سہ ماہی مجلہ پاسبانِ ملت سیمانچل امید کی ایک نئی کرن
سہ ماہی مجلہ پاسبانِ ملت سیمانچل امید کی ایک نئی کرن
بشکریہ: حضرت علامہ مفتی نفیس احمد ازہری صاحب
استاذ جامعہ مظہر اسلام بریلی شریف
ما فی الضمیر کی ادائیگی کے لیے اہل علم کے نزدیک عام طور پر دو ذرائع پائے جاتے ہیں ایک لسان اور دوسرا قلم. زبانی ابلاغ تو وقتی طور پر قائم رہتا ہے اگرچہ اس جدید ٹیکنالوجی دور میں اس کی بھی پائیداری کے طریقے ریکارڈ وغیرہ کے ذریعے اخذ کر لیے گئے ہیں
مگر پھر بھی قلمی ابلاغ کی وسعت اہمیت، افادیت اور طولانی آج بھی سیسیہ پلائی دیوار کی طرح قائم تصور کی جاتی ہے اور اس کی جہاں بھر میں کوئی نظیر ومثیل کا سراغ اہل تحقیق کے ہاں ملتی بھی نہیں ہے
آج اس ترقی یافتہ دور میں دنیا والوں کے لیے وہی قوم مرکز نظر وفکر سرخرو باعزت، قابل تقلید و قابل صد تحسین وآفرین ہے جن کے ہاں قلمی خدمات کا دائرہ وسیع ہے جو قلمی طاقتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے نسل نو کو اسلاف کی خدمات، تعلیمات ترجیحات اور ہدایات سے روشناس کراتے ہیں اور جو قدم قدم پر رہنما اصول و ارشادات زمانے کے تقاضے کے مطابق اپنے عقیدت کیشوں ہم نواؤں اور ملی بھائیوں کو پیش کرتے رہتے ہیں۔ ہمارے اسلاف قلمی عظمتوں، رفعتوں اور استحکاموں سے حد درجہ واقف تھے
اس لیے اپنی زندگی کے بیش قیمتی لمحات کتابوں کی تصنیف تحشیہ شروحات اور رسائل و جرائد نکالنے میں صرف کی اور ہرگام پر اپنے دینی بھائیوں کی رہنمائی ان کے نصب العین رہی انہیں بزرگوں کے نقوش پا کو بوسہ دیتے ہوئے ان کی خاک پا آنکھوں کا سرمہ بناتے ہوئے مفکر قوم وملت ناشر مسلک اعلی حضرت ادیب لبیب حضرت علامہ و ومولانا ایوب مظہر نظامی صاحب کے دل کے دروازے پر ایک عزم نے ایک جریدہ نکالنے کی دستک دی اور ذہن نے اس کا خاکہ دیا اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے ہی چند ہی دنوں میں اس صدا نے اہل علم کے اندر ایک قیامت برپا کردی کہ ہم نے تو ایک بات کی اس نے کمال کردیا
جو بھی صورت ہو اسے منزل مقصود تک پہچانا ہم سب کا ملی فریضہ ہے رکاوٹوں کا طوفان ہی کیوں نہ آجائے اسے ساحل سمندر کرنا زندگی کا اہم ہدف بن گیا
سچ ہی کہا مجروح سلطان پوری نے
میں اکیلا ہی چلا تھا جانب منزل مگر
لوگ ساتھ آتے گیے اور کارواں بنتا گیا
سیمانچل کی سرزمین اہل علم ودانش کے لیے زرخیز مانی گئی ہے جہاں سے بے شمار مفسر، محدث مفتی محقق فلاسفر اور یگانئہ روزگار پیدا ہوئے اور جہان رنگ وبو میں ایسے چھائے کہ دنیا ان کے علمی احسانات اور قلمی ودینی خدمات کو کبھی فراموش نہیں کرسکتی
مگر صد حیف کہ ان کی ان خدمات کو صفحئہ قرطاس کی زینت بنانے والی کوئی ٹھوس اقدام کرنے والی تنظیم و تحریک نظر نہیں آتی ہاں چند شاہین صفت اور ستاروں پر کمند ڈالنے والے اشخاص کی ذاتی سعئ پیہم وجہد مسلسل نے کفارے کے طور پر ہی سہی کچھ باقیات ضرور چھوڑے ہیں اور نسل نو اور باعزم و فولادی ہمت و جرات والوں کو دعوت عمل دی ہے غزل اس نے چھیڑی ہے تم ساز دینا ذرا عمر رفتہ کو آواز دینا
جن مبارک و مسعود ہستیوں نے اس سنہرے باب کو وا کیا ان میں امیر القلم ڈاکٹر غلام جابر شمس مصباحی پورنوی ہیں کہ جنہوں نے سیمانچلی اسلاف کی زریں تاریخ کو قلمی شکل بنام کاملان پورنیہ (دو جلد) دی ہے جو کہ اہل سیمانچل کے لیے ایک عظیم تحفہ اور بڑا ہی قابل قدر احسان ہے
یوں ہی ناشر مسلک اعلی حضرت حضرت مولانا مسعود رضا قادری نے بھی خواجئہ وقت امام علم وفن حضور خواجہ مظفر حسین رضوی علیہ الرحمہ پر امام علم وفن نمبر کنز الدقائق استاذی الکریم حضرت علامہ مفتی حسن منظر قدیری علیہ الرحمہ کی سوانح حیات پر مشتمل کنز الدقائق نمبر وغیرہ نکال کر نسل نو کو ان بزرگوں کی ذات سے متعارف کرانے کا بہت ہی شان دار سلسلہ جاری فرمایا ہے انہیں زریں سلسلے کو آگے بڑھاتے ہوئے اور دینی پیغامات اور مسلک اعلی حضرت کی تعلیمات جدید لب ولہجے میں ملک کے گوشے گوشے تک پہنچانے کے لیے نظامی صاحب قبلہ بھی پاسبان ملت کے صفحات لے کر حاضر ہورہے ہیں
نظامی صاحب اور ان کی پوری ٹیم کا یہ تاریخی قدم یقینا قابل صد ستائش ہے کہ اس دور میں کہ جتنے بڑے بڑے رسالے تھے ان میں سے بہوتوں نے اشاعت سے یا تو طویل رخصت لے لی ہے یا پھر وہ خیر آباد کہ چکے ہیں اور کچھ تو وہ ہیں جو فی الحال زندگی کی آخری سانس لے رہے ہیں کب ان کا سایئہ عاطفت قارئین سے اٹھ جائے کہنا بہت ہی مشکل ہے ایسے میں سہ ماہی پاسبان ملت کی اشاعت کا گراں قدر بوجھ اٹھانا یقیناً تائید و فضل الہی کے بغیر ممکن نہیں۔
یہ ایک رسالہ ہی نہیں بلکہ ایک انقلاب ہے ایسا انقلاب جو زبان و ادب کے متوالوں کو جام شیریں سے سیراب کرے گا گلستان ادب میں ایک ایسا پودا اگائے گا جس کی بھینی بھینی خوشبو چہار دانگ عالم میں پھیلے گی اور ہرسو دنیا اس خوشبو سے سرشار، بے خود اور پرکیف ہو اٹھے گی
سیمانچل سے گرچہ علم وداب کی متعدد دھاریں آج بھی نہایت سبک روی سے لاکھوں کو سیراب کرتے ہوئے بہ رہی ہیں مگر یہ درد ناک پہلو بھی ناقابل یقین ہے کہ اتنی وسعت کے باوجود رسالے کے حوالے سے اس کی سرزمین بہت ہی تنگ واقع ہوئی ہے ایک بھی سنیوں کا مذہبی اردو رسالہ وہاں سے نشر نہیں ہورہا ہے
جو کہ واقعی بہت ہی حیرت انگیز ہے اور قابل صد حیف بھی مگر اب یہ جمود وتعطل کا نحوست زدہ سلسلہ رخصت ہوا چاہتا ہے اور نظامی صاحب کی انتھک جد وجہد شب وروز کی تگ ودو اور مسلسل جاں فشانی و عرق ریزی سے رسالہ پاسبان ملت ہماری آنکھوں کو قرار دلوں کو سرور اور روحوں کو مست وبے خود کرنے کے لیے مستعد ہے اور قارئین کی توجہ کا شدت سے منتظر بھی
اس لیے اہل سیمانچل پر لازم ہے کہ اس رسالے کی نشر واشاعت میں حتی المقدور حصہ لیں اہل مدارس اس کا طلبہ کے مابین دل نشیں اسلوب میں تعارف کرائیں اس کی افادیت سے آگاہ کرائیں جو طلبہ خریدنے کی استطاعت رکھتے ہوں وہ ضرور خریدیں اس کا ممبر بنیں اور جو استطاعت نہ رکھتے ہوں ۔
اس کے لیے اہل مدارس کچھ انتظام کریں مثلا پانچ دس عدد مدرسے کے فنڈ سے خرید کر لائبریری میں رکھ دیں اور وہ طلبہ آکر مطالعہ کرکے دبستان علم وادب کو مہکائیں اور جو علما ہیں وہ ممبر بننے کے ساتھ دوسروں کو بھی اس جانب راغب کریں اہل ثروت کو اس کی قومی سطح پر کیا ثمر بار نتائج برآمد ہوں گے اس سے مطلع کریں امید ہے ضرور وہ بھی اس میں حصہ لے کر اس رسالے کی درازئ عمر کی راہیں ہم وار کریں گے
اللہ عزوجل اس رسالے کو بے پناہ مقبولیت سے نوازے اور تعلیمات اعلی حضرت کو ملک کے گوشے گوشے تک پہنچانے کی توفیق عطا فرمائے آمین
نفیس احمد ازہری
خادم التدریس جامعہ مظہر اسلام بریلی شریف