کرناٹک میں سماج کو ٹیپو سلطان اور ساورکر میں منقسم کرنے کی سیاست
کرناٹک میں سماج کو ٹیپو سلطان اور ساورکر میں منقسم کرنے کی سیاست
جمہوری آزادی کا ہرگز بھی یہ مطلب نہیں ہیکہ آپ مذہبی منافرت کی دھجیاں اڑاتے پھرے بلکہ یہ جمہوریت کی خوبی ہے کہ جو ہر کسی کو کہنےکی آزادی دیتی ہے لیکن یہی خوبی کا موقع پرست سیاسی قائدین فائدہ اٹھانے کیلئے اسکا استحصال کرتے ہیں
جن کے نزدیک صرف اور صرف مفادات کی تکمیل ہی اہم ہدف ہوتا ہے جو سماج کو باٹنے کا کام کرتے ہیں تاکہ اپنی ناقص کاکردگی کی پردہ پوشی کی جاسکے اسطرح کا معاملہ عین اس وقت پیش آتا ہے
جب انتخابی موسم دستک دینے لگتا ہے تاکہ سماج کی اکثریت پر اپنی مضبوط گرفت بناسکے اصل بات یہ ہے کہ انتخابات سے قبل یا انتخابی مہم کے دوران حکمران جماعت ہو کہ مخالف جماعت ان سب کی زمہ داری بنتی ہے
کہ وہ جمہوری انداز میں اپنی سیاسی مہم چلائیں ناکہ سماج کو منقسم کرنے کا کام کرتے ہوئے فرقہ پرستی کا جال بچھائیں اگر نچلی درجہ کی سیاست کا ڈنکا بجایا جائے گا تو عوام کو یہ سمجھنا ہوگا کہ ایسی پارٹی عوامی مسائل کے حل کے لیے نہیں بلکہ مسائل کے انبار لگانے کا کام کررہی ہے
اگر چہ کہ ایسی جماعت جو سماج کو منقسم کرتے ہوئے اقتدار کے تخت تک رسائی بھی حاصل کرلیتی ہو تو ایسی جماعت کا عروج قلیل ہو کہ طویل لیکن زوال لازمی طور پر ہوتا ہے لیکن ایسی حکومت اپنے پیچھے اپنا منفی عکس چھوڑ کر جاتی ہے جس سےعوام میں نفرت کا بیج ,انتشار کی کیفیت, مسائل جوں کے توں برقرار رہتے ہیں ۔
آئندہ تین ماہ میں کرناٹک کے اسمبلی انتخابات ہونے جارہے ہیں جہاں سیاسی سرگرمیاں تند و تیز آندھی کی طرح نظر آرہی ہیں سیاسی رسہ کشی کے ساتھ ساتھ فرقہ پرستی کا جنون سر چڑھ کر بول رہا ہے بی جے پی کو اپنے اقتدارکھونے کا ڈر ستا رہا ہے جسکی وجہ سے وہ تلملا رہی ہے اور سیاسی میدان میں فرقہ پرستی کا جم کردم بھی بھر رہی ہے بی جے پی کی یہ کوئی نئی سیاسی حکمت عملی نہیں ہے کہ وہ فرقہ پرستی کو اپنا سیاسی ایجنڈہ بنانا چاہتی ہو بلکہ ماضی سے بی جے پی کایہی رواج رہا ہے پچھلے مہینوں میں سادھوی پرگیہ سنگھ ٹھاکر کو کرناٹک کے میدان میں اتارا گیا تھا
جس نے بے تکے بیان بازی سے مشترکہ سماج میں آگ لگاکر سیاسی فائدہ حاصل کرنے کی کوشش کی گئی اسی طرح مرکزی وزیر داخلہ امیت شاہ کرناٹک میں دورے پر دورے کررہے ہیں ابھی حال ہی میں منگلور کے قریب پُتور کا دورہ کرتے ہوئے
(campco)Central Arecanut and Cocoa Marketing and Processing Co-operative Limited
کی گولڈن جوبلی تقریب
میں شرکت کرتے ہوئے کانگریس اور جے ڈی ای پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ یہ دونوں پارٹیاں ٹیپو سلطان کی حمایت کرتے ہیں
امیت شاہ نے کرناٹک کی تاریخی طور پر جانے والی ملکہ ابّکّا چوٹا جن کا جین مذہب سے تعلق تھا عوام سے کہا کہ آپ رانی ابکا کا ساتھ دینے والوں کو ووٹ دیں گے یا ٹیپو سلطان کا ساتھ دینے والوں کو؟اسی طرح کرناٹک بی جے پی کے ریاستی صدر نلین کمار کتیل نے چند روز قبل وقفہ وقفہ سے دو بیانات ایسے دیئے ہیں
جس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ بی جے پی اس بار ہندو مسلم کا کارڈ پورے آب وتاب سے کھیلنے والی ہے نلین کمار نے کچھ دن پہلے یہ کہہ کر تنازعہ کھڑا کیا تھا کہ اس بار کرناٹک اسمبلی انتخابات ساورکر بمقابلہ ٹیپو سلطان ہوگا
ابھی یہی نلین کمار نے تین روز قبل زہر افشانی کی حد پار کرتے ہوئے کہا کہ اٹھارویں صدی کے حکمران ٹیپو سلطان کے تمام پر جوش حامیوں کو زندہ نہیں رہنا چاہیے یعنی تمام پر جوش حامیوں کو قتل کردینا چاہیئے بلکہ آگے بڑھ کر کہا کہ ٹیپو کی نسلوں کو بھگا کر جنگلوں میں بھیج دینا چاہیے
کتیل نے کہا کہ ریاست کی عوام کو سوچنا چاہیے کہ وہ بھگوان رام اور ہنومان کے بھکتوں کو اقتدار پر دیکھنا چاہتے ہیں یا ٹیپو کی نسلوں کو؟
میں بھگوان ہنومان کی سرزمین سے چیلنج کرتا ہوں کہ ٹیپو سے محبت کرنے والوں کو اس سرزمین پر کوئی جگہ نہیں ہے جو بھگوان رام کے بھجن گاتے ہیں اور بھگوان ہنومان کے حامی ہیں انہیں ہی صرف یہاں رہنا چاہیئے۔
کرناٹک میں جس انداز سے زہر افشانی کے بیانات سامنے آرہے ہیں اس سے ہم یہ قیاس لگاسکتے ہیں کہ اس بار بی جے پی نے فرقہ پرستی کی سیاست کے لیے میدان تیار کر رکھا ہے اور یہ بھی واضح ہوچکا ہے
بی جے پی اس بار ٹیپو سلطان کو سیڑھی بناکر تخت تک پہنچنا چاہتی ہے بی جے پی کے اس سیاسی ایجنڈے کے پیچھے کچھ بنیادی سوالات بھی ہیں
جو ایک عام آدمی کے زہن میں بھی آنے چاہیے بلکہ ایسے بیانات خود اپنے طور پر دل و دماغ کا استعمال کرتے ہوئے تجزیہ بھی کرنا چاہیے
اور وقت آنے پر حکمران جماعت سے پوچھنا بھی چاہیے کہ کیا ہندو مسلم کی سیاست سے عوام کی بھوک پیاس مٹ جائے گی؟
کیا بے روزگاروں کو روزگار مل جائے گا؟کیا ملک کی ترقی ہوسکے گی؟
کیا عوام کے مسائل حل ہوجائیں گے؟
کیا مہنگائی پر قابو ہوسکے گا؟
ان سب سوالات کے جوابات وہ ہرگز نہیں دے پائیں گے تب ہی تو وہ فرقہ پرستی کا زہر سماج میں گھول رہے ہیں
لیکن یہ بات عام جنتا کو سمجھنی ہوگی چاہے وہ اکثریتی طبقہ کا ہو یا اقلیتی ,بی جے پی یہ چاہتی ہیکہ وہ ہوش سے عاری اکثریتی طبقہ کو اپنی طرف پرکشش بنایا جائے اور اقلیتی طبقہ کو اکسایا جائے سوال اہم یہ ہے کہ ایسے حالات میں مسلمانوں کو کیا کرنا چاہیے؟
مسلمانوں کو چاہیۓ کہ وہ ایسے بیانات کا دفاع کرناچھوڑ دے کیوں کہ جس اسٹیج سے زہر افشانی کی جاتی ہے وہ وہیں تک محدود رہتے ہیں سماج کا بہت کم فیصد طبقہ ایسے بیانات سے متاثر ہوتا ہے
اگر ہم ایسے موقعوں پر دو باتوں پر کام کریں گے تو زہرافشانی بیانات کا نتیجہ بھی منفی میں آئے گا ایک تو یہ کہ ہمارے سماج کے برادران وطن سے ملک کے حالات پر سنجیدگی سے گفتگو کریں بنیادی مسائل کے بارے میں بتائیں انھیں یہ سمجھانے کی کوشش کی جائے کہ مذہبی دراڑیں نفرتیں ملک کی ترقی اور سماج کو پراگندہ کردیتی ہیں
ان کی یہ زہن سازی کرنے کی کوشش کریں کہ مذہبی منافرت پھیلانے والے چاہے وہ کسی بھی مذہب سے ہوں انھیں امن پر غالب نہیں ہونے دینے کی مشترکہ جدوجہد کریں گے
دوسری بات یہ ہیکہ خود ہمارے معاشرے میں بھی ہم کو یہ کام کرنے کی ضرورت ہے کیوں کہ جب بھی ایسے بیانات سامنے آتے ہیں
تو ہمارے ہی معاشرے کا ایک حصہ انہتائی پرجوش اور جذبات سے دھاڑیں مار مار کر فرقہ پرستوں کا کام اور بھی آسان کردیتا ہے جو پیر پر کلہاڑی مارلینے کے مترادف ہوتاہے کیونکہ فرقہ پرست یہی چاہتے ہیں کہ اقلیتوں کو اکسایا جائے اور اپنا راستہ ہموار کیا جائے لہذا ایسے نوجوانوں کو سمجھانے اور انکی اخلاقی زہن سازی کی جائے جس کیلئے جمعہ کے خطبات ایک اہم زریعہ ہے ۔
کرناٹک میں آنے والے اسمبلی انتخابات پولرائز کا معاملہ بن چکا ہے سال 2018میں بی جے پی نے اسی نفرت کے ایجنڈے سے اقتدار پر قابض ہوئی تھی یوگی نے جب ایک انتخابی جلسہ سے ہنومان بمقابلہ ٹیپو سلطان کی بحث چھیڑ دی تھی جس کے بعد کرناٹک کی 84 فیصد اکثریتی آبادی کا نصف تناسب مذہب کی بنیاد پر اپنے ووٹ کا استعمال کیا تھا تب ہی بی جے پی 224 کے عوض120 نشستوں پر حاوی ہوچکی تھی لیکن ان پانچ سالوں میں اسی عوام نے دیکھا کہ کرناٹک میں کسی بھی قسم کی کوئی ترقی نہیں ہوئی نہ عوامی مسائل حل ہوئے بلکہ اسکے برعکس ان پانچ سالوں میں نفرت کو بڑھاوا ٹیپو سلطان کا بار بار نام لیا گیا لیکن سماج کو کوئی فائدہ حاصل نہیں ہوا آج یہی اکثریتی عوام دیکھ چکی ہیکہ انکا یہ مذہبی جنون سیاسی طور پر نفع بخش نہیں رہا تب ہی کرناٹک بی جے پی پر خطرات کے بادل منڈلارہے ہیں اسی لیئے بی جے پی کے پاس ترقی کو گنوانے کیلئے کچھ بھی نہیں ہے تب ہی بار بار ٹیپو سلطان کو ہنومان سے یا ساورکر سے مقابلہ کے طور پر بتانے کی کوشش کی جارہی ہے تاکہ مذہب کی آڑ میں اقتدار کا راستہ ہموار ہوسکےجسکا مطلب بھی یہ صاف ہیکہ بی جے پی آنے والے انتخابات کو راست طور پر ہندو مسلم کے مقابلہ کے طور پر کھل کر لڑنا چاہتی ہے بی جے پی یہ کہہ کر عوام کو ورغلانے کی کوشش کرے گی کہ کانگریس نے کس طرح ٹیپو جینتی منائی ہے
جب کہ ٹیپو سلطان خود ایک اپنی تاریخ رکھتےہیں اور تاریخ کو مٹانا اتنا آسان نہیں ہوتا آج بھی کرناٹک میں اکثریتی طبقہ ٹیپو سلطان کی قربانیوں کو یاد کرتےہیں
لیکن کرناٹک کی بی جے پی مسلم حکمرانوں کی تاریخ کو مسخ کرنا چاہتی ہے اور انکو شامل کرنا چاہتی ہے جنھوں نے انگریزوں کا ساتھ دیا تھا جیسے کہ کرناٹک حکومت نے طلبا کے اسکولی نصاب میں آر ایس ایس کے رہ نما دامودر ساورکر کے مضمون کو شامل کیا گیا جسمیں یہ بتانے کی کوشش کی گئی کہ ساورکر ایک محب وطن تھے اور انھوں نے کتنی مصیبتوں کو برداشت کیا مضمون کا اقتباس اس طرح ہے کہ ساورکر جب جیل میں تھے تو وہاں ایک چھوٹا سوراخ بھی نہیں تھا
لیکن ایک بلبل پرندہ انکے پاس آتا تھا اور ساورکر اس کے پروں پر بیٹھ کر جیل سے نکل جایاکرتے تھے اب آپ اندازہ لگایئے کہ حقیقی تاریخ کو مسخ کرنا اور من گھڑت قصوں کو شامل کرتے ہوئے آنے والی نسلوں کو صرف آر ایس ایس نظریات پڑھانا ہی بی جے پی کا مقصد ہے بہر کیف اس بار کرناٹک میں بی جے پی سماج کو ٹیپو سلطان اور ساورکر میں منقسم کرتے ہوئے اکثریت پر اپنا دبدبہ غالب کرناچاہتی ہے لیکن جو راستہ بی جے پی اپنا رہی ہے وہ ہر اعتبار سے ملک کے مفاد کے لیے نقصاندہ ہے عوام کو چاہیے کہ وہ ایسی چکنی چٹوری مذہبی جنونیت کا شکار ہونے کے بجائے سنجیدگی سے غور و فکر کرتے ہوئے سماج کو منقسم کرنے والی سیاست سے دور رہتے ہوئے عوامی مسائل کے حل کی کوشش کرنے والی ملک کو یکتا میں جوڑ کر رکھنے والی پارٹیوں کا انتخاب کریں یہی سماج اور ملک کے مفاد میں بہتر راستہ ہے۔
سید سرفراز احمد,بھینسہ