اخلاق حسنہ سے دور ہوتا ہمارا مسلم معاشرہ

Spread the love

اخلاق حسنہ سے دور ہوتا ہمارا مسلم معاشرہ

از محمد منصور عالم نوری مصباحی

ایک اچھا صحت مند معاشرہ اور اچھا سماج اسے ہی کہا جاتا ہے جہاں حسن اخلاق کی شعاعیں پھیلی ہوں ، خصائل حمیدہ کے انوار سے ماحول منور ہو ۔

خلوص ، محبت ، ایثار ، ایمان داری ۔ امانت داری ، وفا داری، قناعت ، صبر ، تحمل ، قوت برداشت ، خیر خواہی اور امدادی باہمی وغیرہ کے جذبات پائے جاتے ہوں اور غیر محمود و مقبوح افعال و حرکات کی کوئی گنجائش نہ ہو۔

فی زمانہ ہمارامعاشرہ اخلاقی اعتبار سے بہت زیادہ مریض ہوچکاہے اور صحت بخش ہواؤں سے محروم ہوچکا ہے ۔ قوت برداشت ، صبر و تحمل اور قناعت و استغناء وغیرہ جیسے اخلاق فاضلہ سے خالی ہوتا جارہا ہے اور معمولی بحث و مباحثہ پر علمی بالا دستی ثابت کرنے کی کوشش شروع ہوجاتی ہے ، سوال بےجا اور خلاف مزاج امر دیکھ کرچراغ پا ہونا تو عام ہے ۔

اصلاح کے لیے اخلاقی قدروں اور اچھے طریقوں کو نبھانے کے بجائے خسیس و رزیل حرکتیں ہونی لگ جاتی ہیں ۔ یہ حرکات شنیعہ و افعال رزیلہ جلسوں ، محفلوں ، تقریروں اور تحریروں تک در آئے ہیں جن سے بلاواسطہ یا بالواسطہ ہمارا بیمار زدہ مسلم معاشرہ مزید متاثر ہورہاہے اورآلودہ ماحول کی آلودگیوں میں آئے دن اضافہ در اضافہ ہورہاہے

جب کہ مسلم معاشرہ کو صحت مند فضا کی سخت ضرورت ہے جس میں وہ آرام و عافیت ، سکون اطمینان کی سانس لے پائے اور اپنے مستقبل کو روشن و تابناک بنانے کے تئیں فکر مند و بیدار رہ سکے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ اخلاقی قدروں پر عمل کیا جائے ، حسن اخلاق کی تعلیم پر زور دی جائے ۔ آقائے کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کو نمونۂ عمل بنایاجائے ۔

آقائے کریم ﷺ کی بعثت ہی اخلاقی قدروں کی تکمیل کے لیے ہوئی ہے حدیث پاک میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ میں حسن اخلاق (کے قدروں ) کی تکمیل کے لیے بھیجا گیا ہوں ( مؤطا ، مشکوٰة)

ایک اور حدیث میں حضور علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا کہ مسلمانوں میں کامل الایمان وہ لوگ ہیں جن کے اخلاق اچھے ہیں ( ابوداؤد) ۔

اس مختصر تمہید کے بعد پہلے اخلاق حسنہ اور اخلاق قبیحہ کی قدر تعریف و تشریح پیش کی جاتی ہے۔ اخلاق حسنہ اور اخلاق قبیحہ اچھی عادتوں کو اخلاق حسنہ سے اور بری اور خسیس عادتوں کو اخلاق قبیحہ سے تعبیر کیا جاتاہے ۔ اخلاق کے تعلق سے علماے کرام کے تفصیل کے ساتھ مضامین و تحریرات موجود ہیں ان کا کچھ لب لباب یہاں راقم الحروف بیان کرنے کی جسارت کرے گا ۔

حضرت علامہ مفتی محمد ارشاد مصباحی ساحل شہسرامی علیہ الرحمہ نے اپنے ایک گراں قدر مضمون ” اسلامی نظام اخلاق اور حضرات محدثین ” میں اخلاق کی تعریف کرتے ہوئے حضرت امام غزالی علیہ الرحمہ کے حوالہ سے اخلاق کی تشریحات پیش کئے ہیں ۔

آپ لکھتے ہیں کہ انسانی عادات اور اعمال کے مجموعے کو اخلاق کہتے ہیں جن کا تعلق انسانی فطرت سے گہرا ہوتا ہے ۔

حضرت امام غزالی اس کی تشریح کرتے ہوئے تحریر کرتے ہیں : “خلق ” نفس کی ایسی کیفیت اور ہیئت راسخ کا نام ہے جس کی وجہ سے بسہولت اور فکر و توجہ کے بغیر نفس سے اعمال صادر ہوسکیں اگر یہ ہیئت اس طور سے قائم ہے کہ اس سے عقل اور شرع کی نظر میں اعمال حسنہ کہے جانے والے افعال صادر ہوتے ہیں تو اس کا نام خلق حسن ہے اور اگر اس سے غیر محمود افعال کا صدور ہوتا ہے تو اسے اخلاق بد کہتے ہیں (احیاء العلوم ۵۶/۳

ساحل شہسرامی علیہ الرحمہ مزید لکھتے ہیں کہ ” یہی ہیئت جسے نفس کی قوت راسخہ کہتے ہیں انسانی طبعی قوتوں کا سرچشمہ ہے اور اسی کی تہذیب اور تربیت سے اخلاق فاضلہ جنم لیتے ہیں ۔ فطرت انسانی جو طبعی قوت لے کر پیدا ہوتی ہے وہ خلقی اور مستحکم ہوتی ہے اس لئے اس میں کوئی بنیادی تبدیلی تو پیدا نہیں کی جاسکتی البتہ اس کی تہذیب اور آراستگی کا ساماں ضرور ہونا چاہیے۔اسلام جو مذہب اخلاق بھی ہے اور دین فطرت بھی اسی تہذیب اخلاق کی دعوت لے کر تشریف لایا ۔

اسلام میں ” تزکیۂ نفس” کی اصطلاح ارشاد باری تعالیٰ ” قد افلح من زکھا” اور حدیث نبوی “حسنوا اخلاقکم” اسی بات کی نشاندہی کرتے ہیں ۔ ا(ہل سنت کی آواز اکتوبر؁ ۲۰۰۲) اخلاق کے تعلق سے مختصر تعریف و تشریح کے بعد چند اخلاق حسنہ اور اخلاق قبیحہ کی فہرست پڑھئے جسے استاذی الکریم حضور علامہ محمد احمد مصباحی صاحب مد ظلہ العالی مضمون ” خلفائے راشدین اور اسلامی نظام اخلاق میں جمع فرمائے ہیں حالانکہ اخلاق حسنہ اور اخلاق قبیحہ کی یہ قسمیں خود اپنے آپ عنوان کی حیثیت رکھتی ہیں ۔

اخلاق حسنہ

۱۔ایمان ۲۔ اخلاص ۳۔ تدبر ۴۔ تفکر ۵۔ تامل ۶۔ اطاعت ۷۔ استقامت ۸۔ خوف خدا ۹۔ رجا ۱۰۔ نماز ۱۱۔ روزہ ۱۲۔ حج ١٣۔زکاة ۱۴۔ پاکیزگی ۱۵۔ عفت ۱٦۔ حسن سلوک ۱۷۔ انفاق فی الخیر ۱۸۔ ذکر ۱۹۔ دعا ۲۰۔ استعانت ۲۱۔ دعوت خیر ۲۲۔ ارشاد حق ۲۳۔ موعظت ۲۴۔ بشارت ۲۵۔ انذار ۲٦۔ شکر ۲۷۔ تواضع ۲۸۔ صبر ۲۹۔ احتساب ۳۰۔ یقین ۳۱۔ توکل ۳۲۔ قوت ارادہ

۳۳۔ ہمت ۳٤۔ عزم ۳۵۔ ثبات ۳٦۔ توبہ ۳۷۔ استعاذہ ۳۸۔ استغفار ۳۹۔ استخارہ ۴۰۔ فراست ۴۱۔ زیرکی ۴۲۔ راست بازی ۴۳۔ انصاف ۴۴۔ احتیاط ۴۵۔ امانت ۴٦۔ راست بازی ۴۷۔ عبرت پذیری ۴۸۔ قبول نصیحت ۴۹۔ حیا ۵۰۔ بیدار مغزی وغیرہ ۔ (اہل سنت کی آواز اکتوبر۲۰۰۲)

یہ وہ اخلاق حسنہ ہیں جو اللہ رب العزت و رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے نزدیک مطلوب ہیں جن پر عمل سے ہی ایک بیمار معاشرہ کی صحیح تعمیر ہوسکتی ہے ۔

اخلاق قبیحہ

۱۔ الحاد ۲۔ بد مذہبی ۳۔ نافرمانی ۴۔ گمراہ گری ۵۔ سحر ٦۔ سرکشی ۷۔ سخت دلی ۸۔ فریب نفس ۹۔ تکبر ۱۰۔ بخل ۱۱۔ بزدلی ۱۲۔ اسراف ۱۳۔ زنا ۱۴۔ فحش گوی ۱۵۔ تکاثر ۱٦۔ غفلت ۱۷۔ طمع ۱۸۔ غضب ۱۹۔ قتل ناحق ۲۰۔ ظلم و زیادتی ۲۱۔ بدکاری ۲۲۔ رشوت ۲۳۔ خیانت ۲۴۔ نفاق ۲۵۔ احسان ناشناسی ۲٦۔ سرقہ ۲۷۔ والدین کی نافرمانی ۲۸۔ کذب ۲۹۔ غیبت ۳۰۔ بہتان ۳۱۔ چغلخوری ۳۲۔ حرام خوری ۳۳۔ سود ۳۴۔ سوئے معاملت ۳۵۔ ریاکاری ۳٦۔ بدسلوکی ۳۷ کینہ پروری ۳۸ حسد ۳۹۔ بد عہدی ۴۰۔ تعاون علی الاثم وغیرہا ۔

(حوالہ سابق)

یہ وہ اخلاق قبیحہ اور رزیل عادتیں ہیں جو ایک صالح معاشرہ کو ھلاکت وبربادی کے دہلیز تک پہنچاتی ہیں اور خدا و رسول کے نزدیک نافرمانوں کے صف میں داخل کردیتی ہیں ۔ موجودہ دور میں مسلم معاشرہ مذکورہ اخلاق قبیحہ میں سے اکثر کی لپیٹ میں آکر دنیا کے سامنے اپنا وزن کھودیا ہے ۔

ہمارے اسلاف واکابرین اخلاق حسنہ سے مزین و آراستہ تھے ان کی زندگیاں آسمان کے ستاروں کے مانند تھیں جنہیں پڑھ اور سن کر آج بھی دلوں کو سکون وقرار کے ساتھ فکر و تبدر میں بالیدگی پیدا ہوتی ہے ، عملی زندگی میں سدھار و نکھار پیدا ہوتاہے اس پر تمثیلا بھی بزرگوں کی زندگی سے جڑی کچھ باتیں لکھی جائیں تو یہ مضمون بہت طویل ہوجائے گا۔ میں ذائقتاً حضور استاذی الکریم علامہ مولانا محمد احمد مصباحی صاحب کا مضمون جس کانام اوپر میں نے لکھا ہے اسی سے من و عن کچھ باتیں نقل کرتاہوں امید کہ اس سے اخلاق کے بنیادی پہلووں پر روشنی پڑجائے گی ۔

خوف خدا

حضور استاذی الکریم لکھتے ہیں کہ ” مسلمانوں کے سارے اخلاق کی اصل ان کا ایمان اور خوف خدا ہے ۔یہ ایسی چیز ہے جو ہر حال میں انسان کو اخلاق عالیہ کی دعوت دیتی ہے ۔ اگر یہ نہ ہو تو عارضی طور پر یا نمائشی طور پر انسان اچھی باتیں اپنا سکتا ہے۔

مگر جب اسے کسی کی آگاہی یا رسوائی کا اندیشہ نہ ہو تو کچھ بھی کرسکتا ہے اسی طرح کوئی طاقتور اور فاتح کسی کمزور اور مفتوح سے کوئی بھی سخت سے سخت معاہدہ کرلے لیکن اس کے اندر اگر عہد شکنی اور بے وفائی پر خدا کا خوف نہیں تو کسی بھی وقت وہ معاہدہ کی خلاف ورزی کرسکتا ہے اور مفتوح و کمزور اس کا کچھ نہ بگاڑ سکے گا ۔

ایسے تھے حضور حافظ دین و ملت

رہ گیا دنیا میں رسوائی اور بدنامی کا اندیشہ تو جھوٹ کی زیادہ سے زیادہ اشاعت ایسی طاقت ہے جو کسی بھی کمزور کے سچ کو بڑی آسانی سے زیر کرسکتی ہے ۔دنیا وہی مانےگی جو سنے گی ۔آج جو اخلاقی گراوٹ آچکی ہے اس کا سب سے بڑا سبب خوف خدا کا فقدان اور دنیا کی حرص ہے خلفائے راشدین کا حال یہ تھا :

۱۔حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ تعالی عنہ نے ایک بار بیت المال صاف کیا اس میں ایک درھم رہ گیا تھا اتفاقاً حضرت عمر فاروق کا کوئی فرزند وہاں سے گزرا حضرت ابو موسیٰ نے وہ درھم اسے دے دیا ۔

فاروق اعظم نے بچے کے ہاتھ میں درھم دیکھا تو پوچھا یہ تجھ کو کہاں سے ملا ؟ اس نے بتایا حضرت ابو موسیٰ نے دیا ۔ اب حضرت عمر حضرت ابو موسیٰ کے پاس آئے فرمایا : تم کو مدینہ میں آل عمر سے کمتر کوئی گھرانا نہ ملا ۔ تم چاہتے ہو کہ ایک درھم کے واسطے امت کا ہر فرد اس ایک درھم میں اس کی جو حق تلفی ہوئی ہے اس کا مطالبہ لائے اور آخرت میں ہم سے سوال ہو ۔ فرمایا اور وہ درھم لے کر بیت المال میں داخل کردیا ۔ (کنز العمال بحوالہ اہل سنت کی آواز)

۲۔مصر کے گورنر حضرت عمر ابن عاص نے معاویہ بن خدیج کو فتح اسکندریہ کی خبر دینے کے لیے مدینہ فاروق اعظم (رضی اللہ تعالی عنہ) کے پاس بھیجا وہ پہنچے تو دوپہر کا وقت تھا ، سواری مسجد کے دروازے پر بٹھائی اور خود مسجد کے اندر چلے گئے ۔تھوڑی دیر نہ گزری تھی کہ ایک باندھی آگئی کہ امیر المومنین طلب فرمارہے ہیں خیر وخبر اور طعام و ضیافت کے بعد حضرت عمر نے معاویہ سے پوچھا تم میرے پاس آنے کے بجائے مسجد میں کس خیال سے چلے گئے ۔

انھوں نے عرض کیا : میں نے سوچا دو پہر کا وقت ہے امیر المؤمنین قیلولہ کررہے ہوں گے ۔ فرمایا تم نے براگمان کیا ۔سن لو اگر دن کو سوتاہوں تو رعایا کا نقصان اور ان کی بربادی ہے اور اگر رات کو سوؤں تو میرا نقصان اور میری بربادی ہے معاویہ ! ان دونوں باتوں کے ہوتے ہوئے سونا کیسا ؟ (کنز العمال بحوالۂ سابق)

خلفائے راشدین نے منہج رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر چل کر اخلاق حسنہ یعنی عدل و انصاف ، راست گوئی اور صبر و قناعت اور خدا خوفی اور ایثار و بخشش کی جو بساط بچھائی تھی اور جیسا سکون و قرار اپنے ملک کے باشندوں کو عطا کیا تھا کہ معاشرہ کا ہر طبقہ کھلی فضا میں آزادی کے ساتھ سکون کی سانس لیتا تھا اس لیے کہ انہیں یقین تھا کہ ہم پر کوئی ظلم ، جفا ہوا تو ہماری فریاد سننے اور عدل کے لیے ایسے حاکم موجود ہیں جہاں کسی کے ساتھ نا انصافی کا تصور نہیں کیاجاسکتا ۔ کیا آج کسی بھی ملک میں کسی مظلوم کو یقینی بھروسہ ہوسکتا ہے کہ اسے انصاف ملے گا ہی ۔

شاید نہیں ۔ ہمارے اسلاف کا طریقہ کار ہمارے لئے نمونہ ہے اگر ہم ان کی سیرت و کردار کو اپنی زندگی کا حصہ بنالیں تو ہمیں کامیابی کی منزل تک پہنچنے سے کوئی طاقت نہیں روک سکتی ۔۔۔۔ آئیے اب ہم ماضی قریب کی طرف جھانکیں ۔ ہمیں ایسے اکابرین اور داعین کی لمبی فہرست مل جائے گی جو دین اسلام کے تئیں نہایت مخلص تھے اور اپنے فرائض منصبی کے ساتھ کبھی سمجھوتا نہیں کئے ۔ ان کا طرۂ امتیاز تھا کہ اپنی قوم کے ساتھ جو ان کا پر خلوص رابطہ رہا وہاں کسی طرح کی کوتاہی سے بد گمانی کا موقع نہیں دیئے ۔

حضور سیدنا حافظ ملت علیہ الرحمہ جب کسی جلسہ کی دعوت قبول فرماتے تھے تو علالت طبع کے باوجود وعدہ وفا کرتے ۔ حضرت مولانا محمد قمر الحسن بستوی مصباحی مضمون “حافظ ملت ایک درویش کامل” میں لکھتے ہیں ” کہاجاتاہے ہے کہ گورکھپور کے کسی جلسہ کی دعوت قبول فرمائی مگر وقت پر طبیعت علیل ہوگئی کہ سفر مشکل ہوگیا۔ لیکن جذبۂ صادق القولی کا مظاہرہ اس وقت دیکھنے میں آیا کہ بخار سے تپتا بدن بس کا دشوار گزار سفر تاہم شریک اجلاس ہوئے ۔

حالاں کہ لوگوں نے منع کیا ۔کہ حضور ! بخار شدید ہے سفر نقصان دہ ثابت ہو جائےگا ۔

آرام فرمائیں : مگر جو جذبۂ صادق کے ساتھ خدمت خلق کی بیچینیاں رکھتے ہیں ان کے راستوں میں کوئی چیز مانع نہیں ہوتی ۔ ۔۔۔ آپ نے ارشاد فرمایا ۔۔۔۔۔ ہاں رک جانا چاہئے مگر میں نے وعدہ کرلیا ہے ۔نہیں پہونچو گا تو غریبوں کا دل ٹوٹ جائے گا ، مذہب کا نقصان ہوگا ۔۔ (حافظ ملت افکار و کارنامے ص ۱۰۱)

حضور سیدنا مفتی اعظم ہند علیہ الرحمہ نہایت خلیق ، مہربان ، ہمدرد اور خدمت خلق کے جذبات سے سرشار بزرگ تھے ۔ حضرت مولانا قمر الحسن بستوی صاحب ہی نے مذکورہ اقتباس کے بعد لکھا ہے کہ ” بیان کیاجاتاہے عارف کامل ، قطب وقت سیدی حضور مفتی اعظم ہند علیہ الرحمة والرضوان اگر رات بھر جگے ہوتے پھر نماز فجر کے بعد سوتے ۔ آنکھ لگی ہی ہوتی کوئی تعویذ چاہنے والا آتا تو فورا اٹھتے تعویذ لکھتے دعا کرتے مگر اپنی ذات کا سکون ہر گز قطعا ملحوظ نہ ہوتا ۔اگر کوئی کہتا کہ حضرت ابھی سور ہے ہیں ۔۔۔۔ اور انہیں بیدار نہ کیا جاتا ۔

پھر کہیں آنے والا نامراد لوٹتا تو آنکھ کھلنے کے بعد معلوم ہونے پر بر ہمی کا اظہار فرماتے ۔ چونکہ رہروان عشق کو کائنات کا کرب بخش دیا جاتا ہے اور ان کی راحتیں عقیدت کیشان وفا کو ہبہ کردی جاتی ہیں ۔ ( حافظ ملت افکار و کارنامے ص۱۰۱)

آج ہمارے معاشرہ کو ایسے ہی حافظ ملت اور مفتی اعظم کی ضرورت ہے جو دین و ملت کی حفاظت و صیانت اور خدمت خلق کے لیے ہرحال میں ہمیشہ تیار رہے اور اپنی راحت و آرام کو ترجیح نہ دے ۔

آخر میں دعا ہے کہ اللہ رب العزت ہمارے مسلم معاشرہ کو حسن اخلاق کی تابندگی سے جگمگادے اور غیر محمود افعال و حرکات سے بچائے آمین ۔

از:  محمد منصور عالم نوری مصباحی

استاذ دارالعلوم مدرسة البنات عظمت عائشہ مومن پورہ پوسد مہاراشٹر ۔

متوطن : بڑاپوکھر طیب پور کشن گنج بہار ۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *