زمین حجاز پر بیتے دو عشرے
سفرنامہ زیارت حرمین 2022 زمین حجاز پر بیتے دو عشرے ۔ قسط سوم 3 دوسری قسط پڑھنے کے لیے کلک کریں سفر نامہ زیارت حرمین شریفین قسط دوم
از:- خالد ایوب مصباحی شیرانی
عرب میں تجارت کرنا آسان ہے یا مشکل؟ یہ وہ سوال ہے جس کا جواب شخصیت کے مطابق آتا ہے۔ لیبر کلاس کو لگتا ہے یہاں بزنس کرنا بہت مشکل کام ہے، یہ یا تو امیر ترین لوگوں کے بس کا سودا ہے یا پھر عربی الاصل لوگوں کے جب کہ پر اعتماد تاجرانہ ذہن اور تعلیم یافتہ لوگوں کو یہاں خوب مواقع نظر آتے ہیں۔
ہاں! اگر ان دونوں سے ہٹ کر زمینی تجزیہ کیا جائے تو یہ پائیں گے کہ عرب کا مارکیٹ برانڈنگ کے بہانے کیپچر ہے۔ ایسے میں اگر پروفیشنل بزنس مائنڈ اور محنت کے ساتھ زمین عرب پر اترا جائے تو لولو مال کے یوسف خان کی طرح عام سے خاص بنتے ہوئے لمبا وقت نہیں لگے گا کیوں کہ یہاں کوالٹی اور سسٹم سے سمجھوتہ نہ کرنے کے بعد کسی اضافی بد عنوانی کا سامنا نہیں۔
اس بار یہ سن کر خوشی ہوئی کہ عرب کے فاسٹ فوڈ مارکیٹ میں میک ڈونالڈ/ کے ایف سی کو ٹکر دینے والے البیک کی مالک جدہ کی رہنے والی ابو غزالہ فیملی ہے۔
بشارت بھائی 21 تاریخ کو مکہ مکرمہ میں موجود تھے لیکن ہماری ملاقات نہیں ہو سکی اور فون پر یہ طے پایا کہ اگلی جمعرات کی رات وہ ہمارے ساتھ گزاریں گے، سو ایسا ہی ہوا۔
بشارت احمد صدیقی کا تفصیلی ذکر سفر نامہ عرب میں ہو چکا ہے۔ حیدر آباد، انڈیا کے رہنے والے نوجوان اسکالر جن کی پوری زندگی جدہ میں گزری اور یہیں ملازمت کرتے ہیں، نوجوانوں کے لیے آئیڈیل ہیں۔
نئے نئے موضوعات پر کتابیں لکھنا، لکھوانا، نئے لکھنے والے تلاش کرنا، ان کے لیے مواد فراہم کرنا اور کسی بھی علمی کام کرنے والے کی علمی اور کتابی مدد کرنا، بشارت بھائی کی پہچان بھی ہے، دیوانگی کی حد تک مشغلہ بھی اور یہی گویا فطری مزاج بھی۔ بشارت بھائی کے سوچنے سمجھنے کا زاویہ الگ ہے۔ اس بار پوری رات جو مرکزی موضوع زیر گفتگو رہا، وہ علمی اجازتوں کی فراہمی، قدر دانی اور نا قدری تھا۔
بشارت بھائی کا ماننا ہے اور یہی سچائی بھی ہے کہ برصغیر میں علمی سندوں/ اجازتوں سے کہیں زیادہ خلافتوں کو اہمیت دی جاتی ہے اور انھیں کا لین دین رواج میں ہے، نتیجتاً بہت سارے علمی طرق اس قدر بے اعتنائیوں کے شکار ہوئے کہ اب ان کے مسندین اس دنیا میں نہیں رہے اور وہ ہمیشہ کے لیے غرق ہو گیے جب کہ عرب کی علمی دنیا کا کلچر اس سے بالکل جدا ہے۔
عرب روحانی خلافتوں کو زیادہ خاطر میں نہیں لاتے البتہ علمی اسناد و اجازات کو اہمیت بھی دیتے ہیں اور ان کا واقعی اہتمام بھی کرتے ہیں۔ ایک ایک عربی کے پاس دو دو سو تک سندیں ہوا کرتی ہیں۔ عرب کو اس بات میں ذرا کوفت محسوس نہیں ہوتی کہ وہ اپنی سندوں کو تقویت دینے کے لیے، اپنی علمی اجازتوں میں اضافہ کرنے کے لیے اور کسی بزرگ سے اپنا رشتہ تلمذ ہموار کرنے کے لیے کس عمر کے مسند سے اجازتیں لے رہے ہیں۔
نام دار اور عمر دراز اکابر علما کو بھی جب علم ہوتا ہے کہ فلاں کم سن کے پاس کوئی منفرد، یا ہماری سند کے لیے مقوی، یا کوئی ایسی سند موجود ہے، جو ہمارے پاس نہیں تو بنا کسی ہچکچاہٹ کے وہ سند حاصل کرتے ہیں اور اس مسند کو اپنے شیوخ کی فہرست میں شمار کرتے ہوئے فخر محسوس کرتے ہیں۔
یہ سندیں اور اجازتیں قرآن کریم کی بھی ہوتی ہیں، کتب حدیث کی بھی اور فقہیات وغیرہ دیگر اہم کتب و موضوعات کی بھی۔
ہماری حریف جماعتوں نے ایک مدت سے عرب کی یہ نبض پکڑ رکھی ہے اور دھڑلے سے برصغیر ہند و پاک کی نہ صرف اپنی بلکہ اہل سنت و جماعت کی اجازتیں بھی اپنے طرق پر تقسیم کرتے ہیں۔ یہ کام اتنی چابک دستی سے ہو رہا ہے کہ کچھ یار لوگوں نے تو اسی شغل کو مقصد حیات بنا رکھا ہے اور اس بابت وہ اتنے متحرک ثابت ہوئے ہیں۔
کہ انھوں نے اپنے سلسلوں کی مضبوطی کے لیے دنیا جہاں کی سیر و سیاحت کر کے تین تین ہزار تک اسناد و اجازات جمع کر رکھی ہیں اور اسی سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ بازار کا مزاج کیا ہے۔ خوشی کی بات ہے کہ بشارت بھائی نے کتابی پروجیکٹس کی طرح اس سلسلے میں بھی منظم طور پر کام شروع کر رکھا ہے، اللہ خوب برکتوں سے نوازے۔ رات بھر علمی، کتابی اور دیگر ملی مسائل پر خوب باتیں رہیں۔ یقیناً ان سے مل کر انرجی تازہ ہو جاتی ہے۔
باب السلام کی طرف احاطہ حرم سے باہر زیادہ تر وقت مقفل رہنے والی ایک لائبریری بنی ہوئی ہے، جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ اصل مولد رسول ہے، جسے گزرتے زمانے کے ساتھ بدلا جاتا رہا اور اب اس کی شکل لائبریری کی ہے۔ بتاتے ہیں کہ پہلے اس کی زیارت کرنے والوں پر سختیاں کی جاتی تھیں
لیکن آج کا لبرل ازم اس سلسلے میں چشم پوشی سے کام لیتا ہے۔ اسی لائبریری کے ٹھیک سامنے حرم شریف کے اندر ایک حمام بنا ہوا ہے، جس کے بارے میں عام ہے کہ وہ وہ ابو جہل کا مکان ہوتا تھا۔ عمرہ کرنے والوں کا صفا اور مروہ کی سعی کے بعد اسی حمام کے قریب سے نکلنا ہوتا ہے۔
اسی جانب حرم شریف کو ٹچ کرتے ہوئے کوہستانی سلسلے کا حصہ شاہی محل ہے۔ بادشاہ سلامت جب تب یہاں تشریف لاتے ہوں گے لیکن ان کی شاہانہ سطوت نے حرم شریف کا دائرہ ضرور تنگ کر رکھا ہے۔ بتاتے ہیں کہ دنیا بھر سے آنے والے وی وی آئی پی مہمانوں کا قیام اسی محل میں ہوتا ہے اور اسی کے ایک حصے سے امام حرم کی بھی آمد و رفت ہوتی ہے۔
افواہ ہے کہ حرم محترم کی مستقبل قریب میں ہونے والی نئی توسیع کے لیے محل سمیت اس پہاڑ کو یہاں سے ہٹایا جائے گا۔ سر اٹھا کر دیکھنے کے بعد محل کی دیوار کے ایک حصے میں ایک طاقچہ نظر آتا ہے، جس کے بارے میں شور رہتا ہے کہ وہ اس بڑھیا کا مکان ہوتا تھا جو پیغمبر اسلام صلی اللہ تعالیٰ علیہ و سلم پر کچرا ڈالا کرتی تھی، بادشاہ نے محل بناتے وقت اس یاد کو زندہ رکھنے کے لیے یہ طاقچے رکھا ہے۔
نہیں معلوم کہ جنت البقیع تک کے آثار باقی نہ رکھنے والے مزاج کے بارے میں یہ بے پر کی کس نے اڑائی ہے البتہ اتنا ضرور ہے کہ از روئے روایت نہ ایسی کوئی بڑھیا تھی اور نہ ایسی حکایت۔
ایسی ہی مضحکہ خیز بات حرم شریف سے متصل ایک جگہ کے بارے میں کہی جاتی ہے جہاں ماضی قریب کی کسی کھدائی میں کچھ ہڈیاں بر آمد ہو گئی تھیں تو یہ بات اڑا دی گئی کہ یہ وہ جگہ ہے جہاں عرب اپنی بچیوں کو زندہ دفن کیا کرتے تھے۔
باب السلام سے جنت المعلی کا راستہ قریب پڑتا ہے اور اسی راستے پر مسجد جن، مسجد شجر اور مسجد رایہ بھی واقع ہوتی ہیں۔ مسجد جن یعنی وہ مقام جہاں قوم جنات نے قرآن مجید کی غیر معمولی تاثیر کے نتیجے میں رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے ہاتھوں ایمان قبول کیا، جس کی تفصیل سورہ جن میں موجود ہے۔
مسجد شجر وہ پاکیزہ مقام ہے جہاں مشرکین مکہ نے حضرت رسالت مآب صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی صداقت کی دلیل کے طور پر کسی معجزے کا مطالبہ کیا تو آپ نے قریب موجود درخت کو بلایا اور حکم پاتے ہی وہ درخت اپنی جڑیں اکھاڑتے ہوئے آپ کے دربار میں حاضر ہو کر سلامی پیش کرنے لگا۔ مسجد رایہ یعنی جھنڈے والی مسجد، اس جگہ تعمیر کی گئی ہے جہاں رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے فتح مکہ کے دن اپنا پرچم بلند کیا تھا۔
جنت المعلی جنت البقیع کے بعد روئے زمین کا دوسرا سب سے افضل ترین قبرستان ہے، جہاں ام المومنین حضرت سیدہ خدیجۃ الکبریٰ اور دیگر متعلقین رسالت کے علاوہ بڑی تعداد میں خوش قسمت حجاج و معتمرین، زائرین حرم اور محبوبان خدا دفن ہیں۔ لمبے چوڑے قبرستان کا حسن انتظام دیکھنے سے تعلق رکھتا ہے۔
لاش کے پہنچنے سے لے کر تدفین تک کا مرحلہ پوری خوش اسلوبی کے ساتھ محض دس بارہ منٹ میں پایہ تکمیل تک پہنچ جاتا ہے البتہ جنت البقیع کی طرح انیس سو چوبیس کے بعد پیدا شدہ عربی مزاج کے مطابق یہاں بھی کوئی ایسی قبر نہیں جس کے متعلق وثوق کے ساتھ یہ نشاندہی کی جا سکے کہ فلاں کی ہے اور یہی وہ دل سوز موقع ہوتا ہے، جب عرب کی بلند قامت ترقیاں ہیچ نظر آنے لگتی ہیں۔
آتے جاتے اور حرم شریف میں پہنچتے ہی کوشش ہوتی تھی کہ زم زم زیادہ سے زیادہ پیا جائے۔ ایک دن یہ تجربہ کیا کہ ایک ساتھ کتنا زم زم پیا جا سکتا ہے، مجھ جیسے کم نوش نے اس دن ایک ساتھ سات گلاس نوش کیے اور کمال یہ کہ نہ کوئی اضافہ احساس ہوا اور نہ نقصان۔
(باقی)
از:- خالد ایوب مصباحی شیرانی
چیرمین:- تحریک علمائے ہند، جے پور
Pingback: سفرنامہ زیارت حرمین شریفین قسط چہارم ⋆ از: خالد ایوب مصباحی شیرانی