اللہ کی ذات میں کسی مخلوق کو شریک ٹھہرانے کا سوال اٹھتا ہے۔
حضور صدرِ الافاضل علامہ سید محمد نعیم الدین مرادآبادی علیہ الرحمہ نے خزائن العرفان میں علم غیب کے مسئلہ کو مزید اجاگر کیا ہے اور جگہ جگہ قرآنی آیات،احادیث صحیحہ اور جمہور مفسرین کے اقوال و آراء سے استدلال کرکے چور راستے پر پہرہ بٹھا دیا ہے۔
بدمذہب خصوصیت کے ساتھ اہل حدیث اور دیوبندی جب یہ مسئلہ زیر بحث آتا ہے کہ اللہ رب العزت جل جلالہ نے اپنے حبیب ﷺ کو علم ماکان ومایکون سے سرفراز فرمایا ہے تو آسمان سر پر اٹھا لیتے ہیں اور سورہ یسین شریف کی یہ آیت “وَمَا عَلَّمْنٰہُ الشِّعْرَ وَمَا یَنْبَغِیْ لَہُ” اور ہم نے ان کو شعر کہنا نہ سکھایا اور نہ وہ ان کی شان کے لائق ہے”بطور دلیل پیش کرتے ہیں کہ دیکھو اللہ خود فرمارہا ہے کہ ہم نے نبی کو شعر کی تعلیم نہ دی اور آپ کہتے ہیں کہ نبی کو ہرچیز کا علم ہے۔
حالاں کہ اس بات سے آیت کا کوئی تعلق نہیں کہ نبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کو غیب کا علم حاصل نہیں۔مذکورہ آیت کا نزول اس وقت ہوا جب کہ کفار و مشرکین نبی کریم آخر الزماں صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کو جھوٹا اور آپ پر اترنے والی مقدس کتاب قرآن مجید کو ایک من گھڑت اور جھوٹی کتاب باور کرانے کے درپے تھے۔اللہ رب العزت نے اس آیت کے ذریعہ اپنے کلام اور محبوب پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت کو بیان فرمایا کہ میرا رسول سچا ہے اور اس پر جو کلام اترتا ہے وہ بھی بالکل برحق ہے۔
اب اس سلسلے میں حضور صدر الافاضل کی ایمان افروز تفسیر ملاحظہ کیجیے۔آپ اس آیت کی تفسیر میں مدارک،جمل اور روح البیان کے حوالے سے لکھتے ہیں:”معنیٰ یہ ہیں کہ ہم نے آپ کو شعر گوئی کا ملکہ نہ دیا یا یہ کہ قرآن تعلیم شعر نہیں ہے اور شعر سے کلام کاذب مراد ہے خواہ موزوں ہوں یا غیر موزوں اس آیت میں اشارہ ہے کہ حضور سید عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے علم اولین و آخرین تعلیم فرمائے گئے جن سے کشف حقائق ہوتا ہے اور آپ کی معلومات واقعی ونفس الامری ہیں کذب شعری نہیں جو حقیقت میں جہل ہے وہ آپ کی شان کے لائق نہیں۔
اور آپ کا دامن تقدس اس سے پاک ہے۔ اس میں شعر بمعنی کلام موزوں کے جاننے اور اس کے صحیح وسقیم ،جید وردی کو پہچاننے کی نفی نہیں۔ علم نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم میں طعن کرنے والوں کے لئے یہ آیت کسی طرح سند نہیں ہوسکتی اللہ تعالیٰ نے حضور کو علوم کائنات عطا فرمائے۔
اس کے انکار میں اس آیت کو پیش کرنا محض غلط ہے۔”شان نزول بیان کرتے ہوئے مزید رقم طراز ہیں:”کفار قریش نے کہا تھا کہ محمد (صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم) شاعر ہیں اور وہ جو فرماتے ہیں یعنی قرآن پاک وہ شعر ہے۔اس سے ان کی مراد یہ تھی کہ معاذاللہ یہ کلام کاذب ہے جیسا کہ قرآن کریم میں ان کا مقولہ نقل فرمایا گیا ہے “بل افتراہ بل ھو شاعر” اسی کا اس آیت میں رد فرمایا گیا کہ ہم نے اپنے حبیب صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کو ایسی باطل گوئی کا ملکہ ہی نہیں دیا اور یہ کتاب اشعار یعنی اکاذیب پر مشتمل نہیں۔”علم غیب کے عنوان پر صدر الافاضل نے ایک مستقل کتاب لکھی ہے جس کا نام “الکلمة العليا لاعلاء علم المصطفٰى “ہے۔
صدرالافاضل بلند پایہ مفسر ہونے کے ساتھ ایک عظیم فقیہ بھی تھے۔تفسیر قرآن لکھتے وقت جہاں ضرورت محسوس ہوئی وہاں فقہی مسائل بھی قلم بند کیے ہیں اور مسلک احناف کی عظمت و برتری کو آشکارہ کیا ہے۔بطور نمونہ صرف ایک مثال پیش کرتا ہوں۔
کہ تمام علماء کرام وقراء عظام کا اس امر پر اتفاق ہے کہ ظا اور ضاد ایک حرف نہیں بلکہ الگ الگ حرف ہیں اور دونوں کا مخرج بھی الگ ہے۔
لہذا دونوں حرف کو ان کے مخرج سے جدا جدا ادا کرنا لازم و ضروری ہے۔مگر ماضی بعید و قریب کے کچھ مترجمین ومفسرین اور قرا نے سہولت و آسانی کے نام پر ضاد کو مشابہ بالظا پڑھنے کی راے دے ڈالی اور کتابوں میں لکھ بھی دیا۔
صدر الافاضل نے جمہور علما،فقہا اور قرا کے مطابق اس مسئلہ کا شرعی حکم بیان فرمایا۔سورۂ فاتحہ کی آخری آیت کی تفسیر کرنے کے بعد لکھتے ہیں:ضاد اور ظا میں مباینت ذاتی ہے۔ بعض صفات کا اشتراک انہیں متحد نہیں کرسکتا لہذا غیر المغضوب بظا پڑھنا اگر بقصد ہو تو تحریف قرآن و کفر ہے ورنہ ناجائز۔جوشخص ضاد کی جگہ ظا پڑھے اس کی امامت جائز نہیں۔”(خزائن العرفان،ص، 1089)۔
تفسیر علوم خمسہ:
علوم خمسہ کے بارے میں اللہ تبارک و تعالٰٰی ارشاد فرماتا ہے۔ “اِنَّ اللّٰهَ عِنۡدَهٗ عِلۡمُ السَّاعَةِ ۚ وَيُنَزِّلُ الۡغَيۡثَ ۚ وَيَعۡلَمُ مَا فِى الۡاَرۡحَامِ ؕ وَمَا تَدۡرِىۡ نَفۡسٌ مَّاذَا تَكۡسِبُ غَدًا ؕ وَّمَا تَدۡرِىۡ نَـفۡسٌۢ بِاَىِّ اَرۡضٍ تَمُوۡتُ ؕ اِنَّ اللّٰهَ عَلِيۡمٌ خَبِيۡرٌ” بے شک اللہ کے پاس ہے قیامت کا علم اور اتارتا ہے مینھ اور جانتا ہے جو کچھ ماؤں کے پیٹ میںہے اور کوئی جان نہیں جانتی کہ کل کیا کمائے گی، اور کوئی جان نہیں جانتی کہ کس زمین میں مرے گی بے شک اللہ جاننے والا بتانے والا ہے ۔ ( سورۃ لقمان آیت 34 ) ۔
اس آیت مبارکہ کے تحت حضور الافاضل سید محمد نعیم الدین مراد آبادی علیہ الرحمہ عربی کی مشہور و معتمد تفاسیر تفسیر خازن ، تفسیر بیضاوی ، تفسیر احمدی اور تفسیر روح البیان کے حوالے سے اپنی تفسیر خزائن العرفان میں لکھتے ہیں:
اس آیت میں جن پانچ چیزوں کے علم کی خصوصیت اللہ تعالٰی کے ساتھ بیان فرمائی گئی انھیں کی نسبت سورہ جن میں ارشاد ہوا۔”عٰلِمُ الْغَیْبِ فَلَا یُظْهِرُ عَلٰى غَیْبِهٖۤ اَحَدًا۔اِلَّا مَنِ ارْتَضٰى مِنْ رَّسُوْلٍ” غرض یہ کہ بغیر اللہ تعالی کے بتائے ان چیزوں کا علم کسی کو نہیں اور اللہ تعالٰی اپنے محبوبوں میں سے جسے چاہے بتائے اور اپنے پسندیدہ رسولوں کو بتانے کی خبر خود اس نے سورہ جن میں دی ہے ، خلاصہ یہ کہ علم غیب اللہ تعالٰی کے ساتھ خاص ہے اور انبیا و اولیا کو غیب کا علم اللہ تعالٰی کی تعلیم سے بطریق معجزہ و کرامت عطا ہوتا ہے۔
یہ اس اختصاص کے منافی نہیں اور کثیر آیتیں اور حدیثیں اس پر دلالت کرتی ہیں۔بارش کا وقت اور حمل میں کیا ہے اور کل کو کیا کرے اور کہاں مرے گا ان امور کی خبریں بکثرت اولیا و انبیا نے دی ہیںاور قرآن و حدیثسے ثابت ہے حضرت ابراہیم علیہ السلام نے حضرت اسحٰق علیہ السلام کے پیدا ہونے کی اور حضرت زکریا علیہ السلام کو حضرت یحیٰی علیہ السلام کے پیدا ہونے کی اور حضرت مریم علیہ السلام کو حضرت عیسٰی علیہ السلام کے پیدا ہونے کی خبریں دیں۔ تو فرشتوں کو بھی پہلے سے معلوم تھا کہ ان حملوں میں کیا ہے۔
اور ان حضرات کو بھی جنھیں فرشتوں نے اطلاعیںدی تھیں اور ان سب کا جاننا قرآن کریم سے ثابت ہے تو آیت کے معنی قطعا یہی ہیںکہ بغیر اللہ تعالٰی کے بتائے کوئی نہیں جانتا۔ اس کے یہ معنی لینا کہ اللہ تعالٰی کے بتانے سے بھی کوئی نہیںجانتا محض باطل اور صدہا آیات و احادیث کے خلاف ہے ۔ (تفسیر خزائن العرفان ص 746)۔
مذکورہ بالا عبارت سے روز روشن کی طرح واضح ہے کہ سوائے اللہ عزوجل کے ذاتی طور پر کوئی بھی ان علوم کے بارے میں نہیں جانتا ۔
لیکن اللہ تعالٰی نے اس آیت کے آخر میں یہ بھی واضح کردیا کہ اللہ تعالٰی جاننے والا بتانے والا ہے یعنی جس کو چاہے اپنے انبیاء اور اولیاء اورانہیں خبردار کردے ۔ اور بے شمار آیات و احادیث اس بات کی شاھد ہیں کہ اللہ تعالٰی نے حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو تمام علوم غیبیہ سے خبردار کیا ۔ یہ بھی ملاحظہ کریں: {وَمَا اَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِکَ اِلاَّ رِجَالاً نُوْحِیْ اِلَیْہِم} (النحل :۴۳)
اور ہم نے تم سے پہلے نہ بھیجے مگر مرد، جن کی طرف ہم وحی کرتے۔ حضور صدر الافاضل سید محمد نعیم الدین مرآدآبادی علیہ الرحمہ اپنی تفسیر خزائن العرفان میں آیت کے تحت فرماتے ہیں: ’’یہ آیت مشرکین مکہ کے جواب میں نازل ہوئی، جنہوں نے سید عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کا اس طرح انکارکیاتھا کہ اللہ تعالیٰ کی شان اس سے برترہے کہ وہ کسی بشر کو رسول بنائے۔ انھیں بتایاگیا کہ سنت الٰہی اسی طرح جاری ہے ،ہمیشہ اس نے انسانوں میں سے مردوں کو ہی رسول بناکربھیجا۔‘‘ (خزائن العرفان سورہ نحل ف: ۸۹ ص،488)۔
محترم قارئین! اس مختصر تحریر سے اس بات کا بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ حضور صدر الافاضل کو تفسیر کے ان تمام علوم و فنون پر مہارت تامہ اور ان شرائط وقواعد پر ملکہ راسخہ حاصل تھی جو شارحین قرآن کے لیے لازم و ضروری ہیں۔
علم تفسیر کے قوانین و ضوابط اور شرائط تفسیر و مفسر کی بنیاد پر حضور صدر الافاضل بحیثیت مفسر قرآن اعلی مقام پر فائز ہیں اور آپ کی عظیم تصنیف خزائن العرفان فی تفسیر القرآن دیگر تفاسیر سے ممتاز و نمایاں نظر آتی ہے۔
از قلم :محمد نفیس القادری امجدی۔
خطیب و امام اعلی حضرت جامع مسجد منڈیا گنوں سہالی۔
و صدر المرسلین جامعہ قادریہ مدینۃ العلوم گلڑیامعافی مرادآباد یوپی الہند۔
Pingback: محفلِ ختمِ بخاری شریف جامعہ نعیمیہ مرادآباد میں منعقد ہوئی ⋆