رختِ سفر باندھ گیا

Spread the love

رختِ سفر باندھ گیا

رئیس التحریر، نازِ اہل سنت ، پیکر علوم و فنون،محقق دوراں ، زینتِ ایوانِ فکر و قلم ، حضرت علامہ یٰسین اختر مصباحی علیہ الرحمہ کی رحلت پر اشک تعزیت

سِلکِ تحریر میں جو لعل و گہر باندھ گیا

آہ وہ شاہِ قلم، رختِ سفر باندھ گیا

کسی پردے سے چھپے گی نہ تجلی اس کی

یاد کے چرخ پہ وہ ایسا قمر باندھ گیا

فیضِ”یٰسین”سے اختر ہوئ اُسکی ہستی

ظلمتوں میں بھی وہ طلعت کا اثر باندھ گیا

علم و عرفاں کا سمندر، وہ رئیس التحریر

خشک صحرا میں بھی فصلِ گلِ تر باندھ گیا

ناشرِ فکرِ رضا ، عشقِ نبی کا مجذوب

حق پہ چلتا رہا ، باطل کی ڈگر باندھ گیا

فن کا سلطان ، مگر تن پہ فقیری پوشاک

خالی ہاتھوں سے وہ اعزاز کا زر باندھ گیا

کیاتحمل تھا کہ ہر سوزِ عداوت سہہ کر

اپنے سایے میں وہ کتنے ہی شجر باندھ گیا

اُسکی غیرت کی جبیں، غیر کے در پر نہ جھکی

چاہے کتنا ہی کوئی نفع و ضرر باندھ گیا

سِحْر انگیز و سَحَرخیز ہے اس کا خامہ

جسطرف چل پڑا، اِکلیلِ ظفر باندھ گیا

اُس کی رحلت کا الم، دل سے نہ جائے گا کبھی

یاد کے دھاگے سے وہ دردِ جگر باندھ گیا

لفظ ملتے نہیں، اِس درد کو کیسے لکّھوں

یوں وہ بچھڑا کہ دل و سَمع و بَصَر باندھ گیا

اشرفیّہ کے در و بام ہیں نازاں اُس پر

قلب میں گرمیِ حق کے وہ شرر باندھ گیا

بن کے اک پیکرِ فیضانِ عزیزی، اُس نے

خیر کو عام کیا ، فتنہ و شر باندھ گیا

بے رکے، بے تھکے، ملت کی نگہبانی کی

کشتئ حق لیے، ہر ایک بھنور باندھ گیا

فن کے اُس شاہ کا اعزاز نہ جانا ہم نے

قوم کے سر پہ جو دستارِ ہنر باندھ گیا

عام ہے سب کیلیے اُس کی ضیاے حکمت

کون کہتا ہے کہ وہ فیضِ نظر باندھ گیا

فضلِ مولیٰ سے چمکتی رہے اُس کی تربت

باغِ ملت میں جو حکمت کے ثمر باندھ گیا

اُس مُدبِّر کی بصیرت پہ فریدی کا سلام

سینۂ شب پہ جو انوارِ سحر باندھ گیا

                 ====

وصال 17 شوال المکرم 1444ھ 7 مئ 2023ع  اتوار رات نو بجکر پچاس منٹ پر … 

شریکِ غم … فریدی صدیقی مصباحی، مدینۃ العرفان مسقط عمان

رختِ سفر باندھ گیا

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *