اہل علم کے لیے سوشل میڈیا کا استعمال

Spread the love

تحریر: حافظ عبدالرشید عمری :: اہل علم کے لیے سوشل میڈیا کا استعمال

اہل علم پر امت مسلمہ کی اسلامی رہ نمائی کا فریضہ عائد ہوتا ہے، اہل علم کو قرآن و سنت کے نصوص کے صحیح معانی، مطالب اور مفاہیم کا صحیح ادراک ہونا چاہیے۔

اس کے بعد ہر عالم دین کو اپنے علم و فہم کے مطابق دعوت و تبلیغ اور امر بالمعروف و نہی عن المنكر کا فریضہ انجام دینا ہے۔

اور اس شرعی فریضہ کی انجام دہی کے لئے شرعی حیثیت سے جائز مختلف وسائل و ذرائع ابلاغ کو بروئے کار لایا جا سکتا ہے۔

آج کل سوشل میڈیا کا دور ہے، مسلمانوں کو وقت ضرورت اور بقدر ضرورت سوشل میڈیا کے ذریعے دین کا بنیادی علم اور اہم اسلامی احکام و مسائل سکھانے کے لیے علماے کرام کو اس کے استعمال کرنے میں بھی شرعی طور پر کوئی حرج نہیں ہے،

لیکن سوشل میڈیا کے استعمال میں اہل علم اور عام مسلمانوں دونوں کو بھی اس بات کا خیال رکھنا بےحد ضروری ہے کہ سوشل میڈیا کا استعمال فرائض کی عدم ادائیگی، حقوق کی عدم ادائیگی، اور گناہوں کا ارتکاب کا باعث نہ بننے پائے۔

 

اور سوشل میڈیا کے کثرت استعمال سے کہیں ایسا نہ ہو کہ عام مسلمانوں کا علما کی وعظ و نصیحت اور دینی دروس کی مجلسوں میں براہ راست شرکت سے دوری پیدا ہو جائے۔ اور عام مسلمانوں کے دلوں میں علماء کی مجلسوں کی فضیلت اہمیت اور ضرورت کا احساس باقی نہ رہے۔

اور حصول علم میں میڈیا کے کثرت استعمال کہیں ایسا نہ ہو کہ اہل کے علم کے اندر براہ راست کتابوں کے مطالعہ کا شوق باقی نہ رہے۔

اور صرف سوشل میڈیا میں آنے والے مختلف اسلامی موضوعات کے مطالعہ پر ہی اکتفا کیا جائے،اس طرح اہل علم کے علم میں علمی رسوخ پیدا نہیں ہوگا۔

ناقص علم و فہم کے ساتھ علماے کرام مسلمانوں میں دعوت و تبلیغ اور امر بالمعروف و نہی عن المنكر کا فریضہ اور اسلامی احکام و مسائل کی توضیح و تشریح کا فریضہ کس طرح انجام دے پائیں گے۔

عرب و عجم کے اکثر بڑے بڑے مستند علماء کرام کی اہل علم کو یہی نصیحت ہے کہ دعوت و تبلیغ اور امر بالمعروف و نہی عن المنكر کے فریضہ کی انجام دہی کے لئے بقدر ضرورت سوشل میڈیا کا استعمال کریں۔

اگر اس کے استعمال سے اہل علم کے علم میں کمی آرہی ہے اور اہم فرائض سے غفلت ہو رہی ہے اور وقت کا ضیاع ہورہا ہے، تو اہل علم کو اس سے دور رہنے کی ضرورت ہے۔

اگر عوام اور اہل علم سوشل میڈیا سے لگاؤ اس لئے رکھتے ہیں کہ لوگوں کے مختلف احوال سے آگاہی حاصل ہوگی،اور مختلف لوگوں کے بارے میں ڈھیر ساری معلومات حاصل ہوں گی۔

تو ایسا لگاؤ شرعی طور پر کوئی قابل تعریف امر نہیں ہے۔ مثلا ٹویٹر میں پوری دنیا کے مختلف ممالک کے کروڑوں اجنبی لوگ ہوں گے، کن کن کے حالات سے آگاہی حاصل کرو گے، اور شرعی طور پر کوئی اس کا مکلف بھی نہیں ہے۔

اور جو شخص سوشل میڈیا اور انٹرنیٹ کے مختلف ویبسائٹ سے کافر و مشرک یہود و نصاری وغیرہ جو باطل دین کے ماننے والے ہیں، ان لوگوں کے بارے میں مختلف معلومات حاصل کرے گا۔

تو اس کا دینی اور اخروی حیثیت سے کیا فائدہ ہے۔

اور پوری دنیا کے مختلف ممالک میں موجود مسلمانوں کے احوال سے بھی آگاہ ہونے کا دینی اعتبار سے کیا فائدہ ہے، جو جس ملک میں، جس شہر میں اور جس معاشرے میں رہتا ہے۔

وہاں کے لوگوں کے احوال سے واقفیت بھی اس لئے حاصل کی جاتی ہے، تا کہ دعوت و تبلیغ کے فریضہ کی انجام دہی میں آسانی ہو سکے۔

بہرحال اہل علم کو اور عوام کو سوشل میڈیا کا استعمال صرف اور صرف دینی اور اخروی حیثیت سے کرنے کی ضرورت ہے ۔ اور سوشل میڈیا کا استعمال دنیاوی امور میں بھی شرعی حیثیت سے جائز امور میں کرنے کی ضرورت ہے۔

اگر سوشل میڈیا کے استعمال سے دین کا اور آخرت کا نقصان ہو رہا ہے تو اس سے اجتناب کرنا شرعی فریضہ ہے۔

اللہ تعالیٰ عوام و خواص کو جدید ٹیکنالوجی کی شرعی طور پر جائز مختلف چیزوں کا استعمال شریعت کے مطابق کرنے کی توفیق عطا فرمائے، آمین ۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *