اولاد کی تربیت کے چند رہ نما اصول
تحریر: محمد ہاشم اعظمی مصباحی نوادہ مبارک پور اعظم گڈھ یوپی اولاد کی تربیت کے چند رہ نما اصول
اولاد کی تربیت کے چند رہ نما اصول
لفظِ تربیت وسیع مفہوم رکھنے والا ایک ایسا لفظ ہے جس کے تحت افراد کی تربیت، خاندان کی تربیت، معاشرہ کی تربیت پھر ان قسموں میں بہت سی ذیلی قسمیں داخل ہیں۔
ان تمام اقسام کی تربیت کا اصل مقصد عمدہ، پاکیزہ، بااخلاق اور باکردار معاشرے کا قیام ہے۔ تربیت ِ اولاد ان اقسام میں سب سے اہم قسم ہے۔
بچے ہمارا مستقبل اور ہماری قوم کے معمار ہیں اگر اُنھیں صحیح تربیت دی جائے تو اس کا مطلب ہے ایک اچھے اور مضبوط معاشرے کے لیے صحیح بنیاد ڈال دی گئی۔بچوں کی اچھی تربیت ہی سے ایک مثالی معاشرہ معرض وجود میں آتا ہے
اس لیے کہ اچھا پودا ہی مستقبل میں تناور درخت بن سکتا ہے اور یہ بات بھی مبنی بر حقیقت ہے کہ اولاد کی ظاہری اور باطنی دونوں قسم کی تربیت والدین کے ذمہ فرض ہے۔ والدین کے قلوب و اذہان میں اپنی اولاد کے لیے رحمت وشفقت کا جو فطری جذبہ پایا جاتا ہے وہ کسی اور میں نہیں ہوسکتا ۔
یہی پدری ومادری فطری جذبات واحساسات ہی ہیں جو بچوں کی صحیح طریقے سے دیکھ بھال، تربیت اور اُن کی ضروریات کی کفالت پر اُنھیں ابھار سکتے ہیں اگر والدین کے دل میں یہ جذبات راسخ ہوں اور اپنی دینی ذمہ داریوں کا احساس بھی ہو تو وہ اپنے فرائض اور ذمہ داریاں احسن طریقہ سے اخلاص کے ساتھ پوری کرسکتے ہیں.
والدین بچے کے مربی ہوتے ہیں جسمانی طور پر بھی اور روحانی طور پر بھی ۔اس لیے جہاں والدین اپنی اولاد کی جسمانی ضروریات پوری کر نے کی کوشش کرتے ہیں کہ ہماری اولاد جسمانی طور پر تندرست وتوانا بنے وہیں اس کو علم وادب سکھانے کی بھی کوشش کرنا والدین کی ذمہ داری ہوتی ہے ۔
جب ماں باپ بچوں کی تر بیت اچھی کرتے ہیں تو پھر بچوں کے جسم ہی فقط نشو ونما نہیں پاتے ان کے دل ودماغ کی صلاحیتیں بھی کھلتی ہیں ۔
دانش وروں کا بڑا مشہور مقولہ ہے : “جو شخص اپنے بچوں کو ادب سکھاتا ہے وہ دشمن کو ذلیل وخوار کرتا ہے” ۔
ایک مقولہ یہ بھی ہے کہ جو شخص اپنے بچوں کو بچپن میں ادب سکھاتا ہے وہ بچہ بڑا ہو کر اس کی آنکھیں ٹھنڈی کرتا ہے ۔
اس لیے والدین کو بچوں کی تر بیت سے ذرا بھی غافل نہیں ہونا چاہئے بچوں کی تربیت اور والدین کی شرعی ذمہ داری کے عنوان پر بحیثت مسلمان ہمارے دین نے جو اُصول بیان کیے ہیں اس حوالے سے کچھ رہ نما اصول پیش خدمت ہے
ظاہر ہے کہ بچے کی زندگی کا پہلا مسکن ماں کی ٹھنڈی ٹھنڈی ،میٹھی میٹھی اور شفقت بھری گود ہوتی ہے ماں کی گود ہی ہی اولاد کی اولین درس گاہ ہے آغوش مادر کے ان سالوں میں ماں بچوں کیلئے مرشد کا کام کرتی ہے ۔
ماں اگر بچے پر محنت کرے تو یہ ماں کی گود سے مادر زاد ولی ثابت ہو سکتے ہیں اس لئے ماں کی تربیت کی اہمیت بہت زیادہ ہے ماں کو اپنے بچے کی تربیت کا خیال اسی دن سے رکھنا چاہیے جس دن بچہ پیدا ہو۔
بلکہ یہ خیال ان کو حاملہ ہونے کے وقت سے ہونا چاہیے اور جس طرح ماں کی ذمہ داری ہے کہ وہ بچے کی تربیت کا خیال رکھے اسی طرح باپ کی ذمہ داری بھی ہے کہ وہ اپنی اولاد کی تربیت کی فکر کرے۔
جو باپ اپنی اولاد کی تربیت کی فکر نہیں کرتا اس کی اولاد اکثر بگڑ جاتی ہے یہ بات بھی ذہن نشین رہے کہ جس ماں کی بات بچے مانتے نہیں اور باپ کے پاس گھر میں وقت دینے کی فرصت نہیں وہ بچے زندہ ہوتے ہیں مگر کسی یتیم کے مانند ہوتے ہیں ان بے چاروں کی صحیح تربیت کبھی نہیں ہو سکے گی ۔
لہذا باپ کو چاہیے کہ اپنے نظام الاوقات میں جہاں اور کام رکھے ہیں وہاں بچوں کے لیے بھی وقت ضرور رکھے یاد رکھئے بچے کورے کاغذ کے مانند ہوتے ہیں
ان پر خوب صورت پھول بوٹے بنانا یا الٹی سیدھی لکیریں کھینچنا یہ سب والدین کا کام ہوتا ہے
اگر ماں باپ نے اچھی پرورش کی تو سب پھول بوٹے بن گیے اور اگر اس کی تربیت کا پتہ ہی نہیں تو خار ہی خار ہیں پرورش سے مراد صرف جسم کو بڑا کرنا ہرگز نہیں ہوتا ہے بلکہ پرورش سے مراد یہ ہے کہ جس طرح جسم بڑھے ساتھ ہی دل کی صفات بھی بڑھیں دماغی صلاحیتیں بھی کھل کر سامنے آئیں
اچھے ماں باپ فقظ بچے کو بڑا نہیں کرتے ہیں بلکہ ان کے دل کو بھی بڑا کرتے ہیں اور ان کے اندر ایسی سوچ ڈالتے ہیں کہ چھوٹی عمر ہی میں دماغی صلاحتیں کھل کر سامنے آجاتی ہیں یہ دل ودماغ کی صلاحیتوں کو کھولنا ماں باپ کی ذمہ داری ہوتی ہے ۔
اگر آپ اپنے بچوں کو کام یاب اور عظیم انسان بنانا چاہتے ہیں تو پہلے انہیں اللّٰہ تعالی کی پہچان کروا کر اللّٰہ سے جوڑنے کی کوشش کریں ۔ انہیں رسول اللّٰہ ﷺ صحابہ کرام اور اپنی مذہبی و قومی ہیروز کی پہچان اور پیروی کروائیں. انہیں آپ بذاتِ خود ایک بہترین رول ماڈل بن کر دکھائیں۔
بچوں کے سامنے بے شرمی والی باتوں سے اجتناب کریں اس لیے کہ بچے کا دماغ کیمرے کی طرح ہوتا ہے وہ ہر چیز کا عکس محفوظ کر لیتا ہے ۔
حکما نے لکھا ہے کہ چھوٹے بچے کے سامنے بھی کوئی بے شرمی والی حرکت نہ کریں میاں بیوی کوئی ایسا معاملہ نہ کریں کہ یہ چھوٹا ہے اسے کیا پتہ اگر چہ وہ چھوٹا ہوتا ہے لیکن اس کے ذہن کے بیک گراونڈ کے اندر یہ سب مناظر نقش ہو جاتے ہیں اس لیے اس کا بڑا خیال رکھیں۔
بچوں کے دلوں میں انسانی ہم دردی اجاگر کرنے کی بھرپور کوشش کریں ۔ انہیں اپنا دوست بنا کر رکھیں
ان کے ساتھ مناسب وقت گزاریں. بچوں میں کم عمری سے ہی ذمہ داری کا احساس پیدا کریں اور پر اعتماد بنائیں
بچوں سے کیے گئے وعدے ہر قیمت پر پورے کریں ۔ بچوں کو مناسب حد میں آزادی دیں تاکہ انہیں گھر قیدخانہ نہ لگے۔
بچوں کی سرگرمیوں کا مشاہدہ کریں ۔ ان پر ہر وقت حکم نہ چلاتے رہیں ۔ بچوں کو احساسِ کمتری اور احساسِ برتری سے بچائیں
بچوں کو کچھ وقت تنہائی بھی میسر ہونی چاہیے۔ بچوں کی بھی عزتِ نفس ہوتی ہے اسے کسی طور پر بھی مجروح نہ ہونے دیں ۔ بچوں کو زندگی میں کچھ کر دکھانے کے لیے اچھے اور بڑے خواب دکھاتے رہیں. بچوں کو مادی چیزوں کی محبت سے بچاتے رہیں
بچوں کو موبائل فون اور کمپیوٹر وغیرہ کے استعمال کی مناسب تربیت بھی دیتے رہیں . بچوں کو قرآن فہمی اور نماز کا پابند بنائیں. بچوں سے مختلف معاملات میں رائے لیتے رہیں اور ان کی رائے کا احترام بھی کریں
ان سے بڑوں جیسی توقعات مت رکھیں بچوں کو بچہ ہی رہنے دیں ۔ بچوں کی مثبت سر گرمیوں پر ان کی خوب حوصلہ افزائی کیجیے. بچوں کو ایسے اہمیت دیں کہ گویا وہ کوئی بڑی اہم شخصیت ہیں. بچوں کو آخرت کی فکر بھی دلاتے رہیں
بچوں کو اپنے چھوٹے موٹے کام خود کرنے کی عادی بنائیں . بچوں سے کبھی بھی دھمکی آمیز لہجے میں بات نہ کریں. آپ میاں بیوی کا آپس کا تعلق بہت اچھا اور خوشگوار ہونا چاہیے. بچوں کے لیے ایسے اسکول کا انتخاب کیجیے جس میں تعلیم و تربیت دونوں کو اہمیت دی جاتی ہو
بچوں کے اساتذہ سے باقاعدہ رابطے میں رہیں۔ بچے کو آغاز سے ہی محنت و مشقت کا عادی بنائیں. بچوں کی کمیونیکیشن سکلز بہتر بنانے پر بھی بھرپور توجہ دیجیے
بچوں کو سیر و تفریح کے بھی مناسب مواقع فراہم کرتے رہیں ۔ بچوں کو ٹائم ٹیبل کے مطابق زندگی بسر کرنے کا عادی بنائیں.بچوں میں امتیاز برتنے سے احتیاط کی جائے ۔ کبھی بھی بچوں کی بےجا طرف داری نہ کی جائے
تحریر: محمد ہاشم اعظمی مصباحی
نوادہ مبارک پور اعظم گڈھ یوپی
9839171719
hashimazmi78692@gmail.com
ان مضامین کو بھی پڑھیں
تحریر میں حوالہ چاہیے تو تقریر میں کیوں نہیں
ہندوستان کی آزادی اور علامہ فضل حق خیر آبادی
مذہبی مخلوط کلچر غیرت دین کا غارت گر
عورتوں کی تعلیم اور روشن کے خیالوں کے الزامات
سیاسی پارٹیاں یا مسلمان کون ہیں محسن
قمر غنی عثمانی کی گرفتاری اور تری پورہ میں کھلے عام بھگوا دہشت گردی
اتحاد کی بات کرتے ہو مسلک کیا ہے
افغانستان سے لوگ کیوں بھاگ رہے ہیں
مہنگی ہوتی دٓاوا ئیاںلوٹ کھسوٹ میں مصروف کمپنیاں اور ڈاکٹرز
۔ 1979 سے 2021 تک کی آسام کے مختصر روداد
کسان بل واپس ہوسکتا ہے تو سی اے اے اور این آر سی بل کیوں نہیں
ہوائی جہاز ٹکٹ آن لائن بک کرتے ہوے کیسے بچت کریں
ہندی میں مضامین کے لیے کلک کریں
Pingback: اسلامو فوبیا ⋆ اردو دنیا ⋆ از قلم : مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
Pingback: خود کشی اسلام کی نظر میں مع اسباب و تدارک ⋆ حافظ فرحان المصطفیٰ
Pingback: مدارس اسلامیہ کی تاریخ اور ہندوستانی مسلمانوں پر اس کے اثرات ⋆ اردو دنیا
Pingback: مدارس اسلامیہ کی تاریخ اور ہندوستانی مسلمانوں پر اس کے اثرات ⋆ امان اللہ شفیق تیمی
Pingback: پروفیسر وسیم رضا کی شخصیت اردو زبان وادب کے طلبا کے لیے مشعل راہ ⋆