میڈیا پرو پیگنڈے کو سمجھیں
میڈیائی پروپیگنڈے کو سمجھیں !!
از قلم :: غلام مصطفےٰ نعیمی
ایسا لگتا ہے ہمارے معاشرے کے قائدین/تنظیمی سربراہان اور دانش وران گودی میڈیا کے مباحثے(debates) زیادہ دیکھتے ہیں، یا ان میں جذبہ مسابقت بہت زیادہ ہے۔اس لیے جیسے ہی گودی میڈیا کسی مدعے پر اپنا ایجنڈا چلاتی ہے تو مشائخ/دانش وران اور تنطیمی ذمہ داران بھی جانے انجانے انہیں کی بولی بولنے لگتے ہیں۔
جیسے ہی کوئی پیر یا کوئی تنظیم کسی مدعے پر لیٹر پیڈ جاری کرتی ہے بس دیکھتے ہی دیکھتے اسی عنوان پر لیٹر پیڈوں کا باڑھ سی آجاتی ہے، جس کی شدت دیکھ کر ایسا لگتا ہے کہ اگر حکومت وانتظامیہ نے ان حضرات کی اپیل پر دھیان نہیں دیا تو کہیں یہ حضرات خود میدان کارزار میں نہ کود پڑیں۔
اس جذباتیت کو کیا کہا جائے؟
یوں تو ملک میں آئے دن قتل وغارت گری اور دنگا وفساد کی خبریں آتی رہتی ہیں لیکن کچھ خبریں ایسی ہوتی ہیں جو دل ودماغ پر گہرا اثر چھوڑتی ہیں۔کچھ خبریں ایسی بھی ہوتی ہیں جنہیں ایک خاص ایجنڈے کے تحت پلانٹ کیا جاتا ہے تاکہ اس کے ذریعے اپنے اہداف کی تکمیل کی جاسکے۔
یہ کام اس ہوشیاری کے ساتھ کیا جاتا ہے کہ اچھے خاصے سمجھ دار لوگ بھی ان کے پرسپشن میں پھنس جاتے ہیں اور بغیر سوچے سمجھے وہی کرتے/بولتے ہیں جو مد مقابل چاہتا ہے۔
چند سال پہلے کشمیر میں ایک حادثہ ہوا، جو اپنی نوعیت کے حساب سے بے حد تکلیف دہ تھا مگر اس کی تشہیر کے پیچھے ایک سیاسی پارٹی کا مفاد پوشیدہ تھا اس لیے نہایت عیاری کے ساتھ میڈیا کی مدد سے ایجنڈا چلایا گیا۔
اور اسی بہانے سیاسی مارکیٹنگ کی گئی۔عوامی جذبات کو اس طرح Manipulate کیا گیا کہ حکومتی لاپرواہی اور بد انتظامی پر سوال اٹھانے کی بجائے یہ ماحول بنا دیا کہ اس نازک موڑ پر آپ حکومت کے ساتھ ہیں کہ نہیں؟
بس پھر کیا تھا دیکھتے ہی دیکھتے مشائخین کرام اور تنظیمی سربراہان کی مذمتیں بَل کھاتی ہوئی موجوں کی طرح نکلیں اور گلی کوچوں تک میں پھیل گئیں۔پروپیگنڈا اس قدر طاقت ور تھا کہ ایک پیر صاحب تو مریدین کے ساتھ احتجاجی مارچ لے کر نکل پڑے۔
جذبات کا اُبال اس قدر تھا کہ موصوف بار بار مقتولین کا بدلہ لینے کے نعرے لگا رہے تھے۔وہ تو اچھا ہوا کہ حکومت نے ان کی بات کو سنجیدگی سے نہ لیتے ہوئے انہیں بارڈر پر نہیں بھیجا ورنہ خدا جانے کیا ہوتا۔
مذمتوں کی نئی لہر
ابھی چند دن پہلے ہی ناموس رسالت کے نام پر راجستھان میں ایک قتل ہوا۔شرعی اور قانونی اعتبار سے اس قتل کی تائید نہیں کی جاسکتی کیوں کہ کسی بھی انسان کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ خود سے کسی کو قتل کردے۔
اگر کسی نے کوئی جرم کیا ہے تو اسے سزا دینا حکام اور عدلیہ کا کام ہے۔ایسے معاملات کے لیے ایک نظام ہے اور ہر شہری کو اسی نظام پر عمل کرنا ضروری ہے۔
جیسے ہی اس قتل کی خبر وائرل ہوئی فوراً ہی ایک خاص ایجنڈے کے تحت قوم مسلم کو نشانے پر لے لیا گیا۔میڈیا ہاؤس اور لبرلوں نے ایسا شور مچایا مانو اس سے پہلے اس نوعیت کا قتل ہوا ہی نہیں تھا۔
حالانکہ کسی ایک مسلمان نے بھی اس قتل کی تائید نہیں کی، سبھی نے اسے خلاف قانون بتایا اور قانونی کاروائی کی حمایت کی مگر پھر بھی میڈیائی یلغار جاری رہی۔
حالانکہ جس شہر میں حالیہ واقعہ ہوا اسی شہر میں چند سال پہلے ایک شدت پسند ہندو شنبھو لال ریگر نے ایک بوڑھے مسلمان افرازُل کو نہایت بے دردی سے قتل کیا تھا۔پہلے کلہاڑی سے کاٹا جب وہ مزاحمت کے قابل نہ رہا تو پیٹرول ڈال کر زندہ جلا دیا۔
شنبھو لال کی درندگی کا عالم یہ تھا کہ اس نے اپنے نابالغ بھتیجے سے اس بہیمانہ قتل کو فیس بک پر لائیو بھی کرایا تاکہ مسلمان خوف زدہ رہیں۔
ہم افرازُل کے قتل سے حالیہ قتل کو نہ تو ہلکا کر رہے ہیں اور نہ اسے جواز فراہم کر رہے ہیں۔ہمارے نزدیک دونوں وارداتیں ملکی قانون کی خلاف ورزی ہیں جس کی کوئی ذمہ دار شخص تائید نہیں کر سکتا لیکن ایک قتل پر خاموشی اور دوسرے قتل پر پوری قوم پر نشانہ، آخر یہ دو رنگی کیوں؟
ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ حالیہ قتل کی تردید کے ساتھ ساتھ میڈیا اور شدت پسندوں کے دوغلے رویے کو بھی بے نقاب کیا جاتا مگر میڈیائی نریٹو کا جادو دیکھیے کہ ان پر سوال اٹھانے کی بجائے ہر ایک دفاعی پوزیشن میں آکر صفائیاں دینے اور مذمت کرنے میں جٹ گیا۔جسے دیکھو وہ مذمت لیے کھڑا ہے۔
پرنٹ میڈیا سے سوشل میڈیا تک دل کھول کر مذمت بانٹی جارہی ہے۔انہیں لگتا ہے اگر مذمت نہیں کی گئی تو کہیں ہماری “امن پسندانہ امیج” خراب نہ ہوجائے، ایک دانش ور نے تو کمال کا مشورہ دیا ہے وہ کہتے ہیں کہ؛
“پچاس علما جمع ہوں، مقتول کے گھر تک ہمدردی مارچ نکالیں اور پوری امت کی جانب سے اس کے گھر والوں سے معافی مانگیں اور سبھی مسجدوں میں اس کے لیے دعائیں مانگیں۔”
اب بتائیے کہ اس جذباتیت کو کیا نام دیا جائے؟
ان دانش وروں/پیروں اور تنظیمی ذمہ داروں کو یاد رکھنا چاہیے کہ لا اینڈ آرڈر آپ کا نہیں حکومت و انتظامیہ کا مسئلہ ہے۔غیر قانونی اقدام کی تردید ضرور کی جائے لیکن اس کا بھی ایک اسلوب اور انداز ہوتا ہے، یہ نہیں کہ آپ زمانے بھر کی ساری مذمتیں کسی ایک قوم سے جڑے معاملے پر ہی ختم کردیں؟
ہمارے مشائخین/تنظیمی ذمہ داران اپنی یاد داشتوں پر زور ڈالیں، گذشتہ چند برسوں میں کس سفاکیت کے ساتھ راہ چلتے افراد کو قتل کیا گیا، کیا ہمیں مذمت کرتے ہوئے ان واقعات پر حکومت/میڈیا اور شدت پسندوں سے سوال نہیں کرنا چاہیے؟
آئے دن شرپسند جماعتوں کے غنڈے نہتھے مسلمانوں/دلتوں اور کمزور افراد کو ہجومی شکل میں قتل کرتے ہیں۔ویڈیو بنا کر فخریہ وائرل کرتے ہیں۔مگر ان کا سماج ایسے بے رحمانہ قتل پر مذمت کی بجائے اُنہیں قومی ہیرو بناتا ہے۔
قاتلوں کو عوامی استقبالیہ دیا جاتا ہے۔دیوی دیوتاؤں کے ساتھ ان قاتلوں کی جھانکی نکالی جاتی ہے۔مرکزی وزرا ان قاتلوں کو پھول مالا پہنا کر استقبالیہ دیتے ہیں۔
ایجنڈا سمجھیں
پچھلے کچھ سالوں سے کٹّرپنتھی تنظیموں کے غنڈے مسلمانوں/دلتوں/عیسائیوں اور آدی واسیوں کو مختلف حیلوں بہانوں سے قتل کرتے آرہے ہیں، لیکن گودی میڈیا نے ایسا نریٹو(Narrative) سیٹ کیا ہے کہ کٹّرپنتھیوں کی وحشیانہ حرکتوں اور انسانیت سوز مظالم کو یا تو دکھایا نہیں جاتا یا سرسری سا دکھا کر دوسرے مدعوں کو سنسی خیز بنا دیا جاتا ہے تاکہ ان کی درندگی پر پردہ پڑا رہے۔
اس کے برعکس اگر اقلیتوں/دلتوں اور آدی واسیوں کی طرف سے کوئی معمولی سا جرم بھی سرزد ہوجائے تو یہ لوگ اس پر ہفتوں تک بحث ومباحثہ(Debates) کراتے ہیں۔
ملزم سے جڑی تمام باتوں/کاموں اور افراد کو مشکوک بنانے کی سازشیں کرتے ہیں۔نارمل باتوں/چیزوں سے اپنی من مرضی کا مطلب نکالتے ہیں اور کھینچ تان کر اسے دہشت اور مذہبی شدت سے جوڑنے کی ہر ممکن سعی کرتے ہیں۔لوگوں کو اپنا ہم نوا بنانے کے لیے اموشنل کارڈ کھیلتے ہوئے متاثرین کے اہل خانہ کا درد وغم بار بار دکھایا جاتا ہے
ان کی مظلومیت اور بے بسی کو بنیاد بنا کر ملزم کی قوم اور مذہب کو پوری طرح ٹارگیٹ کیا جاتا ہے۔ماحول ایسا بنا دیا جاتا ہے کہ اچھا بھلا آدمی بھی ان کے نریٹو میں پھنس جائے اور وہی بول دے جو یہ بلوانا چاہتے ہیں۔
جیسے ہی ان کی مرضی کی بات باہر آتی ہے یہ اسی بات کو موضوع سخن بنا کر پوری قوم کو شدت پسند ثابت کرنے میں جٹ جاتے ہیں۔
اس لیے ہم دیکھتے ہیں کہ دادری کے بوڑھے محمد اخلاق، جھارکھنڈ کے 12 سالہ امتیاز اور کشمیر کی آٹھ سالہ آصفہ کے بے رحمانہ قتل پر بھی میڈیا اور متعصب ہندو سماج مذمت کی بجائے قاتلوں اور زانیوں کے حق میں ترنگا یاترا نکالتے ہیں۔کورٹ میں بھگوا جھنڈا لہراتے ہیں۔
وکیلوں کو دھمکاتے ہیں، لیکن جو گودی میڈیا نربھیا ریپ کانڈ پر مہینوں زانیوں کے خلاف مہم چلاتا ہے وہ آٹھ سال کی آصفہ کے ساتھ ہوئی درندگی اور بہیمانہ قتل پر چُپّی سادھ لیتا ہے۔
جو سماج افرازل کے قاتل کی جھانکی نکالتا ہے میڈیا اس کے خلاف کوئی ڈبیٹ نہیں کرتی اور نہ اس ذہنیت پر بات کرتی ہے کیوں کہ یہ سارا نریٹو آخر انہیں کا تیار کیا ہوا ہے جس کا مقصد صرف اتنا ہے کہ وہ ظالم ہوتے ہوئے بھی مظلوم بنے رہیں اور ہم مظلوم ہوکر بھی ظالم کہلائیں۔
یاد رکھیں!
شدت پسندوں کے دباؤ اور میڈیائی پروپیگنڈے کے لیے استعمال ہونے سے بھی مسائل حل نہیں ہونے والے کیوں کہ ان کا ایجنڈا بہر صورت آپ ہی کو قاتل ثابت کرنا ہے بھلے ہی قتل آپ ہی کا ہوا ہو۔
ہمی کو قاتل کہے گی دنیا، ہمارا ہی قتل عام ہوگا
ہمی کنواں کھودتے پھر یں گے ہمیں پہ پانی حرام ہوگا
Pingback: پرنٹ میڈیا ضرورت و اہمیت ⋆ محمد ایوب مصباحی