پچیس لاکھ علماے کرام و حفاظ عظام کی ضرورت

Spread the love

پچیس لاکھ علماے کرام و حفاظ عظام کی ضرورت

کانگریس کے ڈاکٹر منموہن سنگھ کی سرکارنے مسلمانوں کی تعلیمی و سماجی حالات کو جاننے کے لیے2005 عیسوی میں جسٹس راجندر سچر (ریٹائرڈ چیف جسٹس دلی ہائی کورٹ) کی صدارت میں سات رکنی کمیشن بنائی تھی۔

کمیشن کی رپورٹ 2006-11-30 کو لوک سبھا میں پیش کی گئی۔ 403 صفحات کی یہ رپورٹ بہت ہی وسیع اورجامع ہے۔

رپورٹ کے منظر عام پر آنے کے بعد ہمارے قائدین کو مسلمانوں کے صحیح حالات کا صحیح اندازہ ہوا۔ اور انھوں نے اصلاح کی کچھ کوششیں بھی کیں۔

۔1 مسلمانوں کی تعلیمی ومعاشی حالات ہریجنوں اور آدی واسیوں سے بھی زیادہ خراب ہیں۔

۔ 2 – 2001 کی مردم شماری کے مطابق مسلمانوں کی تعلیمی شرح خواندگی ٪59.1 تقریباً 60 فیصد ہے۔ جو قومی شرح خواندگی میں سب سے کم ہے۔ ان 60 فیصد پڑھنے والوں میں سے ٪66 فیصد سرکاری اسکول میں پڑھتے ہیں۔ اور٪30 فیصد پرائیویٹ سکول میں۔ جبکہ مدارس میں پڑھنے والوں کی تعداد محض ٪4 فیصد ہے۔

۔ 3- اس میں بھی ٪42 فیصد مسلم بچے ہی مڈل اسکول تک کی تعلیم حاصل کرتے ہیں۔ اور٪25 فیصد سکنڈری اورپھر٪16 فیصد ہائی سکنڈری۔ اور٪4 فیصد مسلم بچے بچیاں ہی گریجویشن کر پاتے ہیں جنہیں ہم کسی طرح سے تعلیم یافتہ کہہ سکتے ہیں۔

ہندوستان میں مسلمانوں کی تعداد تقریباً 25 کروڑ ہے لیکن اسلامی احکام پر چلنے والوں کی تعداد کتنی ہے، اسلامی حمیت کے ساتھ زندگی گزارنے والوں کی تعداد کتنی ہے، اسلامی اصولوں کی پابندی کرنے والوں کی تعداد کتنی ہے؟۔


۔4٪ فیصد جو بچے مدارس میں پڑھتے ہیں، ان میں بھی دینی تعلیم چھوڑنے والوں کی ایک بہت بڑی تعداد ہے۔ اس کے باوجود یہ کہا جاسکتا ہے کہ یہ٪4 فیصد لوگ کم ازکم دین و سنت کے فرض علوم سے واقف ہیں، اور کہیں نہ کہیں اسلامی تقاضوں کو سمجھتے ہیں۔ لیکن مسلمانوں کے٪96 فیصد بچے، (جو پرائیویٹ اسکولوں میں ٪30 فیصد اور سرکاری اسکولوں میں ٪66 فیصد پڑھتے ہیں) ان کے دین و سنت کی تعلیم کا کیا حال ہے؟۔

اس مضمون کو بھی پڑھیں : دو رکعت کے امام اور زمینی سچائی
شاید یہی وجہ ہے کہ نام کے مسلمانوں کی تعداد کروڑوں میں ہے اور عملی مسلمان صرف لاکھوں میں ہیں۔ اور نتیجتاً یہ نام کے مسلمان جرائم کرتے ہیں اور بد نام اسلام ہوتا ہے۔


مسلمانوں کے دو معروف دینی مراکز “مساجد” اور “مدارس” ہیں ۔جہاں دین و سنت کی تعلیم و تربیت دی جاتی ہے اور٪4 فیصد بچے ہی مستفیض ہو رہے ہیں۔٪96 فیصد بچوں کو دین و سنت سے آراستہ کرنے کے لیے پورے ملک میں کم و بیش پچاس لاکھ مکاتب کی ضرورت ہے۔

وہ اس طرح کہ مکتب کا دورانیہ ڈیڑھ گھنٹہ سے دو گھنٹے کا ہو سکتا ہے۔ کیونکہ ان سارے بچوں کو اسکولی تعلیم بھی حاصل کرنی ہے۔اور یہ وقت فجر بعد، ظہر بعد، عصر بعد اور مغرب بعد بھی ہو سکتا ہے۔(موقع اور محل کے اعتبار سے)
اور اگر ایک معلم دو وقتوں کا مکتب پڑھائے تو اس طرح کم از کم تقریبا پچیس لاکھ علماء و حفاظ کی ضرورت ہوگی۔

اس مضمون کو بھی پڑھیں : ہیپاٹائٹس سے آگاہی
بہرحال اگر فرض کر لیا جائے کہ ہندوستان میں 10 کروڑ مسلمان بچے 16 سال سے کم عمر کے ہیں۔ اور مکتب میں ہر 20 بچے پر ایک معلم ہونا چاہیے۔ اور ہر معلم دو وقت کے مکتب میں پڑھائے تو تقریباً پچیس لاکھ علما و حفاظ و قراء کی ضرورت ہوگی۔ اس سے دین و سنت کے ساتھ علماء کرام و حفاظ کرام کی خدمت ہوگی۔ اوران شاءاللہ دین و سنت کی بقا اور ترویج واشاعت، مکاتب سے ہوگی۔


ضرورت ہے کہ علماے کرام دانش وران ملت کے ساتھ مل کر قیام مکاتب کی تحریک کو ایک مشن کے طور پر شروع کریں۔ اور میری ناقص تجویز ہے کہ مرکزی حیثیت کے قائدین اور علماے کرام ضلعی سطح کے علماے کرام کی ایک نمائندہ ٹیم بنا کر انہیں یہ ذمہ داری سپرد کریں کہ ہر بیس پچیس گھر میں ایک جزوقتی مکتب قائم کیا جائے۔ اور اس کے لیے کسی ادارے کی تعمیر کی ضرورت نہیں ہے بلکہ جہاں مساجد ومدارس ہیں انہیں مکاتب کے لیے بھی استعمال کیا جائے۔

اور باقی ہر بیس پچیس گھر پہ کسی صاحب خیر کا ایک بڑا روم یا برآمدہ دو گھنٹوں کے لیے حاصل کیا جائے۔ اور وہیں مکتب قائم کر کے بچوں کو پڑھایا جائے۔ ساتھ ہی ان تمام بچوں کو اسکول میں داخل کرا کر صد فیصد مسلم بچے تعلیم یافتہ ہوں یہ تحریک چلائی جائے۔

مجاہد آزادی علامہ فضل حق خیر آبادی

ہمارے لیے آئیڈیل کون ہیں ؟ 

سیکورازم بچانا ہماری ذمہ داری ہے صاحب


یہ کام بہت آسان ہے، بہت ضروری ہے اور بہت ہی اہم ہے۔ بس اس پر ہمارے قائدین اور علماے کرام کو تھوڑی سی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ ان شاء اللہ دین و سنت کا بہت بڑا کام ہوگا اور بڑی تعداد میں علماے کرام وحفاظ عظام کو دین و سنت کی خدمت کرنے کا موقع بھی فراہم ہوگا۔


محمد شہادت حسین فیضی
9431538584