سراواں کے متضاد سُر ایک جائزہ
سراواں کے متضاد سُر ایک جائزہ
سراواں کے متضاد سُر: ایک جائزہ از : غلام مصطفےٰ نعیمی روشن مستقبل دہلی
پہلے ان سب کو پڑھیں :
ناموس رسالت اور فکر سراواں : ایک جائزہ
کسی بھی فکر اور دعوے میں پختگی اور یکسانیت اس وقت ہوتی ہے جب بندہ مخلص اور مقصد نیک ہو۔لیکن جب مقصد ہی خلاف خیر ہو تو فکر وعمل میں ناپائداری اور تضاد کا آنا فطری بات ہے، خلوص تو ایسے مقام پر سرے ہی سے معدوم ہوتا ہے۔وابستگان سراواں اِن دنوں اسی شش وپنج کے آزار میں مبتلا ہیں۔
حالیہ دنوں میں وابستگان سراواں نے تک۔فیر دیابنہ کا موضوع اٹھا رکھا ہے۔ جاروب کشان سراواں مختلف جہتوں سے علماے دیوبند کی شدید گستاخانہ عبارتوں کو ہلکا کرنے کی کوششوں میں دل وجان سے مصروف ہیں۔
لیکن حیرت کی بات یہ ہے کہ اس عنوان پر اُن کے سُر ایک دوسرے اور خود اپنے آپ ہی سے یکسر متضاد و مختلف ہیں۔اس تحریر میں ہم ان کے انہیں تضادات کو پیش کرتے ہیں تاکہ اہل علم پر اچھی طرح ظاہر ہوجائے کہ جن حضرات کا فکری قبلہ ہر دوسری تحریر میں تبدیل ہوجاتا ہو وہ کس قدر سنجیدہ اور بالغ نظر ہیں۔
دعوے اور صفائی
اپنی گذشتہ تحریرات میں ترجمان سراواں نے لکھا تھا: “علماے دیوبند خدا ترس دین دار،علیھم الرحمہ ہیں۔”
“جو [دہلوی] کی تکفیر سے بچے گا ہم اس کی تک۔فیر کریں گے۔”
اس طرح طبقہ سراواں نے اپنے نظریات کا کھل کر اعلان کرتے ہوئے دو بنیادی دعوے کیےتھے:
1 ؍ اسماعیل قطعی یقینی گستاخ ہے کہ جو اس کی تکفیر نہ کرے اسے کافر کہا جائے گا۔
2 ؍ علماے دیوبند شان رسالت میں شدید نامناسب کلمات کے باوجود “علیہم الرحمہ” ہیں۔
انہیں دعوؤں پر نقد کرتے ہوئے ہم نے لکھا تھا:
1 یہ کون سا عشق ہے کہ شان رسالت میں “شدید نامناسب کلمات” کے قائلین کو بھی بزرگ اور ولی مانتا ہے۔
2 آپ اسماعیل دہلوی کو کافر [کلامی] مانتے ہیں اور اسے کافر [فقہی] ماننے والے امام احمد رضا کی تکفیر تک پر اڑے ہوئے ہیں تو دہلوی کو قطعی جنتی کہنے والے علماے دیوبند آپ کے محبوب ومحترم کس طرح بنے ہوئے ہیں؟۔ اگر اپنے دعوے میں سچے ہیں تو دہلوی کو قطعی جنتی کہنے والے علماے دیوبند پر تمہاری زبان وقلم کیوں خاموش ہے؟
ترجمان صاحب نے جواب برائے جواب لکھتے ہوئے بڑی عجیب بات لکھی کہ وہ دعوی ہم نے الزاماً کیا تھا،یعنی حقیقت میں ایسا نہیں ہے،اس لنگ جواب سے صرف نظر کر بھی لیا جائے تو بنیادی سوال اپنی جگہ برقرار ہے کہ؛ دہلوی کو مثل یزید اور کافر فقہی لکھنے والے امام احمد رضا پر وابستگان سراواں شمشیر تک ۔ فیر نکالے بیٹھے ہیں جب کہ اسی دہلوی کو قطعی جنتی اور اس کی “گالیوں” کو موافق قرآن وحدیث لکھنے والے عناصر دیوبند پر ان کے منہ سے ایک لفظ تک نہیں نکلتا؟ ۔
شیدید نامناسب کلمات کے اعتراف کے باوجود ان کی مذمت کی بجائے انہیں “خدا ترس اور علیہم الرحمہ” کہنا آخر کس صوفی کا نظریہ ہے؟
کیا شیخ سراواں اور ان کے وابستگان علمی وفکری اعتبار سے اتنے یتیم اور مفلوج ہوچکے ہیں کہ شان رسالت میں شدید نامناسب کلمات اور ان کے قائلین کی رسمی مذمت اور تنبیہ بھی نہ کر سکیں؟
کیا حرمت رسالت کی پاس بانی کے لیے ان کے ذخیرہ الفاظ میں مذمت وتنبیہ کا ایک لفظ تک نہیں بچا؟ شیخ سراواں کی شان میں ذرا سی تنقید پر تمامی جاروب کش تیر وتفنگ لیکر نکل پڑتے ہیں۔لیکن شان رسالت مأبﷺ کی شدید نامناسب تنقیص پر رسمی مذمت وتنبیہ سے بھی پہلوتہی!
ہے فکر تجھے اپنوں کی،ناموس کی ان کے فکر نہیں کل کیسے منہ دکھلائے گا جو آج توان کا بن نہ سکا
سراوی تضادات کے نمونے
تکفیر دیابنہ کے متعلق وابستگان سراواں کے اب تک مختلف دعوے سامنے آچکے ہیں۔آگے بڑھنے سے پہلے ان کے دعوؤں پر ایک نگاہ ڈال لیں تاکہ حقائق سمجھنے میں آسانی رہے۔
🔹شیخ سراوں صوفی احسان اللہ صاحب دیوبند کے عناصر اربعہ کی نام زد تک۔فیر کر چکے ہیں۔(بھلے ہی دب کر کی ہے)
🔸شیخ سراواں کے غیر اعلانیہ ترجمان اُنہیں عناصر اربعہ کو “خدا ترس، دین دار، علیہم الرحمہ” کہہ کر اپنا بزرگ ماننے کا اعلان کر چکے ہیں۔
🔹ترجمان صاحب کی حالیہ تحریر کے مطابق: “ان [امام احمد رضا] کا مولانا دہلوی [کے کفر کلامی] پر سکوت قابل تحسین ہے۔”
🔸جب کہ سراواں کے ڈاکٹر اِن ویٹنگ کے مطابق دہلوی پر سکوت حماقت ومنافقت ہے۔
🔹ترجمان صاحب کے مطابق: “شاہ اسماعیل دہلوی ہوں یا اکابر دیوبند، ان کی تکفیریں فقہی ہیں۔”
🔸لیکن ڈاکٹر اِن ویٹنگ کے نزدیک دہلوی کی تکفیر کلامی ہے کہ جو اس کے کفر [کلامی ] پر سکوت کرے وہ بھی مثل دہلوی [کافر] ہے۔
یہ وہ دعاوی ہیں جو شیخ سراواں اور ان سے گہری وابستگی رکھنے اور ان کی ترجمانی کرنے والے افراد کی جانب سے سامنے آئے ہیں۔شیخ سراواں کو درست ماننے کی صورت میں ترجمان صاحب کے بزرگ کفر کی بھینٹ چڑھےجاتے ہیں اور ترجمان کو درست مانا جائے تو شیخ کے تسلیم شدہ کافروں کو بزرگ ماننے کا عجوبہ وجود میں آتا ہے۔
اسی طرح ترجمان صاحب اور داکٹر اِن ویٹنگ کے دعوؤں کے مابین بھی بڑا تضاد ہے، ترجمان کے نزدیک دہلوی کے کفر [کلامی] پر سکوت قابل تحسین ہے تو انتظاری ڈاکٹر کے نزدیک سکوت حماقت ومنافقت ہے۔اب یہاں پہنچ کر دو ہی صورتیں بنتی ہیں یا تو ڈاکٹر اِن ویٹنگ کی عقل پر سکوت برتا جائے یا ترجمان صاحب کو منافق واحمق سمجھا جائے۔ترجمان صاحب ہمیں اس پر الزام نہ دیں ہم ان لفظوں اور ان کے اطلاق سے بالکل بری ہیں یہ تو انہیں کے قبیلے کا تحفہ ہے۔
چلتے چلتے
اپنی تحریر کے اختتام پر ترجمان صاحب نے عناصر دیوبند سے لگاؤ اور اپنی طبیعت پر اپنے پیرو مرشد کا اثر بیان کرتے ہوئے لکھا ہے: “تکفیر اکابر دیوبند کا پورا پروسیز جو فاضل بریلوی نے اختیار کیا،اس پر جب جب غور کرتا ہوں ذاتی طور پر سخت مایوس ہوتا ہوں،فی الواقع اس مرحلے پر میرے مرشد گرامی کی رہنمائی نہ ہوتی تو فاضل بریلوی سے متعلق نقطہ نظر غلبہ عشق کا نہ ہوکر بہت سخت ہوتا۔”
موصوف کے اس اقتباس سے چند باتیں ظاہر ہوتی ہیں:
1 اکابر دیوبند کا تکفیری پروسیز درست نہیں ہے۔
2 جس سے ذاتی طور پر ترجمان صاحب سخت مایوس ہیں۔
3 ؍مرشد کی رہنمائی نے روک رکھا ہے ورنہ اعلیٰ حضرت کے تئیں نظریہ بڑا سخت ہوتا۔
موصوف کے اقتباس سے ماخوذ ان نکات پر چند باتیں ہم بھی پیش کرتے ہیں شاید سمجھ میں آجائیں:
🔸 عناصر دیوبند کا تکفیری پروسیز کسی کو سمجھائیں نہ سمجھائیں لیکن اپنے مرشد گرامی کو ضرور سمجھا دیں تاکہ ان کا جرم تکفیر بھی معاف ہو جائے اور دب کر تصدیق کرنے کا داغ بھی دھل جائے۔
🔹ذاتی مایوسی اور شکوہ وہاں لائق توجہ ہوتا ہے جہاں انسان مؤدب، متواضع اور مثبت فکر ونظر کا حامل ہو۔آنجناب کے اب تک تمام کاموں میں زیادہ تر وقت اکابرین کی کردار کشی، بدزبانی، بھونڈی تعبیرات، حیثیت عرفی کا انکار، صلح سے فرار اور مسلسل اختلاف وانتشار ہی میں گزرا ہے۔اگر ایسا شخص کسی نمائندہ شخصیت سے مایوس ہوتا ہے تو اس کا نوٹس بھلا کون لے اور کیوں لے؟
🔸 اپنے دادا استاذ حضور حافظ علیہ الرحمہ کو آپ بھی تسلیم کرتے ہیں (بھلے ہی دب کر اور دکھاوے کے لیے) انہیں اس پروسیز پر کامل اطمینان تھا،جہاں اطمینان کرنے والے حافظ ملت جیسے افراد ہوں وہاں آپ جیسوں کی مایوسی صرف انا پرستی اور اکابر بیزاری ہے اس کے سوا کچھ بھی نہیں! 🔹ترجمان صاحب کے مرشد
کی رہ نمائی بھی خوب ہے جس نے انہیں فاضل بریلوی پر سخت نظریہ اختیار کرنے سے روک دیا۔(حالاں کہ یہ بھی محض ہوائی دعوی ہے موصوف امام احمد رضا اور اکابرین اہل سنت پر انتہائی بدزبانی کا مظاہرہ کر چکے ہیں اور اب بھی تنقید بے جا سے باز نہیں آئے ہیں)
لیکن انہیں کے دیگر معتقدین شبانہ روز امام احمد رضا کی شان میں غلیظ ترین باتیں لکھتے ہیں اور ان کی حیثیت عرفی کو لگاتار مجروح کرتے ہیں۔
آخر رہ نمائی کا یہ کون سا حصہ ہے کہ ایک طرف روکنے کا دعوی دوسری جانب گالی بازوں کا تقرر اور حوصلہ افزائی !
موصوف نے ہمیں مشورہ دیتے ہوئے کہا ہے: “ایک مومن کے لیے یہ قطعی عقیدہ بنا لینا کہ اگر اسے کافر نہ مانا تو خود کافر ہو جاؤ گے نہایت متوحش عقیدہ ہے۔”
سراواں کی سادگی بھی بڑی پر فریب ہوتی ہے، کتنی معصومیت کے ساتھ “مومن” کو کافر بنانے کا الزام دے کر گزارش کا لہجہ اپنا لیتے ہیں تاکہ سامنے والا ان کی ہم دردی اور انکساری کا قائل ہوجائے۔
ارے میاں! مومن کو جاہل سے جاہل مومن بھی کافر نہیں کہتا چہ جائے کہ کوئی فقیہ وعالم اسے کافر قرار دے، ہاں جب کوئی آوارہ مزاج شان رسالت مأب ﷺمیں گستاخی کا مرتکب ہوتا ہے تو اتمام حجت کے بعد حکم شرع بیان کیا جاتا ہے۔
آپ عناصر اربعہ کی ماقبل گستاخی زندگی دیکھ کر ‘شدید نامناسب’ کلمات تک کو ہلکا کرنے کی جسارت کر رہے ہیں، کل مرزا قادیانی کے دعوئ نبوت سے قبل کے کاموں کو اس کی گستاخیوں کے لیے ڈھال نہ بنا لینا۔
اگر مشورہ دینا ہی ہے تو اپنے ڈاکٹر اِن ویٹنگ کو دیجئے جو بیچارہ آپ کے ممدوحین کے “قطعی جنتی مجاہد” کو گستاخ رسول کہہ کر خود بھی ‘متوحش’ بنا ہوا ہے اور آپ کے قبیلے کو بھی ‘متوحش’ بنا رہا ہے۔
(مَن شک پر کنفیوزن دور کرنے کے لیے برادر کبیر علامہ طارق انور مصباحی کے رسالے “تکفیر فقہی میں مَن شَک کا استعمال” مطالعہ کریں۔ابحاث سمجھ نہ آئیں تو ان سے براہ راست سمجھ لیں کنفیوزن دور ہوجائے گا ان شاء اللہ۔